Tag: بھارت میں اردو

  • کیا اردو کے فروغ کے لیے فلم اور میڈیا کسی کام آسکتا ہے؟

    کیا اردو کے فروغ کے لیے فلم اور میڈیا کسی کام آسکتا ہے؟

    موجودہ عہد میں اپنے فکشن اور منفرد تخلیقات کی وجہ سے اردو ادب میں مشرف عالم ذوقی ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔ انھوں نے اردو زبان اور کلچر کے علاوہ دورِ جدید کے موضوعات پر تنقیدی مضامین لکھے۔ ان کی تحریروں‌ کا ایک موضوع فن و ادب اور اس سے وابستہ لوگوں کی مشکلات، جدید دور میں‌ ان کے مسائل اور امکانات رہے ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی نے ناول اور افسانہ نگاری میں انفرادیت کے ساتھ اپنی پہچان بنائی۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کی یہ تحریریں فن اور سماج کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ مستقبل کے خطرات، بڑی تبدیلیوں اور نئے امکانات کا راستہ دکھاتی ہیں۔ یہ مضمون اسی نوعیت کا ہے جس میں مصنف نے بھارت میں اردو زبان کے مسائل اور مستقبل پر بات کی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا مضمون پڑھیے:

    زندہ زبانیں زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہوتی ہیں اور ان کے اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ہر شعبے کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اردو ہماری ضرورت کی حدوں سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اردو بولنے والے معاشرے کے سامنے اب تشخص کے ساتھ زبان کے تحفظ کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اور اسی لیے یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ اردو کو زندہ رکھنے نیز فروغ دینے کے لیے کس طرح کی تدبیریں کی جاسکتی ہیں۔ اور یہیں پر دھند بھرے موسم میں ایک سوال ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے…. کہ کیا اردو کے فروغ کے لیے فلم اور میڈیا ہمارے کسی کام آسکتا ہے؟ دیگر صورت میں اگر فلم اور میڈیا سے بات نہیں بنتی ہے تو اس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟

    ایک وقت تھا جب یہی زبان ہماری بول چال اور رابطے کی زبان تھی۔ یہی وہ شیریں اور دلنشیں زبان تھی جس نے گفتگو کا سلیقہ سکھایا، جینے کے آداب دیے….. گنگا جمنی تہذیب سے رشتہ استوار کیا اور یہی وہ زبان تھی جسے ہماری فلمی صنعت نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہی وہ زبان تھی جس نے غلام ہندوستان اور فرنگیوں سے مورچہ لیا۔ سیاست کے طوفان اور تقسیم کی آندھیوں سے گزری اور لہولہان ہوئی۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ رابطے کی زبان، کروڑوں دلوں کی دھڑکن نظر انداز کیے جانے والے سلوک اور غیریت کی دھول میں کھوتی چلی گئی۔ لیکن اس سوتیلے سلوک کے باوجود یہ اردو زبان بیان کا ہی دم تھا کہ نہ صرف یہ زبان زندہ رہی بلکہ مسلسل جدو جہد کے راستے، اپنوں سے زیادہ غیروں کے دلوں تک کا سفر طے کرتی رہی اور زندہ رہی۔ مگر اب مشکل یہ پیش آ رہی ہے کہ اردو جاننے والی نسل پرانی ہوچکی ہے اور نئی نسل اردو سے بیزار۔ اور اس بیزاری کی وجہ ہے کہ نئی نسل کو اردو میں اپنا مستقبل نظر نہیں آتا۔ اس لیے پہلا سوال یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے فروغ کی صورتیں کیا ہوسکتی ہیں۔ میڈیا اورفلم اردو کی مقبولیت میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    میں بچوں کی پڑھائی کو لے کر اپنی گفتگو کی شروعات کرتا ہوں۔ وقت کے ساتھ ایجوکیشنل سسٹم میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس سسٹم کو ڈیجیٹل ٹکنالوجی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ زیادہ تر گھرانے بچوں کی اردو تعلیم کے لیے پرانی روش پر چل رہے ہیں جب کہ بچے آنکھیں کھولنے کے بعد ہی موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور ٹبلیٹ سے کھیلنے لگتے ہیں۔ یعنی آنکھیں کھولتے ہی وہ خود کو سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے قریب پاتے ہیں۔ لیکن ہوش سنبھالتے ہی اردو اور مذہبی تعلیم کے لیے جو سسٹم ان کے سامنے لایا جاتا ہے، اس میں ان کی دل چسپی نہیں ہوتی۔ میں اپنا ایک تجربہ آپ سے شیئر کررہا ہوں۔ بچوں کی تعلیم کے لیے ای بکس، ویڈیو گیمس اور خوبصورت ٹیبلٹس کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ایک بڑے پبلیکیشن ادارے نے ابھی کچھ دن پہلے مجھ سے رابطہ کیا۔ یہ بچوں کے لیے کتابیں شائع کرتا ہے اور اس کا کروڑوں کا کاروبار ہے۔

    A book of enviormental study کی ایک کتاب تھی جس میں بچوں کو گھر، والدین، پڑوسی، صاف صفائی، صحت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ پبلشر نے میٹنگ میں بتایا کہ بچوں کو اب کتابوں کی ضرورت نہیں۔ انہیں فلم چاہیے۔ مائی سیلف My Faimly، ہیلتھ الگ الگ باب کو لے کر وہ 22 سے 25 منٹ کی فلم شوٹ کرنا چاہتے ہیں۔ میٹنگ میں طے ہوا کہ ہر باب کو فلم کا رنگ دیا جائے۔ اور بچوں کی نفسیات کی سامنے رکھ کر فلم بنائی جائے۔ پبلشر کے ساتھ میری کئی میٹنگس ہوئی۔ پبلشر کا خیال تھا کہ بچے اسپائیڈرمین، آئرن مین اور اسٹار وارس جیسا شو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر پروگرام کی تقسیم کچھ اس طرح ہو کہ 60 فیصد انہیں تفریح فراہم کی جائے اور 40 فیصد تعلیم کا حصہ ہو۔ میری رائے تھی کہ بیسک ایجوکیشن کے لیے بچوں کو اسپائیڈر مین، آئرن مین اور اسٹار وارس کی دنیا میں لے جانا مناسب نہیں۔ انہیں پری اور دیو کی کہانیاں سنائی جائیں۔ مثال کے لیے پرستان سے ایک پری آتی ہے۔ ایک بچہ ہے جو بالکل پڑھنا نہیں چاہتا۔ پری بچے سے ملتی ہے۔ اور وہ اسے پڑھانا شروع کرتی ہے۔ جب ہم بنیادی تعلیم بچوں کو دے چکے ہوں گے تو پھر ہم کچھ زیادہ بڑے بچوں کے لیے مارس، اسٹار وارس جیسی کہانیاں بھی لے آئیں گے۔ ڈائرکٹرس میری بات سے مطمئن تھے….بچوں کو فنٹاسی بھی چاہیے اور تعلیم بھی۔ اور جب آپ دونوں کا مکسچر دیتے ہیں تو پھر بچوں کو تعلیم کی طرف جھکاؤ کے لیے زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تعلیم کو انفوٹینمنٹ سے جوڑنا ہوگا۔

    ایک سروے کے مطابق اس وقت دنیا میں چھ ہزار اور ہندوستان میں 880 زبانیں ہیں جو بولی جاتی ہیں۔ زبانیں تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہیں۔ یونسکو نے زندہ رہنے والی زبانوں میں چینی، انگریزی، جاپانی، ہسپانوی، بنگالی اور ہندی کو ملا کر کل ساتھ زبانوں کو شامل کیا ہے۔ 65۔ 60 سال پہلے ہندوستان میں عام بول چال سے لے کر قانون کی کتابوں تک اردو کا ہی چلن اور رواج تھا۔ آج ہندی محفوظ زبانوں میں شامل ہے اور (ہندوستان میں) اردو گم ہورہی ہے۔ زبانوں کے گم ہو جانے کا مطلب ایک تہذیب کا گم ہوجانا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ قومی اردو کونسل نے اس جانب خصوصی توجہ کیا ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی، اور ڈاکٹر خواجہ اکرام کی ٹیم اس ماڈرن ٹیکنالوجی کی ضرورتوں پر غور کررہی ہے جس کے سہارے اردو زبان کو ڈیجیٹل اور نئی ٹکنالوجی کے ساتھ سیدھے عوام سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے لیے اردو لرننگ کورس کی سہولیت۔ ای بکس کی جانب توجہ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے ذریعہ زبان کو ہر خاص و عام تک لے جانے کا جذبہ۔ اردو کی وکی سائٹ، فونیٹک اور کسٹمائزڈ کی بورڈ کا اجراء۔ اردو کی آن لائن اور آف لائن ڈکشنری، آگے بڑھیں تو ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ، ٹبلیٹ، اینڈ رائیڈ، ونڈوز فون میں اردو کا استعمال، اور اس سے بھی آگے بڑھیں تو اردو ٹولس اور اردو میڈیا کے ذریعہ اردو کو مقبول بنانے کی کوشش اور ان کا فائدہ یہ کہ کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ذریعہ بھی اردو کو روزگار سے جوڑا جاسکتا ہے۔ قومی اردو نے نسل کو زبانوں کو زندہ رہنے کا یہ راز جان لیا ہے کہ زبان کو روزگار کا راستہ دکھا دیں تو اس سے بڑھ کر فروغ کی دوسری کوئی کوشش ہو ہی نہیں ہوسکتی۔

    فلمیں بھی الکٹرانک میڈیا کا ہی حصہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان فلموں میں اردو کا چلن تھا۔ اداکار سے ٹیکنیشئنس تک سب اردو بولنے والے لوگ تھے۔ مکالموں سے گیت تک اردو کا ہی رواج تھا۔ نئی صدی کے 13 برسوں میں اردو فلموں سے گم ہے اور اردو والے بھی۔ منا بھائی ایم بی بی اس اور گینگس آف واسع پور جیسی فلموں سے موالیوں کی زبان کا چلن بڑھا ہے۔ اردو تو کجا ہندی بھی مکالموں سے باہر ہو چکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ صرف تاریک پہلوؤں کو لے کر ہم اپنی زبان کے فروغ کے بارے میں غور نہیں کرسکتے اور نہ صرف ماضی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے سے کوئی بات بنے گی۔ اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ فلموں میں از سر نو اردو کا فروغ کیسے ہو تو اس کے لیے یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ کیا ہماری طرف سے کی جانے والی کوششیں کافی ہیں؟ تو میرا جواب ہے نہیں۔

    فلموں سے غزلوں کا چلن بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ میوزک انڈسٹریز کی توجہ بھی غزلوں سے ہٹ چکی ہے۔ لیکن چیلنج یہی ہے کہ اردو زبان کو تاریکی سے نکال کر اطلاعات ٹکنالوجی کے مقابل کھڑا کیا جائے۔ صارفی سماج کی ضرورتوں اور کمرشلائزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے اردو کو نمایاں طور پر فلم انڈسٹری اور میڈیا میں ایک بار پھر سے مقبول عام بنانے کی ضرورت ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں ایک بڑی دنیا ہارڈ ڈسک، ڈی وی ڈی، پین ڈرائیو میں سما چکی ہے۔ اس ڈیجیٹل اور سائبر دور میں ہم نئی ٹکنالوجی کے سہارے ہی اردو کے فروغ کے بارے میں غور کرسکتے ہیں۔ ابھی حال میں فیس بک اور ٹوئیٹر کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسی سطح پر بزم اردو کی شروعات کی گئی ہے۔ بزم اردو کی معرفت فیس بک کی طرح ہی آپ اپنے خیالات بھی شیئر کرسکتے ہیں، دوست بھی بنا سکتے ہیں۔ تصاویر بھی اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ اردو زبان کو انہی راستوں سے ہو کر مستقبل میں سفر کرنا ہے۔

    انٹرنیٹ نے ہماری آج کی زندگی کو آسان کردیا ہے۔ یہاں آپ کی سہولت کے لیے وہ سب کچھ ہے جس کی آج ایک ترقی یافتہ اور مہذب دنیا کو ضرورت ہے۔ آئن لائن ٹریڈ، آن لائن لرننگ سے لے کر دنیا کی تمام سہولتیں انٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انٹرنیٹ سے اردو کے رشتے کو اور مضبوط بنایا جائے۔ گوگل سرچ انجن نے دیگر کئی زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی شامل کیا ہے۔ آپ گوگل اردو میں جاکر اپنے مطلب کی ایک وسیع وعریض دنیا تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ فیس بک میں اردو کا چلن بڑھا ہے۔ اور پوری دنیا سے ایک بہت بڑی تعداد اردو جاننے والوں کی، ایک دوسرے سے اردو میں رابطے کی پہل کررہی ہے۔ ابھی حال میں جب فیس بک کے عالمی افسانہ میلے کے تحت کہانیوں کی فرمائش کی گئی تو صرف 4 دن کے اندر سو سے زیادہ نئے لکھنے والوں کی کہانیاں اس میلے حصہ تھیں۔ افسانہ میلہ کے نگراں بھی اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ اردو والوں کی اتنی بڑی تعداد اس میلے کا حصہ بن سکتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو ماڈرن انفارمیشن ٹکنالوجی سے قریب کرتے ہیں تو زبان کے فروغ کے راستہ بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اردو یونیکوڈ نے بھی عوامی رابطہ کو آسان بنایا ہے۔ اردو میں ہزاروں ادب کی سائٹس، ڈیجیٹل لائبریریاں موجود ہیں۔

    گلوبلائزیشن کے اس عہد میں یہ دنیا ایک وسیع بازار میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اور اس بازار میں آپ کو نئی اور ماڈرن ٹکنالوجی کے ساتھ ہی رہنا اور جینا ہے۔ آپ اپنی زبان سے ہمدردی رکھتے ہیں تو آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ اس بازار کے ساتھ اپنی زبان کو وابستہ کر دیجیے۔ اور اس زبان کا ہمدردی اور محبت سے ایک مضبوط حصہ بن جائیے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سیموئیل ہنگٹن نے اپنی کتاب کلیش آف سویلائزیشن میں ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ اس دور کو فکر و خیال کی موت سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہم نتیجہ پر پہنچیں تو احساس ہوگا کہ کمرشلائزیشن نے فکر کی جگہ ایک بڑے بازار کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ انڈسٹری، بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانے اور میڈیا والے مسلسل اس بات پر نگاہ رکھ رہے ہیں کہ یہاں کیا فروخت ہورہا ہے اور کس شے کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ اردو اس بازار میں پہنچ چکی ہے۔ آپ کو مارکیٹنگ اور مینجنگ کا ہنر آتا ہے تو ابھی صرف اردو کو مقبول بنانے اور مارکیٹ ورلڈ کی ضرورت ہے۔ اردو اپنے عالمگیر کردار کے ساتھ بازار کی اس دنیا کا دل جیت لیتی ہے تو پھر اس کے تحفظ اور فروغ میں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

  • دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    ہندوستان کے بٹوارے اور تقسیم کے کئی سال بعد بھی بھارت میں متعصب اور انتہا پسند حلقوں کی جانب سے اردو کی مخالفت میں باقاعدہ مہم چلائی گئی اور ہر سطح پر اردو بولنے اور لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔

    اس زمانے میں اردو بولنا اور لکھنا جیسے جرم تھا اور یہ سوچ مذہبی شخصیات اور عوام ہی تک محدود نہیں‌ تھی بلکہ علم و دانش اور ادب سے وابستہ افراد نے بھی اس حوالے سے تنگ نظری اور پستی کا ثبوت دیا، لیکن بعض عالی دماغ اور روشن نظریات و خیالات رکھنے والی شخصیات نے اسے علم دشمنی اور صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کا قتل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔

    معروف ہندوستانی ادیب رتن سنگھ نے اسی حوالے سے بیسویں صدی کے نام وَر شاعر، ادیب اور نقّاد فراق گورکھپوری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو ہم یہاں اپنے باذوق قارئین اور علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘فراق صاحب ریڈیو کے پروڈیوسر ایمریٹس تھے، اُن دنوں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی ریکارڈنگ کے لیے اُنہیں فیس کا چیک دیا جائے۔ ایسی صورت میں فراق صاحب کو یہ سمجھانا ایک ٹیڑھی کھیر تھی۔

    اس معاملے کے حل کے لیے میں نے ایک صورت یہ نکال لی کہ الٰہ آباد سے لکھنؤ آنے کا کرایہ اور ڈی اے وغیرہ دے دیا جائے۔ میں یہی کرتا تھا۔

    فراق صاحب اسی پر ہی ریکارڈنگ کے لیے راضی ہوجاتے تھے، لیکن ایک بار ایک نئی قسم کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔

    فراق صاحب کو اُردو زبان اور اس کے مستقبل کے بارے میں بولنا تھا۔ اس کے بارے میں باتیں کرتے کرتے وہ اتنی کڑوی باتیں بھی کر گئے کہ اگر اُنہیں نشر کردیتا تو واویلا کھڑا ہوجاتا۔

    ہزاری پرساد دیویدی اور نہ جانے کس کس کو اُردو کے حق سے محروم رکھنے کی شکایت کرتے ہوئے اُنہوں نے صاف صاف کہا کہ اے ہندوﺅ! میری مراد آر ایس ایس والے ہندوﺅں سے ہے، اور میں اُنہی کے لب و لہجے میں کہہ رہا ہوں کہ اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، پاکستان دشمن ہو رہا ہے۔ اگر دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، اپنے ملک میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں۔ اُن کی زبان نہیں سمجھوگے تو بھی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی باتیں کرکے فراق صاحب چلے گئے۔

    پھر الٰہ آباد سے مجھے لکھا کہ بھائی جو کچھ میں نے کہا ہے، اس کو براڈ کاسٹ کرنے کی ذمے داری تمہاری ہے۔ دیکھ لینا غور سے۔’

  • دامودر ذکی: غیر مسلم نعت گو شاعر

    دامودر ذکی: غیر مسلم نعت گو شاعر

    اردو ادبا اور شعرا کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بلا تفریقِ مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔

    اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا۔ ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں مؤثر رول ادا کیا۔

    اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیورِ طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لایا۔

    حیدرآباد (دکن) میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔

    ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے۔

    انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد دریا آبادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ، جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعرا کہہ سکتے ہیں۔

    ذکی کو میلاد کے جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ میلاد کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلام سنارہے تھے۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نم ناک ہوگئی تھیں۔

    قیامت میں محمدﷺ کا سہارا ڈھونڈھنے والے
    سنا بھی زندگی میں تُو نے فرمایا محمدﷺ کا

    (رشید الدین، حیدر آباد، دکن کے مضمون سے ایک پارہ)