Tag: بھارتی ادیب

  • مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    پروفیسر سید محمد عقیل نے اپنی زندگی کے تقریباً 70 سال اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزارے اور دو درجن سے زائد تصنیفات یادگار چھوڑیں‌۔

    وہ 2019ء میں‌ بھارت میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار ممتاز ترقّی پسند ادیبوں اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے۔ پروفیسر سیّد محمد عقیل نے علمی و ادبی سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ تدریس کا پیشہ اپنایا اور نسلِ‌ نو کی تعلیم و تربیت کرتے رہے۔

    ان کی قابلِ ذکر کتابوں میں "اردو مثنوی کا ارتقا، اصول تنقید، ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ، تنقید اور عصری آگہی، سماجی تنقید اور تنقیدی عمل، غزل کے نئے جہات، مرثیہ کی سماجیات” وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کی خودنوشت سوانح حیات گئو دھول کے نام سے 1995ء میں شایع ہوئی تھی۔ یہاں ہم عقیل صاحب سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو بھارت کے معروف ادیب اور نقّاد ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے خاکوں کی کتاب ‘‘فن اور فن کار‘‘ سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ممتاز بزرگ افسانہ نگار رتن سنگھ کسی سلسلے میں الہ آباد آئے تو میں نے اپنے گھر پر ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ رتن سنگھ نے افسانہ پڑھا۔ ہم سبھی نے اس کے موضوع پر اپنے اپنے انداز سے تبصرہ کیا۔

    عقیل صاحب بھی اس محفل میں موجود تھے۔ انھوں نے موضوع پر گفتگو کرنے کے بجائے دو تین جگہ پر املا اور جملے پر اعتراض کر دیے۔

    رتن سنگھ تھوڑا سا خفیف ہوئے، اس وقت کچھ نہ بولے، لیکن جب عقیل صاحب چلے گئے اور چند احباب رہ گئے تو رتن سنگھ نے بڑی دل چسپ بات کہی۔

    فاطمی! تمھارے استاد کا معاملہ ایک مدرسے کے اس مولوی کی طرح ہے جو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو پڑھاتا تھا، ان میں سے ایک لڑکی مولوی صاحب پر عاشق ہو گئی اور محبّت نامہ لکھ کر بھیج دیا، مولوی صاحب نے محبّت نامہ پڑھا اور املا کی دو تین غلطیاں نکال کر بڑی شفقت سے کہا۔ ”بی بی پہلے اپنا املا درست کیجیے، اس کے بعد عشق کیجیے گا۔”

  • وہ قصّہ جو ملکہ بیگم سیکڑوں بار سہیلیوں کو سنا چکی تھیں!

    وہ قصّہ جو ملکہ بیگم سیکڑوں بار سہیلیوں کو سنا چکی تھیں!

    ملکہ بیگم نے پہلی بار فرید آباد سے دہلی کی سیر کے لیے ریل کا سفر کیا تھا۔ اپنے شوہر کے ساتھ سفر پر جانے والی یہ عورت واپسی پر اپنی سہیلیوں کو پُرلطف اور دل چسپ انداز میں سفر کی روداد سناتی ہے۔ دلّی کی سیر کے عنوان سے اس عورت کی کہانی ہندوستان کی معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس رشید جہاں نے رقم کی تھی جس سے یہ اقتباس آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ’’اچھی بہن ہمیں بھی تو آنے دو۔ ‘‘ یہ آواز دالان میں سے آئی، اور ساتھ ہی ایک لڑکی کُرتے کے دامن سے ہاتھ پونچھتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

    ملکہ بیگم ہی پہلی تھیں جو اپنی سب ملنے والیوں میں پہلے پہل ریل میں بیٹھی تھیں۔ اور وہ بھی فرید آباد سے چل کر دہلی ایک روز کے لیے آئی تھیں۔ محلّہ والیاں تک ان کی داستانِ سفر سننے کے لیے موجود تھیں۔

    ’’اے ہے آنا ہے تو آؤ! میرا منہ تو بالکل تھک گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سیکڑوں ہی بار تو سنا چکی ہوں۔ یہاں سے ریل میں بیٹھ کر دلّی پہنچی اور وہاں اِن کے ملنے والے کوئی نگوڑے اسٹیشن ماسٹر مل گئے۔ مجھے اسباب کے پاس چھوڑ یہ رفو چکر ہوئے اور میں اسباب پر چڑھی برقع میں لپٹی بیٹھی رہی۔ ایک تو کم بخت برقع، دوسرے مردوے۔ مرد تو ویسے ہی خراب ہوتے ہیں، اور اگر کسی عورت کو اس طرح بیٹھے دیکھ لیں تو اور چکّر پر چکّر لگاتے ہیں۔ پان کھانے تک نوبت نہ آئی۔ کوئی کم بخت کھانسے، کوئی آوازے کسے، اور میرا ڈر کے مارے دَم نکلا جائے۔

    اور بھوک وہ غضب کی لگی ہوئی کہ خدا کی پناہ! دلّی کا اسٹیشن کیا ہے، بوا قلعہ بھی اتنی بڑا نہ ہوگا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی اسٹیشن ہی اسٹیشن نظر آتا تھا اور ریل کی پٹریاں، انجن اور مال گاڑیاں۔ سب سے زیادہ مجھے ان کالے کالے مردوں سے ڈر لگا جو انجن میں رہتے ہیں۔

    ’’انجن میں کون رہتے ہیں؟‘‘ کسی نے بات کاٹ کر پوچھا۔

    ’’کون رہتے ہیں؟ نہ معلوم بُوا کون! نیلے نیلے کپڑے پہنے، کوئی داڑھی والا، کوئی صفا چٹ۔ ایک ہاتھ سے پکڑ کر چلتے انجن میں لٹک جاتے ہیں۔ دیکھنے والوں کا دل سن سن کرنے لگتا ہے۔ صاحب اور میم صاحب تو بُوا دلّی اسٹیشن پر اتنے ہوتے ہیں کہ گنے نہیں جاتے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گٹ پٹ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہندوستانی بھائی بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تکتے رہتے ہیں۔ کم بختوں کی آنکھیں نہیں پھوٹ جاتیں۔ ایک میرے سے کہنے لگا ’’ذرا منہ بھی دکھا دو۔‘‘ میں نے فوراً۔۔۔

    ’’تو تم نے کیا نہیں دکھایا؟‘‘ کسی نے چھیڑا۔

    ’’اللہ اللہ کرو بُوا۔ میں ان موؤں کو منہ دکھانے گئی تھی۔ دل بلیوں اچھلنے لگا۔‘‘ (تیور بدل کر) ’’سننا ہے تو بیچ میں نہ ٹوکو۔‘‘

    ایک دَم خاموشی چھاگئی۔ ایسی مزے دار باتیں فرید آباد میں کم ہوتی تھیں اور ملکہ کی باتیں سننے تو عورتیں دور دور سے آتی تھیں۔

    ’’ہاں بُوا سودے والے ایسے نہیں، جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ صاف صاف خاکی کپڑے اور کوئی سفید، لیکن دھوتیاں کسی کسی کی میلی تھیں، ٹوکرے لیے پھرتے ہیں، پان، بیڑی، سگریٹ، دہی بڑے، کھلونا ہے کھلونا، اور مٹھائیاں چلتی ہوئی گاڑیوں میں بند کیے بھاگے پھرتے ہیں۔ ایک گاڑی آ کر رکی۔ وہ شور غل ہوا کہ کانوں کے پردے پھٹے جاتے، ادھر قلیوں کی چیخ پکار ادھر سودے والے کان کھائے جاتے تھے۔ مسافر ہیں کہ ایک دوسرے پر پِلے پڑتے ہیں اور میں بچاری بیچ میں اسباب پر چڑھی ہوئی۔

    ہزاروں ہی تو ٹھوکریں دھکّے کھائے ہوں گے۔ بھئی جل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو، گھبرا گھبرا کر پڑھی رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ریل چلی تو مسافر اور قلیوں میں لڑائی شروع ہوئی۔

    ’’ایک روپیہ لوں گا۔‘‘

    ’’نہیں، دو آنہ ملیں گے۔‘‘

    ایک گھنٹہ جھگڑا ہوا جب کہیں اسٹیشن خالی ہوا۔ اسٹیشن کے شہدے تو جمع ہی رہے۔

    کوئی دو گھنٹہ کے بعد یہ (شوہر) مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے دکھائی دیئے اور کس لا پرواہی سے کہتے ہیں، ’’بھوک لگی ہو تو کچھ پوریاں ووریاں لا دوں، کھاؤ گی؟ میں تو ادھر ہوٹل میں کھا آیا۔‘‘

    میں نے کہا کہ، ’’خدا کے لیے مجھے میرے گھر پہنچا دو، میں باز آئی اس موئی دلّی کی سیر سے۔ تمہارے ساتھ تو کوئی جنّت میں بھی نہ جائے، اچھی سیر کرانے لائے تھے۔‘‘

  • پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    عادل اسیر دہلوی کا نام ہندوستان کے ان تخلیق کاروں‌ میں‌ اہم اور نمایاں ہے جنھوں نے بچّوں کے ادب کو متنوع موضوعات سے مالا مال کیا اور ان کے لیے سادہ و دل نشین انداز میں نہ صرف کہانیاں لکھیں بلکہ آسان اور عام فہم شاعری بھی کی۔

    1959ء میں‌ پیدا ہونے والے عادل اسیر کا تعلق دہلی سے تھا اور وہ اسی نسبت اپنے نام کے ساتھ دہلوی لگاتے تھے۔ 2014ء میں‌ بچّوں‌ کے اس بڑے ادیب اور شاعر نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ یہاں ہم ان کی ایک پہیلی (نظم) نقل کررہے ہیں جو بچّوں‌ ہی نہیں‌ بڑوں‌ کو بھی بظاہر چھوٹی سی ایک چیز کی اہمیت اور افادیت بتاتی ہے، مگر انسان کی ایجاد کردہ اور سب کے بہت کام آنے والی یہ چیز ہے کیا؟ جانیے۔

    مجھ سے بڑھی ہے علم کی دولت
    دیکھنے میں ہوں میں بے قیمت

    جاہل کو بے زاری مجھ سے
    عالم کی ہے یاری مجھ سے

    مجھ میں شیروں جیسی ہمّت
    سچّائی ہے میری طاقت

    گرچہ لگتا چھوٹا سا ہوں
    کام بڑے پَر میں کرتا ہوں

    دیکھو تو بے کار ہی سمجھو
    لیکن میں انمول ہوں بچّو

    تیر نہیں، تلوار نہیں میں
    دشمن پر بھی بار نہیں میں

    میری طاقت کو کیا جانو
    دانا ہو تو تم پہچانو

    کام عدالت میں بھی آؤں
    پیار محبت میں بھی آؤں

    خط لکھنا، پیغام بھی دینا
    ساتھ میں سب کا نام بھی دینا

    پہچانو تو کون ہوں پیارے
    آتا ہوں میں کام تمہارے

    (جواب: قلم)

  • ٹیگور اور لیموں کا پودا

    ٹیگور اور لیموں کا پودا

    آخری عمر میں ٹیگور طویل عرصہ عارضۂ قلب میں مبتلا رہے۔ علالت کے یہ دن اُن کی حسّاس ترین شاعری کا زمانہ ہے۔ 1926 میں علاج کے لیے ہنگری جانا ہوا، صحت بحال ہوئی تو ٹیگور نے یہاں پارک ہیلتھ پارک میں لیموں کا پودا لگایا۔

    بنگالی کہاوت ہے جب کسی کا لگایا ہوا پودا جڑ پکڑ لیتا ہے تو پودا لگانے والا اس درخت کی نئی پود نکلنے تک ضرور زندہ رہتا ہے، ٹیگور نے درخت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

    ” اے میرے ننھے پودے!
    جب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا
    تو فصلِ بہار میں جو لوگ یہاں گھومنے آئیں
    تُو اپنی کونپلیں لہرا کر انہیں خوش آمدید کہنا
    یاد رکھنا کہ شاعر مرتے دم تک تجھ سے پیار کرتا تھا!”

    ٹیگور یہ پودا لگانے کے بعد سترہ برس تک زندہ رہے، اور 7 اگست 1941 کو وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد یہاں پورا لگانا رسم بن گئی۔

    بالاٹون فورڈ کے اس ہیلتھ پارک میں، اندرا گاندھی سمیت بھارت سے ہنگری آنے والے صدر اور سربراہانِ حکومت سب نے ٹیگور کی یاد میں یہاں پودے لگائے ہیں۔ ٹیگور کے لگائے لیموں کے پودے کے اردگرد لگے دو رویہ درختوں کی وجہ سے یہ جگہ پُرسکون سڑک بن گئی ہے جو ٹیگور سیر گاہ کے نام سے معروف ہے۔

    ان درختوں کے پتّوں کی پُرجوش تالیاں آج بھی ٹیگور کی یاد میں آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔

    (کتاب نقوشِ ٹیگور سے انتخاب)

  • حق کی فکر (پریم چند کی ایک کہانی)

    حق کی فکر (پریم چند کی ایک کہانی)

    ٹامی یوں دیکھنے میں تو بہت تگڑا تھا۔ بھونکتا تو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھا کہ اندھیری رات میں اس پر گدھے کا شبہ ہوتا، لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔

    دو چار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت کا مزہ چکھانے کے لیے میدان میں آیا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک لڑا جیوٹ سے لڑا۔ پنجے اور دانتوں سے زیادہ چوٹیں اس کی دُم نے کیں۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بالآخر میدان کس کے ہاتھ رہا، لیکن جب فریق مخالف کو اپنی حمایت کے لیے اور کمک منگانی پڑی تو جنگی اصول کے مطابق فتح کا سہرا ٹامی کے سَر رکھنا زیادہ منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔

    ٹامی نے اس وقت مصلحت سے کام لیا اور دانت نکال دیے جو صلح کی علامت تھی۔ اس نے ایسے بے اصولوں اور بے راہ رقیبوں کو منہ نہ لگایا۔

    اتنا صلح پسند ہونے پر بھی ٹامی کے رقیبوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ اس کے برابر والے تو اس سے اس لیے جلتے تھے کہ یہ اتنا موٹا تازہ ہو کر بھی اس قدر صلح پسند کیوں ہے۔ اتنے دشمنوں کے بیچ میں رہ کر ٹامی کی زندگی دشوار ہو جاتی تھی۔ مہینوں گزر جاتے اور پیٹ بھر کھانا نہ ملتا۔

    دو تین بار اسے من مانا کھانا کھانے کی ایسی شدید خواہش ہو گئی کہ اس نے غلط طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ امید کے خلاف ہوا اور مزے دار کھانوں کے بدلے اسے ثقیل چیزیں بھر پیٹ کھانے کو ملیں جن سے پیٹ کے بدلے پیٹھ میں کئی دن تک درد ہوتا رہا تو اس نے مجبور ہو کر مل جل کر کھانے کی روش پھر اختیار کر لی۔

    ڈنڈوں سے پیٹ چاہے بھر گیا ہو، لیکن ہوس ختم نہ ہوئی۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں خوب شکار ملے، ہرن اور خرگوش اور بھیڑوں کے بچے میدانوں میں چرتے ہوں۔ جہاں ان کا کوئی مالک نہ ہو، کسی رقیب کا اندیشہ تک نہ ہو۔ آرام کرنے کو گھنے درختوں کا سایہ ہو۔ پینے کو ندی کا صاف ستھرا پانی ہو، وہاں من مانا شکار کروں، کھاؤں اور میٹھی نیند سوؤں۔

    چاروں طرف میری دھاک جم جائے، سب پر ایسا رعب چھا جائے کہ مجھی کو اپنا راجا سمجھنے لگیں اور دھیرے دھیرے میرا ایسا سکہ بیٹھ جائے کہ کسی وقت کسی رقیب کو ادھر آنے کی ہمت نہ ہو۔

    اتفاق سے ایک دن وہ انہی خیالوں کے سرور میں سر جھکائے سڑک چھوڑ کر گلیوں میں سے چلا جا رہا تھا کہ دفعتاً ایک جواں ہمت حریف سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ ٹامی نے چاہا کہ بچ کر نکل جائے مگر وہ بدمعاش اتنا امن پسند نہ تھا، اس نے فورا جھپٹ کر ٹامی کی گردن پکڑ لی۔

    آخر میں ہار کر ٹامی نے نہایت بے کسانہ انداز سے فریاد کرنی شروع کی۔ یہ سن کر محلے کے دو چار نیتا جمع ہوگئے لیکن بجائے اس کے کہ اس کی بے کسی پر رحم کریں، وہ الٹے ٹامی پر ہی ٹوٹ پڑے۔ اس غیرمنصفانہ برتاؤ نے ٹامی کا دل توڑ دیا۔ وہ جان چھڑا کر بھاگا، لیکن ان ظالموں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ راستے میں ایک ندی پڑ گئی اور ٹامی نے اس میں کود کر اپنی جان بچائی۔

    کہتے ہیں کہ ایک دن سب کے دن پھرتے ہیں۔ ٹامی کے دن بھی ندی میں کودتے ہی پھر گئے۔ تیرتا ہوا اس پار پہنچا تو وہاں تمناؤں کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔

    یہ نہایت وسیع میدان تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ہریالی ہی ہریالی نظر آتی۔ کہیں جھرنا بہنے کا دھیما ترنم تھا تو کہیں درختوں کے جھنڈ تھے اور ریت کے سپاٹ میدان۔ بڑا ہی دل فریب منظر تھا۔ بھانت بھانت کے پرندے اور چوپائے نظر آئے، بعض ایسے لمبے چوڑے کہ ٹامی انہیں دیکھ کر تھرا اٹھا۔ بعض ایسے خونخوار کہ ان کی آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔

    وہ آپس میں اکثر لڑا کرتے تھے اور اکثر خون کی ندی بہتی تھی۔ ٹامی نے دیکھا کہ وہ ان خوف ناک دشمنوں سے پیش نہ پاسکے گا، اس لیے اس نے مصلحت سے کام لینا شروع کیا۔ جب دو لڑنے والوں میں ایک زخمی یا مردہ ہو کر گر پڑتا تو ٹامی لپک کر گوشت کا ٹکڑا لے بھاگتا اور تنہائی میں بیٹھ کر کھاتا۔ فاتح جانور اپنی کام یابی کے نشے میں اسے حقیر سمجھ کر کچھ نہ کہتا۔

    تھوڑے ہی دنوں میں قوت بخش کھانوں نے ٹامی پر جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ لحیم شحیم، دراز قد اور خوف ناک ہو گیا۔ چھلانگیں بھرتا اور کسی چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار اب وہ خود بھی کر لیتا۔ جنگل کے جانور اب چونکے اور اسے وہاں سے بھگا دینے کی کوشش کرنے لگے۔

    ٹامی نے اب ایک نئی چال چلی۔ وہ کبھی کسی جانور سے کہتا تمہارا فلاں دشمن تمہیں مار ڈالنے کی تیاری کررہا ہے، کسی سے کہتا فلاں تم کو گالی دیتا تھا۔ جنگل کے جانور اس کے چکمے میں آ آکر آپس میں لڑ جاتے اور ٹامی کی چاندی ہو جاتی۔

    آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ اب بڑی شان سے چاروں طرف فخریہ نظروں سے تاکتا ہوا گھومتا پھراکرتا۔

    ٹامی کو کوئی فکر تھی تو یہ کہ اس دیش میں کوئی میرارقیب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ جوں جوں دن گزرتے تھے، عیش وعشرت کا چسکا بڑھتا جاتا تھا اور اس کی فکر بھی ویسے ویسے بڑھتی جاتی تھی۔ جانوروں سے کہتا کہ خدا نہ کرے تم کسی دوسرے حکم راں کے پنجے میں پھنس جاؤ۔ وہ تمہیں پیس ڈالے گا۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ہمیشہ تمہاری بھلائی میں لگا رہتا ہوں۔ کسی دوسرے سے یہ امید مت رکھنا۔ سب جانور ایک آواز ہو کر کہتے ’’جب تک جییں گے آپ کے وفادار رہیں۔‘‘

    آخرکار یہ ہوا کہ ٹامی کو لمحہ بھر بھی اطمینان سے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ وہ رات رات بھر اور دن دن بھر ندی کے کنارے ادھر سے ادھر چکر لگایا کرتا۔ دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتا، بے دَم ہو جاتا مگر ذہنی سکون نہ ملتا۔ کہیں کوئی دشمن نہ گھس آئے، بس یہی فکر رہتی۔

    ایک دن اس کا دل خوف سے اتنا بے چین ہوا کہ وہ بڑے جوش سے ندی کے کنارے آیا اور ادھر سے ادھر دوڑنے لگا۔ دن بیت گیا، رات بیت گئی مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دوسرا دن آیا اور گیا، لیکن ٹامی بھوکا پیاسا ندی کے کنارے چکر لگاتا رہا۔ اس طرح پانچ دن بیت گئے، ٹامی کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، آنتیں سکڑ گئیں، بھوک سے بے قرار ہو کر گر گر پڑتا مگر وہ اندیشہ کسی طرح دور نہ ہوتا۔

    آخر میں ساتویں دن وہ نامراد ٹامی اپنے حق کی فکر سے پریشان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    جنگل کا کوئی جانور اس کے قریب نہ آیا، کسی نے اس کی بات نہ پوچھی، کسی نے اس کی لاش پر آنسو نہ بہائے۔ کئی دن تک اس پر گدھ اور کوے منڈلاتے رہے۔ آخر میں ہڈیوں کے پنجر کے سوا اور کچھ نہ رہ گیا۔

    ( سیاست سے سماج تک پریم چند نے اپنی کہانیوں‌ اور افسانوں‌ کے ذریعے کئی حقیقتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے، یہ کہانی بھی مصنف کی بامقصد اور اصلاحی فکر کا نتیجہ ہے)

  • مادری زبان

    مادری زبان

    دروازے کے اِدھر اُدھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کوئی آواز نہیں۔ پھر دوبارہ اور زور سے….. اور زور سے…..؟

    ’’کون ہے‘‘…..؟ چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔

    میں نے گردن اٹھائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔

    ذرا نیچے تشریف لائیے، سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے بھی تقریباً چلّاتے ہوئے جواب دیا، لیکن میرا چلّانا بیکار ہی گیا۔

    ’’ارے کون ہے؟‘‘ پھر آواز آئی۔

    ’’جی میں….. دروازہ کھولیے ذرا… سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے ذرا اور اونچی آواز میں کہا۔ نیچے تو آئیے ‘‘

    ’’کاہے کے لیے‘‘؟

    مردم شماری کے لیے۔ زور سے بولنے کے سبب میرے گلے میں دھنسکا لگ گیا تھا، پھر بھی میں نے اپنی آنکھیں کھڑکی پر جمائے رکھیں۔

    اوپر کھڑکی سے باہر ایک خاتون نے گردن نکال کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ تو میں پھر بولی ’’برائے مہربانی نیچے تشریف لائیں گی یا میں ہی اوپر آجاؤں؟‘‘

    بغیر کوئی جواب دیے اس خاتون کا چہرہ کھڑکی سے ہٹ چکا تھا۔ کئی منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ کوئی جواب ملا اور نہ ہی دروازہ کھلا۔

    اپنا چہرہ اوپر کیے کیے اب میری گردن تھک چکی تھی۔ میں نے ہمت کر کے پھر دروازے پر دستک دی۔ اچانک کھٹ پٹ کی تیز آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوا کوئی آرہا ہے۔

    دروازے کے پٹ ایک ساتھ جھٹکے سے کھل گئے۔ ایک بچی نمودار ہوئی تقریباً سات آٹھ برس کی۔ اپنے پیروں سے کئی گنا بڑے چپل اس کے پیروں سے پیچھے نکل رہے تھے۔

    کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟

    ’’بیٹا کسی بڑے کو بھیجیے نا۔ بہت ساری معلومات لکھنا ہے۔‘‘

    ’’کوئی ہے نہیں‘‘ اس نے دو ٹوک جواب دیا۔

    ’’لیکن وہ جو ابھی کھڑکی سے بول رہی تھیں ان کو بھیجیے نا۔

    ’’کون ہیں وہ؟‘‘

    ’’امی۔‘‘

    ’’تو پھر انہیں بھیجیے بیٹا۔‘‘

    ’’وہ کام کررہی ہیں۔‘‘

    ’’تو کسی اور کو۔ کسی بڑی بہن کو، بھائی کو، ابا کو، یا پھر امی سے پوچھیے میں اوپر آجاؤں؟‘‘ ضروری کام ہے یہ بیٹا۔‘‘

    ’’جائیے پوچھ کر آئیے بیٹا پلیز، دیر ہورہی ہے۔‘‘

    وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ایک اور لڑکی زینہ طے کرتی ہوئی نیچے آئی۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’بیٹا مردم شماری کرنا ہے۔‘‘

    ’’جی کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’مردم شماری… سینسس… گھر کے لوگوں کے نام لکھنا ہیں۔ جَن گڑنا ہے جَن گڑنا۔‘‘

    ’’اچھا تو کرئیے۔‘‘

    ’’یہیں۔‘‘ میں نے اپنا سامان کا پلندہ سنبھالتے ہوئے اپنی بے چارگی اور پریشانی کا احساس دلانا چاہا۔

    چھوٹی لڑکی نے شاید اوپر جاکر میرے کام کی اطلاع کردی تھی۔

    ’’باجی امی بلا رہی ہیں۔‘‘ یہ وہی لڑکی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا، زینے کی اوپری سیڑھی سے جھانک کر بہن کو بلا رہی تھی۔

    موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے بیگ کندھے پر لٹکایا گُھٹنے پر رجسٹر ٹکا کر فارم پھیلا دیا اور فوراً ضروری معلومات بھرنا شروع کردیں۔

    ’’اپنے والد کا نام بتائیے بیٹا۔‘‘

    ’’امام الدین۔‘‘

    ’’عمر کتنی ہوگی؟‘‘

    وہ سوچ میں پڑگئی۔’’امی نیچے آؤ۔۔۔۔‘‘ اس نے چلاّتے ہوئے آواز لگائی۔ کئی منٹ گزر گئے نیچے کوئی نہیں آیا۔

    ’’کتنے بہن بھائی ہو؟ ‘‘میں نے اس کے باپ کی عمر کا حساب لگانے کی غرض سے دریافت کیا۔

    ’’گیارہ…..‘‘

    ’’بڑا کون ہے؟ بھائی یا بہن؟‘‘

    ’’بھائی‘‘

    ’’شادی؟‘‘

    ’’ہوگئی۔‘‘

    ’’یہیں رہتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کتنے سال ہوئے شادی کو؟‘‘

    ’’چار پانچ سال۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’بچے کتنے ہیں بھائی کے؟‘‘

    ’’دو۔۔۔۔‘‘

    میں نے حساب لگایا کہ اگر بیس برس کی عمر میں بیٹے کی شادی ہوئی تو اس وقت بیٹا پچیس برس کا ہوا تب باپ کی عمر تقریباً پینتالیس کی تو ضرور ہوگی۔

    ’’بیٹا پینتالیس برس لکھ دوں؟‘‘

    ’’جی لکھ دیجیے۔ اچھا ابھی رک جائیے۔ امی کو بلاتی ہوں۔

    ’’تعلیم والد کی؟‘‘

    ’’جی۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے آپ کے والد کتنا پڑھے لکھے ہیں۔ آٹھویں، دسویں، بارہویں یا پھر کچھ نہیں؟‘‘

    ’’پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ ’’تھوڑا بہت بس گھریلو‘‘

    ’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ویلڈنگ۔‘‘

    ’’ملازم ہیں یا مالک؟‘‘

    ’’کیا ان کا اپنا کام ہے؟‘‘

    ’’ہاں اپنا کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’کاہے سے جاتے ہیں؟ سائیکل، موٹر سائیکل، کار یا بس؟‘‘

    ’’اسکوٹر ہے‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔

    ’’کارخانہ کہاں ہے ان کا؟‘‘

    ’’گاندھی نگر۔‘‘

    یعنی تقریباً پچیس کلومیٹر میں نے اندازہ لگایا۔ ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی اور پھر گیارہ بچوں، بہو اور ان کے بچوں سمیت تیرہ افراد کا نام اور تفصیلات جس میں دادی بھی شامل ہے، درج کرتے کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا اور میں دروازے پر کھڑے کھڑے کبھی ایک گھٹنے پر فارم رکھتی کبھی دوسرے پر۔ کمر درد سے دہری ہوئی جارہی تھی۔ تبھی ایک خاتون غصہ سے بپھرتی ہوئی زینہ کی اوپری سیڑھی سے چلّائی۔

    ’’اری او کمبخت اوپر آ۔ کیا کررہی ہے۔‘‘

    ’’امی آبھی آئی۔ نام لکھوا رہی ہوں۔

    ’’کاہے کا نام؟ کس کا نام؟ میں نے منع کیا تھا نا؟ تیرے باپ گھر میں نہیں ہیں، واپس بھیج دے۔ ہمیں کیا پتہ کیا لکھوانا ہے۔‘‘

    ’’جی میں کوئی بھی ایسی بات نہیں لکھ رہی ہوں جس سے آپ پریشان ہوں۔ بچی سمجھدار ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اس نے سب کچھ لکھوا دیا ہے۔ بس دو چار کالم رہ گئے ہیں۔ وہ صرف آپ ہی لکھوا سکتی ہیں۔ ذرا نیچے آجائیے۔ میں نے اپنا کام روک کر ان صاحبہ کی طرف گردن اٹھا کر بڑی نرمی سے درخواست کی۔

    ’’زبان میں کیا لکھوایا ہے تُو نے؟‘‘ خاتون نے میری بات کا جواب دیے بغیر سیڑھیاں اترتے ہوئے بیٹی سے پوچھا۔

    ’’جی اردو لکھ دیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرا مسکرا کر جواب دیا۔

    ’’کیوں اردو کیوں لکھا؟ عربی لکھو‘‘ وہ بگڑ گئی۔

    ’’عربی؟ لیکن کیوں؟‘‘

    ’’زبان کا مطلب مادری زبان۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے اردو لکھوائیے۔‘‘

    ’’اردو کیوں ہوتی؟ عربی لکھو۔‘‘ خاتون کے تیور چڑھ گئے۔

    ’’لیکن آپ بول تو اردو رہی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بول رہے ہیں۔ مرضی ہماری۔ لیکن تم عربی لکھو۔‘‘

    ’’آپ عرب سے آئی ہیں کیا؟‘‘

    ’’عرب سے کیوں آتے؟‘‘ وہ زینے کی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’دیکھیے اس میں درست لکھنا ہے۔‘‘ میں نے پھر مادری زبان کا مطلب بہت محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’تو پھر عربی لکھو کہہ تو دیا۔ تم کیسی پڑھی لکھی ہو۔‘‘

    آپ عربی بول کر دکھائیے مجھے، میں واقعی عربی لکھ دوں گی۔

    ’’کیوں بولیں…یں…یں۔؟‘‘ اس نے بولیں پر زیادہ زور دیا۔ ’’تمہیں نہیں لکھنا تو پھر جاؤ۔‘‘ ہمارا وقت خراب مت کرو۔

    میں نے دیکھا چھوٹے بڑے چھے سات بچے اب تک میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ جن میں سے کئی گلی کے تھے یا پھر شاید اسی گھرانے کے۔ ان میں سے کسی ایک لڑکی نے الحمد کی سورت پڑھنا شروع کی تو وہ فوراً چہکی۔

    ’’بولی کہ نہیں بولی۔ اب تو بولی نہ عربی؟‘‘

    ’’اچھا جناب ٹھیک ہے آپ ناراض نہ ہوں میں عربی ہی لکھ دوں گی۔‘‘ میں نے اسی میں عافیت جانی۔

    لیکن اب بساط پلٹ چکی تھی۔ وہ بری طرح بگڑ گئی۔

    ’’ہمارے پاس فالتو وقت ہے کیا؟ تمہارے نوکر ہیں کیا؟ ہمیں کیا فائدہ؟‘‘

    اس میں آپ کا بہت فائدہ ہے۔ آپ میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ ہندوستان میں رہتی ہیں تو اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ آپ سمجھدار خاتون ہیں۔‘‘ میں نے انہیں سمجھایا۔

    ’’چالیس برس سے رہتے ہیں۔ کون نکالے گا ہمیں۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ خدا نہ کرے۔ میں ایسا تھوڑے کہہ رہی ہوں۔ یہ تو ملک ہے آپ کا۔ میں نے پھر سمجھانا چاہا۔

    ’’بس دو چار خانے ہی رہ گئے ہیں ابھی ہوئے۔ یہ بتائیے آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟‘‘

    ’’پہلے اردو کی جگہ عربی لکھو۔‘‘

    ’’جی لکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھیے۔‘‘

    ’’امی اردو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی بولی۔

    ’’چپ کمینی— تجھے کیا پتہ۔‘‘

    بیٹی شرمندہ سی ہوکر خاموش ہوگئی۔

    آپ نے بتایا نہیں آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟ ذرا راشن کارڈ دکھا دیجیے اپنا اور آئی کارڈ بھی۔ پہچان پتر تصویر والا۔‘‘

    ’’کیوں؟ اس کا کیا کروگی؟

    چیک کرنا ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیجیے نہیں ہے تو بھی بتا دیجیے۔‘‘

    ’’نہیں ہے تو کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو میں اس فارم میں لکھ دوں گی۔ پھر آپ کا دوسرا بن جائے گا۔‘‘

    تو لکھ دو نہیں ہے۔ پتہ نہیں کہاں رکھا ہے، ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔

    ’’راشن کارڈ تو دکھا دیجیے۔‘‘

    ’’ان کے باپ کے پاس ہے۔‘‘

    برائے مہربانی تلاش کرلیں۔ سرکاری کام ہے یہ۔ میں انتظار کرتی ہوں۔

    ’’ارے تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو۔ نہ جانے کیا کیا لکھ لیا اور کیا کیا لکھو گی؟ اب بس بھی کرو۔ بہت ہو گیا۔‘‘

    ’’آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ یہ آپ کا ہی کام ہے۔ آپ میری مدد کیجیے۔ آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘

    ’’کیا فائدہ ہے ہمارا؟ نوکری دلوا دو گی ہمارے بچوں کو؟ بولو… گھر دلوا دو گی؟ زمین دلوا دو گی؟ فائدہ فائدہ…..‘‘ اس نے تقریباً منہ چڑاتے ہوئے کہا۔

    دیکھیے میں نے اتنا وقت لگایا ہے۔ سترہ لوگوں کے فارم بھرے ہیں۔ ان کے تمام کالم پورے کیے ہیں۔ بس ذرا سی دیر اور لگے گی۔ برائے مہربانی یہ بتائیے آپ کے کل گیارہ ہی بچے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی…..‘‘ میں نے اس کی تیوری چڑھی دیکھ کر سوال ادھورا چھوڑ دیا۔’’

    اچھا یہ بتائیے سب بچے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہیں نا؟ دیکھیے اس میں ایک خانہ ایسا ہے جس میں پوچھا ہے خدا نہ کرے کوئی بچہ پاگل یا اپاہج وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘ یہ سرکار بھی نہ معلوم کیا کیا پوچھتی ہے۔ میں نے اس کے غصہ سے بچنے کی غرض سے سرکار کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔

    ’’پاگل ہوگی تم! اپاہج ہوگی تم! ہمارے آدمی گنتی ہو۔ تمہارا کھاتے ہیں کیا۔ ہائے ڈالو گی۔ اتنی دیر سے کیا سترہ سترہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ رستہ لو اپنا… اے لو… ہمارے بچوں کو اپاہج پاگل کیا کیا بنا ڈالا— پڑھی لکھ ہو تم؟ بہت ہو گیا، بس جاؤ۔ ہمیں اب نہ کچھ بتانا نہ لکھوانا جو مرضی آئے کرلو‘‘

    ’’آپ غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

    ’’سمجھ گئے ہم تمہارا مطلب۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’چل ری چل اوپر….. یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ منع کیا تھا میں نے۔۔۔۔‘‘ اس نے بیٹی کو پھٹکارا۔

    ’’سنیے تو— میری بات تو سنیے….. اس نے دھڑام سے میرے منہ پر دروازے کے دونوں پٹ بند کردیے۔ گھٹنے سے رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ اور کاغذات اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ کچھ اُڑ کر نالی میں چلے گئے۔ مارے غصے کے میرا سر بھنّانے لگا۔ دل چاہا کہ سارے کاغذات پھاڑ کر….. لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرسکی کیوں کہ معاملہ مادری زبان کا تھا!

    اس افسانے کی خالق نگار عظیم ہیں، مادری زبانوں کے عالمی دن پر یہ انتخاب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

  • نیچی جگہ کا پانی…

    نیچی جگہ کا پانی…

    تھوڑی سی بارش ہوتی اور پانی پھسلتا ہوا نشیب میں جمع ہوجاتا۔ مکھیاں اور مچھر گندگی پھیلاتے۔

     

    ”ایمرجنسی راج میں ہم سے فیصلوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بڑے عہدوں پر تعینات افسروں نے اچھے فیصلے لاگو کرنے میں شاید ہی غلطیاں کی ہوں۔“ ایمرجنسی کی وجہ سے ٹوٹ جانے والی حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا خیال تھا۔

     

    ”چوکی دار ذمے دار ہے، گھونٹ لگا کے کہیں پڑ گیا ہوگا۔ پیچھے سے سارا گودام خالی ہوگیا۔“

     

    سرکاری گودام سے چینی چوری ہو جانے پر حفاظتی افسر کا بیان تھا۔

     

    ”متعلقہ فائل گم ہوگئی ہے تو متعلقہ کلرک سے پوچھو، اسی کی بے پروائی سے گم ہوئی ہے۔“ محکمے کا سربراہ کہہ رہا تھا۔

     

    لاکھوں روپے کا گھپلا پکڑے جانے کے بعد متعلقہ فائل گم ہوگئی تھی۔

     

    ”مقامی مل میں ملاوٹ! ہوسکتا ہے، رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کسی مزدور سے کوتاہی ہوگئی ہو اور مل کے باہر پڑے ہوئے کنکر پتھر اور مٹی مسالے میں مل گئی ہو۔ لکھو کے بچے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، اسی کی غفلت سے یہ گڑبڑ ہوئی۔“ مل مالک پولیس سے کہہ رہا تھا۔

     

    مالی ذمے دار ہے، چپراسی ذمے دار ہے، بھنگی ذمے دار ہے، مزدور ذمے دار ہے۔

     

    بارش ہو رہی ہے۔ نیچے گندے تالاب میں اب اور پانی جمع نہیں ہوسکتا۔

     

    پانی کا دریا منہ زور ہو رہا ہے، کنارے کھڑی ہوئی مضبوط عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے رہی ہیں۔

     

    (ہم درد ویر نوشہروی کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ حکم راں یا صاحبانِ اختیار جب اپنے فرائض‌ اور ذمہ داریاں‌ ادا نہیں‌ کرتے اور مسائل اور مشکلات پر ماتحتوں‌ کو مطعون کرکے عوام کو دھوکا دیتے ہیں‌ تو بھول جاتے ہیں‌ کہ یہ بگاڑ‌ اور خرابیاں‌ ایک روز ان کے گھروں‌ کی بنیادیں‌ بھی ہلا سکتی ہیں)