Tag: بکر پرائز

  • انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی تخلیق کار ہیں جنھیں بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے فن اور گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان ہی نہیں‌ بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

    ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے اور ناول کے اہم ترین تخلیق کاروں میں کیا جاتا تھا۔

    پاکستان کے معروف فکشن نگار نے زندگی کی 93 بہاریں دیکھنے کے بعد 2 فروری 2016ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ انتظار حسین لاہور کے ایک اسپتال میں نمونیہ اور شدید بخار کی وجہ سے زیرِ علاج تھے۔

    انتظار حسین سنہ 1923ء میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کی اور پاکستان آنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد 1953ء میں‌ انتظار حسین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول اور آپ بیتی کی دو جلدیں جب کہ ایک ناولٹ بھی منظرِ عام پر آیا۔ وہ اپنے اسلوب کی وجہ سے پہچان بنانے والے ادیبوں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے تراجم بھی کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ انتظار حسین عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب تھے جن کے ناول اور افسانوں کے چار مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہوئے۔

    تاریخ، تہذیب و ثقافت اور ادبی موضوعات پر ان کے قلم کی نوک سے نکلنے والی تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔ اس سحر طراز ادیب کی تحریریں کئی فکری مباحث کو جنم دینے کا سبب بنیں۔ ان کے یہاں ناسٹیلجیا یا ماضی پرستی بہت ہے، جس کے بیان میں وہ اپنے علامتی اور استعاراتی اسلوب سے ایسا جادو بھر دیتے ہیں جس میں ایک حسن اور سوز پیدا ہو جاتا ہے۔

    انتظار حسین کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن شریف، احادیث، صوفیائے کرام کے ملفوظات ہی نہیں، وہ ہندوستان کی قدیم تہذیبوں کی روایات، معاشرت اور ان کے رائج مذاہب اور عقائد پر بھی خوب بات کرتے تھے۔ رامائن اور بدھ مت وغیرہ پر ان کی گہری نظر تھی اور ساتھ ہی مغربی مفکرین کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان کی وجہِ شہرت فکشن نگاری ہی نہیں ان کے انگریزی اور اردو زبان میں‌ شایع ہونے والے کالم بھی ہیں جنھیں علم و ادب کا شغف رکھنے والوں اور سنجیدہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ ان کے یہ کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے۔

    ممتاز نقّاد وارث علوی نے انتظار حسین سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں‌ کیا تھا:

    ’’انتظار حسین کے افسانوں میں اسلوب کا یہ جادو ملتا ہے، یعنی خوب صورت نظموں کی مانند ان کے افسانوں کے اسلوب کی سحر انگیزی پراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ یہ کشش کہانی، کردار، واقعات یا دوسرے ارضی مواد کے سبب نہیں ہوتی جیسا کہ بیدی، منٹو یا موپساں کے افسانے میں ہوتا ہے۔ لیکن آپ انتظار حسین کی زبان و بیان کی جادو گری کا راز پانے کی کوشش کیجیے تو دیکھیں گے کہ ان کے اسلوب کی پوری سحر کاری ایک ایسے مواد کی زائیدہ ہے جو انسان کے ارضی، اخلاقی اور روحانی تجربات سے تشکیل پاتا ہے، اور یہ مواد اتنا ہی گاڑھا ہے جتنا کہ حقیقت پسند افسانے کا سماجی اور انسانی مواد اور اسی لیے اس کی پیش کش میں انتظار حسین گو اسطوری اور علامتی طریقِ کار اختیار کرتے ہیں، لیکن حقیقت پسند تکنیک کے ہتھکنڈوں یعنی واقعہ نگاری، کردار نگاری، جزئیات نگاری، مکالمے، تصویر کشی اور فضا بندی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اسی سبب سے ان کے افسانے تجریدی افسانوں کی ذیل میں نہیں جاتے اور ان کا اسلوب تجریدی افسانوں کی مانند شاعری کے اسلوب سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کرتا۔ انتظار حسین کا امتیازی وصف ہے کہ ان کے کسی جملے پر شعریت، غنایت یا شاعرانہ پن کا گمان تک نہیں ہوتا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری کوشش غنایت سے گریز کی طرف ہے۔ ان کے باوجود ان کا اسلوب غنائی شاعری کے اسلوب کی مانند ہم پر وجد کی کیفیت طاری کرتا ہے۔ یہ نثر کی معراج ہے۔‘‘

    ان کی تحریروں میں اکثر پرانے اور ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے تھے جنھیں عام طور پر ترک کردیا گیا ہو۔ وہ اپنے کالموں میں کبھی کوئی قدیم حکایت اور داستان پیش کرتے یا اس میں بیان کیے گئے واقعے یا شخصیت کو اپنے مطالعے اور فکر کی بنیاد پر نہایت پُراثر موضوع بنا دیتے تھے۔

    انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی سرِ فہرست ہیں۔

  • مین بکر پرائز پہلی بار ایک عرب فکشن نگار کے نام

    مین بکر پرائز پہلی بار ایک عرب فکشن نگار کے نام

    لندن: عمان کی جوخہ الحارثی نے ادب کا بین الاقوامی ایوارڈ مین بکر پرائز اپنے نام کر کے تاریخ‌ رقم کر دی.

    تفصیلات کے مطابق عمان کی ادیبہ جوخہ الحارثی پہلی عرب فکشن نگار ہیں، جنھیں اس اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا.

    مین بکر پرائز کے ججز کا کہنا تھا کہ اس ناول میں کہانی بھرپور، مائل کرنے والی اور شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

    ان کا ناول ’سیلیسٹیل باڈیز‘ ایک خاندان سے تعلق رکھنے والی تین عمانی بہنوں کی زندگیوں اور تبدیلیوں‌ کا کمال مہارت سے احاطہ کرتا ہے.

    ایوارڈ جیتنے کے بعد جوخہ الحارثی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت پر جوش ہیں، زرخیر عرب تہذیب کے لیے ایک دریچہ کھل گیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ آزادی اور محبت جیسی اقدار اور جذبے سے بین الاقوامی قارئین نے تعلق محسوس کیا.

    مزید پڑھیں: ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    جوخہ الحارثی کے اس ایوارڈ یافتہ نام کا ترجمہ امریکی ماہر تعلیم مالین بوتھ نے کیا ہے، جن کے ساتھ وہ انعامی رقم بانٹیں گی۔

    جوخہ الحارثی پہلی عمانی مصنفہ ہیں، جن کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہوا، اس سے پہلے جوخہ الحارثی تین ناول شایع ہوچکے ہیں.