Tag: بھوک

  • بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    آپ کے آس پاس بعض افراد ایسے ہوں گے جو بھوک کی حالت میں چڑچڑانے اور غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ شدید بھوکے ہوتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے غصہ میں آجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر چڑچڑانے لگتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہو۔ آپ بھی بھوک کی حالت میں لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہر کرتے ہوں اور بعد میں اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہوں۔

    اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجائیں کیونکہ ماہرین نے نہ صرف اس کی وجہ دریافت کرلی ہے بلکہ اس کا حل بھی بتا دیا ہے۔ ماہرین نے اس حالت کو بھوک کے ہنگر اور غصہ کے اینگر کو ملا کر ’ہینگری‘ کا نام دیا ہے۔

    اس کی وجہ کیا ہے؟

    ہماری غذا میں شامل کاربو ہائڈریٹس، پروٹین، چکنائی اور دیگر عناصر ہضم ہونے کے بعد گلوکوز، امائنو ایسڈ اور فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ اجزا خون میں شامل ہوجاتے ہیں جو دوران خون کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کی طرف جاتے ہیں جس کے بعد ہمارے اعضا اور خلیات ان سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

    جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمیں کھانا کھائے بہت دیر ہوجاتی ہے تو خون میں گلوکوز کی مقدار گھٹتی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار بہت کم ہوجائے تو ایک خود کار طریقہ سے دماغ یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔

    اس کے بعد دماغ تمام اعضا کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسے ہارمونز پیدا کریں جن میں گلوکوز شامل ہو تاکہ خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہو اور دماغ اپنا کام سرانجام دے سکے۔

    ان ہارمونز میں سے ایک اینڈرنلائن نامی ہارمون بھی شامل ہے۔ یہ ہارمون کسی بھی تناؤ یا پریشان کن صورتحال میں ہمارے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں شوگر کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا دماغ کے حکم کے بعد بڑی مقدار میں یہ ہارمون پیدا ہو کر خون میں شامل ہوجاتا ہے نتیجتاً ہماری کیفیت وہی ہوجاتی ہے جو کسی تناؤ والی صورتحال میں ہوتی ہے۔

    جب ہم بھوک کی حالت میں ہوتے ہیں اور خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجائے تو بعض دفعہ ہمیں معمولی چیزیں بھی بہت مشکل لگنے لگتی ہیں۔ ہمیں کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں دقت پیش آتی ہے، ہم کام کے دوران غلطیاں کرتے ہیں۔

    اس حالت میں ہم سماجی رویوں میں بھی بد اخلاق ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے آس پاس موجود خوشگوار چیزوں اور گفتگو پر ہنس نہیں پاتے۔ ہم قریبی افراد پر چڑچڑانے لگتے ہیں اور بعد میں اس پر ازحد شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

    یہ سب خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے اور دماغ کے حکم کے بعد تناؤ والے ہارمون پیدا ہونے کے سبب ہوتا ہے۔

    حل کیا ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ دفتر میں ہوں اور ہینگر کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہتے ہوں تو اس کا فوری حل یہ ہے کہ آپ گلوکوز پیدا کرنے والی کوئی چیز کھائیں جیسے چاکلیٹ یا فرنچ فرائز۔

    لیکن چونکہ یہ اشیا آپ کو موٹاپے میں مبتلا کر سکتی ہیں لہٰذا آپ کو مستقل ایک بھرپور اور متوازن غذائی چارٹ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کے جسم کی تمام غذائی ضروریات کو پورا کرے اور بھوک کی حالت میں آپ کو غصہ سے بچائے۔

  • پاک بھارت ممکنہ جنگ: پوری دنیا بھوک سے مرجائے گی

    پاک بھارت ممکنہ جنگ: پوری دنیا بھوک سے مرجائے گی

    پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی روز سے سخت کشیدگی دیکھی جارہی ہے جو آج بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے بعد کئی گنا بڑھ گئی، دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں جنگ کی صورت میں ہونے والے نقصانات کس قدر تباہ کن ہوں گے؟

    سنہ 2007 میں امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے کی جانے والی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق پاک بھارت جنگ میں اگر 100 نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے (یعنی دونوں ممالک کے مشترکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کا نصف)، تو 2 کروڑ 21 لاکھ لوگ براہ راست اس کی زد میں آ کر موت کا شکار ہوجائیں گے۔

    ہلاکتوں کی یہ تعداد دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی ہلاکتوں کی نصف ہے۔ یہ ہلاکتیں صرف پہلے ہفتے میں ہوں گی اور مرنے والے تابکاری اور آتش زدگی کا شکار ہوں گے۔

    اوزون کی تہہ غائب ہوجائے گی

    انٹرنیشنل فزیشن فار دا پریوینشن آف نیوکلیئر وار کی سنہ 2013 میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پاک بھارت جنگ میں نیوکلیئر ہتھیار استعمال ہوں گے اور یہ ہتھیار دنیا کی نصف اوزون تہہ کو غائب کردیں گے۔

    اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔ اوزون تہہ کی بربادی سے پوری دنیا کی زراعت شدید طور پر متاثر ہوگی۔

    رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کے استعمال سے گاڑھا دھواں پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو کئی عشروں تک قائم رہے گا۔ اس دھوئیں کی وجہ سے زمین کی 40 فیصد زراعت ختم ہوجائے گی۔

    موسمیاتی تبدیلیوں اور تابکاری کے باعث زراعت کے متاثر ہونے سے دنیا کے 2 ارب افراد بھوک اور قحط کا شکار ہوجائیں گے۔

    برفانی دور جیسے حالات

    پاک بھارت ممکنہ جنگ میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ان کا دھواں زمین کی فضا کے اوپر ایک تہہ بنا لے گا جو سورج کی روشنی کو زمین پر آنے سے روک دے گا۔ یہاں سے زمین پر سرد موسم کا آغاز ہوجائے گا جسے ‘نیوکلیئر ونٹر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس وقت زمین پر آئس ایج یعنی برفانی دور جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے۔ یہ موسم بالواسطہ زراعت کو متاثر کرے گا۔

    سورج کی حرارت اور روشنی کی عدم موجودگی سے بچی کھچی زراعت میں بھی کمی آتی جائے گی یوں قحط کی صورتحال مزید خوفناک ہوجائے گی۔

    پڑوسی ممالک بھی براہ راست زد میں آئیں گے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بھارت پر نیوکلیئر حملہ اور بھارت کا پاکستان پر حملہ خود ان کے اپنے علاقوں کو بھی متاثر کرے گا۔ دوسری جانب افغانستان کے سرحدی علاقے بھی ان حملوں سے براہ راست متاثر ہوں گے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت سے متصل ممالک میں بھی ہلاکتیں ہونے کا خدشہ ہوگا جبکہ تابکاری سے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔

  • خوراک کا عالمی دن: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    خوراک کا عالمی دن: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان بھوک کا شکار ممالک میں 14ویں نمبر پر ہے۔

    آج کی دنیا جہاں ایک جانب اپنی تاریخ کے جدید ترین دور میں داخل ہونے پر فخر کر رہی ہے وہیں اس جدید دنیا میں عوام کی کثیر تعداد بھوک و پیاس کا شکار ہے۔

    خوراک کا عالمی دن منانے کا آغاز 1979 سے ہوا، اقوام متحدہ نے اس سال کا عنوان ’بھوک کا خاتمہ 2030 تک ممکن ہے‘ رکھا ہے۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زائد افراد دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ 22 ممالک ایسے ہیں جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں، ان میں سے 16 ممالک میں قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھا۔

    مزید پڑھیں: بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کی شرح سب سے زیادہ ایشیائی ممالک میں ہے، بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر رواں برس 14 واں ہے اور یہاں کی 21 کروڑ آبادی میں سے پانچ کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں پیٹ بھرکر روٹی میسر نہیں۔

    پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے پانچ سال سے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    سنہ 2015 میں شروع کیے جانے والے پائیدار ترقیاتی اہداف میں بھوک کا خاتمہ دوسرے نمبر پر ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگر کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور کم وسائل میں زیادہ زراعت کی جائے تو سنہ 2030 تک اس ہدف کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔

  • سنہ 2050 تک دنیا سے غذا ختم ہونے کا خدشہ

    سنہ 2050 تک دنیا سے غذا ختم ہونے کا خدشہ

    بین الاقوامی سماجی ادارے آکسفیم نے ہولناک انکشاف کیا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا میں غذا و خوراک کے تمام ذرائع ختم ہونے کا خدشہ ہے اور سنہ 2030 سے غذا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ متوقع ہے۔

    آکسفیم کی حال ہی میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا کی آبادی 9.8 ارب افراد تک جا پہنچے گی۔ اتنے سارے لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمیں موجودہ زراعت میں 70 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2030 سے غذا کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مکئی کی قیمت میں 180 جبکہ چاول کی قیمت میں 130 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    اس ممکنہ غذائی قلت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی مشکل نہیں کہ دنیا میں بھوک اور غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار

    ماہرین کے مطابق یہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی نہیں ہے جو غذائی صورتحال کے لیے تشویش ناک ہے۔ فصلوں کی نئی بیماریاں، صحرا زدگی اور زمین کا کٹاؤ بھی زراعتی زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔


    امید کی کرن

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خوفناک صورتحال سے بچنے کی صورت بہرحال موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زراعت کو موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے مطابق تبدیل کریں۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور نئے ذرائع استعمال کر کے زرعی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

    اس کے علاوہ انفرادی طور پر ہمیں غذا کی خریداری اور اس کے استعمال پر بھی دھیان دینا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ کم سے کم غذا ضائع کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2050 تک 1 ارب افراد بھوک کے خوفناک عفریت کا شکار

    سنہ 2050 تک 1 ارب افراد بھوک کے خوفناک عفریت کا شکار

    عالمی اقتصادی ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں 1 افراد غذائی اشیا کی قلت اور اس کے باعث شدید بھوک کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صورتحال کیوں پیش آسکتی ہے؟ دنیا بھر میں ضائع کی جانے والی اس غذا کی وجہ سے جو لاکھوں کروڑوں افراد کا پیٹ بھر سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق خوراک کو ضائع کرنا دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    اس ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً 1.3 بلین ٹن بنتی ہے اور اس سے دنیا بھر کی معیشتوں کو مجموعی طور پر ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں ایک ہدف سنہ 2030 تک دنیا میں ضائع کی جانے والی خوراک کی مقدار کو نصف کرنا بھی ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے ان کی غذائی ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    ماہرین کے مطابق اگر ہم اس خوفناک صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اقتصادی ترقی کو قدرتی وسائل کے مطابق محدود کرنا ہوگا۔

    ساتھ ہی ہمیں غیر ضروری اشیا کا استعمال کم کرنے (ریڈیوس)، چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنے (ری یوز)، اور انہیں قابل تجدید بنانے (ری سائیکل) کرنے کے رجحان کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہوگا۔

    اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے گھروں سے پھینکی اور ضائع جانے والی غذائی اشیا کی مقدار کو کس طرح کم سے کم کر سکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ جس وقت آپ اپنے آرام دہ گھر یا دفتر میں گرما گرم کافی یا کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں کوئی بچہ بھوک سے مر جاتا ہے؟

    آپ کے کھانے پینے اور کام کرنے کے دوران ہر 10 سیکنڈ بعد دنیا میں ایک بچہ بھوک سے لڑتا ہوا موت کی وادی میں اتر رہا ہوتا ہے۔ ہر رات جب آپ کھانا کھا کر ایک پرسکون نیند سونے جارہے ہوتے ہیں، آپ کے ارد گرد ہر 8 میں سے 1 شخص بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ پوری دنیا بھر میں 85 کروڑ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق اس تشویش ناک حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پاکستان ایک ایسا خوش نصیب ملک ہے جو دنیا میں خوراک اگانے والا آٹھواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان کی کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے۔

    ملک میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار جبکہ 8 فیصد سے زائد بچے بھوک کے باعث 5 سال سے کم عمری میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    دنیا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس ساری صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور آگے بڑھ کر بھوک کے اس عفریت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال رابن ہڈ آرمی ہے جو پاکستان اور بھارت سمیت 13 ممالک میں بھوک کے خلاف برسر پیکار ہے۔

    اس ’فوج‘ کی بنیاد کا سہرا نیل گھوش نامی نوجوان کے سر ہے جو پرتگال میں رہائش پذیر تھا۔ وہاں اسی مقصد کے لیے کام کرتے ایک ادارے ’ری فوڈ‘ سے متاثر ہو کر نیل نے ایسا ہی قدم بھارتی عوام کے لیے بھی اٹھانے کا سوچا۔

    ابھی وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے فیس بک پر اپنے ہم خیال کچھ پاکستانی دوست ٹکرائے۔ اور پھر ان سب نے بیک وقت پاکستان اور بھارت میں بھوک مٹانے کے اس سفر کا آغاز کیا۔

    مستحق افراد کو کھانا پہنچانے اور بھوک کو ختم کرنے کا عزم لیے اس تحریک کا آغاز ڈھائی سال قبل اس دن سے کیا گیا جب ورلڈ کپ 2014 میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ نئی دہلی اور کراچی میں 6 رضا کاروں نے مختلف ریستورانوں سے کھانا جمع کر کے کچی آبادی کے غریب افراد کا پیٹ بھرا۔

    ان نوجوانوں کا مقصد اور طریقہ کار بہت سادہ تھا۔ مختلف ریستورانوں اور ہوٹلوں سے بچ جانے والا کھانا جمع کرنا اور انہیں نادار و مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔ 6 رضا کاروں سے شروع ہونے والی یہ تحریک ڈھائی سال بعد اب 13 ممالک کے 41 شہروں میں پھیل چکی ہے اور اس میں شامل رضاکاروں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

    اس تحریک کے بانیوں نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے کام، اس کے طریقہ کار اور تجربے کے بارے میں بتایا۔

    تحریک کا نام غریبوں کے ہمدرد لٹیرے رابن ہڈ کے نام پر کیوں رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں نیل گھوش کا کہنا تھا کہ انگریزی تخیلاتی کردار رابن ہڈ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو بخش دیا کرتا تھا۔

    جب انہوں نے اس کام آغاز کیا تو وہ اس بات پر افسردہ تھے کہ خوارک کی ایک بڑی مقدار کو ضائع کردیا جاتا ہے۔ ریستوران، ہوٹل اور خصوصاً شادیوں میں بے تحاشہ کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو ہزاروں افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے۔

    خوشحال افراد کے ضائع شدہ اسی کھانے کو کام میں لا کر غریب اور مستحق افراد کے پیٹ بھرنے کا خیال رابن ہڈ کے نظریے سے کسی قدر ملتا جلتا ہے، لہٰذا اس تحریک کو رابن ہڈ آرمی کا نام دیا گیا۔ تحریک میں شامل رضا کاروں کو بھی رابنز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    کس طریقہ کار کے تحت اس کھانے کو مستحق افراد تک پہنچایا جاتا ہے؟ اس بارے میں تحریک کے ایک اور بانی رکن نے بتایا کہ آرمی میں شامل ہر رضا کار کو کچھ مخصوص ریستوران اور اسی علاقے کی قریبی غریب آبادیوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

    ہر رضا کار اکیلا، یا 2 سے 3 کی تعداد میں اپنے طے کردہ ریستوران سے کھانا جمع کرتے ہیں، (جو ان کے لیے پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے) اس کے بعد وہ انہیں قریب میں موجود مستحق افراد تک پہنچا دیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ تحریک کسی قسم کی چندے یا عطیات کی محتاج نہیں۔

    ابتدا میں انہیں ریستورانوں اور ہوٹلوں کی انتظامیہ کو کھانا دینے کے لیے بہت گفت و شنید کرنی پڑی۔ اب کئی ریستوران خود ہی ان سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو مستحق افراد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بے شمار ریستوران ہیں جو اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔

    ایک رابن کا کہنا تھا کہ جب وہ کھانا جمع کرتے ہیں تو وہ ہر قسم کی غذا ہوتی ہے۔ پھل، سبزیاں بھی، مرغن اور چکنائی بھرے کھانے اور کیک، مٹھائیاں وغیرہ بھی جو بعض اوقات صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن وہ کھانے کی غذائیت کو نہیں دیکھتے۔ ’ہمارا مقصد بھوکے افراد کا پیٹ بھرنا ہے، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے بمشکل اپنی زندگی میں کچھ اچھا کھایا ہوگا۔ ایسے میں اگر ان کی صحت اور غذائیت کے بارے میں سوچا جائے تو یہ کھانے سے بھی محروم ہوجائیں گے جو ان کے ساتھ ظلم ہوگا‘۔

    تحریک کے بانی نیل گھوش نے بتایا کہ بھارت میں ان کے رضا کار شادیوں سے بھی بچ جانے والا کھانا جمع کرتے ہیں اور ان دنوں میں ان کی مصرفیات بے تحاشہ بڑھ جاتی ہیں جب شادیوں کا موسم چل رہا ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے ان کے رضا کار آدھی رات کو بھی کھانا جمع کرنے پہنچتے ہیں اور اسی وقت مستحق آبادیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں تاکہ صبح تک یہ کھانا خراب نہ ہوجائے۔

    نیل نے بتایا کہ بھارت میں عموماً بہت پر تعیش شادیاں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں ضائع ہونے والے کھانے کا شمار کرنا نا ممکن ہے۔ ایک بار حیدرآباد دکن میں ایک شادی سے بچ جانے والے کھانے سے 970 غریب افراد کو کھانا کھلایا گیا۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    اس تحریک سے منسلک رابنز کا کہنا ہے کہ جب وہ کھانا لے کر انہیں مستحق افراد تک پہنچانے جاتے ہیں تو انہیں ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور تب ان پر زندگی ایک نئے پہلو سے ظاہر ہوتی ہے۔

    کھانے کا انتظار کرنے والے غریب بچے بے حد خوشی، محبت اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بڑے انہیں دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ یہ سب انہیں خوشی تو فراہم کرتا ہے لیکن وہ دنیا میں وسائل کی غیر مصنفانہ تقسیم اور انسانی غیر ذمہ داری اور چشم پوشی کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہوجاتے ہیں۔

    رابن ہڈ آرمی پاکستان میں اس وقت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم ہے جبکہ بھارت کے کئی شہروں میں کام کر رہی ہے۔

    یہ رضا کار اب ان غریب علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر اسکول قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ غریب بچے اپنی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہو سکیں۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    آپ کے گھر سے بے شمار ایسی غذائی اجزا نکلتی ہوں گی جو کوڑے کے ڈرم میں پھینکی جاتی ہوں گی۔ یہ اشیا خراب، ضائع شدہ اور پلیٹوں میں بچائی ہوئی ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر میں خوراک کو ضائع کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، ہم اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ صرف پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے غذائی قلت کے باعث 5 سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ضائع شدہ غذا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقوں پر کام کیا جارہا ہے اور اس کی ایک بہترین مثال سنگاپور کے ننھے طالب علموں نے دی۔

    singapore-4

    سنگاپور کے یونائیٹڈ ورلڈ کالج آف ساؤتھ ایشیا کے پانچویں جماعت کے طالب علموں نے ڈرموں میں پھینکی جانے والی خوراک کو قابل استعمال بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے لیے انہوں نے اس پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    یہ بچے ہر روز اپنے اسکول کی کینٹین سے 50 لیٹر کے قریب غذائی اشیا جمع کرتے ہیں۔ ان میں پھلوں، سبزیوں کے چھلکے، ادھ پکی اشیا، بچائی جانے والی چیزیں اور خراب ہوجانے والی اشیا شامل ہیں۔ ان اشیا کو سوکھے پتوں اور پانی کے ساتھ ملایا گیا۔

    singapore-2

    اس کے بعد اس کو اسی مقصد کے لیے مخصوص ڈرموں میں ڈال دیا گیا جس کے بعد 5 ہفتوں کے اندر بہترین کھاد تیار ہوگئی۔ طالب علموں نے اس کھاد کو اسکول کے گارڈن میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ بچی ہوئی کھاد، کسانوں اور زراعت کا کام کرنے والے افراد کو دے دی گئی۔

    منصوبے پر کام کرنے والے بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی خوراک کو ضائع کرنے کے نقصان دہ عمل میں شامل ہیں۔ ’جب ہم اس میں شامل ہوئے تو ہمیں چیزوں کی اہمیت کا احساس ہوا اور اس کے بعد ہم نے بھی کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز، لاکھوں ٹن پھل ضائع

    یہ بچے غذائی اشیا کی اس ناقد ری پر اداس بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ کھانے کو ضائع نہ کیا کریں۔

    singapore-3

    اس منصوبے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب پورے سنگاپور کی یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر اسکول ایسے ہی منصوبے شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

  • فوری توجہ کی متقاضی ذیابیطس کی 8 علامات

    فوری توجہ کی متقاضی ذیابیطس کی 8 علامات

    ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جو تیزی سے عام ہورہی ہے۔ یہ جسم میں کئی دوسری بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ جب ہمارے جسم میں موجود لبلبہ درست طریقے سے کام کرنا چھوڑ دے اور زیادہ مقدار میں انسولین پیدا نہ کر سکے، تو ہماری غذا میں موجود شکر ہضم نہیں ہو پاتی۔ یہ شکر ہمارے جسم میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے نتیجتاً ذیابیطس یا شوگر جیسی خطرناک بیماری جنم لیتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق نامناسب طرز زندگی اور فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال اس مرض میں اضافے کا سبب ہے۔ ذیابیطس دل، خون کی نالیوں، گردوں، آنکھوں، اعصاب اور دیگر اعضا کو متاثر کر سکتی ہے۔ ذیابیطس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ روز مرہ زندگی میں متوازن غذا کا استعمال کیا جائے اور ورزش کو معمول بنایا جائے۔

    ذیابیطس کا شکار اکثر افراد کو اس بیماری کا علم نہیں ہو پاتا، یا جب تک انہیں علم ہوتا ہے اور وہ اس کا باقاعدہ علاج شروع کرتے ہیں اس وقت تک یہ مرض بہت بڑھ چکا ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو ایسی علامات بتائی جارہی ہیں جو ذیابیطس کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور ان کے ظاہر ہوتے ہی آپ کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔

    بار بار باتھ روم جانے کی ضرورتh7

    اگر دن بھر میں آپ کو بار بار باتھ روم جانے کی ضرورت پڑ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے جسم میں کچھ گڑبڑ ہے اور آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ پیشاب کا بار بار آنا اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ کا جسم غذا میں موجود شکر کے ذرات کو جذب نہیں کر پاتا نتیجتاً جسم کو اسے خارج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

    اسی طرح رات سونے سے لے کر صبح اٹھنے تک ایک سے دو بار باتھ روم جانا معمول کی بات ہے لیکن اگر یہ دورانیہ اس سے زیادہ ہو اور یہ آپ کی نیند پر اثر انداز ہو تو یہ فکر مندی کی بات ہے۔

    پیشاب کا زیادہ آنا ذیابیطس کی بہت واضح علامت ہے۔

    بار بار پیاس لگنا

    h6

    پانی زیادہ پینا ایک اچھی بات ہے لیکن اگر آپ کو بار بار پیاس لگ رہی ہے تو یہ ذیابیطس کی طرف اشارہ ہے۔ زیادہ پیشاب کرنے کی صورت میں جسم میں پانی کی کمی ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے جسم کو پانی درکار ہوتا ہے اور یوں آپ کو بار بار پیاس محسوس ہوتی ہے۔

    تھکاوٹ اور کمزوری کا احساس

    h8

    جسم سے نمکیات کا پیشاب کی صورت میں اخراج ہونا آپ کو تھکاوٹ اور کمزوری میں مبتلا کردیتا ہے۔ ذیابیطس کا شکار ہونے کی صورت میں اگر آپ وٹامن اور نمکیات سے بھرپور غذا لیں گے تب بھی آپ کو تھکاوٹ کا مستقل احساس رہے گا کیونکہ اس میں موجود صحت مند اجزا جذب ہو کر آپ کے جسم کا حصہ نہیں بن پارہے ہوں گے۔

    زخموں کا دیر سے بھرنا

    h4

    ذیابیطس کا شکار افراد کو اگر کوئی کٹ لگ جائے یا جسم کے کسی حصہ پر زخم ہوجائے تو وہ بہت دیر سے مندمل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جلد کو صحت مند رکھنے والے اجزا اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ یوں معمولی سا زخم بھرنے میں بھی کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔

    جسم میں تیزی سے کمی

    h9

    اگر آپ کا وزن بغیر کسی وجہ کے تیزی سے کم ہو رہا ہے تو یہ ذیابیطس کی ایک واضح علامت ہے اور آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ ذیابیطس کی صورت میں جب جسم کو مطلوبہ توانائی نہیں ملتی تو یہ خلیات کو جلا کر ان سے تونائی حاصل کرنا شروع کردیتا ہے جس سے آپ کا وزن تیزی سے گرنے لگتا ہے۔

    ڈپریشن

    h3

    ذیابیطس ہماری دماغی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جسم میں خون کا بہاؤ اور شکر کی مقدار نارمل رہے تو یہ ذہنی طور پر آپ کو پرسکون رکھتا ہے۔ اس کے برعکس بلند فشار خون دماغ میں ڈپریشن پیدا کرنے والے ہارمون کو تحریک دیتا ہے جس کے باعث آپ چڑچڑاہٹ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ہاتھ پاؤں میں سنسناہٹ

    h2

    ذیابیطس آپ کے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کو سن کردیتا ہے اور آپ یکدم اپنے آپ کو بے جان محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات آپ کے ہاتھ پاؤں سن بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ذیابیطس کی نشانی ہے۔

    بینائی کی دھندلاہٹ

    h1

    اگر آپ کو کام کرنے کے دوران بینائی میں دھندلاہٹ محسوس ہو رہی ہے اور چیزوں کو دیکھنے میں دقت پیش آرہی ہے تو یہ بھی ذیابیطس کی طرف اشارہ ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضروت ہے۔

  • آدھی رات کو بھوک مٹانے کے لیے کیا کھایا جائے؟

    آدھی رات کو بھوک مٹانے کے لیے کیا کھایا جائے؟

    رات کو دیر تک جاگنے کے باعث آدھی رات کو بھوک لگنا ایک عام بات ہے لیکن یہ صحت کے لیے ایک مضر عادت ہے۔ آدھی رات کو کھانا موٹاپے اور دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔

    یہ امکان اس صورت میں اور بھی بڑھ جاتا ہے جب آدھی رات کو جنک فوڈ سے بھوک مٹائی جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو جلدی سونا اچھی صحت کی کنجی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے آپ رات دیر تک جاگنے کے عادی ہیں تو آدھی رات کو بھوک مٹانے کے لیے صحت مند غذاؤں کا انتخاب کرنا چاہیئے۔

    یہاں کچھ ایسی ہی صحت مند اشیا بتائی جارہی ہیں جو آدھی را ت کو بھوک لگنے کی صورت میں کھائی جاسکتی ہیں۔

    :سیب

    h4

    روزانہ سیب کھانا تو ویسے بھی ڈاکٹر سے محفوط رکھتا ہے۔ اگر دن بھر آپ کو ٹھیک سے کھانا کھانے اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کا موقع نہیں مل پاتا تو آدھی رات کو لگنے والی بھوک کا فائدہ اٹھائیں اور ایک سیب کھائیں۔

    :دہی

    h3

    آدھی رات کو دہی کھانا بھی مفید ہے لیکن یہ دہی بغیر چینی کا سادہ ہونا چاہیئے۔ فلیورڈ یوگرٹ آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    :گاجر

    h1

    گاجر آنکھوں اور جلد کے لیے فائدہ مند ہے۔ آدھی رات کو کام کے دوران گاجر کھانا یا گاجر کا جوس بے شمار فائدے دے سکتا ہے۔

    :پنیر

    h5

    آدھی رات کو پنیر بھی کھایا جاسکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ کم چکنائی والا ہو۔ کم چکنائی کے پنیر سے بنی اشیا صحت کے لیے بہترین ہیں۔

    :کیلا

    h2

    پوٹاشیم اور آئرن سے بھرپور کیلا نظام ہضم اور بالوں کی صحت کے لیے موزوں ترین غذا ہے۔ آدھی رات کو لگنے والی بھوک مٹانے کے لیے کیلے سے بہتر کوئی غذا نہیں ہے۔

  • ایک امریکی شخص نے انوکھے انداز سے وزن کم کرکے سب کو حیران کردیا

    ایک امریکی شخص نے انوکھے انداز سے وزن کم کرکے سب کو حیران کردیا

    ایریزونا: چلنے پھرنے سے وزن کم ہونے کی بات کو کئی لوگ ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن امریکی ریاست ایریزونا کے شخص نے یہ بات سچ ثابت کر دکھائی۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ایریزونا کے شہر اونڈیل کے 31 سالہ پاسکیول پیٹ بروکو کا وزن بڑھتے بڑھتے 605 پاؤنڈز تک جاپہنچا، جس کے بعد ان کے ڈاکٹر نے انہیں خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اپنا وزن کم نہ کیا تو ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    اپنے وزن سے بے فکر رہنے والے پاسکیول پیٹ بروکو نے ڈاکٹر کی اس تنبیہہ کو سنجیدہ لیتے ہوئے اپنا وزن کم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ان کا وزن اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ایکسرسائز کے لیے جم نہیں جاسکتے تھے۔

    375A47CC00000578-0-image-m-10_1471495670270

    ایسی صورتحال میں پاسکیول پیٹ بروکو نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کے بجائے فیصلہ کیا کہ انہیں جب بھی بھوک لگے گی، وہ اپنے گھر سے ایک میل کے فاصلے پر واقع وال مارٹ سے کھانے کی اشیا خریدنے کے لیے پیدل چل کر جائیں گے اور پیدل چل کر ہی گھر واپس بھی آئیں گے۔

    375A47E400000578-0-image-a-4_1471495605997

    اس فیصلے کے باعث پاسکیول نے ہر روز 6 میل تک چلنا شروع کردیا اور یوں رفتہ رفتہ ان کا وزن کم ہونے لگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی ایک دن میں 6 میل نہیں چلے، لیکن ان کے وزن کم کرنے کے عزم نے انہیں ایسا کرنے کی ہمت دی۔

    375A47D400000578-0-image-m-11_1471495683612

    پاسکیول پیٹ بروکو نے روز اتنا پیدل چلنے کی وجہ سے دو سال سے بھی کم عرصے میں اپنا وزن 200 پاؤنڈ تک کم کرلیا۔

    375A47E000000578-0-image-m-12_1471495699752 (1)

    اس کے بعد پاسکیول نے جم جانا شروع کیا جہاں انہوں نے وزن اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنی پیدل چلنے کی عادت کو ’ٹریڈمِل‘ مشین کے ذریعے کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی اور یوں 3 سال کے عرصے میں ان کا وزن 300 پاؤنڈ تک کم ہوگیا۔

    375A694700000578-0-image-m-18_1471495849178