Tag: بھارتی پارلیمنٹ

  • راہل گاندھی بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر

    راہل گاندھی بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر

    نئی دہلی: بھارتی لوک سبھا میں 10 برسوں سے خالی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ راہل گاندھی کو مل گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں۔

    گزشتہ دو عام انتخابات میں کانگریس کو اپوزیشن لیڈر کے لیے مطلوبہ تعداد میں سیٹیں نہیں ملی تھیں، تاہم اب دس سال بعد راہل گاندھی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے۔

    بھارت میں اپوزیشن لیڈر کو کابینہ کے رکن کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈر چیف الیکشن کمشنرز، الیکشن کمشنرز اور سی بی آئی ڈائریکٹر کو منتخب کرنے والے پینل میں بھی شامل ہوتا ہے۔

    بی جے پی رہنما کی مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی، ویڈیو وائرل

    بھارت میں اپوزیشن کی کسی جماعت کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ایوان کی کل نشستوں کا 10 فی صد یعنی 54 نشستیں حاصل کرنی ضروری ہیں، تاہم گزشتہ ایک عشرے سے اپوزیشن کی کوئی جماعت اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھی۔

  • بھارتی پارلیمنٹ میں ’بابری مسجد زندہ باد‘ کے نعرے لگ گئے!

    بھارتی پارلیمنٹ میں ’بابری مسجد زندہ باد‘ کے نعرے لگ گئے!

    رام مندر کے افتتاح کے بعد بھارتی لوک سبھا میں ’بابری مسجد زندہ باد‘ کے نعرے لگ گئے، اس دوران دوسرے اراکین حیرت سے دیکھتے رہے۔

    مجلس اتحادالمسلمین ہند کے صدر اور رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی لوک سبھا میں تقریر کررہے تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ‘بابری مسجد زندہ باد، زندہ باد، بھارت زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔

    ایودھیا میں رام مندر پر منعقدہ مختصر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انھوں نے یاد دلایا کہ پارلیمنٹ نے 16 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کی مذمت کی تھی۔

    مسلمان رہنما نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ بابری مسجد کے انہدام کے ذمہ دار دو لوگوں کو بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

    اسدالدین اویسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسلامی عمارت کی تباہی تکلیف دہ ہے۔ سپریم کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔

    بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مسجد بنانے کے لیے مندر نہیں توڑا گیا۔ کیا مودی کی حکومت صرف ہندوؤں کے لیے ہے یا پوری قوم کے لیے؟ بابری مسجد زندہ باد، بھارت زندہ باد۔

    انھوں نے دعویٰ کیا کہ 6 دسمبر کے واقعے کے بعد جن نوجوانوں کو ٹاڈا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا بعدازاں انھیں رہا کردیا گیا۔

  • بھارتی پارلیمنٹ میں 2 مشکوک افراد داخل ہوگئے، ویڈیو سامنے آگئی

    بھارتی پارلیمنٹ میں 2 مشکوک افراد داخل ہوگئے، ویڈیو سامنے آگئی

    نئی دہلی: بھارتی پارلیمنٹ میں اجلاس کے دوران 2 مشکوک افراد داخل ہو گئے۔ اس موقع پر ہر جانب بھگدڑ مچ گئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ایوان زیریں میں اجلاس کے دوران 2 افراد کے داخل ہونے پر بھگدڑ مچ گئی، اندر داخل ہونے والے افراد کے پاس سموک بھی موجود تھے۔

    بھارتی لوک سبھا کا اجلاس بھگدڑ مچنے کے سبب ملتوی کر دیا گیا۔ سکیورٹی کی ناقص صورت حال پر لوک سبھا کے اراکین نے اداروں کے کردار پر سوال اُٹھا دیئے۔

    واضح رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ پر 2001 میں بھی حملہ ہوا تھا جس کا ذمہ دار بھارت نے پاکستان کو ٹھہرایا تھا۔

    اسرائیل نے حماس کی سُرنگوں میں پانی بہانا شروع کر دیا، تصاویر سامنے آگئیں

    بھارت کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ اپنے ملک کی سکیورٹی خود سے کنٹرول نہیں ہوتی اور کسی بھی واقعے کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔

  • بھارتی پارلیمنٹ کی دیوار پر ’اکھنڈ بھارت‘ کے نقشے نے مودی کی انتہا پسندی بے نقاب کر دی

    بھارتی پارلیمنٹ کی دیوار پر ’اکھنڈ بھارت‘ کے نقشے نے مودی کی انتہا پسندی بے نقاب کر دی

    مُودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا، بھارتی پارلیمنٹ کی دیوار پر ’اکھنڈ بھارت‘ کے نقشے نے مودی کی انتہا پسندی کو دنیا پر منکشف کر دیا۔

    بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر قدیم ہندوستانی سوچ کے اثر کو ظاہر کرنے والی دیوار پر منظر کشی نے ظاہر کیا کہ یہ اکھنڈ بھارت کے عزم کی نمائندگی کرتا ہے، جسے آر ایس ایس نے ’ثقافتی تصور‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

    آر ایس ایس کے مطابق، اکھنڈ بھارت تصور سے مراد غیر منقسم ہندوستان ہے جس کی جغرافیائی وسعت قدیم زمانے میں بہت وسیع تھی یعنی موجودہ افغانستان، پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، میانمار اور تھائی لینڈ۔

    مودی سرکار اب بہ ضد ہے کہ اکھنڈ بھارت کے تصور کو موجودہ دور میں، آزادی کے وقت مذہبی خطوط پر ہندوستان کی تقسیم کو دیکھتے ہوئے، ثقافتی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے نہ کہ سیاسی طور پر۔

    نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح نریندر مُودی نے 28 مئی کو کیا تھا جو ماضی کی اہم ریاستوں اور شہروں کو نشان زد اور موجودہ پاکستان میں اس وقت کے ٹیکسلا میں قدیم ہندوستان کے اثر کو ظاہر کرتا ہے، بی جے پی کی کرناٹک یونٹ نے نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر آرٹ ورکس کی تصویریں شیئر کیں، جن میں قدیم ہندوستان، چانکیہ، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بی آر امبیڈکر اور ملک کے ثقافتی تنوع کے نقشے شامل ہیں۔

    کرناٹک کے بی جے پی رہنما نے لکھا: ’’نئی پارلیمنٹ میں اکھنڈ بھارت ہمارے طاقت ور اور خود انحصار ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ ممبئی سے لوک سبھا کے رکن منوج کوٹک نے کہا ’’ہماری سوچ تھی کہ قدیم زمانے میں ہندوستانی فکر کے اثر کو ظاہر کرنا ہے، یہ شمال مغربی خطے میں موجودہ افغانستان سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔‘‘

  • بھارتی پارلیمنٹ نے راہول گاندھی کو نااہل قرار دیدیا

    بھارتی پارلیمنٹ نے راہول گاندھی کو نااہل قرار دیدیا

    بھارتی پارلیمنٹ نے مرکزی اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کو نااہل قرار دے دیا۔

    غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ نے گزشتہ روز بھارتی عدالت کی جانب سے ہتک عزت کیس میں 2 سال قید کی سزا کے فیصلے کے بعد راہول گاندھی کو نااہل قرار دیا ہے۔

    پارلیمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی اپوزیشن رہنما راہول گاندھی لوک سبھا (ایوان زیریں)  کے رکن کے لیے نااہل ہیں، خیال رہے کہ راہول گاندھی بھارتی ریاست کیرالہ سے لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔

    کانگریس رہنما راہول گاندھی کو 2سال قید کی سزا سنا دی گئی

    واضح رہے کہ کانگریس رہنما راہول گاندھی  نے 2019 میں ایک انتخابی ریلی کے دوران مودی سرنیم سے متعلق بیان دیا تھا،گزشتہ روز  عدالت نے راہول گاندھی کو دو سال قید کی سزا سنا کر فوری ضمانت منظور کرلی تھی۔

    دوسری جانب کانگریس کے عہدیداروں نے عدالتی حکم کو سیاسی انتقام قرار دیا اور  کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے۔

  • آکسیجن اور ویکسین کے لیے ترستے بھارت میں مودی حکومت کی پارلیمنٹ پر اربوں روپے کی بارش

    آکسیجن اور ویکسین کے لیے ترستے بھارت میں مودی حکومت کی پارلیمنٹ پر اربوں روپے کی بارش

    نئی دہلی: ایک طرف بھارت آکسیجن اور کرونا ویکسین کے لیے ترس رہا ہے، دوسری طرف مودی حکومت نے پارلیمنٹ پر اربوں روپے خرچ کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق مودی حکومت 1.8 ارب ڈالرز پارلیمنٹ پر خرچ کرے گی، یہ منصوبہ ایسے وقت اور حالات میں سامنے آیا ہے جب بھارت میں کرونا وائرس اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے، عوام آکسیجن اور ویکسین کے لیے ترس رہے ہیں، ہر روز ریکارڈ نئے مریض سامنے آ رہے ہیں اور ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی پارلیمنٹ کی تزئین و آرائش اور اپنے لیے نئی رہائش گاہ کے قیام کے لیے 1.8 ارب ڈالرز کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، عوام اور حزب اختلاف نے اس منصوبے پر کام جاری رکھنے کے فیصلے پر غیض و غضب کا اظہار کیا ہے۔

    اس منصوبے کو حکومت نے ضروری کے زمرے میں رکھا ہے یعنی اس کی تعمیر جاری رکھنے کی اجازت ہوگی جب کہ دیگر تعمیراتی منصوبے کرونا وبا کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔

    دو شہریوں نے دہلی کے ہائی کورٹ میں اس منصوبے کو رکوانے کے لیے درخواست بھی دائر کی، جس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی عمارتیں اس وقت ضروری نہیں ہیں، تعمیراتی کام بڑے پیمانے پر کو وِڈ پھیلانے کا سبب بھی بن سکتا ہے، تاہم ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے لیے رواں ماہ کے آخر کی تاریخ دی تو درخواست گزار سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ماتحت عدالت کو اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ یہ منصوبہ کرونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے بھی متنازع تھا، ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے شہر کے تاریخی ورثے کو نقصان پہنچے گا۔ 86 ایکڑ پر پھیلے اس منصوبے کے بارے میں نریندر مودی کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی تعمیر کا آغاز ہماری جمہوری روایات کے اہم سنگ میل میں سے ایک ہے۔

    منصوبے کے مطابق پارلیمان کی عمارت کی توسیع اور نئی عمارت کی تعمیر نومبر 2022 میں مکمل ہوگی، وزیر اعظم کی رہائش گاہ کی تکمیل دسمبر 2022 تک ہوگی، پورا منصوبہ 2026 کے اختتام تک مکمل ہوگا۔

    سابق ویر خزانہ و امورِ خارجہ یشونت سنہا نے ٹوئٹ کیا کہ لوگ کرونا سے مر رہے ہیں لیکن مودی کی ترجیح سینٹرل وِسٹا پروجیکٹ ہے، اس کی بجائے اسپتال تعمیر کرنے کی ضرورت تھی، عوام کو دولت اور طاقت کے زعم میں مبتلا اس نفسیاتی مریض کو منتخب کرنے کی اور کتنی قیمت ادا کرنا پڑے گی؟

  • مقبوضہ کشمیر، 24سے زائد حریت کارکنوں کو گرفتار کر کے آگرہ منتقل کردیا

    مقبوضہ کشمیر، 24سے زائد حریت کارکنوں کو گرفتار کر کے آگرہ منتقل کردیا

    سری نگر:مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی قابض انتظامیہ نے دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف مقبوضہ علاقے میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے 24سے زائد حریت کارکنوں کو گرفتار کر کے سرینگر سے آگرہ منتقل کردیا ہے ۔

    کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق گرفتار حریت کارکنوںکو بھارتی فضائیہ کے خصوصی طیارے میں اتر پردیش منتقل کر کے آگرہ سینٹرل جیل میں نظربند کردیاگیا۔

    اطلاعات کے مطابق ان کارکنوں کو ممکنہ طورپر پتھراؤ میں ملوث قراردیکر مقبوضہ کشمیر سے باہر منتقل کردیاگیا ہے ۔ بھارت میں نریندر مودی کی فرقہ پرست حکومت نے پیر کو دفعہ 370جس کے تحت جموںوکشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی کی منسوخی کے اعلان سے قبل مقبوضہ کشمیر کا مکمل طور پر فوجی محاصرے کرلیا تھا ۔

    ادھر بھارتی نیشنل کانگرس کے رکن پارلیمنٹ اور مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد اور کشمیر میںکانگرس کے سربراہ غلام احمد میر کودونوں رہنماؤں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سری نگر ائیر پورٹ پر حراست میں لےکر واپس نئی دلی منتقل کردیا گیا۔

    بھارتی حکام کو تشویش ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو کشمیریوں تک رسائی دینے سے خطے کی صورتحال مزید کشیدہ ہو جائے گی جہاں پہلے سے ہی سخت کرفیو اور دیگر پابندیاں عائد ہیں۔

    مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے دفعہ 370کی منسوخی کا بل منظور کرنے سے ایک دن قبل سے 4اگست سے مسلسل پابندیاں اور کرفیو نافذ ہے جبکہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی بھاری تعداد کو بھی مقبوضہ علاقے میں تعینات کیاگیا ہے۔

  • وزیر اعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے

    وزیر اعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے

    اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں حیثیت تبدیل کرنے ، اور وادی کی مخدوش صورتحال پرپاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوگیا ، اجلاس اپوزیشن اور حکومت کے ڈیڈ لاک کے سبب ملتوی کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے زیر صدارت ہورہا ہے ، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو موجود ہیں، ساتھ ہی اس اجلاس میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ حید ر بھی اپنی کابینہ کے ساتھ شریک ہیں جبکہ  وزیر اعظم عمران خان بھی اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ پہنچ چکے ہیں۔

    اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری سمیت دیگر اسیر ممبران پارلیمنٹ کے پراڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا۔

    تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے تحریک پیش کی جس میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا ذکر نہ ہونے پر پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے احتجاج کیا اور اس میں ترمیم کرنے کا کہا، شیخ رشید نے بھی ربانی کے موقف کی تائید کی۔

    آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    اپوزیشن کی جانب سے نکتہ اعتراض کے بعد حکومت کی جانب سے تحریک میں ترمیم کردی گئی تاہم اپوزیشن کی جانب سے احتجاج جاری رہا جس کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے 20 منٹ کے لیے اجلاس ملتوی کردیا۔

    اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو وزیراعظم عمران خان کی شرکت سے مشروط کردیا ہے جس کے سبب اجلاس تاحال تعطل کا شکار ہے، وزیر اعظم اپنے چیمبر میں کشمیر پر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہم ملاقاتیں کررہے ہیں۔

    دوسری جانب حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے سابق صدر آصف زرداری کے پراڈکشن آرڈر جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد سابق صدر کو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچایا گیا۔

    خیال رہے بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگرقومی رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

    گزشتہ روز بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھارتی وزیرداخلہ نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا تھا، تجویز کے تحت کشمیریوں کو حاصل خصوصی حقوق ختم کردیے گئے ہیں اور غیر مقامی افراد مقبوضہ کشمیر میں سرکاری نوکریاں اور جائیدادحاصل کرسکیں گے۔

    بعد ازاں بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے اور گورنر کا عہدہ ختم کرکے اختیارات کونسل آف منسٹرز کو دے دیئے، جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔

  • اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر جانا چاہیے، راجہ فاروق حیدر

    اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر جانا چاہیے، راجہ فاروق حیدر

    اسلام آباد: وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ کشمیری بھارتی آئین کو تسلیم نہیں کرتے، کبھی بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر جانا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کیےجانے پر تبصرہ کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارتی حکومت خودتذبذب کا شکار ہے۔بھارت کشمیریوں کے حقوق سلب کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام اکائیاں مسئلہ کشمیر پر متفق ہیں،حکومت نےکل اس معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا ہے۔بھارت کےخلاف عالمی سطح پرسفارتکاری کی ضرورت ہے۔

    وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مطابق بھارت نے کشمیر کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے ، کلسٹر بم استعمال کرکےمقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔مودی کے پاس وقت کم ہے وہ ایک دو دن میں کچھ نہ کچھ کرسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم بھارتی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت آٹیکل 35 کی وجہ سے کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتا تھا۔ اب بھارت کشمیریوں رہنماؤں پر ہی طرح طرح کے الزامات لگارہا ہے،حریت رہنما یاسین ملک کی صحت بہت خراب ہے، بھارت یاسین ملک کوسلو پوائزنگ کر رہا ہے اورنظر بند حریت قائدین پر ذہنی و جسمانی ٹارچر کر رہا ہے۔

    آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    ان کا کہنا تھا کہ کشمیری کبھی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کو برداشت نہیں کریں گے، جموں کشمیر بھارت کا حصہ ہی نہیں ہے۔ہمیں بھارت سے کچھ پرانا حساب بھی چکانا ہےکشمیری اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

    راجہ فاروق کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو پاک فوج پر پورا بھروسا ہے، پاک فوج بھارت کی ہرقسم کی مہم جوئی کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔بھارت عالمی سطح پر پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے، اس صورتحال میں اقوام متحدہ کی فیکٹ فائیڈنگ کمیٹی کو مقبوضہ کشمیر میں آنا چاہیئے۔

    کشمیری پاک فوج کے شانہ بشانہ ملکی سرحدوں کا دفاع کریں گے ،بھارت نے جارحیت کی تو آزادکشمیر کا بچہ بچہ دھرتی کا دفاع کرے گا۔ جنگ کی صورت میں کشمیر بھارتی فوج کا قبرستان ثابت ہو گا۔

    یاد رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں آج وہاں کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے آئین میں خصوصی طور پر موجود آرٹیکل 370 ختم کرنے کے لیے بل پیش کیا جس پر صدر نے پر دستخط کردیے ، اس آرٹیکل کے ختم ہونے سے کشمیر کی ڈیمو گرافی کو شدید نقصان پہنچے گا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

  • آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    بھارتی پارلیمنٹ میں آج وہاں کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے آئین میں خصوصی طور پر موجود آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کردیے، اس آرٹیکل ختم ہونے سےکشمیر کی ڈیمو گرافی کو شدید نقصان پہنچے گا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے اس قانون کو ختم کرنا چاہتی تھی تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے کشمیر پر سے کشمیریوں کا دعویٰ ختم کیا جاسکے۔

    یاد رہے کہ سنہ 1949 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مقبوضی کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھارت نوا ز رہنما شیخ عبد اللہ کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر کے لیے ایک خصوصی آرٹیکل تشکیل دیں۔ اس وقت کے منسٹر گوپال سوامی اینگر نے اس وقت شیخ عبدا للہ کی مشاورت سے آرٹیکل 370 کا مسودہ تیار کیا تھا۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کیا تھا ؟ اس کے تحت مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو بھارت سے کیا تحفظات حاصل تھے ؟۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگان ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائداد نہیں خرید سکتا، یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائداد حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔

    اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔

    اس دفعہ کا مقصد جموں کشمیر کے ریاستی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس دفعہ کا محرک جموں کشمیر کے مہاراجا کے ساتھ ہوا عہد و پیمان ہے جس میں یہ کہا گیا کہ ریاست کو کسی بھی طرح بھارت کے وفاقی آئین کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس کے اہم مقاصد حسب ذیل ہیں:

    ریاست پر بھارت کے مرکزی آئین کا صرف کچھ امور میں نفاذ ہوگا۔
    ریاست اپنا آئین وضع کرے گی جو ریاست میں سرکاری ڈھانچے کو تشکیل دے گا۔
    مرکزی حکومت کی کوئی بھی انتظامی تبدیلی صرف اس وقت ریاست میں کی جا سکے گی جب ریاستی اسمبلی اجازت دے گی۔
    اس دفعہ کو صرف اس وقت تبدیل کیا جاسکتا ہے جب دفعہ میں تبدیلی کے تقاضے پورے ہوں اور ریاست کی مرضی اس میں شامل ہو جس کی ترجمانی وہاں کی ریاستی اسمبلی کرتی ہے۔
    دفعہ میں تبدیلی صرف ریاستی اسمبلی کی سفارشوں پر کی جاسکتی ہے، مرکز اس کا مجاز نہیں ہے۔

    بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے پیش کردہ بل

    بھارتی سرکار کی جانب سے پیش کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر کو جغرافیائی طور پر ایک با ر پھر ری آرگنائز کیا جائے گا۔

    جموں و کشمیر کو باقاعدہ یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا جائے گا، جس کی اسمبلی بھی ہوگی اور لداخ کو بغیر کسی مقننہ کے یونین ٹیریٹری کے طور پر رکھا جائے گا۔

    دوسری جانب بھارتی اپوزیشن کا ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔

    بھارتی وزیرداخلہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی سرکارنے آرٹیکل35 اے ختم کیا تو مخالفت کریں گے جبکہ کانگریسی رہنما کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قانون پر مشورہ نہیں کیا۔

    مقبوضہ کشمیر کی صورتحال

    یاد رہے اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں دفعہ ایک چوالیس نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    غیر ملکی سیاحوں اور صحافیوں کو فوری طور پر علاقہ چھوڑدینے کا کہا گیا تھا جس کے بعد خطے میں سراسیمگی کی صورتحال تھی۔ کشمیری رہنماؤں نے اس معاملے پر مسلم امہ سے مدد کی اپیل بھی کی تھی۔