Tag: بہار کالونی

  • لیاری کوئلہ گودام کے قریب منہدم عمارت سے متعلق انکشافات

    لیاری کوئلہ گودام کے قریب منہدم عمارت سے متعلق انکشافات

    کراچی: شہر قائد کے علاقے لیاری میں کوئلہ گودام کے قریب بہار کالونی میں عمارت منہدم ہونے کی وجہ سامنے آ گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لیاری بہار کالونی میں منہدم عمارت کے اطراف پلاٹ پر ایکسکیویٹر کے ذریعے کھدائی جاری تھی، دوران کھدائی مشین دیوار سے ٹکرائی جس سے عمارت کا پچھلا حصہ گر گیا۔

    معلوم ہوا ہے کہ حادثے کے بعد ایس بی سی اے ٹیم منہدم عمارت کا سروے کرنے پہنچ گئی تھی، اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ عمارت کے اطراف میں پلاٹ پر ایکسکیویٹر کے ذریعے کھدائی کی جا رہی تھی، اس دوران مشین دیوار سے ٹکرانے کی وجہ سے عمارت کا پچھلا حصہ گرا۔

    ایس بی سی اے کا کہنا ہے کہ گرنے والی عمارت کے اطراف تمام مکانات کو خالی کرا لیا گیا ہے، عمارت کے نیچے گودام غیر قانونی طور پر قائم تھا، جس پر پلاٹ کے مالک اور ایکسکیویٹر ڈرائیور کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

    کراچی: لیاری میں 2 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی، 2 افراد جاں بحق

    حکام کا کہنا ہے کہ گرنے والی عمارت کے اطراف مکانات کا سروے بھی کیا جا رہا ہے، عمارت کے اطراف سیل گھروں کو مکمل توڑا جائے گا۔

    ادھر لیاری کوئلہ گودام کے قریب عمارت گرنے کے واقعے کے سلسلے میں اہل علاقہ نے انکشاف کیا ہے کہ عمارت کو بہ طور سرائے استعمال کیا جا رہا تھا، گراؤنڈ فلور پر گودام اور اوپر کمرے بنے ہوئے تھے، گراؤنڈ پلس وَن عمارت کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔

    اہل علاقے نے بتایا کہ عمارت گارڈر اور ٹی آر پر کھڑی تھی، مزدور پیشہ افراد سرائے میں رہائش پذیر تھے، چھٹی کے باعث تمام افراد سرائے میں موجود تھے، سرائے سے متصل پلاٹ پر عمارت تعمیر کی جانی تھی، جس کی بنیادوں کے لیے کھدائی بھی کی گئی۔

    اہل علاقہ کے مطابق متصل پلاٹ پر تعمیرات کے لیے ہیوی مشین کے استعمال سے روکا گیا تھا، ہیوی مشین کے استعمال کے باعث سرائے کا ایک حصہ زمین بوس ہوا۔

  • بہار کالونی جسے علم کا جزیرہ کہیے!

    بہار کالونی جسے علم کا جزیرہ کہیے!

    قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کے جنوب میں لیاری ندی کے کنارے، سمندر سے نزدیک ( اب سمندر دور چلا گیا ہے) بِہار سے ہجرت کرنے والوں کے لیے ایک کالونی آباد کی گئی جو بِہار کالونی کہلائی۔

    یہاں کسی نے جھگی نہیں ڈالی، ایک کمرے یا دو کمرے کا مکان سہی سیمنٹ بلاک سے ہی تعمیر کیا، جس نے بھی اِس کالونی کا نقشہ بنایا، خوب بنایا۔

    ندی کی طرف کسی مکان کا رخ نہیں تھا، گلیاں البتہ ندی کے رخ پر تھیں، ندی میں سیلاب آگیا۔ خوب بارش ہوئی، سمندر چڑھا ہوا تھا۔ ندی لبالب بَھر گئی اور پھر جب ندی کے اس طرف شیر شاہ کالونی کے مکانات زیرِ آب آنے لگے تو کسی نے سڑک کاٹ دی اور سارا سیلاب بہار کالونی میں داخل ہوگیا اور گلیوں سے ہوتا ہوا آگے نکل گیا۔ کسی مکان کو نقصان نہیں پہنچا، کوئی دیوار نہیں گری۔

    یہاں آباد ہونے والے بزرگوں میں ممتاز عالمِ دین مولانا عبدالقدوس ہاشمی، روزنامہ ”منشور“ دہلی کے ایڈیٹر حسن ریاض، اسلامی اسکالر پروفیسر یحیٰی ندوی، تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سید نجم الہدیٰ، میجر آفتاب حسن، سیّد محی الدین، سید تقی الدین۔ یہ حضرت حیدرآباد دکن میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھیں مشہور انگریز پائلٹ سڈنی کاٹن راتوں رات اُڑا کر کراچی لے آیا تھا۔

    ریٹائرڈ کیپٹن طاہر حسین ملک جو ٹی۔ ایچ ملک کے نام سے مشہور تھے، پاکستان آکر وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پریکٹس کرنے لگے۔ 25 دسمبر (سال یاد نہیں) کو قائدِاعظم کے مزار پر قرآن خوانی کرتے ہوئے دل بند ہوگیا اور وہیں جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

    ڈاکٹر عقیل حسن، حکیم احسن ابراہیمی اور ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر جن کا نام بھول رہا ہوں انہوں نے بڑی خدمت کی کیوں کہ شروع میں ملیریا کا مرض عام تھا۔ زمین سیم زدہ تھی، بعد میں دو سیلابوں کی ’برکت‘ سے دو، دو فٹ مٹی نے آکر بہار کالونی کی تقدیر بدل دی۔

    جوانوں میں بیشتر میٹرک پاس کرکے آئے تھے۔ ملازمت کی اور شبینہ کلاسوں میں پڑھتے ہوئے گریجویٹ بنے، ماسٹرز کیا، پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اس طرح تقریباً سبھی خود پرداختہ و ساختہ(Self made) ہوئے۔ ان جوانوں میں ایک سید ابوظفر آزاد بھی تھے۔ علم اگر روشنی ہے اور جہالت اندھیرا تو یہ جوان آگے چل کر روشنی کا مینار نظر آیا۔ ایک آلِ حسن ملک ابراہیمی تھے جو انگریزی روزنامہ میں مراسلے لکھتے تھے۔

    (کتاب بہار دانش سے اقتباس)