Tag: بھارتی فلمیں

  • اداکار نصیر الدّین شاہ کی وِگ اور سری دیوی کی ریہرسل!

    اداکار نصیر الدّین شاہ کی وِگ اور سری دیوی کی ریہرسل!

    نام وَر ہدایت کار رمیش سپی نے 1987ء میں اپنی فلم "زمین” کا آغاز کیا تھا جس میں ونود کھنہ، سنجے دت، رجنی کانت کے ساتھ نصیرالدّین شاہ بھی شامل تھے جو کچھ اختلافات کے بعد اس فلم سے الگ ہوگئے تھے۔

    یہ فلم بھی مکمل نہیں‌ ہوسکی تھی اور ریلیز نہیں‌ ہوئی، لیکن شائقینِ سنیما اور مداحوں کے لیے یہ امر دل چسپی کا باعث ہو گا کہ نصیر الدّین شاہ نے اس فلم میں‌ کام کرنے سے کیوں انکار کیا تھا۔

    فلم "زمین” ایک بڑے بجٹ کی فلم تھی جس میں ایک "وِگ” مسئلہ بن گئی اور نصیر الدّین شاہ اس سے الگ ہوگئے۔ اپنے ایک انٹرویو میں بالی وڈ کے اس نام وَر اداکار نے اس حوالے سے بتایا، "میرے ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ کمرشل فلموں میں کام کرنا ہے تو اپنا رول مت سنو، صرف یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کس پروڈیوسر اور کس ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرنا ہے۔ مجھے اپنے دوست کا یہ مشورہ اچھا لگا۔ اس سے پہلے کمرشل فلموں کرما، غلامی اور مثال میں اپنا رول سن چکا تھا مگر جب فلمیں مکمل ہوئیں تو مجھے احساس ہوا کہ ایسی فلموں میں کام کرنے سے پہلے اپنا رول سننا کوئی ضروری بات نہیں۔ یہ تو ڈائریکٹر کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ آپ کا رول کیا سے کیا کر دے۔”

    "رمیش سپی کے ساتھ کام کرنے کی مجھے خواہش تھی۔ میں نے کہیں سنا کہ فلم "زمین” میں نانا پاٹیکر جو رول کر رہا تھا وہ اس نے چھوڑ دیا ہے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ یہ رول حاصل کرو، مگر میں نے منع کر دیا۔ کچھ دن بعد رمیش سپی نے مجھے اس رول کے لیے خود بلایا اور مجھ سے کہا کہ ایک نیگیٹو رول ہے۔ میں اس سے پہلے دو تین فلموں "مرچ مسالہ”، "بے زبان” اور "حادثہ” وغیرہ میں ایسے رول کر چکا تھا اور یہ رول کر کے مجھے خوشی ہوئی تھی۔ میں نے "زمین” کے لیے ہاں کہہ دی۔ صرف یہ سوچا کہ رمیش کی فلموں میں ولن کے رول ہمیشہ اچھے اور متاثر کن ہوتے ہیں، اس میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ایک دن کی شوٹنگ کے بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس رول میں وہ کچھ نہیں ہے جو میں نے سوچا تھا۔ جب سے میں نے یہ فلم چھوڑ دی تو مجھ پر الزام لگایا گیا کہ جس وقت سری دیوی ریہرسل کر رہی تھی میں میگزین پڑھ رہا تھا۔ اب آپ بتائیے کہ ہیروئن ڈانس کی ریہرسل کرے تو کیا ضروری ہے کہ ساتھی اداکار صرف ریہرسل دیکھتا رہے؟ خدا جانے ریہرسل کے دوران وہ مجھ سے کیا چاہتے تھے؟”

    "معاملہ وِگ کا بھی تھا۔ جو وِگ انھوں نے میرے لیے بنوائی تھی وہ مجھے پسند نہیں تھی اور جو میں نے بنوائی اسے انھوں نے ناپسند کیا۔ اس کے باوجود میں نے کہا کہ: ‘آپ باس ہیں، اگر کہیں گے تو آپ کی پسند کی وگ پہن لوں گا مگر سچی بات یہ ہے کہ اس وگ کو پہننا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ یہ وِگ پہن کر میں پوری فلم میں دکھی رہوں گا۔’ شاید رمیش کو میری بات بری لگی۔ رمیش نے مجھ سے کہا: ‘آگے چل کر کوئی پرابلم نہ ہو، ایسا سوچیے’۔ میں نے جواب دیا: ‘میں نے آج تک سو (100) فلموں میں کام کیا ہے، سب سے پوچھیے کہ میں نے کس کا کتنا نقصان کیا ہے؟’…”

    "میں سمجھ گیا کہ میری بات سے انکار کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا میں نے وِگ اتار کر پھینکی، رمیش سے ہاتھ ملایا اور چلا آیا۔ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میں رمیس سپی کے ساتھ کام نہ کر سکا مگر اس کی خوشی بھی ہے کہ اُس وِگ کے ساتھ میں نے ایکٹنگ نہیں کی۔”

    (ماخوذ از ماہنامہ "شمع” سنہ 1988ء)

  • سنیما اور اردو زبان….

    سنیما اور اردو زبان….

    ہندوستانی فلموں پر ہونے والی گفتگو اردو زبان اور اس کی تہذیب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ہندوستانی فلموں نے اردو کی آغوش میں آنکھیں کھولیں اور اردو زبان کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔

    پہلی ہندوستانی فلم ’عالم آرا‘ پر غور کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی کہانی، مکالمے، نغمے، برتاؤ وغیرہ سب کے سب اردو کے رنگ میں ہیں۔ اس فلم کے مکالمے کی زبان اردو تھی جسے عوامی سطح پر بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ اس فلم کے ہِٹ ہونے میں مکالمے کا اہم رول رہا۔ اس پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے جو اردو میں تھے۔

    عالم آرا سے لے کر اب تک کی تمام ہندوستانی فلمیں اگر کام یابی سے ہم کنار ہوئیں تو اس میں مکالمے کا رول اہم رہا ہے۔ ابتدا میں موسیقی سے لبریز فلمیں شائقین کے لیے لطف اندوزی کا ذریعہ تھیں، مگر سنیما صنعت کی ترقی کے ساتھ رواں دواں زندگی کی پیش کاری کے لیے جہاں کئی ذرائع اظہار استعمال کیے گئے، وہیں جذبات و احساسات کے حسین اور پُر اثر اظہار کے لیے مکالمے کو بہترین آلۂ کار مانا گیا۔ بولتی فلموں کے آغاز سے اب تک مکالمے کی اہمیت برقرار ہے۔ ہزاروں مکالمے پسندیدگی کی سند پا چکے ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری ہیں۔ جہاں بھی فلموں میں پُر اثر اداکاری کا ذکر ہوتا ہے وہیں مشہور ڈائلاگ برسوں تک شائقین بھول نہیں پاتے۔

    آخر مکالمے میں ایسی کیا بات ہے کہ فلموں میں اس کی اتنی اہمیت ہے۔ اس کو تعریف کا جامہ کس طرح عطا کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں فلموں سے وابستہ فن کاروں کی رائے سود مند ہو سکتی ہے اور ان نکات پر گفتگو کی جا سکتی ہے جن کی طرف آرٹسٹوں نے توجہ دلائی ہے۔ جناب احسن رضوی جنھوں نے فلم مغلِ اعظم کے کچھ مکالمے لکھے، ان کے مطابق ’’مکالمہ وہ پیرایۂ گفتگو ہے جو کہانی کی تمام ضرورتوں پر حاوی ہو۔‘‘ انھوں نے کہانی اور منظرنامے میں مکالمے کی بنیادی حیثیت کو قبول کیا ہے۔ جدید شاعری کا اہم ترین نام اخترالایمان تقریباً چالیس سال تک فلموں سے وابستہ رہے۔ کہانیاں، شاعری اور مکالمے انھوں نے فلموں کے لیے لکھے۔

    فلم کی کام یابی کے لیے جن نکات پر محنت کی جاتی رہی ہے ان میں مکالمہ بھی ایک ہے۔ مکالمے صرف تحریر نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ اس کی قرأت کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ مکالمہ نویس اور اداکار کے درمیان مکالمے پر تبادلۂ خیال کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ اداکار کو اس بات کے لیے تیّار کیا جاتا ہے کہ مکالمے اس انداز سے ادا کیے جائیں جو اس زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے۔ اس کے لیے باضابطہ طور پر آدمی بحال کیے جاتے ہیں۔

    اردو زبان کی ہمہ گیری اور مقبولیت کے پیشِ نظر فلموں کے مکالمے میں صرف الفاظ استعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ لہجہ بھی اردو والا ہی ہوا کرتا ہے۔ چند مکالمے ملاحظہ کیجیے اور ان میں اردو کی جلوہ گری محسوس کیجیے۔

    ’’آج میرے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، پیسہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘۔۔۔۔ ’’میرے پاس، میرے پاس ماں ہے۔‘‘

    ’’آپ کے پاؤں بہت حسین ہیں، انھیں زمین پر مت اتاریے گا، میلے ہو جائیں گے۔‘‘ (فلم پاکیزہ)

    ’’انار کلی، سلیم کی محبّت تمہیں مرنے نہیں دے گی اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے۔‘‘ (فلم مغلِ اعظم)

    ’’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ (فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے)

    کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا پڑتا ہے۔ اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں۔‘‘ (فلم بازی گر)

    یہ وہ مکالمے ہیں جو فلم دیکھنے والے حضرات کو ازبر ہیں۔ عوام میں ان مکالموں کا استعمال روزمرّہ کی طرح ہوتا ہے۔ کسی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کو بولنے والے سے اثر انداز ہو کر اس کو جاننے کی سعی کرنا۔ اردو زبان کی خصوصیت ہے کہ دوسری زبانوں کو جاننے والے جب ان الفاظ کو سنتے ہیں تو اس کو سیکھنے کی للک ہوتی ہے۔ ہندی یا دوسری علاقائی زبانوں کو جاننے اور بولنے والے اردو کے الفاظ کا استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں اور اس کے حُسن کی تعریف کرتے ہیں۔

    ہندوستانی فلموں کی ایک صد سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’عالم آرا‘ سے اب تک کی فلموں میں مکالمے کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ بے حد کام یاب فلمیں یا باکس آفس پر سپر ہٹ ہو نے والی فلموں کی کام یابی کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو جہاں دوسرے عناصر کا نام آئے گا وہیں مکالمے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    (محمد منور عالم کے مضمون سے انتخاب)

  • بالی وڈ کے نام وَر فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کا تذکرہ

    بالی وڈ کے نام وَر فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کا تذکرہ

    بلدیو راج چوپڑا کو بھارتی فلمی صنعت کا ستون مانا جاتا تھا۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور فلم انڈسٹری کے لیے عام روش سے ہٹ کر کئی کام یاب فلمیں بنائیں۔ پانچ نومبر 2008ء کو 94 برس کی عمر میں بی آر چوپڑا نے اس دنیا سے اپنا ناتا ہمیشہ کے لیے توڑ لیا۔

    1914ء میں شہر لدھیانہ میں پیدا ہونے والے بلدیو راج نے لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا، لیکن تقسیمِ ہند کے کے بعد دہلی ہجرت کر گئے اور وہاں سے ممبئی منتقل ہوئے۔

    بلدیو راج چوپڑا کا بچپن اور جوانی لاہور میں گزری۔ انھوں‌ نے انگریزی ماہ نامے میں فلموں پر تبصرے لکھنے شروع کیے اور صحافت کا آغاز کیا۔ ادب کی تعلیم نے انھیں تخلیقی شعور دیا اور وہ کہانیوں اور فلمی اسکرپٹ کی کم زوری اور خامیوں پر تبصرہ کرکے ایک فلمی نقّاد کے طور پر سامنے آئے۔ ممبئی ہجرت کے بعد انھوں نے خود کو ایک منفرد فلم ساز اور باکمال ہدایت کار کی حیثیت سے منوایا۔

    فلم نگری میں‌ ان کی آمد ایک صحافی کے طور پر ہوئی تھی، لیکن 1955ء میں انھوں نے اپنی قسمت آزمائی اور ایک فلم کمپنی بی آر فلمز کے نام سے شروع کی۔ وہ تخلیقی ذہن اور متنوع شخصیت کے مالک تھے اور اسی لیے انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کی۔ ان کی اسی انفرادیت اور روایت شکنی نے انھیں باکمال و نام ور بنا دیا۔ انھوں نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور انھوں نے اداکاری بھی کی۔

    بی آر چوپڑا نے 1949ء میں فلم ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا اور یہ فلم فلاپ رہی۔1951ء میں فلم ’افسانہ‘ کے لیے ہدایت کاری کی اور یہ فلم کام یاب رہی۔ 1955ء میں بی آر فلمز کے بینر تلے انھوں نے سب سے پہلے ’نیا دور‘ بنائی جسے ناظرین نے کافی سراہا اور فلم نے کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ان کی زیادہ تر فلموں میں‌ سماج کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ انھوں نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا۔ نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ وہ فلم ’گھر‘ میں اداکار کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔ یہ تمام اپنے وقت کی کام یاب ترین فلمیں ثابت ہوئیں۔

    ہندوستان کے معروف ترین فلم ساز و ہدایت کار بی آر چوپڑا کے دل سے لاہور کی یادیں کبھی محو نہ ہو سکیں۔ چوپڑہ صاحب کی ابتدائی زندگی کا احوال وہ یوں بتاتے ہیں کہ ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘

    بی آر چوپڑہ کو 1998ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کرچکے تھے۔

  • مجھے بالی ووڈ میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے: مہوش حیات

    مجھے بالی ووڈ میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے: مہوش حیات

    کراچی: تمغہ امتیاز یافتہ معروف پاکستانی اداکارہ مہوش حیات نے بالی ووڈ فلموں میں کام کرنے کے حوالے سے اپنی خاموشی توڑ دی۔

    ایک ویب شو میں انٹرویو دیتے ہوئے مہوش حیات نے کہا کہ مجھے پاکستان میں پہلے ہی اتنا معیاری کام مل رہا تھا کہ مجھے بالی ووڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے ملک سے ہی بہت عزت ملتی ہے، میرے لیے سب سے ضروری عزت نفس ہے، جب آپ بالی وڈ میں کام کرتے ہیں تو وہاں کوئی عزت نفس نہیں ہوتی۔

    مہوش حیات کا مزید کہنا تھا کہ بالی وڈ میں کام کرنے کے بعد آپ وہاں اپنی ہی فلموں کے پریمیئرز میں شرکت نہیں کرسکتے تو جہاں عزت نفس نہ ہو، صرف پیسہ اور شہرت ہو تو میرے لیے یہ بالکل غیر اہم ہے۔

    چند روز قبل بھی مہوش حیات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما سبرامنین سوامی کے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں جو ہورہا ہے اس پر دنیا نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ آج کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نمائندے کو اس طرح تبصرے کرنے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے۔

  • بھارتی فلموں میں کام کرنا فخر کی بات نہیں، مصطفیٰ قریشی

    بھارتی فلموں میں کام کرنا فخر کی بات نہیں، مصطفیٰ قریشی

    کراچی:  پاکستانی اداکار مصطفی قریشی نے کہاہے کہ جو فنکار بھارتی فلموں میں کام کررہے تھے انھیں اس بات پر افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ اب انھیں بالی ووڈ میں کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ اس بات پر خوش ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے پاکستانی فنکاروں کو دھمکیوں اور فلموں میں کام نہ دینے کے معاملے پر معروف پاکستانی اداکار نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر عائد پابندی کے بعد اداکاروں کو پاکستانی فلموں میں کام کرنے کے بھرپور مواقع ملیں گے۔

    پڑھیں: فلم اے دل ہے مشکل کی ریلیز، بھارتی انتہا پسندوں نے 5 کروڑ مانگ لیے

     انہوں نے کہا  کہ بھارتی فلموں میں کام کرنا کوئی فخر کی بات نہیں، بھارت نے کبھی ہمارے فنکاروں کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ وہاں کے لوگوں نے ہمارے اداکاروں کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر صرف استعمال کیا اور فلموں میں کاسٹ کیا۔

    مصطفیٰ قریشی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فلموں میں کام کرنے والے فنکاروں کو چاہیے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ اپنے ملک میں بنائی جانے والی فلموں میں کام کریں اور ہمارے ڈائریکٹرز و پروڈیوسرز کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے فنکاروں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

    مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی کے باوجود اداکارہ پوجا بھٹ پاکستان پہنچ گئیں

     معروف اداکار کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں کو بھی شہرت اور عزت حاصل ہوئی ہے، ایسے فنکار فخر سے رہتے ہیں جنہیں مصنوعی نہیں بلکہ اپنے ملک میں حقیقی عزت سے نوازا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ بھارت جاکر کام کرنے والے فنکاروں کو مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی تبدیلی آسکے۔