Tag: بھارتی شاعر

  • ”واہ واہ نظامی صاحب! کیا اچھا شعر کہا ہے!“

    ”واہ واہ نظامی صاحب! کیا اچھا شعر کہا ہے!“

    کراچی میں ان دنوں مشاعروں کا موسم ہے۔ کبھی کبھار اس کا کوئی جھونکا پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جو بہار کراچی میں آئی ہوئی ہے اُس کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ یہاں مشاعروں کا موسم اپنے جوبن پر ہے۔

    9 اپریل سے مشاعروں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے تو اہلِ کراچی گویا رَت جگوں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ مشاعروں کی ان محفلوں میں سب سے خوبصورت رنگ بھارت سے آئے ہوئے شعراء بلکہ شاعرات کا مرہونِ منت ہے۔ ان کی شاعری سے قطع نظر، ان کا ترنّم لوگوں کا دل موہ لیتا ہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ اپنے ترنّم کے بل پر ہی مشاعرے لوٹ لیتی ہیں۔

    بھارت میں چوں کہ مشاعرے تواتر سے ہوتے ہیں لہٰذا وہاں کے شاعر بھی سامعین کو ساری ساری رات بٹھائے رکھنے بلکہ ”رجھانے“ کا فن جانتے ہیں۔ ایسے اکثر شعراء تو”مشاعرہ باز شاعر“ کا خطاب بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ادھر چند برسوں سے ان کے مقابلے پر کچھ شاعرات بھی میدان میں اتری ہیں۔ اگرچہ بیشتر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ”پلے بیک شاعر“ کوئی اور ہیں اور یہ محض اپنے پُرسوز اور دلکش ترنّم کی وجہ سے داد پاتی ہیں گویا:

    میں کلام ہوں کسی اور کا مجھے سناتا (بلکہ گاتا) کوئی اور ہے

    ہمارا خیال ہے کہ یہ افواہ اُن کے حاسدوں نے اڑائی ہے کیوں کہ ان شاعرات کا کلام سن کر بالکل یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے کسی اور سے لکھوایا ہوگا۔ بھلا کوئی بھی مستند شاعر ایسا ناپختہ کلام کس طرح لکھ سکتا ہے؟ وہ لاکھ چھپائے اس کا اپنا رنگ کہیں نہ کہیں ظاہر ہو کر چغلی کھا ہی جاتا ہے۔

    اس بات پر ہمیں اپنے زمانۂ طالبِ علمی کا ایک مشاعرہ یاد آگیا۔ اس زمانے میں تمام تعلیمی اداروں میں ہفتۂ طلبا بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور مشاعرے اس کا ایک لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔ سو ہمارے کالج میں بھی اسی سلسلے میں ایک طرحی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرہ ختم ہوا تو منصفین سر جوڑ کر نتائج مرتّب کرنے لگے۔ وقت گزارنے کے لیے سامعین میں سے کچھ طالبات کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی گئی تو ایک ایسی طالبہ کا نام بھی پکارا گیا جن کا تعلق دوسرے کالج سے تھا اور جو فن ِتقریر میں شہرت رکھتی تھیں مگر حال ہی میں شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ اکثر لوگوں کو ان کے پلے بیک شاعر کا نام معلوم تھا مگر لحاظ میں کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ اُس روز مقررۂ مذکورہ سے بھول یہ ہوئی یا شاید ان کے پلے بیک شاعر سے کہ انہیں طرحی غزل کہہ کے دے دی۔ انہوں نے غزل سنانی شروع کی تو سامعین طالبات یہ سوچ کر حیران رہ گئیں کہ اتنے مختصر نوٹس پر کوئی بھی شاعرہ طرحی غزل کس طرح کہہ سکتی ہے؟ مقررۂ موصوفہ تیسرے شعر پر پہنچیں تو خیال و شعر کی پختگی دیکھ کر مجھ سے صبر نہ ہوا اور میں نے بے ساختہ داد دی۔ ”واہ واہ نظامی صاحب! کیا اچھا شعر کہا ہے۔“

    اتفاق کی بات ہے کہ اس غزل کے خالق اور موصوفہ کے پلے بیک شاعر جناب امداد نظامی اس وقت منصف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ میری داد پر انہوں نے گھوم کر خشمگیں نظروں سے مجھے دیکھا مگر لوگوں کے قہقہے زیادہ زور دار تھے۔ چائے کی میز پر نظامی صاحب میرے پاس آئے اور گوشمالی کرتے ہوئے بولے،”تم بہت شریر ہوگئی ہو۔ میرا نام لینے کی کیا ضرورت تھی؟“

    ”اتنا اچھا شعر تھا، کیا کرتی داد دیے بغیر نہ رہ سکی اور چوں کہ مجھے پتا ہے کہ اسے غزلیں لکھ کر آپ ہی دیتے ہیں لہٰذا اصل شاعر کو داد دے دی تو کیا برا کیا؟“میں نے معصومیت سے جواب دیا۔

    خیر۔۔۔ یہ قصّہ تو برسبیلِ تذکرہ آگیا۔ بات ہو رہی تھی بھارتی شاعرات کے ترنّم اور ان کے پلے بیک شعراء کے بارے میں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ خواتین اشعار سنانے سے پہلے اپنے پلے بیک شاعر کا نام بتا دیا کریں تو کوئی ایسی بری بات بھی نہیں۔ آخر دوسرے پیشہ ور گلوکار بھی تو صرف اپنے ترنّم کے بَل پر نام کماتے ہیں بلکہ ان کی گائی ہوئی غزلیں تو انہی کے نام سے مشہور ہوتی ہیں اور شاعر بے چارے سَر پیٹتے رہ جاتے ہیں کہ آخر اناؤنسر، گلوکاروں کے نام کے ساتھ ان کے نام کیوں نہیں بتاتے؟ کئی شاعروں نے تو اس سلسلے میں مقدمے بھی لڑے مگر مقدمے جیتنے کے باوجود نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔

    (حمیرا اطہر کے فکاہیہ کالم مطبوعہ 1992ء ‘ترنم میرا باقی اُن کا’ سے اقتباس)

  • ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

    قتیل شفائی کا یہ شعر ہر باذوق اور شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی بیاض میں‌ شامل رہا ہے۔

    چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
    وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

    اس شعر کے خالق بھی قتیل ہیں۔ پاکستان کے اس نام وَر شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ پاک و ہند کے نام اور معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو اپنی آواز دی اور ان کے گیت کئی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔

    قتیل برصغیر کے ان معدودے چند شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے نہ صرف ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی بلکہ گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

    24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ (خیبر پختون خوا) میں پیدا ہونے والے قتیلؔ شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ انھوں نے قتیل تخلّص کیا اور اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا پوری کی نسبت شفائی کا اضافہ کرکے قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔

    وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، سلاست، روانی، رچاؤ اور غنائیت اُن کے شعری اوصاف ہیں۔ قتیل شفائی نے غزل کو اپنے تخیل سے جگمگایا اور ان کے کمالِ سخن نے اسے لاجواب بنایا۔

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی شاعری کی ایک جہت اُن کی فلمی نغمہ نگاری ہے، جس نے انھیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ انھوں نے کئی گیت لکھے جو نہایت معیاری اور عام فہم بھی تھے۔ ان کی اسی خوبی نے بھارتی فلم سازوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان سے اپنی فلموں کے لیے گیت لکھوائیں۔

    ان کے لازوال اور یادگار گیتوں ‘زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے، کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنّا، یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شہزادیاں، ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا، زندہ ہیں‌ کتنے لوگ محبّت کیے بغیر، پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو’ شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔

    قتیل شفائی نے صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات حاصل کیے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اعزاز عوام میں ان کی وہ شہرت اور مقبولیت تھی جو انھوں‌ نے اپنے تخلیقی وفور اور فن کی بدولت حاصل کی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    قتیل شفائی کے شعری مجموعے چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ان کی آپ بیتی بعد از مرگ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

  • عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    اردو کے نام وَر شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری 3 مارچ 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوتا تھا۔ اردو ادب میں فراق کو تنقید کے حوالے سے بھی اہم مقام حاصل ہے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ وہ 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون اور اچھّے شاعر تھے۔ اسی علمی و ادبی ماحول میں فراق کی تعلیم و تربیت ہوئی اور وہ بھی اردو زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    وہ اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور شاعری کے ساتھ نقد و نظر کے میدان میں بھی اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ فراق نے اردو شاعری میں‌ اپنے تنقیدی میلانات کو کتابی شکل دی جس کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی کتاب اردو کی عشقیہ شاعری کے علاوہ حاشیے بھی تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔

    فراق اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ ان کا سب سے جدا اور اپنا ہی رنگ ان کے کلام سے جھلکتا ہے۔ فراق کو عہد ساز شاعر بھی کہا جاتا ہے جب کہ تنقید کے میدان میں‌ بھی ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    دلّی میں‌ وفات پاجانے والے فراق گورکھپوری کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات دیے تھے۔

  • زمیں‌ کا شور ساتھ لیے حنیف ترین دنیا سے چلے گئے

    زمیں‌ کا شور ساتھ لیے حنیف ترین دنیا سے چلے گئے

    اردو کے نام وَر شاعر اور ادیب ڈاکٹر حنیف ترین انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 69 سال تھی۔ ڈاکٹر حنیف ترین کینسر کے موذی مرض میں‌ مبتلا تھے۔ 1951ء میں‌ بھارت کے ضلع مراد آباد کے علاقے سنبھل میں آنکھ کھولنے والے حنیف ترین روزگار کے سلسلے میں کئی برس تک سعودی عرب میں‌ مقیم رہے۔ پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں نے ان کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    ان کا خاندانی نام حنیف شاہ خان ترین تھا جب کہ حنیف ان کا تخلص تھا۔ وہ طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ حنیف ترین عالمی اردو مجلس، دہلی کے صدر کی حیثیت سے بھی متحرک رہے۔ ان کی تصنیفات میں ’’ربابِ صحرا‘‘، ’’کشتِ غزل نما‘‘، ’’زمین لا پتا رہی‘‘، ’’ابابیلیں نہیں آئیں‘‘، ’’باغی سچے ہوتے ہیں‘‘ شامل ہیں۔

    ان کی موت حرکتِ قلب بند ہوجانے سے واقع ہوئی۔ ڈاکٹر حنیف ترین راولپورہ، سری نگر میں سکونت پزیر تھے جہاں مقامی قبرستان میں انھیں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کی ایک غزل دیکھیے

    آئیے آسماں کی اور چلیں
    ساتھ لے کر زمیں کا شور چلیں

    چاند الفت کا استعارہ ہے
    جس کی جانب سبھی چکور چلیں

    یوں دبے پاؤں آئی تیری یاد
    جیسے چپکے سے شب میں چور چلیں

    دل کی دنیا عجیب دنیا ہے
    عقل کے اس پہ کچھ نہ زور چلیں

    سبز رت چھائی یوں ان آنکھوں کی
    جس طرح ناچ ناچ مور چلیں

    تم بھی یوں مجھ کو آ کے لے جاؤ
    جیسے لے کر پتنگیں ڈور چلیں

  • معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری 69 برس کے ہوگئے

    معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری 69 برس کے ہوگئے

    اندور: عصر حاضر کے مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے زندگی کی 69 بہاریں دیکھ لیں۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    ڈاکٹر راحت اندوری نے نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج حصہ بھی لیا۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

    آپ کے والد رفعت اللہ قریشی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازم تھے، راحت اندوری بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں، آپ نے ابتدائی تعلیم نوتن (مقامی) اسکول سے حاصل کی بعد ازاں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے 1973 میں گریجویشن مکمل کیا۔

    سن 1975 میں آپ نے بھوپال میں واقع برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا، تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے آپ نے 1985 میں بھوج اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    آپ کی تصانیف میں دھوپ دھوپ، میرے بعد، پانچواں درویش، رت بدل گئی، ناراض، موجود و غیرہ شامل ہیں۔ آپ نے اپنے منفرد انداز بیان، مختصر اور آسان الفاظ میں شعر کہہ کر اردو ادب اور سامعین کے دل جیتے۔

    چند منتخب اشعار

    زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

    راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

    بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

    جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

    دوستی جب کسی سے کی جائے

    دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

    میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
    آسمان لائے ہو ، لے آؤ، زمین پر رکھ دو

    اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
    اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

  • بھارتی شاعر "گلزار” سے پاک بھارت کشیدگی پر سوال کرنا صحافی کو مہنگا پڑگیا

    بھارتی شاعر "گلزار” سے پاک بھارت کشیدگی پر سوال کرنا صحافی کو مہنگا پڑگیا

    نئی دہلی: معروف بھارتی شاعر نے فلم ’’مٹو پتلو کنگ آف کنگز‘‘ کے میوزک لانچنگ کی تقریب کے دوران پاک بھارت کشیدگی پر بھارتی صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سخت ناراضی کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق نئی آنے والی انیمیٹڈ فلم ’’مٹو پتلو کنگ آف کنگز‘‘ کے میوزک لانچنگ تقریب کے دوران جنگی جنون میں مبتلا صحافی پر اُس وقت سخت اظہارِ برہمی کا اظہار کیا جب اُس نے پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے سوال پوچھا۔

    پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھارتی شاعر گلزار نے سخت برہمی میں صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’کیا آپ کا سوال تقریب کی مناسبت سے ہے؟ یہ تقریب فوجیوں پر نہیں بلکہ مٹو پتلو کی ہے‘‘۔

    بھارتی شاعر نے خاتون صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر شادی میں فرنٹیئر کی بات کی جائے تو کیا یہ مناسب ہے یا اگر فرنٹیئر میں شادی کی بات کی جائے تو کیا یہ ٹھیک ہوگا؟‘‘۔صحافی کی جانب سے مسلسل غیر ضروری سوال کرنے پر بھارتی شاعر گلزار تقریب سے روانہ ہوگئے۔

    یاد رہے اڑی سیکٹر پر حملے کے بعد سے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے بعد ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے پاکستانی فنکاروں کو دھمکیاں دی گئیں اور فوری طور پر بھارت چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔

    پڑھیں:  شیو سینا کا سلمان خان کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ

     ہندو انتہاء پسندوں کی دھمکیوں کے بعد بالی ووڈ اسٹار سلمان خان نے پاکستانی فنکاروں کے حق میں بیان دیا تو انہیں بھی انتہاء پسندوں کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور پاکستان منتقل ہونے کا مشورہ دیا گیا۔

    مزید پڑھیں:  پاکستان کی حمایت میں بیان، اوم پوری کے خلاف مقدمہ درج

    علاوہ ازیں بھارتی فنکار اوم پوری کی جانب سے پاکستانی فنکاروں کی حمایت کرنے پر بھارت میں غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کے بعد انہوں نے مجبور ہوکر بھارتیوں سے معافی مانگی۔