Tag: بہادر شاہ ظفر

  • بہادر شاہ ظفر کے ہاتھی کی نیلامی اور موت کا قصہ

    بہادر شاہ ظفر کے ہاتھی کی نیلامی اور موت کا قصہ

    سات نومبر 1862 کو بہادر شاہ ظفر نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال مکان میں آخری سانس تھی اور یہ ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ کا درد ناک اور نہایت خجالت آمیز انجام تھا۔ اس خاندان کے بادشاہوں نے کبھی اس خطے پر صدیوں تک شان و شوکت سے راج کیا تھا۔ لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اور تاج و تخت سب ہاتھ سے نکل گیا۔

    یہاں ہم محبوب اللہ مجیب کی کتاب مغل تہذیب سے اس ہاتھی کی درد ناک موت کا قصہ نقل کررہے ہیں جسے بادشاہ کی سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ابتدائی پیرا کے بعد مصنف نے اس واقعے کو سید ظہیر الدین حسین کی زبانی بیان کیا ہے جن کا وطن دہلی اور سنہ پیدائش 1825ء بتایا جاتا ہے۔ وہ نثر نگار اور شاعر تھے۔ انھوں نے شاہی ہاتھی کا یہ تذکرہ اپنی کتاب طرازِ ظہیری میں کیا ہے۔

    "بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں مولا بخش نام کا ایک ہاتھی تھا۔ اس نے کئی بادشاہوں کو سواری بھی دی تھی اور بزمِ آخر کا تماشا دیکھنے کے لیے ابھی زندہ تھا۔ اس ہاتھی کی بہت ساری خصوصیات انسانوں جیسی تھیں۔ جب بادشاہِ وقت بہادر شاہ ظفر کو اس کی سواری درکار ہوتی تو وہ ایک حکم نامہ لکھ بھیجتے تھے۔ شاہی چوبدار بادشاہ کا یہ حکم نامہ لے کر اس کے پاس جاتا تھا۔ اور حکمِ شاہی سناتا تھا۔ وہ کھڑا ہوتا تھا اور سلامی دیتا تھا۔ سواری سے ایک دن پہلے وہ دریا جاکر خوب نہاتا تھا۔ اور اپنے آپ کو صاف کرتا۔ پھر بادشاہ کی سواری میں جاتا۔ یہ تو اس وقت کی کہانی تھی جب شمع خموش نہیں ہوئی تھی۔ اور اب اس وقت کی کہانی ہے جب ایک شمع رہ گئی تھی۔ سو وہ بھی خموش ہے۔ مولا بخش ہاتھی نے غم کے مارے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ اور اداس و غمگین رہنے لگا۔ اب اس کے آگے آپ ظہیر ہی کی زبانی سنیے۔”

    "جب فیل خانہ شاہی پر انگریزی کا قبضہ ہوگیا تو مولا بخش ہاتھی نے دانہ پانی چھوڑ دیا۔ مولا بخش ہاتھی کے فیل بان نے جاکر سانڈرس صاحب کو اطلاع دی کہ ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ کل کلاں کو نیکی بدی ہوجائے گی تو سرکار مجھے پھانسی دے گی۔ سانڈرس صاحب کو باور نہ آیا۔ فیل بان کو گالیاں‌ دیں‌ اور کہاکہ ہم چل کر خود کھلوائیں‌ گے۔ اور پانچ روپے کے لڈّو اور کچوریاں‌ ہمراہ لے کر ہاتھی کے تھان پر پہنچے اور ٹوکرا شیرنی کا ہاتھی کے آگے رکھوایا۔ ہاتھی نے جھّلا کر ٹوکرا کھینچ مارا۔ اگر کسی عام آدمی کو لگتا تمام ہوجاتا۔ وہ ٹوکرا دور جاگرا اور تمام شیرنی بکھر گئی۔ سانڈرس صاحب بولے، ہاتھی باغی ہے، اسے نیلام کردو۔
    اسی روز صدر بازار میں لاکر نیلام کی بولی بولی۔ کوئی خریدار نہ ہوا۔”

    "بنسی پنساری یک چشم جس کی دکان کھاری باؤلی میں‌ تھی، اس نے ڈھائی سو روپے کی بولی دی۔ اسی بولی پر صاحب نے نیلام ختم کر دیا۔ فیل بان نے ہاتھی سے کہا کہ لے بھائی، تمام عمر تُو نے اور میں نے بادشاہوں کی نوکری کی اور اب میری اور تیری تقدیر پھوٹ گئی کہ ہلدی کی گرہ بیچنے والے کے دروازے پر چلنا پڑا۔ یہ سنتے ہی ہاتھی پورے قد سے ویسی ہی دھم زمین پر گر پڑا اور جاں بحق ہوگیا۔”

    مجیب صاحب نے جن کی زبانی نیلامی کا یہ قصہ پیش کیا ہے، ان کا تخلص ظہیر تھا اور والد ان کے خوش نویس اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ کہتے ہیں کہ ظہیر کی زندگی کا بارھواں برس تھا جب وہ فارسی کی درسی کتابیں اور عربی کی چند ابتدائی کتابیں پڑھ پائے تھے کہ شاہی دربار میں نوکر ہوگئے۔ ظہیر ترقی کرکے بہادر شاہ ظفر کے داروغۂ ماہی و مراتب مقرر ہوئے اور راقم الدولہ خطاب پایا۔

  • غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

    غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

    غدر ہوا اور مغل سلطنت، جو برائے نام سہی ایک عظیم الشّان روایت کا نشان اور ایک مخصوص تہذیب کی علامت تھی، ختم ہو گئی۔

    بہادر شاہ ظفرؔ قید کر لئے گئے۔ ان کے حامیوں اور حمایتیوں، ان کے متوسلین اور متعلقین پر آفتیں آئیں اور اس انتشار میں برطانوی حکومت کا تسلط ہوا، جس کے معنی تھے ایک جاگیردارانہ نظام، ایک نیا صنعتی نظام، ایک نئی دیہی معیشت، نئے طبقاتی تعلقات اور نیا انداز فکر، نئی امیدیں اور نئی مایوسیاں، مگر یہ سب دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لئے تھا۔

    غدر کو کس نے کس نظر سے دیکھا، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن غالبؔ نے اسے جو اہمیت دی ہے وہ نظر انداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس سے غالبؔ کے ذہن کا پتہ چلتا ہے۔

    اپنے خطوط میں انھوں نے غدر کا تذکرہ کثرت سے کیا ہے۔ یہی نہیں ایک مختصر سی کتاب بھی جو روزنامچے کی حیثیت رکھتی ہے، دوران غدر میں ’’دستنبو‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ ایک ذاتی یادداشت ہونے اور تاثرات سے لبریز ہونے کے باوجود بہت کچھ نہیں بتاتی۔ خطوط اور دستنبو کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ،

    (1) غالبؔ غدر کو کسی مخصوص طبقہ کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ غدر کی طبقاتی نوعیت ان کے سامنے نہ تھی۔

    (2) انھوں نے رست خیز بے جا کو یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ بعض وجوہ سے اس ہنگامے سے خوش نہ تھے۔

    (3) غدر کے زمانے میں ذاتی تکلیفیں اور آلام بھی ان کے لئے روح فرسا تھیں۔

    (4) ابتدائی خطوط میں یہ خیال بار بار ملتا ہے کہ غدر کے جو حالات ہیں لکھ نہیں سکتا۔

    (5) امرا اور رؤسا اور شہزادوں پر جو مصیبتیں آئیں، ان کے ذکر میں دوستی اور ذاتی غم کا اظہار زیادہ ہے۔

    (6) انگریزوں میں سے جو مارے گئے ان سے ہمدردی ہے۔ اس ہمدردی میں بھی ذاتی دوستی اور شناسائی کا خیال زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی ان کی خوبیوں کا بھی احساس ہے۔ ’’دستنبو‘‘ میں بھی انھیں ’جہانداران داد آموز، دانش اندر نکو خوائے نکو نام‘‘ کہا ہے۔

    (7) غالبؔ کو غدر کے غیرمنظّم ہونے کا احساس ہے۔

    (8) انھیں اس کا بھی غمناک احساس ہے کہ انگریزوں نے غدر کے فرو ہونے کے بعد خاص طور سے مسلمانوں کو سزائیں دی ہیں اور دہلی سے باہر نکال دیا ہے۔

    (9) باغیوں نے قتل و غارت، لوٹ مار میں امتیاز برتا، غالبؔ اس کے شاکی ہیں لیکن وہ انگریزوں کی ان زیادتیوں سے بھی خوش نہیں جو غدر کے بعد عمل میں آئیں۔

    (10) غالبؔ کو مغل حکومت کے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کا کوئی خاص غم نہیں معلوم ہوتا حالانکہ آخری چند سال ان کے دربار دہلی سے وابستگی کے سال تھے۔

    ان باتوں کی روشنی میں اگر غالبؔ کے رجحان کا اندازہ لگایا جائے تو واضح ہوگا کہ غدر کے متعلق غالبؔ کوئی گہری سیاسی رائے نہ رکھتے تھے کہ جب حکومت بدلی تو انھیں حیرت نہ ہوئی بلکہ ان کے لئے یہ کوئی ایسی بات ہوئی جس کا انھیں پہلے ہی سے یقین تھا۔ انگریز غدر کے بعد بہت پہلے ہی سے سیاست اور انتظام مملکت میں اتنے دخیل تھے کہ جب وہ باقاعدہ حاکم ہو گئے تو ان لوگوں کو جنھیں غدر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا کچھ زیادہ فرق معلوم نہیں ہوا۔ غالبؔ کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ غدر کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلی کو ایک حقیقت اور انگریزی حکومت کو ایک نئی سلطنت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اس لیے ان کے اندر اس نئی حکومت کے خلاف کوئی جذبہ نہیں معلوم ہوتا۔

    ان باتوں سے غالبؔ کی وطن دوستی یا قوم پرستی کے متعلق کوئی ایسا نقطۂ نظر قائم کرنا جو واضح طور پر انھیں پرانے جاگیردارانہ نظام کا دشمن، نئی انگریزی سرکار کا خوشامدی بنا دے، صحیح نہ ہوگا۔ غالبؔ کا ادراک غدر کے معاملہ میں ایک حقیقت نگار کا ادارک تھا اور تصور پرست ہونے کے باوجود حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض منطقی نگاہ رکھنے والوں کو یہ بات تضاد کی حامل نظر آئے گی لیکن تھوڑے سے غور سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ غالبؔ کا خلوص اور نظریۂ فن تھا، جو انھیں عقائد میں عینیت پسند اور صوفی بنانے کے باوجود حقیقت پسندی کی طرف مائل کرتا تھا۔ ان کے یہاں شعر اس طرح ڈھلتے تھے،
    بینیم از گداز دل، در جگر آتشے چوسیل
    غالبؔ اگر دمِ سخن، رہ ضمیر من بری

    ’’دستنبو‘‘ اور ’’مہر نیمروز‘‘ دیکھنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غالبؔ کے پیش نظر کوئی فلسفۂ تاریخ بھی تھا یا نہیں؟ اس کا اندازہ ہو سکے تو غالبؔ کے شعور کا بھی اندازہ لگایا جا سکے گا۔ کیونکہ ایک شخص کا اندازۂ شعور ہی زندگی اور اس کے مظاہر کے متعلق اس کا رویہ متعین کرتا ہے۔ ’’مہر نیمروز‘‘ آغاز آفرینش سے لے کر ہمایوں کے وقت تک کی مختصر تاریخ ہے۔ یہ اس مجوزہ پرتوستان کا پہلا حصہ ہے جس میں تیموری بادشاہوں کی تاریخ بہادر شاہ ظفرؔ تک لکھنے کا کام غالبؔ کے سپرد ہوا تھا۔ غالبؔ اس کا پہلا حصہ ہی لکھ سکے تھے کہ دنیا بدل گئی اور دوسرا حصّہ ’’ماہ نیم ماہ‘‘ وجود ہی میں نہ آیا۔

    (غالب کا تفکّر از سید احتشام حسین سے اقتباسات)

  • نرگس نظر کی مصیبت

    نرگس نظر کی مصیبت

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب، انشا پرداز خواجہ حسن نظامی نے غدر، مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور ان کے خاندان پر ٹوٹنے والی افتاد کو اپنی تحریروں میں نہایت دل سوز انداز میں‌ جگہ دی ہے۔

    ہندوستان کے آخری بادشاہ کی پوتی نرگس نظر پر انگریزوں‌ کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد کیا بیتی اور انھوں نے کیسے سخت اور کٹھن حالات میں زندگی گزاری، یہ سب خواجہ صاحب کے اس مضمون میں پڑھا جاسکتا ہے۔

    قلعہ کی آخری رات
    جس رات بہادر شاہ بادشاہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں گئے اور یقین ہوگیا کہ صبح انگریز دہلی کو مفتوح کر لیں گے تو نرگس نظر چپ چاپ جل محل کے کنارے پر کھڑی چاندنی کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کا عکس تالاب میں پڑ رہا تھا اور ان پر اپنی دید کا ایک عجیب عالمِ محویت طاری تھا۔

    یکایک ان کے باپ میرزا شاہ رخ اندر آئے اور انہوں نے کہا، ’’نرگس بیٹا! میں ابا حضرت (بہادر شاہ) کے ہمراہ جانا چاہتا ہوں۔ تم ابھی چلو گی یا سواری کا بندوبست کروں، صبح آجانا۔‘‘

    نرگس نظر نے کہا، ’’ابا جان! آپ بھی ابھی نہ جائیے۔ پچھلی رات میرے ساتھ چلیے گا۔ میں دادا حضرت کے ساتھ جانا مناسب نہیں سمجھتی۔ انگریز فوج انہی کی تلاش کرے گی اور جو لوگ ان کے ساتھ ہوں گے، وہ سب مجرم سمجھے جائیں گے۔ اس لیے ہمایوں کے مقبرے میں دادا حضرت کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔ غازی نگر (غازی آباد) میں چلیے۔ وہاں میری انا کا گھر ہے اور سنا ہے بہت اچھی محفوظ جگہ ہے۔ گمنامی اختیار کر کے چلنا چاہیے۔ جب یہ بلا دور ہو جائے گی پھر یہاں آجائیں گے۔‘‘

    میرزا نے کہا، ’’اچھا جیسی تمہاری رائے ہو۔ غازی نگر جانے کے لیے رتھوں کا بندوبست کرتا ہوں، تمہارے ساتھ کون کون جائے گا۔‘‘ نرگس نظر نے جواب دیا، ’’کوئی نہیں، صرف میں اکیلی چلوں گی، کیونکہ نوکروں کا ساتھ رکھنا بھی نامناسب ہے اور نوکر ساتھ جانے کے لیے تیار بھی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ میرزا یہ سن کر باہر چلے گئے اور نرگس نظر پھر ماہتاب اور عالم آب کو دیکھنے لگیں۔

    کچھ دیر کے بعد نرگس نظر نے نوکر عورتوں کو آواز دی مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ معلوم ہوا سب بھاگ گئے اور نرگس نظر سارے جل محل میں اکیلی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس نظر نے حاکمانہ آواز دی اور جواب میں کوئی بھی نہ بولا۔ نرگس نظر گھبرا کر محل کے اندر گئیں۔ شمعیں روشن تھیں، مگر کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ نرگس نظر کو اندر ڈر لگا اور وہ پھر صحن میں آ گئیں۔ قلعہ میں جگہ جگہ سے لوگوں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چاروں طرف سے گھروں کے رہنے والے نکل نکل کر جا رہے ہیں۔ نرگس نظر نے بہت دیر باپ کی راہ دیکھی مگر وہ نہ آئے اور نرگس نظر گھبرا کر رونے لگیں۔

    رات کے دو بجے ایک خواجہ سرا محل میں آیا اور اس نے کہا، ’’صاحب عالم نے فرمایا ہے کہ انگریز جاسوس میری تلاش میں قلعہ کے اندر اور باہر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ غازی نگر نہیں جاسکتا۔ سواری کا انتظام کر دیا ہے۔ تم خواجہ سرا کے ساتھ چلی جاؤ اور میں بھیس بدل کر کہیں اور چلا جاتا ہوں۔‘‘ نرگس نظر نے گھبرا کر کہا، ’’آخر کہاں جانے کا ارادہ ہے؟‘‘ خواجہ سرا بولا، ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ نرگس نظر نے حاکمانہ لہجے میں کہا، ’’جا یہ معلوم کر کے آ کہ ابا حضرت کہاں جانے والے ہیں۔ وہ لباس بدل کر میرے ساتھ غازی نگر کیوں نہیں چلتے؟‘‘

    خواجہ سرا فوراً واپس گیا اور نرگس نظر صحن میں ٹہلتی رہی۔ کچھ دیر کے بعد خواجہ سرا واپس آیا اور اس نے کہا، ’’ابا حضرت سائیس کے کپڑے پہن کر قلعہ کے باہر چلے گئے اور کوئی نہیں جانتا کہ کہاں چلے گئے۔ آپ کی سواری کے لیے رتھ تیار ہے۔‘‘ نرگس نظر کو رونا آ گیا اور ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے نہایت بے کسی اور بے بسی کی حالت میں ہچکیاں لے کر آنسو بہائے۔ انہوں نے جواہرات اور زیورات کا صندوقچہ اور چند ضروری کپڑے ساتھ لیے جن کو خواجہ سرا نے اٹھا لیا اور جل محل سے نکلیں اور سوار ہونے سے پہلے مڑ کر جل محل اور اس کی آرائش کو بہت دیر تک کھڑے ہو کر دیکھا۔ پھر کہا، ’’خبر نہیں تجھ کو پھر دیکھنا نصیب ہوگا یا آج تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو رہا ہے۔‘‘

    رات کے تین بج چکے تھے۔ نرگس نظر رتھ میں بیٹھی غازی نگر (غازی آبادی) کی طرف جارہی تھیں۔ صبح آٹھ بجے غازی آباد پہنچ گئیں۔ راستے میں ان کو بہت لوگ آتے جاتے ملے، مگر کسی نے ان کے رتھ کی مزاحمت نہیں کی۔ غازی آباد میں نرگس نظر کی انّا کا گھر مشہور تھا۔ جوں ہی نرگس نظر انّا کے گھر کے سامنے رتھ سے اتریں، انّا دوڑتی ہوئی گھر کے باہر آگئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے شہزادی کی بلائیں لیں اور اندر لے جا کر بٹھایا اور اپنی حیثیت سے زیادہ خاطر مدارات کی۔

    مصیبت
    نرگس نظر دو تین روز انّا کے گھر میں آرام سے رہیں۔ یکایک خبر مشہور ہوئی کہ بادشاہ گرفتار ہوگئے اور کئی شہزادے قتل کر دیے گئے اور فوج غازی آبا د کو لوٹنے آرہی ہے۔ نرگس نظر نے جواہرات کا صندوقچہ انّا سے کہہ کر زمین میں دفن کرا دیا اور مصیبت کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر میں سکھ فوج غازی آباد میں داخل ہوئی اور اس نے باغیوں کی تلاش شروع کی۔ مخبروں نے کہا، ’’بادشاہ کی پوتی اپنی انّا کے گھر میں موجود ہے۔‘‘ دو سکھ سردار چار سپاہیوں کے ساتھ انّا کے گھر میں آئے اور انہوں نے سب گھر والوں کو پکڑ لیا۔ نرگس نظر کوٹھری میں چھپ گئی تھیں۔ ان کو بھی کواڑ توڑ کر باہر نکالا گیا اور بے پردہ سامنے کھڑا کیا گیا۔ سردار نے پوچھا، ’’کیا تم بہادر شاہ کی پوتی ہو؟‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’میں ایک آدمی کی بیٹی ہوں۔ بادشاہ کی اولاد ہوتی تو اس غربت زدہ گھر میں کیوں آتی۔ اگر خدا نے بادشاہ کی پوتی بنایا ہوتا تو تم اس طرح بے پردہ مجھ کو سامنے کھڑا نہ کرتے۔ تم ہندوستانی ہو، تم کو شرم نہیں آتی کہ اپنے ملک کی عورتوں پر ظلم کرتے ہو۔

    سردار نے کہا، ’’ہم نے کیا ظلم کیا؟ ہم تو یہ دریافت کرتے ہیں کہ تم کون ہو؟ ہم نے سنا ہے کہ تم بہادر شاہ کی پوتی ہو اور تمہارے باپ نے بہت سے انگریزوں اور ان کی عورتوں اور بچّوں کو قلعہ کے اندر قتل کیا تھا۔‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’جو کرتا ہے وہی بھرتا ہے۔ اگر میرے باپ نے ایسا کیا ہوگا تو ان سے پوچھو۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں نے کسی کو نہیں مارا۔‘‘ یہ سن کر دوسرا نوجوان سکھ سردار بولا، ’’ہاں تم تو آنکھوں سے قتل کرتی ہو۔ تم کو تلواروں اور ہتھیاروں سے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    نرگس نظر نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا، حالانکہ اس کی زندگی میں غیر مردوں سے بات کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، ’’خاموش رہو۔ بادشاہوں سے ایسی بے تمیزی کے ساتھ بات نہیں کرتے۔ تمہاری زبان گدی کے پیچھے سے نکال لی جائے گی۔‘‘ نوجوان یہ سن کر بگڑا اور اس نے آگے بڑھ کر نرگس نظر کے بال پکڑ لیے اور ان کو روز سے جھٹکا دیا۔ بوڑھے سکھ سردار نے نوجوان سردار کو روکا اور کہا، ’’عورت کےساتھ ایسی زیادتی کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ نوجوان سردار نے یہ بات سن کر بال چھوڑ دیے۔

    کرایہ کی بیل گاڑی منگوائی گئی اور اس میں نرگس نظر کو سوار کیا گیا۔ انّا اور اس کے گھر والے بھی سب قید ہو کر پیدل ساتھ چلے۔ نرگس نظر سے پوچھا گیا، ’’تمہارا زیور اور روپیہ پیسہ کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’میں خود ہی زیور ہوں اور خود ہی سمجھنے والوں کے لیے جواہر اور دولت ہوں، میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر دونوں سردار خاموش ہوگئے اور بہلی کو دہلی کی طرف لے چلے۔

    ہینڈن ندی کے پاس گاؤں کے جاٹوں اور گوجروں نے سکھ فوج والوں پر بندوقیں چلائیں اور دیر تک ان کی آپس میں لڑائی ہوتی رہی۔ سکھ تھوڑے تھے اور گاؤں والے زیادہ تھے۔ سکھ سب مارے گئے اور گاؤں والے قیدیوں کو اپنے ساتھ گاؤں میں لے گئے۔

    گنواروں نے نرگس نظر کے جسم پر جو دو چار قیمتی زیور تھے، ان کو اتار لیا اور قیمتی کپڑے بھی اتروا لیے اور کسی چماری کا پھٹا ہوا لہنگا اور پھٹا ہوا کرتہ اور میلا دوپٹہ پہننے کو دے دیا۔ نرگس نظر نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا اور مجبوراً تن ڈھانپنے کو یہ کپڑے پہنے۔ تھوڑی دیر میں پاس کے گاؤں کے چند مسلمان گنوار آئے اور ان کے نمبر دار نے نرگس نظر کو گوجروں سے خرید لیا اور اپنے گاؤں میں لے گیا۔ یہ لوگ ذات کے رانگڑ تھے اور کچھ لوگ تگا قوم کے مسلمان تھے۔ نمبر دار نے اپنے لڑکے کا پیغام دیا کہ تیری شادی اس کے ساتھ کر دیں۔ یہ بڈھا آدمی تھا۔ اس کا لڑکا اگرچہ گنوار تھا، لیکن صورت شکل کا اچھا تھا۔ نرگس نظر نے ہاں کر لی اور گاؤں کے قاضی نے اس کا نکاح پڑھا دیا اور نرگس نظر تین چار مہینے نمبر دار کے گھر میں نئی دلہن بنی آرام سے بسر اوقات کرتی رہیں۔

    دوسری مصیبت
    انگریزوں کا قبضہ پوری طرح ہوگیا تھا اور ان کے جاسوس جگہ جگہ خبریں لیتے ہوئے پھر رہے تھے۔ کسی جاسوس نے دہلی کے حاکم کو خبر دی کہ میرزا باغی دستیاب نہیں ہوئے، مگر ان کی بیٹی فلاں گاؤں میں نمبردار کے گھر میں موجود ہے۔ انگریز حاکم نے اس گاؤں میں پولیس کو بھیجا۔ میرٹھ کی پولیس نے آکر گاؤں کا محاصرہ کر لیا اور نرگس نظر اور ان کے خاوند اور سسر کو گرفتار کر کے دہلی میں لایا گیا۔ حاکم نے نرگس نظر سے میرزا کے متعلق بہت سوالات کیے، مگر جب کوئی مفید مطلب جواب نہ ملا تو حکم دیا کہ نمبر دار اور اس کا بیٹا باغی معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں نے ایک باغی کی بیٹی کو پناہ دی ہے۔ اس واسطے ان دونوں کو جیل بھیج دیا جائے اور یہ عورت دہلی میں کسی مسلمان کے حوالے کر دی جائے۔

    چنانچہ نمبر دار اور اس کا بیٹا دس دس سال کے لیے جیل بھیج دیے گئے اور نرگس نظر سے پوچھا گیا کہ وہ کس کے ہاں رہنا چاہتی ہے۔ شہزادی نے جواب دیا اگر میرے خاندان کے آدمی دہلی میں ہوں تو ان کے پاس بھیج دیا جائے۔ معلوم ہوا تیموریہ خاندان کے لوگ ابھی تک یا تو رو پوش ہیں یا جنگلوں اور دیہات میں مقیم ہیں۔ دہلی شہر میں ابھی کوئی نہیں آیا۔ اس واسطے نرگس نظر ایک فوجی مسلمان سپاہی کے حوالے کر دی گئیں جو ان کو اپنے گھر میں لے گیا۔ اس سپاہی کی بیوی موجود تھی۔

    اس نے دیکھا کہ ایک قبول صورت جوان عورت گھر میں آئی ہے تو اس نے ایک دو ہتٹر اپنے خاوند کے مارا اور نرگس نظر کو بھی دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دیا اور یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس نظر کو کسی نے دھکا دیا۔ سپاہی گھر کے باہر آیا اور نرگس نظر کو ساتھ لے کر اپنے ایک دوست کے ہاں لے گیا۔ وہ بڑی عمر کے ایک مسلمان تھے اور گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ انہوں نے شہزادی کا حال سنا تو رونے لگے اور بہت محبت کے ساتھ اپنے گھر میں جگہ دی اور نرگس نظر ایک رات آرام سے اس گھر میں رہیں۔

    دوسری رات کو نرگس نظر سوتی تھیں کہ چند آدمیوں نے ان کا منہ اپنے ہاتھوں سے بند کیا اور اٹھا کر کہیں لے گئے۔ نرگس نظر نے ہر چند ہاتھ پاؤں مارے، مگر انہوں نے ایسا مضبوط پکڑا تھا کہ یہ جنبش نہ کر سکیں۔ وہ لوگ اسی گاؤں کے رہنے والے تھے جہاں کے نمبر دار کے بیٹے سے نرگس نظر کا نکاح ہوا تھا، مگر وہ دہلی کے قریب ایک گاؤں میں لے گئے اور وہاں ایک چھپر میں ٹھہرایا اور ایک چارپائی سونے کے لیے دے دی۔ یہ گاؤں بھی تگا مسلمانوں کا تھا۔

    نرگس نظر جس گھر میں رہتی تھیں، وہ نمبر دار کا گھر تھا اور نمبر دار بہت نیک چلن آدمی تھا۔ تین چار سال تک نرگس نظر اس گھر میں رہیں۔ وہ سارے گھر کا کام کرتی تھیں، لیکن گوبر تھاپنا اور دودھ دوہنا ان کو نہ آتا تھا۔ چار سال کے بعد ان کا خاوند رہا ہو گیا اور وقت سے پہلے گورنمنٹ نے اس کو رہائی دے دی اور وہ نرگس نظر کو اس گاؤں سے اپنے گھر لے گیا، جہاں ساری عمر انہوں نے گزار دی اور ان کے کئی بچّے ہوئے اور 1911ء میں نرگس نظر کا انتقال ہو گیا۔

  • جب جوان شہزادوں‌ کے بُریدہ سَر بادشاہ کے سامنے لائے گئے!

    جب جوان شہزادوں‌ کے بُریدہ سَر بادشاہ کے سامنے لائے گئے!

    زمانہ چپکے چپکے کروٹ بدل رہا تھا۔ مشرق پر مغرب کی یلغار شروع ہوچکی تھی۔ تہذیبِ فرنگ کی آندھی چڑھتی چلی آرہی تھی اور مشرقی تہذیب کے چراغ جھلملا رہے تھے۔ یہ دلّی کی آخری بہار تھی جس کی گھات میں خزاں لگی ہوئی تھی۔

    بہادر شاہ کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہیں تھی۔ تیموری دبدبہ لال قلعہ میں محصور ہو چکا تھا۔ ملک ملکہ کا تھا، حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔

    بہادر شاہ کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کر سکتے تھے اور تو اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف تھے۔ گھر کے بھیدی لنکا ڈھا رہے تھے۔ ان کی چہیتی بیگم زینت محل مرزا جواں بخت کو ولی عہد بنوانا چاہتی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے فرنگیوں سے ساز باز کر رکھا تھا۔ بادشاہ کے سمدھی مرزا الہٰی بخش انگریزوں سے جا ملے تھے۔ شاہی طبیب حکیم احسن اللہ خاں انگریزوں کے گماشتے تھے۔

    جب 57ء میں غدر پڑا، جو دراصل پہلی جنگِ آزادی تھی جو انگریزوں سے لڑی گئی، تو دیسی فوجیں چاروں طرف سے سمٹ کر دلّی آنے لگیں اور زبردستی بوڑھے بادشاہ کو اپنا فرماں روا بنا کر فرنگیوں سے لڑنے لگیں، مگر اندر خانے تو دیمک لگی ہوئی تھی۔ ولی عہد بہادر اپنی چلا رہے تھے۔ انہیں اپنی بادشاہی کے خواب نظر آ رہے تھے۔ جنرل بخت خان پہلے تو جی توڑ کر لڑا۔ مگر جب اس نے یہ دیکھا کہ صاحب عالم اس کی چلنے نہیں دیتے تو اپنے آدمیوں کو لے کر روپوش ہو گیا۔

    اقتدار کی خواہش اور محلّات کی ریشہ دوانیاں آخری مغل بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ آئیں اور شہر کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو بادشاہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں چلے گئے۔ دلّی کو انگریزوں نے فتح کر لیا۔ رعایا تباہ ہو گئی۔ دربدر خاک بسر۔ جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔ دلّی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ ہڈسن اپنی فوج کا دستہ لے کر ہمایوں کے مقبرے پہنچا۔ اس کے پہنچنے سے کچھ ہی دیر پہلے جنرل بخت خان نے مقبرے میں آکر بادشاہ کو بتایا کہ دلّی ختم ہو گئی۔ بہتر ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ہم کسی اور مقام کو اپنا گڑھ بنا کر انگریزوں سے لڑیں گے۔ بادشاہ اس کے ساتھ چلنے پر رضامند بھی ہو گئے مگر انگریزوں کے ہوا خواہوں نے انہیں پھر ہشکا دیا۔ یہ کہہ کر کہ اس پوربیے کا کیا اعتبار؟ یہ آپ کی آڑ میں خود بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ بادشاہ پھر ڈِھسل گئے۔

    انہیں باور کرایا گیا کہ انگریز آپ کی پنشن جاری رکھیں گے اور آپ کی جو نذر بند کر دی گئی ہے اسے بھی کھول دیں گے، اور آپ آرام سے لال قلعہ میں رہیں گے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ بادشاہ نے بخت خان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ جنرل بخت خان نے بہت سمجھایا کہ یہ مشورہ نمک حراموں کا ہے۔ ان کا یا فرنگیوں کا کیا اعتبار؟ مگر بادشاہ دو دلے ہو کر رہ گئے اور ہڈسن کا دستہ جب مقبرے میں داخل ہو گیا تو جنرل بخت خاں بادشاہ کو آخری سلام کر کے مقبرے میں سے جمنا کے رخ اتر گیا۔ اس کا پھر کوئی پتہ نہیں چلا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

    ہڈسن نے آکر بادشاہ سے باتیں ملائیں۔ بادشاہ نے قلعہ میں واپس چلنے کے لیے چند شرائط پیش کیں۔ اپنی اور اپنے لواحقین کی جاں بخشی چاہی۔ پنشن کا جاری رہنا اور نذر کا کھلنا چاہا۔ ہڈسن نے سارے مطالبات مان لیے۔�

    بادشاہ کو ہوا دار میں سوار کرایا اور چھے شہزادوں کو فینس میں۔ جب دلّی کے خونی دروازے پر پہنچے تو ہڈسن نے رک کر شہزادوں کو حکم دیا کہ فینس میں سے باہر نکل آؤ۔ شاہزادوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہڈسن نے ان پر اپنا طمنچہ تانا۔ شہزادوں نے کہا، ’’آپ نے تو ہمیں جان کی امان دی ہے۔‘‘ زبردست مارے بھی اور رونے نہ دے۔ ایک ایک کر کے ہڈسن نے چھیئوں شہزادوں کو گولی کا نشانہ بنایا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب شہزادے خاک و خون میں تڑپ رہے تھے تو ہڈسن نے ان کا چلّو چلّو بھر خون پیا اور کہا، ’’آج میں نے انگریزوں کے مارنے کا بدلہ ان سے لے لیا۔‘‘

    شہزادوں کے سَر کاٹ لیے گئے اور ان کی لاشیں خونی دروازے پر لٹکا دی گئیں۔ بادشاہ کو لال قلعہ میں قید کر دیا گیا۔ جب بادشاہ نے دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ’’مجھ سے میری پنشن بحال رکھنے اور نذر کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔‘‘ تو ہڈسن نے کہا، ’’ہم تمہاری نذر بھی کھولے گا۔‘‘ یہ کہہ کر شہزادوں کے کٹے ہوئے سَر ایک طشت میں رکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیے۔

    بوڑھے بادشاہ کے دل پر چھے جوان بیٹوں کے سَر دیکھ کر کیا گزری ہو گی؟ اس کا اندازہ صاحبِ اولاد کر سکتے ہیں، اور شہزادوں کی بے گور و کفن لاشیں خونی دروازے پر لٹکی سڑتی رہیں۔ بادشاہ زادیاں دلّی کی ویران گلی کوچوں میں بھٹکتی پھریں۔ کوئی انہیں امان دینے پر تیار نہ تھا۔ کون اپنی جان جوکھم میں ڈالتا؟ کوتوالی چبوترے پر پھانسیاں گڑ گئیں اور چن چن کر مسلمانوں کو دار پر چڑھایا گیا اور اس کا بھی خاص اہتمام کیا گیا کہ پھانسی دینے والا بھنگی ہی ہو۔

    دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں ہُو کا عالم ہو گیا۔ ویرانوں میں کتّے لوٹنے لگے۔ وہ بازار جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور تھالی پھینکو تو سَروں ہی سروں پر جاتی تھی، مسمار کر دیے گئے۔ امیر امراء کی حویلیاں ڈھا دی گئیں اور دفینوں کی تلاش میں دلّی پر گدھوں کے ہل پھروا دیے گئے۔ بادشاہ پر لال قلعہ میں مقدمہ چلا گیا اور انہیں قید کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ لال حویلی کی کوکھ جل گئی۔ قلعہ میں گوری فوج رہنے لگی۔ جامع مسجد میں گھوڑے باندھے جانے لگے۔

    بہادر شاہ ایک فقیر منش بادشاہ تھے، پیری مریدی بھی کرتے تھے، جو ان کا مرید ہوتا اس کا کچھ نہ کچھ وظیفہ مقرر ہو جاتا۔ یوں تو ان کے سیکڑوں مرید تھے جو چیلے کہلاتے تھے۔ دلّی میں ایک محلہ انہی چیلوں کی رہائش کی وجہ سے چیلوں کا کوچہ کہلاتا ہے۔ شعر و شاعری تو گویا، ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ کلام الملوک ملوک الکلام، ان سے زیادہ کسی اور پر یہ مقولہ سچا نہیں اترتا۔ کلام میں سوز و گداز ہے، ان کا کلام ان کی سیرت کا آئینہ ہے، مایوسیوں نے ان کا دل گداز کر دیا تھا۔ فرماتے ہیں،

    یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
    یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی کے قلم سے دلّی کے اجڑنے اور آخری مغل بادشاہ کی بربادی کی درد انگیز روداد)

  • نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    مرزا غالب نے کہا ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔ یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہُوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔

    یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشّان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری اور بیر اکھیری پھیلی کہ بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے۔ محمد شاہ رنگیلے ’’پیا‘‘ کہلائے۔ ان کے عہد میں در و دیوار سے نغمے برستے اور شعر و شاعری کے اکھاڑے جمتے۔ نعمت خاں سدا رنگ انہی کے دربار کا بین کار اور کلاونت تھا جس نے دھرپد کے مقابلے میں خیال کی گائیکی کو فروغ دیا۔ آج تک گویے اس کے نام پر کان پکڑتے ہیں، ولیؔ اپنا دیوان لے کر انہی کے زمانے میں دلّی آئے تھے اور ان ہی کے دربار میں انہوں نے اپنے طالع چمکائے تھے۔

    گھر گھر شعر اور موسیقی کا چرچا تھا۔ بادشاہ کو دوم ڈھاڑیوں نے باور کرا دیا تھا کہ آدمی تیر تلوار کا مارا بھی مرتا ہے اور تان تلوار کا بھی۔ لہٰذا ایک فوج گویوں کی بھی تیار کر لی گئی تھی۔ ان رنگ رلیوں میں تلواریں لہو چاٹنا بھول گئیں اور نیاموں میں پڑے پڑے سو گئیں۔ نادر شاہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور قہر و غضب کی آندھی بن کر دلّی کی طرف جھپٹا۔ پرچہ لگا کہ نادر شاہ دلی کے قریب آ پہنچا۔ گویوں کی فوج مقابلے کے لیے بھیج دی گئی۔ نادر شاہ کے جانگلو محمد شاہی فوجیوں کی بغلوں میں بڑے بڑے طنبورے دیکھ کر پہلے تو ڈرے کہ خدا جانے یہ کیا ہتھیار ہے مگر جب جاسوسوں نے بھانڈا پھوڑا کہ یہ ہتھیار نہیں، ایک ساز ہے، تو دَم کے دَم میں انہوں نے محمد شاہی فوج کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر ڈال دیا۔ نادر شاہ نے دھڑی دھڑی کر کے دلّی کو لوٹا اور دلّی کھک ہو گئی۔ قتلِ عام کیا تو ایسا کہ گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے۔ آخر وزیر با تدبیر بوڑھے نظامُ الملک کو نادری جلال فرو کرنے کے لیے نادر شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا پڑا کہ

    کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغِ ناز کشی
    مگر تو زندہ کنی خلق را و باز کشی

    نادر شاہ لوٹ لاٹ کابل چلا گیا، اور اپنے ساتھ شاہجہانی تخت طاؤس بھی لے گیا۔ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں روہیلے نے نکالیں۔ بادشاہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی اندھے ہو گئے۔ ان کے درباریوں نے انہیں یقین دلایا کہ حضور والا بیٹھے بیٹھے ایک دم سے غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں دلّی سے مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہ سلامت بھی یہ سمجھنے لگے کہ واقعی میں مجھ میں یہ کرامت سما گئی ہے۔ پیری مریدی کرنے لگے اور مریدوں کے وظائف مقرر ہونے لگے۔ حکومت تباہ اور خزانے ویران ہو گئے۔ مثل مشہور ہوئی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی۔ سودا نے اپنے شہر آشوب میں ان کے زمانے کا خاکہ اڑایا۔

    اکبر شاہ ثانی جاٹوں کے حملے سے ایسے ناچار ہوئے کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہو گئے۔ یہی لیل ونہار تھے کہ بہادر شاہ عالم وجود میں آئے۔ بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمر تخت و تاج کی راہ تکتے بیت گئی۔ اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم تھیں ممتاز محل۔ ان بیگم کے ایک چہیتے بیٹے تھے مرزا جہانگیر۔ بادشاہ بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور انہی کو ولی عہد مقرر کرنا چاہتے تھے مگر مرزا جہانگیر اپنی بے ہودہ حرکتوں سے باز نہ آتے۔ انگریز حاکم اعلیٰ سیٹن کو لولو کہہ دیا۔ اس کی پاداش میں مرزا نظر بند کر کے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔

    ہاں تو بہادر شاہ ہی ولی عہد رہے اور ایک نہ دو، پورے باسٹھ سال تک ولی عہد رہے۔ جب کسی بادشاہ کا انتقال ہو جاتا تھا تو اس کے مرنے کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے، یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ ’’گھی کا کپا لنڈھ گیا۔‘‘ خاموشی کے ساتھ میت کو نہلا دھلا کفنا کر قلعہ کے طلاقی دروازے سے جنازہ دفن کرنے بھیج دیا جاتا۔ نوبت نقارے الٹے کر دیے جاتے اور چولہوں پر سے کڑہائیاں اتار دی جاتیں۔ اکبر شاہ ثانی کے وقت تک یہ رسم چلی آتی تھی کہ بادشاہ کے جنازے کو تخت کے آگے لا کے رکھتے تھے۔ دوسرا بادشاہ جو کوئی ہوتا تھا، مردے کے منہ پر پاؤں رکھ کر تخت پر بیٹھتا تھا۔ دوسرے بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی شادیانے بجنے لگتے۔ سلامی کی توپیں چلنے لگتیں۔ تب کہیں سب کو معلوم ہوتا کہ بادشاہ مر گیا اور دوسرا بادشاہ تخت پر بیٹھ گیا۔

    باسٹھ سال کی عمر میں بہادر شاہ کو تخت نصیب ہوا تو مغلوں کا جلال رخصت ہو رہا تھا اور آفتابِ اقبال لبِ بام آ چکا تھا۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے، لیکن بالکل بے دست و پا تھے۔ فرنگی سرکار کے نمک خوار تھے۔ انہیں اس شرط پر ایک لاکھ روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا کہ ان کے بعد دلّی کی شاہی ختم ہو جائے گی اور دلّی بھی انگریزی عمل داری میں شامل ہو جائے گی۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا اور اگر شہر والوں میں سے کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بادشاہ اپنی مجبوری ظاہر کر دیتے اور کہتے، ’’بھئی انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘

    لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ شہر کی بیشتر آبادی لال قلعہ کے متوسلین پر مشتمل تھی۔ شہزادوں اور سلاطین زادوں کے علاوہ امیر امراء اور رؤسا کا خدم و حشم کیا کم تھا؟ دلّی میں، لٹتے لٹتے بھی الغاروں دولت بھری پڑی تھی۔ ڈیوڑھیوں پر ہاتھی جھولتے، تخت رواں، ہوا دار، پالکی، نالکی، تام جھام، ہر حویلی میں موجود۔ لاؤ لشکر کا کیا ٹھکانہ! چوب دار، عصا بردار، پیادے، مردھے، کہار، لونڈیاں، باندیاں، ودّائیں، چھوچھوئیں، مغلانیاں، ترکنیں، حبشنیں، جسولنیاں، قلماقنیاں، خواجہ سرا، دربان، پاسبان، ہر امیر کے ہاں آخور کی بھرتی کی طرح بھرے پڑے تھے۔

    سستا سمے، کاروبار خوب چمکے ہوئے، نہ جانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا تھا۔ ایک کماتا اور دس کھاتے۔ اجلے پوشوں تک کے خرچ اجلے تھے۔ رعایا خوش حال اور فارغ البال تھی۔ رہن سہن، ادب آداب، نشست و برخاست، بول چال، رسم و رواج، تیج تہوار، میلے ٹھیلے، سیر تماشے، ان سب میں کچھ ایسا سلیقہ اور قرینہ تھا کہ دلّی کی تہذیب ایک مثالی نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ یہاں کے ہیروں کی چمک دمک تو آنکھوں میں کبھی کبھی ہی جاتی تھی، باہر سے جو بھی کھڑ آتی یا انگھڑ جواہر پارے آتے، یہاں ان کی تراش خراش کچھ اس انداز سے ہوتی اور اس پر ایسی جلا چڑھتی کہ اس کی چھوٹ سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں۔ یہاں آکر گونگوں کو زبان مل جاتی، جن کی منقار زیر پَر ہوتی وہ ہزار داستاں بن جاتے، جو پر شکستہ ہوتے وہ فلک الافلاک پر، پَر مارنے لگتے۔ علوم و فنون کے چشمے اس سرزمین سے پھوٹتے اور حکمت و دانش یہاں کی فضا میں گھلتی رہتی۔ غرض ہندوستان کا دلّی ایک عجیب پُرکیف مقام تھا جو بہت کچھ برباد ہو جانے پر بھی جنّت بنا ہوا تھا۔

    (ماخذ: دلّی جو ایک شہر تھا، از شاہد احمد دہلوی)

  • دلّی کا شاہی خاندان اور ماہِ صّیام

    دلّی کا شاہی خاندان اور ماہِ صّیام

    جب دہلی زندہ تھی اور ہندوستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی، لال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا۔

    انہی دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سلیم بہادر (جو ابو ظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ایک اتفاقی قصور کے سبب قید ہو کر الہ آباد چلے گئے تھے) اپنے مردانہ مکان میں بیٹھے ہوئے دوستوں سے بے تکلفانہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں زنان خانہ سے ایک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کیا کہ حضور بیگم صاحبہ یاد فرماتی ہیں۔ مرزا سلیم فوراً محل میں چلے گئے اور تھوڑی دیر میں مغموم واپس آئے۔ ایک بے تکلف ندیم نے عرض کیا، ’’خیر باشد۔ مزاج عالی مکدّر پاتا ہوں۔‘‘

    مرزا نے مسکرا کر جواب دیا، ’’نہیں کچھ نہیں۔ بعض اوقات امّاں حضرت خواہ مخواہ ناراض ہو جاتی ہیں۔ کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خان گویّا گا رہا تھا اور میرا دل بہلا رہا تھا۔ اس وقت اماں حضرت قرآن شریف پڑھا کرتی ہیں۔ ان کو یہ شور و غل ناگوار معلوم ہوا۔ آج ارشاد ہوا ہے کہ رمضان بھر گانے بجانے کی محفلیں بند کر دی جائیں۔ بھلا میں اس تفریحی عادت کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں۔ ادب کے لحاظ سے قبول تو کر لیا مگر اس پابندی سے جی الجھتا ہے۔ حیران ہوں کہ یہ سولہ دن کیوں کر بسر ہوں گے۔‘‘

    مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، ’’حضور یہ بھی کوئی پریشان ہونے کی بات ہے۔ شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد تشریف لے چلا کیجیے۔ عجب بہار ہوتی ہے۔ رنگ برنگ کے آدمی طرح طرح کے جمگھٹے دیکھنے میں آئیں گے۔ خدا کے دن ہیں۔ خدا والوں کی بہار بھی دیکھیے۔‘‘ مرزا نے اس صلاح کو پسند کیا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے کر جامع مسجد پہنچے۔ وہاں جاکر عجب عالم دیکھا۔ جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بیٹھے ہیں۔ کہیں مسائل دین پر گفتگو ہورہی ہے۔ دو عالم کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور بیسیوں آدمی گرد میں بیٹھے مزے سے سن ر ہے ہیں۔ کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے۔ کہیں کوئی صاحب وظائف میں مشغول ہیں۔ الغرض مسجد میں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجوم ہے۔

    کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذ۔ مرزا کو یہ نظارہ نہایت پسند آیا اور وقت بہت لطف سے کٹ گیا۔ اتنے میں افطار کا وقت قریب آیا۔ سیکڑوں خوان افطاری کے آنے لگے اور لوگوں میں افطاریاں تقسیم ہونے لگیں۔ خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلّف چیزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد میں بھیجے جاتے تھے تاکہ روزہ داروں میں افطاری تقسیم کی جائے۔ اس کے علاوہ قلعہ کی تمام بیگمات اور شہر کے سب امراء علیحدہ افطاری کے سامان بھیجتے تھے، اس لیے ان خوانوں کی گنتی سیکڑوں تک پہنچ جاتی تھی۔ چونکہ ہر امیر کوشش کرتا تھا کہ اس کا سامان افطاری دوسروں سے بڑھ کر رہے، اس لیے ریشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقیشی جھالریں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھیں اور مسجد میں ان کی عجب آرائش ہو جاتی تھی۔

    میرزا کے دل پر اس دینی چرچے اور شان و شوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برابر روزانہ مسجد میں آنے لگے۔ گھر گھر میں وہ دیکھتے کہ سیکڑوں فقراء کو سحری اور اوّلِ شب کا کھانا روزانہ شہر کی خانقاہوں اور مسجدوں میں بھجوایا جاتا تھا اور باوجود رات دن کے لہو و لعب کے یہ دن ان کے گھر میں بڑی برکت اور چہل پہل کے معلوم ہوتے تھے۔

    مرزا سلیم کے ایک بھانجے مرزا شہ زور نوعمری کے سبب اکثر ماموں کی صحبت میں بے تکلف شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک تو وہ وقت تھا جو آج خواب و خیال کی طرح یاد آتا ہے اور ایک وہ وقت آیا کہ دہلی زیر و زبر ہو گئی۔ قلعہ برباد کر دیا گیا۔ امیروں کو پھانسیاں مل گئیں۔ ان کے گھر اکھڑ گئے۔ ان کی بیگمات ماما گیری کرنے لگیں اور مسلمانوں کی سب شان و شوکت تاراج ہوگئی۔ اس کے بعد ایک دفعہ رمضان شریف کے مہینے میں جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولھے بنے ہوئے ہیں۔ سپاہی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے دانے دلے جا رہے ہیں۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہیں اور شاہجہاں کی خوبصورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے اور پھر جب مسجد وا گزاشت ہوگئی اور سرکار نے اس کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تو رمضان ہی کے مہینے میں پھر جانا ہوا۔

    دیکھا چند مسلمان میلے کچیلے پیوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہیں۔ وہ چار قرآن شریف کا دور کر رہے ہیں اور کچھ اسی پریشان حالی میں بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ افطاری کے وقت چند آدمیوں نے کھجوریں اور دال سیو بانٹ دیے۔ کسی نے ترکاری کے قتلے تقسیم کر دیے۔ نہ وہ اگلا سا سماں، نہ وہ اگلی سی چہل پہل، نہ وہ پہلی سی شان و شوکت۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ بیچارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد آج کل کا زمانہ بھی دیکھا جب کہ مسلمان چاروں طرف سے دب گئے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں نظر ہی کم آتے ہیں۔ غریب غرباء آئے تو ان سے رونق کیا خاک ہو سکتی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ مسجد آباد ہے۔ اگر مسلمانوں کے افلاس کا یہی عالم رہا تو آئندہ خبر نہیں کیا نوبت آئے۔

    مرزا شہ زور کی باتوں میں بڑا درد اور اثر تھا۔ ایک دن میں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا افسانہ سننا چاہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور اس کے بیان کرنے میں عذر مجبوری ظاہر کرنے لگے لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اپنی درد ناک کہانی اس طرح سنائی۔

    القصہ بہ ہزار دقت و دشواری گرتے پڑتے گاؤں میں پہنچے۔ یہ گاؤں مسلمان میواتیوں کا تھا۔ انہوں نے ہماری خاطر کی اور اپنی چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرا دیا۔

    کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پینے کی خبر رکھی اور چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرائے رکھا، لیکن کب تک یہ بار اٹھا سکتے تھے۔

    گاؤں والوں سے بھی مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح اس مصیبت میں گرفتار تھے۔ تاہم بچارے گاؤں کے چودھری کو خود ہی خیال ہوا اور اس نے قطب صاحب سے ایک روپے کا آٹا منگوا دیا۔ وہ آٹا نصف کے قریب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شریف کا چاند نظر آیا۔ والدہ صاحبہ کا دل بہت نازک تھا۔ وہ ہر وقت گذشتہ زمانے کو یاد کیا کرتی تھیں۔ رمضان کا چاند دیکھ کر انہوں نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگئیں۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو پچھلا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ تسلی کی باتیں کرنے لگا، جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔

    اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت میں سحری کا وقت آ گیا۔ والدہ صاحبہ اٹھیں اور تہجد کی نماز کے بعد جن درد ناک الفاظ میں انہوں نے دعا مانگی، ان کا نقل کرنا محال ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ ، ’’ہم نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا یہ مل رہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر سے سیکڑوں محتاجوں کو کھانا ملتا تھا اورآج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہیں اور روزہ پر روزہ رکھ رہے ہیں۔ خداوندا! اگر ہم سے قصور ہوا ہے تو اس معصوم بچی نے کیا خطا کی جس کے منہ میں کل سے ایک کھیل اڑ کر نہیں گئی۔‘‘

    دوسرا دن بھی یونہی گذر گیا اور فاقہ میں روزہ در روزہ رکھا۔ شام کے قریب چودھری کا آدمی دودھ اور میٹھے چاول لایا اور بولا، ’’آج ہمارے ہاں نیاز تھی۔ یہ اس کا کھانا ہے اور یہ پانچ روپیہ زکوٰۃ کے ہیں۔ ہر سال بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری دیا کرتے ہیں، مگر اب کے نقد دے دیا ہے۔‘‘ یہ کھانا اور روپے مجھ کو ایسی نعمت معلوم ہوئے گویا بادشاہت مل گئی۔ خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہا۔ کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھیجتا جاتا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ گردشِ فلک نے مرد کے خیال پر تو اثر ڈال دیا، لیکن عورت ذات جوں کی توں اپنی قدیمی غیرت داری پر قائم ہے۔

    چنانچہ میں نے دیکھا کہ والدہ کا رنگ متغیر ہوگیا۔ باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انہوں نے تیور بدل کر کہا، ’’تف ہے تیری غیرت پر۔ خیرات اور زکوٰۃ لے کر آیا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ارے اس سے مرجانا بہتر تھا۔ اگرچہ ہم مٹ گئے مگر ہماری حرارت نہیں مٹی۔ میدان میں نکل کر مر جانا، مار ڈالنا، تلوار کے زور سے روٹی لینا ہمارا کام ہے۔ صدقہ خوری ہمارا شیوہ نہیں ہے۔‘‘

    والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسینہ آگیا اور شرم کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ چاہا کہ اٹھ کر یہ چیزیں واپس کر آؤں مگر والدہ نے روکا اور کہا، ’’خدا ہی کو یہ منظور ہے تو ہم کیا کریں۔ سب کچھ سہنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر کھانا رکھ لیا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھا لیا۔ پانچ روپیہ کا آٹا منگوایا گیا۔ جس سے رمضان خیر و خوبی سے بسر ہو گیا۔

  • بخت خاں، ایک بہادر اور نڈر سپاہی

    بخت خاں، ایک بہادر اور نڈر سپاہی

    1857 میں جب ہندوستانیوں کے دلوں میں پکتا ہوا لاوا شعلۂ جوالا بن کر پھوٹا تو ہر شخص سر پر کفن باندھ کر اس لڑائی میں حصّہ لینے کے لیے کود پڑا۔

    اس لڑائی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بادشاہ، علما، بوڑھے، جوان، مرد و عورت سبھی انگریزوں سے آر پار کی جنگ کرنے کو اٹھ کھڑے ہوئے اور شجاعت اور بہادری کی وہ مثالیں پیش کیں جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی میں جن لوگوں نے قیادت کی ذمے داریاں سنبھالیں ان میں بخت خاں کا نام منارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔

    بخت خاں کو جنگ آزادی میں شمولیت کی ترغیب مولانا سرفراز علی گورکھپوری نے دی جو گورکھپور کے سوداگر محلے کے رہنے والے تھے۔ سرفراز علی جنگ آزادی کے نمائندہ قائدین میں سے تھے۔ بخت خاں پہلے انگریزوں کی فوج میں صوبیدار تھے۔ بریلی سے بخت خاں تحریک میں حصّہ لینے کے لیے جب دہلی پہنچے تو ان کے ساتھ سو علما بھی تھے جن کی رہنمائی سرفراز علی گورکھپوری کر رہے تھے۔ مراد آباد کی پلٹن نمبر29 بھی ان کے ساتھ تھی۔ ان کا دہلی آنا بہادر شاہ کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔ بہادر شاہ نے انھیں انقلابی فوجوں کی کمان سونپ دی۔

    جس وقت وہ دہلی پہنچے تو بہادر شاہ نے ان کے استقبال کے لیے احمد قلی خاں کو بھیجا۔ ان کے ہمراہ حکیم احسن اللہ خاں، ابراہیم خاں جنرل صمد خاں، غلام علی خاں اور چند افسر بھی موجود تھے۔ بخت خاں نے دہلی آنے کے بعد تحریک میں تیزی لانے کے لیے ایک فتویٰ جہاد مرتب کرایا۔ ساتھ ہی انھوں نے ایک حلف نامہ بھی تقسیم کرایا جن پر سات آٹھ ہزار سپاہیوں سے عہد لیا گیا کہ وہ آخر دم تک انگریزوں سے لڑیں گے۔ وہ اپنے ساتھ چار لاکھ خزانہ بھی لائے تھے اور جو فوج ان کے ہمراہ آئی تھی اس کو وہ چھ ماہ کی تنخواہ پیشگی دے چکے تھے۔

    بخت خاں نے قیادت کی کمان سنبھالنے کی بعد بہت سے اہم فیصلے کیے، شہر میں امن و امان کی فضا بحال کرنے کی کوشش کی، کوتوال کو یہ واضح کردیا کہ بد امنی اور لاقانونیت کو کسی طرح برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر انھوں نے لاپروائی کی تو وہ بھی سزا کے حق دار ہوں گے۔ لوٹ مار میں ملوث شہزادوں اور مہاجنوں پر قدغن لگائی۔ شکر اور نمک کے محصول کو معاف کرایا۔ کیونکہ ان سے عام انسانی زندگی متاثر ہوتی تھی، فوج کو نئے سرے سے درست کیا۔ بچھڑا پلٹن کے نام سے ایک نئی پلٹن کی تشکیل کی جس نے کئی مورچوں پر انگریزوں سے سخت مقابلہ کر کے انھیں مشکل میں ڈال دیا۔

    بخت خاں ایک بہادر اور نڈر سپاہی تھے۔ انھوں نے اپنی آخری سانس تک دہلی کو بچائے رکھنے کی کوشش کی مختلف مورچوں پر شریک ہوئے اور وہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑے جس کی تصدیق اس عہد کے بیشتر وقائع نگاروں نے کی ہے۔

    بخت خاں مورچے میں مصروف تھے کہ انھیں خبر ملی بہادر شاہ نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس خبر نے انھیں بے چین کر دیا۔ وہ اسی رات بہادر شاہ کے پاس گئے اور کہا کہ حالات بے شک نازک ہیں، انگریز شہر پر قابض ہو گئے ہیں، انھوں نے قلعہ بھی لے لیا ہے لیکن ابھی پورا ملک ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے اور آپ کے نام سے جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں، ہم محفوظ مقامات سے انگریزوں سے جنگ جاری رکھیں گے، آدمی رسد اور ہتھیار فراہم کرنے کی ذمے داری ہماری ہوگی۔ بخت خاں کی تقریر کا بہادر شاہ پر اثر بھی ہوا۔

    اس دوران انگریزوں کا جاسوس اور ایجنٹ الٰہی بخش جو بہادر شاہ کا سمدھی بھی تھا، بہادر شاہ کو شیشے میں اتار چکا تھا۔ بہادر شاہ نے اپنی صحت اور ضعیف العمری کا حوالہ دے کر بخت خاں سے معذرت کر لی اور کہا کہ اب مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور تم خود ہندوستان کی لاج رکھ لو اور اپنے فرض کو انجام دو۔ لیکن بعد میں حالات بدلتے چلے گئے اور بادشاہ کی گرفتاری اورانگریزوں کے قبضے کے بعد بخت خاں نیپال کی طرف چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک معرکے میں مارے گئے اور یہ بھی راویت ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن بنیر ضلع سوات زخمی حالت میں پہنچ گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ لیکن اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ انگریز اپنے ازلی دشمن کو پکڑنے میں ناکام رہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنماؤں میں بخت خاں کا مرتبہ بہت بلند ہے۔

    (تاریخی کتب سے اقتباسات)

  • "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    تیمور کی وفات کے بعد اس کی نسل میں کوئی ایسا باصلاحیت شخص پیدا نہیں ہوا جو تیمور کی عظیم الشّان سلطنت کو بکھرنے سے بچا سکتا تھا۔ چنانچہ تیمور کے بعد وسط ایشیا میں تیموری شہزادے اور امرا نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئے۔

    انہیں میں ایک ریاست فرغانہ تھی جس کا حکم ران عمر شیخ مرزا تھا۔ ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی بابر مرزا اسی عمر شیخ مرزا کا لڑکا تھا۔ بابر کا سلسلۂ حسب و نسب باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے ملتا ہے۔ لہٰذا بابر کی رگوں میں تیمور اور چنگیز دونوں کا خون تھا۔ 1494ء میں عمر شیخ مرزا کا انتقال ہوا۔ اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ شدید خانہ جنگی کے حالات میں نو عمر بابر کے لیے فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔

    چنانچہ 10 سال تک بابر خود کو اور اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ہمسایہ ریاستوں کے حکم رانوں سے جنگ و جدل میں الجھا رہا۔ وسط ایشیا کے حالات سے مایوس ہو کر بابر نے افغانستان کا رخ کیا اور 1504ء میں کابل فتح کر کے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کر لی۔ اس وقت ہندوستان میں لودھی پٹھان حکومت کررہے تھے۔ پنجاب کی خود مختار مسلم ریاستوں اور لودھی حکم رانوں کے درمیان علاقائی تسلط کے لیے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔

    ملتان کے حاکم نے بابر مرزا کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر ویسے بھی ہندوستان کے ان علاقوں پر جو تیمور فتح کرچکا تھا، اپنا حق سمجھتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہندوستان پر کئی حملے کیے تھے۔ ملتان کے حاکم کی دعوت پر بابر نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا اور 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست سے اقتدار پٹھانوں کے ہاتھ سے نکل کر تیموری مغل خاندان میں منتقل ہو گیا۔

    اگرچہ پٹھانوں نے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار چھین لیا تھا، لیکن سلطنتِ دہلی کے دور میں راجپوتانہ عملاً مختلف راجپوت خاندانوں کے تسلط ہی میں رہا۔ لودھی حکومت کے دور میں سلطنتِ دہلی سکڑ کر ایک علاقائی حکومت بن گئی تھی اور راجپوت دوبارہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا بابر کے حملے کے وقت راجپوت ابراہیم لودھی کا ساتھ دے کر مشترکہ طاقت کے ساتھ بیرونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیونکہ راجپوت سمجھتے تھے کہ بابر تیمور کی طرح لودھی حکومت کو تباہ و برباد کرکے واپس چلا جائے گا اور وہ لودھیوں سے لڑ کر حکومت حاصل کرنے کے بجائے لودھی حکومت کے تباہ شدہ کھنڈر پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بابر نے دہلی سلطنت کو ختم کر کے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تب راجپوتوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دہلی کی مرکزی حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے حرکت میں آگئے۔

    چتوڑ کے راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں کی متحدہ فوج نے بابر کو ہندوستان سے نکال کر باہر کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ بہت سارے افغان سردار جو لودھی خاندان کی تباہی کے بعد بابر کے جانی دشمن ہوگئے تھے وہ بھی راجپوتوں سے مل گئے۔ 16 مارچ 1527ء کو بابر نے 12 ہزار کی فوج کے ساتھ کنواہہ کے مقام پر راجپوتوں اور افغانوں کی دو لاکھ متحدہ فوج کا مقابلہ کیا اور انہیں شکستِ فاش دی۔

    کنواہہ کی جنگ کے بعد بہت سارے شکست خوردہ افغان سردار بنگال کے حاکم نصرت شاہ کے پاس پہنچ گئے اور نصرت شاہ کی مدد سے انہوں نے بابر سے ایک بار پھر جنگ کی۔ 6 مئی 1529ء کو بابر نے نصرت شاہ اور شکست خوردہ افغان سرداروں کی متحدہ فوج کو دریائے گھاگرا کے کنارے شکست دی۔ کنواہہ اور گھاگرا کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کو چیلنج کرنے والا اور دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہا۔

    مغل سلطنت کا عروج و زوال:
    ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی (1526ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (1707ء) تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181 سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا (1540ء تا 1555ء) نکال دیے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھے بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے:

    بابر (1526ء تا 1530ء)
    ہمایوں (1530ء تا 1556ء)
    اکبر (1556ء تا 1605ء)
    جہانگیر (1605ء تا 1627ء)
    شاہجہاں (1627ء تا 1657ء)
    اورنگ زیب (1657ء تا 1707ء)

    1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہدِ زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوے دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

    1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

    مرہٹہ طاقت کو کچلنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی مرکزی حکومت کی دعوے دار بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخل ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور پھر برّعظیم کا اقتدارِ اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 1799ء سے 1857ء کی پہلی جنگِ آزادی یعنی 58 سال تک مغل اقتدار برائے نام باقی رہا۔

    اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نہایت حکمت سے ہندوستانی عوام کو باور کراتی رہی کہ خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی۔ یہ نعرہ انگریزوں نے اس لیے ایجاد کیا تھا کہ ہندوستانی عوام کیا ہندو، کیا مسلمان کی وفاداریاں مغل سلطنت سے اس درجہ مضبوطی سے وابستہ ہوچکی تھیں کہ وہ مغل حاکم کے علاوہ کسی اور کی بادشاہت کا تصور کر نہیں سکتے تھے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے نہ صرف اپنی عسکری برتری کو منوالیا بلکہ سیاسی برتری بھی تسلیم کروا لی اور تاجِ برطانیہ نے کمپنی کو بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا۔ اب انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نعرہ کو بدل دیا اور کہنے لگے: "ملک ملک معظم کا اور حکم انگریزوں کا۔”

    (ماخوذ: ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا حصّہ، مؤلفہ ڈاکٹر محمد مظفر الدّین فاروقی)

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

  • تحریکِ آزادی ٔہند میں مسلمانوں کا کردار کیوں اہم ہے؟

    تحریکِ آزادی ٔہند میں مسلمانوں کا کردار کیوں اہم ہے؟

    تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار نہایت اہم اور نمایاں رہا ہے جنھوں نے انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دی۔

    تحریکِ آزادیِ ہند کے لیے جان و مال کی قربانی دینے کے علاوہ قائدین اور عام مسلمانوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، اپنے اہلِ خانہ سے دور ہوئے، ماں باپ، بیوی بچّے، عزیز رشتے دار، دوست احباب کو کھویا اور ان کی دوری برداشت کی، لیکن ثابت قدم رہے اور شہر شہر، بستی بستی آزادی کا پیغام عام کیا اور لوگوں کو انگریزوں کے خلاف متحد و بیدار کیا۔

    اس عظیم جدوجہد اور آزادی کی راہ میں ناقابلِ‌ فراموش قربانیوں کا ایک محرّک اور سبب یہ بھی تھاکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ان کا کئی سو سالہ اقتدار چھینا تھا اور غیروں اور بدخواہوں سے ساز باز اور ان کی ملی بھگت سے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ہندوستان کے طول و عرض میں ان کی مسلم اور غیرمسلم رعایا کو بھی شدید رنج و غم اور تکلیف دی تھی۔ اس کا سب سے زیادہ درد مسلمانوں کو ہوا جو ایک مغل بادشاہت کے زیرِ سایہ آزاد اور خود مختار تھے۔

    انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر جب اپنا اثر رسوخ بڑھا لیا اور سازشی ٹولے بالخصوص مفاد پرستوں اور ہندو بنیے کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد تاجدارِ ہند کو تخت سے اتارا اور قید کرکے رنگون بھیجا تو بغاوت تیز ہوگئی اور ہر طرف جیسے آگ لگ گئی۔ غدر کے بعد حالات خراب ہوتے چلے گئے اور انگریزوں کے خلاف ساری لڑائی مسلمانوں کو لڑنا پڑی۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی کی سامراجی حکومت کے مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات اور بعض فیصلوں نے ہندوستان کے عوام کو متحد و یکجا تو کردیا، لیکن جلد ہی مسلمانوں پر واضح ہوگیا کہ ہندو قیادت اور مفاد پرست ٹولہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال کر مسلمانوں کو محکوم و محتاج اور دست نگر بنانا چاہتا ہے اور حکومت و سماج میں مساوات، برابری اور اخوّت و بھائی چارے کا قائل نہیں تو انھوں نے بھی خود کو متحد و منظّم کرنا شروع کردیا اور کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہونے لگے اور اسی پلیٹ فارم سے تصوّرِ پاکستان کا قیامِ پاکستان تک وہ سفر طے ہوا جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا خواب 14 اگست 1947ء کو پورا ہوا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔

    ساتھیو، یومِ آزادی قریب ہے اور 14 اگست کو جہاں جشن مناتے ہوئے محبّ وطن پاکستانی وطنِ عزیز کی ترقیّ و خوش حالی کے لیے خصوصی دعائیں کریں گے اور اپنے اپنے انداز میں آزادی کی نعمت پر خوشی و مسرّت کا اظہار کیا جائے گا، وہیں ضروری ہے کہ ہم سب بالخصوص نئی نسل تحریکِ پاکستان کے عظیم مجاہدوں، قائدین اور 20 ویں صدی کی اس منفرد اور ممتاز تحریک میں اس کے سپاہیوں کے کردار اور ان کی قربانیوں سے بھی آگاہی حاصل کرے۔