Tag: بھارتی گاؤں

  • شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ، گاؤں باسیوں نے انوکھی شرط عائد کردی

    شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ، گاؤں باسیوں نے انوکھی شرط عائد کردی

    نئی دہلی : بھاکھری گاؤں کی واحد جھیل سوکھ چکی ہے جس کے باعث رہائشیوں نے شادی کی شرط پانی کا ٹینکر رکھ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کے زیادہ تر علاقوں میں شادی کی تاریخ کا تعین عام طور پر پنڈت کرتے ہیں لیکن بھارت کا ایک گاﺅں ایسا ہے جہاں شادی کی تاریخ پانی کے ٹینکر کی بنیاد پر طے ہوتی ہے، یہ جگہ شمالی گجرات میں انڈیا پاکستان کی سرحد پر آباد آخری انڈین گاوُں ہے۔

    بھارتی ٹی وی کے مطابق بھاکھری گاوُں کی واحد جھیل سوکھ چکی ہے اور اب انسان اور جانور دونوں کے پینے کے لیے پانی نہیں ہے لیکن جھیل کے کنارے کھڑا سالوں پرانا ایک درخت خشک سالی کے درمیان اس گاوُں میں ہونے والی شادیوں کا گواہ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ کافی عرصے سے یہاں شادی کا سیزن اور خشک سالی لگ بھگ ایک ساتھ آتے ہیں اور شادیوں میں پانی کے لیے ٹینکرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

    بھاکھری گاوُں کے پیرا بھائی جوشی نے کہا کہ شادی ہو تو یہاں سے 25 کلومیٹر دور سے پانی کے ٹینکر لانے پڑتے ہیں۔

    ان کے مطابق شادی کے سیزن میں یہاں ایک ٹینکر کی قیمت دو ہزار ہوتی ہے اور شادی میں تین چار ٹینکر لگ جاتے ہیں جس کا خرچ آٹھ دس ہزار روپے تک آتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ شادی میں پانی کے ٹینکرز سب سے زیادہ اہم ہیں۔ شادی کے انتظامات میں سب سے پہلا کام بھی پانی کے ٹینکر کا حصول ہے کیونکہ کبھی کبھی چالیس سے پچاس کلومیٹر دور جانے پر بھی ٹینکر کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    گاوُں کے بیکھا بھائی نے کہا کہ یہ ریگستانی علاقہ ہے اور یہاں کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ پلانے کے لیے ہی نہیں کھانا بنانے کے لیے بھی میٹھے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر چھوٹی شادی ہو تو پانچ ٹینکر اور اگر بڑی ہو تو دس ٹینکر پانی بھی کم پڑجاتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان سرحد کی جانب ایک دوسرا گاؤں جلویا ہے۔

    اس گاؤں کے نائب سرپنچ وجے سی ڈوریا کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں میں اور اس علاقے کے تمام گاؤں میں شادیوں کے وقت پانی کے ٹینکرز پر ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔یہ علاقہ دہائیوں سے خشک سالی کی زد میں ہے جو ان کے برتاؤاور ثقافت میں بھی نظر آتا ہے۔

    بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ مسلسل خشک سالی کے سبب اب لوگ شادی کا وقت بدلنے لگے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ہندو رسم و رواج کے مطابق شادیوں کا خاص وقت ہوتا ہے، اب وہ گرمی ختم ہونے یا بارش کی راہ دیکھتے ہیں خواہ شادی کا موسم چلا ہی کیوں نہ گیا ہو۔

  • بھارتی گاؤں جہاں مرغی سے زیادہ چوہے کھائے جاتے ہیں

    بھارتی گاؤں جہاں مرغی سے زیادہ چوہے کھائے جاتے ہیں

    نئی دہلی : بھارت کے کماری کاٹا نامی گاؤں میں تازہ چوہے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے ہیں اور ان قیمت بھی مرغی کے گوشت سے زیادہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست آسام کے کماری کاٹا نامی گاؤں کے رہائشیوں کو چوہوں کا گوشت بے حد پسند ہے اور ہر خاص و عام چوہے کو بڑے شوق سے تناول کرتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ گاؤں میں کچے یا پکے ہوئے چوہے مرغی اور خنزیر سے زیادہ مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔

    کماری کاٹا گاؤں گواہٹی سے 90 کلومیٹر دور بھوٹان اور بھارت کے سرحدی علاقے میں علاقے میں واقع چوہا بازار خاص اہمیت کا حامل ہوگیا ہے جہاں لوگ بڑی تعداد میں کھتیوں سے چوہے شکار کرکے لاتے ہیں اور یہاں فروخت کرتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ گاؤں کے افراد چوہوں کو مختلف انداز سے کھاتے ہیں، کچھ لوگ انہیں ابال کر کھانا پسند کرتے ہیں اور کچھ افراد چوہوں کا بار بی کیوں بناتے ہیں جبکہ بعض لوگ ان کا سالن پکاتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ گاؤں میں چوہے کھیتوں کی خرابی کا باعث بنتے تھے جس کی وجہ سے کسانوں نے چوہوں کا شکار شروع کردیا اور آہستہ آہستہ کرکے یہی چوہے غریبوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق شکاری رات کے وقت بانسوں سے تیار کیے ہوئے شکنجوں کی مدد سے چوہے پکڑتے ہیں۔

    واضح رہے کہ آسام کے چوہا بازار میں چوہے کا ایک کلو گوشت 2.8 امریکی ڈالرز (تقریباً 391 روپے پاکستانی) میں فروخت ہوتا ہے، جو مرغی اور خنزیر کے گوشت سے بھی مہنگا ہے۔