Tag: بھارتی موسیقار

  • مایہ ناز موسیقار اور سدا بہار دھنوں کے خالق خیام کی برسی

    مایہ ناز موسیقار اور سدا بہار دھنوں کے خالق خیام کی برسی

    ظہور خیام ایک مایہ ناز موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ کئی فلمی نغمات کی مسحور کن دھنیں ترتیب دینے والے خیّام کو صفِ اوّل کا میوزک ڈائریکٹر تسلیم مانا جاتا ہے۔ 2019ء میں‌ آج ہی کے دن خّیام انتقال کرگئے تھے۔

    آجا رے او میرے دلبر آجا، دل کی پیاس بجھا جا رے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجے وہ مشہور فلمی گیت ہیں جنھیں‌ دہائیوں پہلے بھارت اور پاکستان میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ وہ لازوال اور سدا بہار نغمات ہیں‌ جو خیام کو ان کے معاصر موسیقاروں‌ میں ممتاز کرتے ہیں۔

    خیام کا اصل نام محمد ظہور ہاشمی تھا۔ وہ 18 فروری 1927ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا، جہاں وہ فلم انڈسٹری میں‌ خیام کے نام سے پہچانے گئے۔ سنہ 1953 میں فلم فٹ پاتھ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے خیام کی مشہور فلموں میں پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، کبھی کبھی، نوری، تھوڑی سی بے وفائی، دل نادان، بازار، رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ جگجیت کور بھی نام ور گلوکارہ تھیں۔ بھارتی موسیقار خیام کو تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا جی اے چشتی سے لاہور میں حاصل کی۔ بولی وڈ میں فلم ‘امراؤ جان’ نے خیام کو راتوں رات کام یابی اور شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔ فلم ‘پھر صبح ہوگی’ کی موسیقی نے بھی خیام کو بڑا عروج دیا۔ کہتے ہیں اس فلم کے ہر گیت نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور اس کی تمام دھنیں خوب ثابت ہوئی تھیں، خیام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کی تخلیقات کو اپنی دھنوں سے سجانے کا موقع ملا جو خیام کو انڈسٹری میں‌ نام و مقام اور اپنے فن میں‌ یگانہ بناتی چلی گئیں۔

    موسیقار خیام کو بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ کے علاوہ 2010ء میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ وہ بھارت میں رہتے ہوئے 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    آج پاکستان کے اس مایہ ناز موسیقار کی برسی ہے۔ انھوں نے 2007ء میں‌ زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔

    نثار بزمی نے 1962ء میں پاک سرزمین پر قدم رکھا تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے جب فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کی تو کام یاب ترین موسیقار شمار ہوئے۔ بھارت سے پاکستان منتقل ہوجانا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    بالی وڈ میں مدن موہن کا سفر تین دہائیوں پر محیط رہا جس میں انھوں نے کئی مدھر دھنیں‌ ترتیب دیں، اور اپنے فن کی بدولت کئی فلمی گیتوں کو لازوال بنا دیا۔ مدن موہن نے 1975ء میں آج ہی کے دن دنیا سے کوچ کیا تھا۔

    بالی وڈ کو مدھر دھنیں دینے والے مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی اور بعد میں اپنے آبائی شہر چکوال چلے آئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہ کر ممبئی چلے گئے اور برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کرلیا، لیکن جلد ہی نوکری چھوڑ دی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی زیادہ عرصہ کام نہ کیا اور بالی وڈ فلم انڈسٹری سے منسلک ہو گئے۔

    بالی وڈ میں‌ انھوں نے پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں حاصل کی اور فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دے کر فلم سازوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس وقت برصغیر میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” محمد رفیع کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی اگلی فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے مدن موہن کی موسیقی میں نغمات ریکارڈ کروائے۔

    مدہن موہن نے فلمی موسیقار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان میں سے اکثر لازوال ثابت ہوئیں۔ آج بھی ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گیت سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں۔

    مدن موہن کو چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا، اور بعد ازمرگ "آئیفا ایوارڈ” سے بھی نوازا گیا۔

    یہ چند یادگار فلمی گیت جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہریار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تدریس سے منسلک رہے، ہندوستان سے تعلق تھا۔

    شہریار نے نظم، غزل اور گیت جیسی اصنافِ‌ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب نام پیدا کیا، انھوں‌ نے اپنے وقت کی کام یاب ترین فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    شہریار کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو زبانوں میں ہوا۔ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرنے والے اس شاعر نے 13 فرروری 2012 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ یہاں‌ ہم ان کا ایک مشہور فلمی گیت باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    ہر ایک جسم روح کے عذاب سے نڈھال ہے
    ہر ایک آنکھ شبنمی، ہر ایک دل فگار ہے

    ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں
    خوشا وہ لوگ جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے

    نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی
    اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے