Tag: بھارتی کسان

  • مودی سرکار سے مذاکرات ناکام، کسانوں کا پنجاب بند کرنے کا اعلان

    مودی سرکار سے مذاکرات ناکام، کسانوں کا پنجاب بند کرنے کا اعلان

    نئی دہلی: مودی سرکار سے مذاکرات ناکام ہونے پر کسانوں نے پنجاب بند کرنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پڑوسی ملک بھارت میں کسانوں نے مودی سرکار سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد نئی تحریک کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’پنجاب کو بند کر دو۔‘‘

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہریانہ اور پنجاب کی یونینوں نے ریاست کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، مودی سرکار کی کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج جاری ہے۔

    بھارتی پنجاب کی تمام سڑکیں بند کر دی گئی ہیں، بازار اور کاروباری مراکز بھی بند ہیں، سڑکوں سے ٹریفک غائب ہے، پنجاب یونیورسٹی اور گرونانک یونیورسٹی نے امتحانات ملتوی کر دیے، منڈیوں میں پھل اور سبزیوں کی فراہمی بھی بند کر دی گئی ہے، دودھ فروش بھی سڑکوں پر نہیں آئے۔

    نریندر مودی بھی محمد رفیع کی آواز کے گُن گانے لگے

    احتجاج کے دوران 200 مقامات پر پہیہ جام اور 50 مقامات پر ریلوے ٹریک کو بند کر دیا گیا ہے، کسانوں نے پہلے ’دہلی چلو‘ تحریک پھر ’ریل روکو‘ تحریک چلائی، اور آج ’پنجاب بند‘ تحریک کا اعلان کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ پنجاب کے کسانوں نے مودی حکومت کے سامنے 14 مطالبات رکھے ہیں، جن میں مرکزی مطالبات یہ ہیں کہ ایسا قانون لایا جائے جو فصل کی قیمتوں کے ساتھ ملک بھر کے کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت پر تمام فصلوں کی خریداری کی ضمانت دے، کسانوں اور مزدوروں کے لیے مکمل قرض معافی دی جائے، ملک بھر میں حصول اراضی ایکٹ 2013 بحال کیا جائے جس میں کسانوں کی تحریری رضامندی یقینی ہو، اکتوبر 2021 لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف اور مجرموں کو سزا دی جائے، ہندوستان کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) سے دست بردار ہونا چاہیے، اور تمام آزاد تجارتی معاہدوں کو معطل کرنا چاہیے۔

    کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ زراعت کی مارکیٹنگ سے متعلق قومی پالیسی کے فریم ورک کو لاگو نہیں کیا جانا چاہیے، کسانوں اور زرعی مزدوروں کو پنشن دی جائے، دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کے دوران مرنے والے کسانوں کے لیے معاوضہ، ہر متاثرہ کے خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے، اور بجلی ترمیمی بل 2020 کو منسوخ کیا جائے۔

  • کسان دیوس، کسانوں کا دن، بھارتی حکومت سے کسانوں کی مایوسی

    کسان دیوس، کسانوں کا دن، بھارتی حکومت سے کسانوں کی مایوسی

    بھارت میں کسانوں کا احتجاج ایک مستقل رجحان بن چکا ہے، جس میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات نمایاں طور پر شامل ہیں۔ بھارتی قومی جرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 سے 2022 کے درمیان 42,000 کسانوں نے خودکشی کی۔

    بھارت کے غریب کسان ذخیرہ اندوزی کی کمی، غیر مؤثر خریداری، اور ناکافی کم از کم سپورٹ قیمت (MSP) جیسے سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ کھاد تک رسائی کی کمی اور کم فروخت قیمت، بنیادی طور پر حکومت کی سپلائی اور طلب کے فرق کو ختم کرنے میں ناکامی اور ان کے مطالبات پر عدم توجہی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔

    پنجاب، ہریانہ، اور اتر پردیش جیسے ریاستوں کے کسانوں کو اکثر ’خالصتانی‘ کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ مودی حکومت پر ان کے جائز احتجاجات کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ستمبر 2020 میں بھارت نے تین متنازعہ زرعی قوانین متعارف کرائے، جن کا مقصد اس شعبے کو غیر منظم کرنا تھا، تاکہ کسان سرکاری منڈیوں کے علاوہ پیداوار فروخت کر سکیں اور نجی معاہدے کر سکیں۔

    پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے ان قوانین کو اپنے روزگار کے لیے خطرہ سمجھا، کم از کم سپورٹ قیمت (MSP) کے نظام کے خاتمے اور بڑی کارپوریشنوں کے ممکنہ استحصال کے خدشات ظاہر کیے۔ اس تصور نے بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں نومبر 2020 میں ہزاروں کسان دہلی کی طرف مارچ کرنے لگے۔

    شہر میں داخلے سے روک دیے جانے پر کسانوں نے سنگھو، ٹکری، اور غازی پور کے بارڈرز پر بڑے احتجاجی کیمپ قائم کیے۔ یہ احتجاج عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا اور بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا تاکہ وہ کسانوں کے مطالبات پر غور کرے۔ 26 جنوری 2021 کو دہلی میں ایک بڑے ٹریکٹر ریلی کا مقصد پرامن احتجاج تھا، لیکن یہ جزوی طور پر پرتشدد ہو گیا، جس سے پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور قومی و بین الاقوامی توجہ حاصل ہوئی۔

    حکومت نے قوانین کو 18 ماہ کے لیے معطل کرنے اور خدشات کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی، لیکن کسان ثابت قدم رہے، جس سے طویل تعطل پیدا ہوا۔ مظاہروں کو عالمی توجہ حاصل ہوئی، جس نے بھارتی حکومت پر دوبارہ غور کرنے کا دباؤ ڈالا۔ 19 نومبر 2021 کو وزیر اعظم مودی نے تین زرعی قوانین کے خاتمے کا اعلان کیا۔ 29 نومبر کو فارم لاز ریپیل بل منظور کیا گیا، جو کسانوں کے لیے ایک بڑی جیت تھی۔

    اس خاتمے کے باوجود، کسان قانونی گارنٹی کے لیے MSP اور اضافی تحفظات کا مطالبہ کرتے رہے، جو بھارت کے زرعی شعبے کے مستقل مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ 2024 میں، کسانوں نے احتجاجی مظاہرے دوبارہ شروع کیے، فصلوں کی قیمتوں کی ضمانت اور دیگر معاون اقدامات کے لیے آواز بلند کی، جو بھارت کی سماجی و سیاسی بحث میں زراعت کی مرکزیت کو اجاگر کرتا ہے۔ پنجاب میں فصلوں کی قیمتوں اور دیگر شکایات پر مرکوز نئے احتجاجی مظاہروں نے ریل سروسز میں خلل ڈالا، جو بڑھتے ہوئے تنازعات کی نشان دہی کرتا ہے۔

    حال ہی میں، مذاکرات کی ناکامی کے بعد کسانوں نے ’ریل روکو‘ (ٹرینیں روکو) حکمت عملی اپنائی ہے اور 30 دسمبر تک مسائل کے حل نہ ہونے کی صورت میں پنجاب بند کی وارننگ دی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کے تحت بھارت کی ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیلی نے پس ماندہ طبقات، بشمول کسانوں، کو نظرانداز کر دیا ہے، جو ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

    یہ بھارتی کسانوں اور دیگر پس ماندہ طبقات کے لیے ایک اہم موقع ہے کہ وہ موجودہ بیانیے کو چیلنج کریں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے نظامی تبدیلی کا مطالبہ کریں۔

  • بھارتی کسان مظاہرین کا 14مارچ کو دہلی میں مہاپنچایت کا مطالبہ

    بھارتی کسان مظاہرین کا 14مارچ کو دہلی میں مہاپنچایت کا مطالبہ

    بھارتی کسان مظاہرین نے 14مارچ کو دہلی میں مہاپنچایت کا مطالبہ کرتے ہوئے جنترمنتر کی طرف مارچ شروع کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کسانوں کا دہلی چلو مارچ25ویں روز میں داخل ہوگیا ، دہلی چلومارچ کے25ویں روزبھی ہریانہ پولیس کا کسان مظاہرین پر تشدد جاری ہے۔

    کسان رہنماؤں کا نئے نظام پر حکومت کی پیشکش کو ٹھکرانے کے بعد دوبارہ احتجاج کیا ، دہلی پولیس سے اجازت نہ ملنے کے باوجود کسانوں نے جنترمنتر کی طرف مارچ شروع کردیا ہے۔

    جس کے بعد دہلی پولیس کی جانب سے بھارتی کسان مظاہرین کی گرفتاریاں شروع کردیں گئیں ہیں، بھارتی کسان مظاہرین نے 14مارچ کودہلی میں مہاپنچایت کا مطالبہ کردیا ہے۔

    سمیوکت کسان مورچہ نے 14 مارچ کو دہلی میں مہاپنچایت کی کال دی، خبر رساں ادارے رائٹرز نے بتایا کہ درجنوں احتجاج کرنیوالے کسانوں کودہلی جاتےہوئےحراست میں لے لیا گیا، دہلی پولیس نے گرفتاریوں کومحض ایک ڈرامہ قراردے کرتحقیقات سے انکار کردیا ہے۔

    بی بی سی کا کہنا تھا کہ مارچ روکنےکیلئےمودی سرکار نےدہلی کی سرحدوں پررکاوٹیں،پولیس تعینات کردی جبکہ تجزیہ کار نے کہا ہے کہ مودی کوحکومتی انتخابات کےاتنےقریب کسانوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

    کسان مظاہرین کی جانب سے10مارچ کوملک بھرمیں ریل روکوتحریک کی بھی کال دی گئی جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نےبھی کسانوں کےمطالبات پرغورکرنے سے بھی انکار کردیا۔

    کسانوں کے احتجاج کے باعث بھارتی پنجاب ڈیزل اورسلنڈر گیس کےسنگین بحران کا شکار ہے، یہ نام نہادجمہوریت کےدعوؤں کا ثبوت ہے کہ بھارتی سرکاراپنےکسانوں کوکچلنےمیں مصروف ہے۔

    مودی سرکارکسانوں کےآزادی حق رائےکوختم کرکے انتہاپسندپالیسیوں کوپروان چڑھاناچاہتی ہے اور کسانوں کےحقوق کی پامالی میں نام نہاد انصاف کاراگ الاپنے والی بھارتی عدلیہ بھی آلائے کاربن ی ہوئی ہے۔

  • ویڈیو رپورٹ: بھارتی کسانوں‌ کا دہلی چلو مارچ 18 ویں روز بھی جاری

    ویڈیو رپورٹ: بھارتی کسانوں‌ کا دہلی چلو مارچ 18 ویں روز بھی جاری

    بھارتی کسانوں‌ کا دہلی چلو مارچ 18 ویں روز بھی جاری ہے جب کہ ہریانہ پولیس کی جانب سے بھی کسان مظاہرین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کسان رہنماؤں نے نئے نظام پر حکومت کی پیشکش کو ٹھکرانے کے بعد احتجاج دوبارہ سے شروع کر دیا ہے، ہریانہ پولیس نے دہلی چلو مارچ میں ملوث مظاہرین کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے دی ہے، جب کہ ہیومن رائٹس واچ نے کسانوں کے احتجاج پر ایک چشم کشا رپورٹ شائع کر دی ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کا حق ہے کہ وہ پر امن احتجاج کریں، دہلی چلو مارچ کو روکنے کے لیے حکام کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہیں، اور کسانوں پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا، بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے پر امن مظاہروں کا بار بار کریک ڈاؤن کیا۔

    دوسری طرف بھارتی سکھ شبھ کرن سنگھ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق شبھ کرن کے سر سے میٹل پیلیٹس برآمد ہوئی ہیں، جو ڈاکٹرز نے پولیس کے حوالے کر دیے، احتجاج کرنے والے کسانوں کے ویزے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

    اندرانی مکھرجی سیریز : شینا بورا قتل کیس کی کیا کہانی ہے؟

    کسانوں کے احتجاج کے باعث پنجاب ڈیزل اور سلنڈر گیس کے سنگین بحران کا شکار ہو چکا ہے، کسانوں کے بھارتی دارالحکومت کی جانب ٹریکٹر مارچ سے دہلی-نوئیڈا سرحد پر شدید ٹریفک متاثر ہے، ہزاروں کسان کا دہلی سے 200 کلومیٹر دور پنجاب-ہریانہ سرحد پر احتجاج جاری ہے۔

    مارچ کے باعث ہریانہ- امبالہ کے علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس دوبارہ معطل کر دی گئی ہے، پنجاب سے باہر بھی کسان یونینز نے احتجاج کو وسیع کرنے کی کال دے دی ہے۔

  • بھارتی کسانوں نے حکومت کا امدادی قیمت کا معاہدہ مسترد کر دیا

    بھارتی کسانوں نے حکومت کا امدادی قیمت کا معاہدہ مسترد کر دیا

    نئی دہلی: بھارتی کسانوں نے حکومت کا امدادی قیمت کا معاہدہ مسترد کر دیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق بھارتی کسانوں کی یونینوں نے مودی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ کم از کم امدادی قیمتوں (MSPs) کے پانچ سالہ معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔

    سیکیورٹی فورسز اور کسان مظاہرین کے درمیان ہفتہ بھر کے تصادم کے بعد اتوار کو وزیر تجارت پیوش گوئل نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے احتجاج ختم کرانے کے لیے دالوں، مکئی اور کپاس کی ضمانت شدہ امدادی قیمتوں کی پیشکش کی ہے۔

    کسانوں کی یونینز کی جانب سے تقریباً 2 درجن فصلوں کے لیے قانون کے مطابق زیادہ قیمتوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، یونینوں کے رہنما جگجیت سنگھ دلیوال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر کہا کہ حکومتی تجویز کو انھوں نے مسترد کر دیا ہے۔

    وزیر تجارت نے کہا تھا کہ حکومت نے کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمتوں کے لیے پانچ سالہ معاہدے کے تحت کپاس، مٹر، کالی دال، سرخ دال اور مکئی وغیرہ کی فصلیں کوآپریٹو گروپس خریدیں گے اور مقدار کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ تاہم زرعی تجزیہ کاروں کہا کہنا ہے کہ حکومت نے کسانوں کے مطالبات کو پوری طرح نظر انداز کر دیا ہے۔

  • کسانوں نے پولیس ڈرون کیسے گرایا؟ حیرت انگیز ویڈیو

    کسانوں نے پولیس ڈرون کیسے گرایا؟ حیرت انگیز ویڈیو

    نئی دہلی: بھارت میں سراپا احتجاج کسانوں نے پتنگ سے پولیس ڈرون گرانے کا حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کئی دنوں سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے، جسے فی الوقت روک دیا گیا ہے کیوں کہ اتوار کو حکومتی وزرا کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور چلے گا، تاہم اس احتجاج کے دوران گزشتہ دنوں ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔

    دہلی میں داخل ہونے کے لیے احتجاج کے دوران پولیس نے کسانوں پر لاٹھی چارج کیا اور کئی مقامات پر ان پر آنسو گیس کے گولے بھی داغے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں، پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑنے کے لیے ڈرونز کا بھی استعمال کیا۔

    تاہم ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کسانوں نے حیرت انگیز طور پر پتنگ اڑا کر اس کے ذریعے ڈرون کو زمین پر گرا دیا، جس سے لگتا ہے کہ کسانوں نے بھی اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری تیاری کی ہوئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق مظاہروں کے دوران کسانوں نے پتنگیں اڑا کر اپنے اوپر آسمان پر اڑنے والے ڈرونوں کو نیچے گرانے کی کوششیں کیں، امبالا کے قریب شمبھو بارڈر پر پتنگ کے ذریعے آخر کار ایک ڈرون گرانے میں کسان کامیاب ہو گئے۔

    سوشل میڈیا پر کسانوں کی جانب سے پولیس انتظامیہ کے ڈرون پر اس دیسی ’جگاڑ‘ سے حملے کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ کسان بھارت کی مودی حکومت سے اپنی فصلوں کی زیادہ قیمتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

  • بھارتی کسانوں کا دہلی چلو مارچ، پولیس کا مظاہرین پر بدترین تشدد

    بھارتی کسانوں کا دہلی چلو مارچ، پولیس کا مظاہرین پر بدترین تشدد

    بھارت میں کسانوں کی جانب سے اپنے مطالبات کے حصول کے لئے دہلی چلو مارچ چوتھے روز بھی جاری ہے، اس دوران پولیس سے تصادم کے باعث 100 سے زائد مظاہرین شدید زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق مودی سرکار اور ہریانہ پولیس کی جانب سے سکھ کسانوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے، دہلی چلو مارچ کے شرکاء پرہریانہ پولیس کی جانب سے شیلنگ، پیلٹ گن سے وار کئے گئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ مظاہرین کیخلاف تصادم میں 3 کسان بینائی سے محروم ہوگئے، 100 سے زائد مظاہرین شدید زخمی ہو کر اسپتال منتقل ہوگئے۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہریانہ پولیس نے کسانوں کو روکنے کیلئے آنسو گیس کے گولے، ربڑکی گولیاں چلائیں۔

    وزیر صحت پنجاب کے مطابق ہم نے 3 کسان مظاہرین کی آنکھوں کا معائنہ کیا مگر ہم ان کی بینائی نہیں بچاسکے۔ کسانوں کی بینائی پیلٹ گنز کے استعمال سے گئی ہے۔

    بھارتی کسانوں کا آج سے پنجاب بھر میں ریلوے سروس معطل کرنے کا اعلان

    بھارتی کسانوں کی جانب سے واضح اعلان کیا گیا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا اور مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے باوجود اپنے حق کیلئے ڈٹے رہیں گے۔

  • ویڈیو رپورٹ: کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگ گئے، کرفیو نافذ

    ویڈیو رپورٹ: کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگ گئے، کرفیو نافذ

    نئی دہلی: کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگ گئے، کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی کسانوں کا 13 فروری کو شروع ہونے والا ’دہلی چلو‘ مارچ جاری ہے، دہلی اور اطراف میں شدید ٹریفک جام سے شہری سخت اذیت سے دوچار ہو گئے ہیں، جب کہ کسانوں کی جانب سے مطالبات کی منظوری تک مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    دو سال قبل بھی نئی دہلی کی سرحدوں پر کسان اپنے مطالبات کے لیے کئی مہینوں تک سراپا احتجاج رہے، کسانوں کو نئی دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے بھارتی پولیس نے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگاتے ہوئے ایک ماہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

    ہندوستان ٹائمز کے مطابق مارچ میں شریک کسان مظاہرین کی طرف سے مودی سرکار سے قانونی ایم ایس پی کی ضمانت، کسانوں اور مزدوروں کے لیے پینشن، کسانوں کے قرضوں کی معافی اور لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف کے مطالبات کیے گئے ہیں۔

    بھارتی کسان کہتے ہیں کہ مودی سرکار کسانوں کو رعایت دینے کے وعدے سے مکر گئی ہے، مارچ کو روکنے کے لیے سرکار ہم پر دباوٴ ڈال رہی ہے، مگر ہم دہلی جانے کے لیے پرعزم ہیں، بھارتی عوام کہتی ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے معیشت کو بے تحاشہ نقصان ہو رہا ہے مگر حکومت سنوائی نہیں کرتی۔

  • گزشتہ دو دہائیوں سے ہندوستانی کسان مودی سرکار کے نشانے پر

    گزشتہ دو دہائیوں سے ہندوستانی کسان مودی سرکار کے نشانے پر

    ہر سال 23 دسمبر کو ہندوستان میں کسانوں کا دن منایا جاتا ہے، بھارت میں کسانوں کی حالت زار ایک عرصے سے ناگفتہ بہ ہے، تاہم مودی کی حکومت کی پالیسیوں نے کسانوں کو بڑی تعداد میں خود کشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔

    گزشتہ دو دہائیوں سے ہندوستانی کسان مودی سرکار کے نشانے پر ہیں، قوانین کے مطابق کسان صرف مخصوص اجناس ہی اگا سکتے ہیں، کنٹریکٹ فارمنگ قوانین کے تحت آڑہت کی منڈیاں ختم ہو نے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    ہندوستانی کسان کہتے ہیں کہ مودی سرکار نے کسانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، مودی سرکار کی جانب سے بنائے گئے قوانین کے مطابق کسان صرف مخصوص اجناس ہی اگا سکتے ہیں، کنٹریکٹ فارمنگ قوانین کے تحت آڑہت کی منڈیاں ختم ہو جائیں گی، نجی خریداروں کو اجازت حاصل ہوگی کہ براہِ راست کسانوں سے ان کی پیداوار خرید کر ذخیرہ کر لیں۔

    مودی سرکار کنٹریکٹ فارمنگ قوانین کے تحت کسانوں کے معاشی قتل عام میں ملوث ہے، 2020 میں بھارتی کسانوں نے مودی سرکار کی پالیسیوں سے نالاں ہو کر بڑے پیمانے پر پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں میں احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا۔

    دسمبر 2020 سے بھارتی کسانوں نے دہلی چلو تحریک اور بھوک ہڑتال کا اعلان کیا تھا، صرف 2019 میں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی جانیں لیں، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 1995 سے اب تک 2 لاکھ سے زائد ہندوستانی کسان خود کشی کر چکے ہیں۔

  • ٹماٹروں پر نظر رکھنے کے لیے بھارتی کسان کا انوکھا اقدام

    ٹماٹروں پر نظر رکھنے کے لیے بھارتی کسان کا انوکھا اقدام

    بھارتی کسان نے ٹماٹروں پر نظر رکھنے۔ انھیں چوری سے بچانے کے لیے انوکھا اقدام کرتے ہوئے اپنے کھیت میں سی سی ٹی وی کیمرہ انسٹال کرلیا۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں ان دنوں ٹماٹروں کو آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ عام آدمی اسے خریدتے ہوئے کئی بار سوچتا ہے، یہ لال سبزی بھارت میں 100 سے 200 روپے کلو میں فروخت ہورہی ہے۔

    مذکورہ کسان کا کہنا تھا کہ اس نے ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اپنے ٹماٹروں کی حفاظت کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے ہیں، کسان کا کھیت ریاست ماہراشٹرا کے اورنگ آباد سے 20 کلو میٹر دور شاہ پور بنجر میں واقع ہے۔

    کھیت سے ٹماٹر چوری ہونے کے بعد کسان یہ اقدام کرنے پر مجبور ہوا ہے، اس نے مقامی اخبار کو بتایا کہ وہ مزید ٹماٹروں کا نقصان برداشت نہیں کرسکتا اس لیے کیمرے نصب کیے۔

    کسان کا کہنا تھا کہ 22 سے 25 کلو کا ٹماٹر کا کریٹ تین ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے، وہ ڈیڑھ ایکڑ پر ٹماٹروں کی کاشتکاری کرتا ہے اور یہ فصل آرام سے چھ سے سات لاکھ بھارتی روپے کے درمیان بنتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ کچھ دنوں قبل فارم سے 20 سے 25 کلو ٹماٹر چوری ہونے کے بعد کیمرے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔