Tag: بھاپ کا انجن

  • یومِ وفات: موٹر مکینک سے انقلابی ایجاد تک جیمز واٹ کا سفر ایک نظر میں!

    یومِ وفات: موٹر مکینک سے انقلابی ایجاد تک جیمز واٹ کا سفر ایک نظر میں!

    جیمز واٹ کو لوگ ایک موٹر مکینک، چند مخصوص مشینوں کو مختلف اوزاروں سے کھولنے، بند کرنے اور ان کی خرابی دور کرنے میں مشّاق سمجھتے تھے اور بس۔

    اس وقت کون جانتا تھا اور خود جیمز کو بھی نہیں‌ معلوم تھا کہ وہ مستقبل میں‌ ایک ایسا کار ہائے نمایاں انجام دے گا جس کے بعد دنیا اسے ایک موجد کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ اس نے بھاپ کا انجن تیّار کیا تھا جو صنعت و مواصلات کے شعبے میں انقلاب لایا۔ جیمز واٹ 1819ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ آج اس کا یومَ وفات ہے۔

    1736ء کو اسکاٹ لینڈ، برطانیہ میں‌ آنکھ کھولنے والے جیمز واٹ نے ابتدائی عمر میں مشینوں‌ اور اوزاروں‌ میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی۔ تھوڑا بڑا ہوا تو اس زمانے کی مختلف موٹروں اور مشینوں‌ کی خرابی کو سمجھنے اور انھیں‌ کھولنے بند کرنے کے دوران اس نے ان کی سائنس کو سمجھا اور کام میں ماہر ہوتا چلا گیا۔ اس وقت بھاپ کے انجن کا خیال یا خود انجن کوئی انوکھی چیز نہ تھی بلکہ ایسی مشینیں بن چکی تھیں جن کی مدد سے کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالا جاتا تھا۔ یہ مشینیں‌ بھاپ سے چلتی تھیں، لیکن اس میں مزید تبدیلیاں اور اس انجینیئرنگ میں ترقّی کا امکان موجود تھا۔

    ایک مرتبہ ایسی ہی مشین میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی اور اسے درست کرنے کے لیے جیمز واٹ سے رابطہ کیا گیا۔ واٹ کو مشین درست کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہ آئی، لیکن اس دوران اُس کے دماغ میں بھاپ کا انجن تیار کرنے کا وہ خیال تازہ ہو گیا جو اسے تین سال سے ستا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسی مشینوں‌ کو حرکت دینے کے لیے بہت زیادہ بھاپ خرچ ہوتی ہے، اور یہ خاصا منہگا پڑتا ہے۔ اس کا ذہن اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا تاکہ ایسے کسی انجن کو چلانے پر کم خرچ آئے۔

    ایک روز اس پر حقیقت منکشف ہوئی کہ جو انجن اب تک بنائے گئے ہیں ان میں سلنڈر کے ذریعے ایک مشکل ترین کام انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نے جان لیا تھا کہ جمع شدہ بھاپ کا درجہ حرارت بہ حالتِ عمل کم ہونا چاہیے۔ البتہ سلنڈر کو اتنا ہی گرم ہونا چاہیے، جتنی اس میں داخل ہونے والی بھاپ گرم ہوتی ہے۔ غرض غور و فکر کے بعد اس کے ذہن نے ایک نئی چیز تیار کی، جسے آلہ تکثیف (کنڈنسر) کہا جاتا ہے۔ بعد میں عملی تجربہ کرتے ہوئے اس نے جو انجن بنایا وہ اس کی ذہنی اختراع کے مطابق کام انجام دینے لگا۔

    اس کا سادہ اصول یہ تھا کہ پانی کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا جائے جس میں پہلے کے انجن کے مقابلے میں ایک چوتھائی یا اس بھی کم بھاپ خرچ ہوتی تھی۔

    اس ابتدائی ایجاد کے بعد حوصلہ ہوا تو جیمز واٹ نے اپنے انجن میں‌ مزید تبدیلیاں کیں اور اس دور کے بھاپ کے انجنوں اور دوسری مشینوں کے مقابلے میں‌ زیادہ بہتر اور توانائی خرچ کرنے کے اعتبار سے ایک مختلف ایجاد سامنے لانے میں‌ کام یاب رہا۔ اسی کے بیان کردہ اصول اور تیار کردہ انجن کے ڈیزائن کو سامنے رکھ کر آگلے برسوں میں ذرایع نقل و حمل اور توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے مشینوں‌ میں‌ جدّت اور صنعتی میدان میں‌ ترقی میں‌ مدد ملی۔

    آج اس انجینئر اور بھاپ کے نئے انجن کے موجد کے مجمسے دنیا کی مختلف درس گاہوں اور میوزیم میں‌ موجود ہیں جو اس کی ایجاد اور اس کے سائنسی کارناموں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

  • موٹر کار: نکولس جوزف کی انجنیئرنگ سے رابرٹ اینڈرسن کی ذہانت تک

    موٹر کار: نکولس جوزف کی انجنیئرنگ سے رابرٹ اینڈرسن کی ذہانت تک

    دنیا کی پہلی موٹر کار کے موجد کا نام‌ ‘نکولس جوزف کگنوٹ’ تھا جو فرانس کا باشندہ تھا۔ اس کی ایجاد کا چرچا 1799ء میں ہوا۔ وہ فوج میں انجنیئر تھا۔ اس نے بھاپ سے چلنے والی جو گاڑی تیّار کی تھی وہ بھاری اور سست رفتار تھی۔ اس گاڑی کے تین پہیے تھے۔ یہ گاڑی آج بھی ایک عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

    1885ء میں کارل بینز نے دنیا کو حیران کردیا اور ایک ہارس پاور کے انجن سے توانائی حاصل کرنے والی گاڑی تیّار کرلی۔ جرمنی کے کارل بینز کی ایجاد کردہ گاڑی میں تین آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اور اس کے تین پہیے تھے۔

    یہ پہلی آٹو موبائل کار کہلاتی ہے۔ کارل بینز ہی نے چار پہیوں والی پہلی کار 1889ء میں بنائی۔ مشہورِ زمانہ لگژری کار مرسڈیز بھی کارل بینز نے بنائی تھی جس کے بعد مختلف کمپنیاں قائم ہوئیں‌ اور کاریں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم بھاپ کے انجن کی تیّاری، ریل گاڑی اور موٹر کاروں کے حوالے سے اٹھارہویں‌ صدی عیسوی میں متعدد انجینئروں نے ایسے کئی تجربات کیے کہ موٹر کاروں کے لیے کسی ایک کی ایجاد کو اوّلین کہنا کچھ مشکل ہوگیا۔ الغرض دنیا کی کسی بھی دوسری ایجاد کی طرح موٹر کار نے بھی رفتہ رفتہ ترقی کی۔

    پچھلی دو صدیوں‌ کے مقابلے میں‌ جب انسان نے زیادہ وسائل، قسم قسم کی ٹیکنالوجی اور سہولیات حاصل کرلی ہیں، تو اس کا شوق اور معیارِ زندگی بھی تبدیل ہوا اور آج جدید و خود کار اور سفر کے اعتبار سے نہایت آرام دہ کاریں سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ یہ نت نئے ڈیزائن کی حامل، آرام دہ اور تیز رفتار کاروں کا زمانہ ہے۔ ہر گاڑی کا اب ایک کے بعد دوسرا نمونہ یا ماڈل آتا ہے اور زیادہ تر خریدار نئے ماڈل کی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں۔

    کئی برس قبل بھاپ سے چلنے والی موٹر کار کے بعد دنیا کو پیٹرول سے چلنے والی کار ملی تھی اور آج کے دور میں الیکٹرک کار بھی ایجاد ہوچکی ہے۔ بجلی سے چلنے والی دنیا کی پہلی کار کے موجد کا نام رابرٹ اینڈرسن ہے اور ناروے وہ ملک ہے جس کے دارالحکومت اوسلو میں سب سے زیادہ الیکٹرک کاریں موجود ہیں۔

  • ایک مکینک کی کہانی جو دنیا بھر میں‌ مشہور ہوا‌

    ایک مکینک کی کہانی جو دنیا بھر میں‌ مشہور ہوا‌

    جیمز واٹ کو لوگ ایک موٹر مکینک، چند مخصوص مشینوں کو مختلف اوزاروں سے کھولنے، بند کرنے اور ان کی خرابی دور کرنے میں مشّاق سمجھتے تھے اور بس۔ خود جیمز بھی نہیں‌ جانتا تھا کہ مستقبل میں‌ اسے ایک مکینکل انجینیئر اور موجد کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔

    1736 کو اسکاٹ لینڈ میں‌ آنکھ کھولنے والے جیمز واٹ نے لندن میں‌ مشینوں‌ اور اوزاروں‌ کی سائنس سمجھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس زمانے کی مختلف موٹروں اور مشینوں‌ کی خرابی اور انھیں‌ کھولنے بند کرنے کے دوران اپنے ذہن کو حاضر رکھتے ہوئے ان کی انجینیئرنگ کو سمجھا۔ اس وقت بھاپ کے انجن کا خیال یا خود انجن کوئی انوکھی چیز نہ تھی بلکہ ایسی مشینیں بن چکی تھیں جن کی مدد سے کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالا جاتا تھا۔ یہ مشینیں‌ بھاپ سے چلتی تھیں۔

    ایک مرتبہ ایسی مشین میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی اور اسے درست کرنے کے لیے جیمز واٹ سے رابطہ کیا گیا۔ واٹ کو مشین درست کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہ آئی، لیکن اس دوران اُس کے دماغ میں بھاپ کا انجن تیار کرنے کا وہ خیال تازہ ہو گیا جو تین سال سے ستا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسی مشینوں‌ کو حرکت دینے کے لیے بہت زیادہ بھاپ خرچ ہوتی ہے، اور یہ خاصا منہگا پڑتا ہے۔ اس کا ذہن اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا تاکہ ایسے کسی انجن کو چلانے پر کم خرچ آئے۔

    ایک روز اس پر حقیقت منکشف ہوئی کہ جو انجن اب تک بنائے گئے ہیں ان میں سلنڈر کے ذریعے ایک مشکل ترین کام انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نے جان لیا تھاکہ جمع شدہ بھاپ کا درجہ حرارت بہ حالتِ عمل کم ہونا چاہیے۔ البتہ سلنڈر کو اتنا ہی گرم ہونا چاہیے، جتنی اس میں داخل ہونے والی بھاپ گرم ہوتی ہے۔ غرض غور و فکر کے بعد اس کے ذہن نے ایک نئی چیز تیار کی، جسے آلہ تکثیف (کنڈنسر) کہا جاتا ہے۔ بعد میں عملی تجربہ کرتے ہوئے اس نے جو انجن بنایا وہ اس کی ذہنی اختراع کے مطابق کام انجام دینے لگا۔ اس کا سادہ اصول یہ تھاکہ پانی کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا جائے جس میں پہلے کے انجن کے مقابلے میں ایک چوتھائی یا اس بھی کم بھاپ خرچ ہوتی تھی۔

    اس ابتدائی ایجاد کے بعد حوصلہ ہوا تو جیمز واٹ نے اپنے انجن میں‌ مزید تبدیلیاں کیں اور اس دور کے بھاپ کے انجنوں اور دوسری مشینوں کے مقابلے میں‌ زیادہ بہتر اور توانائی خرچ کرنے کے اعتبار سے ایک مختلف ایجاد سامنے لانے میں‌ کام یاب رہا۔ اسی کے بیان کردہ اصول اور تیار کردہ انجن کے ڈیزائن کو سامنے رکھ کر آگلے برسوں میں نقل و حمل اور توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے مشینوں‌ میں‌ جدّت اور صنعتی میدان میں‌ ترقی میں‌ مدد ملی۔

    دنیا کی مختلف سائنسی درس گاہوں اور میوزیم میں‌ جیمز واٹ کے مجسمے رکھے گئے ہیں‌ جو اس کی ایجاد اور اس کے سائنسی کارناموں کی یاد تازہ کرتے ہیں اور طلبا کو سیکھنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے پر آمادہ کرتے ہیں‌۔