Tag: بہار کی آمد

  • "میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں​!”

    "میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں​!”

    تیرے آنے کا انتظار رہا
    عمر بھر موسمِ بہار رہا

    رسا چغتائی کا یہ شعر اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک شمعِ اردو روشن ہے اور ایوانِ ادب میں‌ عشاق اکٹھے ہوتے رہیں‌ گے۔

    اپنے موضوع کی طرف بڑھنے کے لیے ہم احمد فراز کے اس شعر کا سہارا لے رہے ہیں۔

    میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں​
    کہ آپ اپنا تعارف ہَوا بہار کی ہے​

    موسمِ بہار جب اپنے جوبن پر آئے تو ہر طرف ایک ترنگ، سرمستی، چہکار سنائی دیتی ہے۔ فضا گیت گاتی، ہوا مست و بے خود ہوئی جاتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں‌ ہم موسمِ بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں جب گویا ہر کلی تبسم کو بے قرار، ہر غنچہ کھلنے کو تیار و آمادہ نظر آتا ہے اور دل مسرت سے بھر جاتے ہیں۔ الغرض بہار خوشیوں، رنگوں کا موسم ہے، جس کی آمد کا جشن دنیا بھر میں‌ منایا جاتا ہے۔

    یہ موسم شعرا کے لیے مضامین و خیالِ تازہ لیے چلا آتا ہے۔ کوئی اسے محبوب کے حسن کا استعارہ بناتا ہے تو کوئی خوشی و مسرت کی علامت کے طور پر اپنے اشعار میں‌ باندھتا ہے۔ اردو شاعری میں‌ اس موسم کو دردِ دل کے بیان، حسرتِ دیدار، نامراد عشق، ناکامی وصل کے مضامین میں‌ بھی خوب باندھا گیا ہے۔

    موسمِ بہار سے متعلق یہ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں، جو شاید آپ کے دل کی آواز ہوں، آپ کے جذبات اور کیفیات کا بھی احاطہ کرتے ہوں!

    خزاں کا خوف بھی ہے موسمِ بہار بھی ہے
    کبھی تمہارا کبھی اپنا انتظار بھی ہے
    _______
    افسردگی بھی حُسن ہے، تابندگی بھی حُسن
    ہم کو خزاں نے، تم کو سنوارا بہار نے
    _______
    میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
    ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
    _______
    تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم
    آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا
    _______
    مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا
    یوں بھی اکثر بہار آئی ہے
    _______
    خوشی کے پھول کھلے تھے تمہارے ساتھ کبھی
    پھر اس کے بعد نہ آیا بہار کا موسم
    _______
    نہ سیرِ باغ، نہ ملنا، نہ میٹھی باتیں ہیں
    یہ دن بہار کے اے جان مفت جاتے ہیں
    _______
    نئی بہار کا مژدہ بجا سہی لیکن
    ابھی تو اگلی بہاروں کا زخم تازہ ہے
    _______
    سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
    دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی