Tag: بہار

  • بھارت: انسانیت شرما گئی، پودا اکھاڑنے پر بچی کو بھیانک سزا

    بھارت: انسانیت شرما گئی، پودا اکھاڑنے پر بچی کو بھیانک سزا

    بہار: بھارتی ریاست بہار کے ایک علاقے میں پودا اکھاڑنے پر ایک شخص نے پڑوسی بچی کو زندہ جلا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بہار کے ضلع بیگو سرائے کے برونی تھانہ علاقے میں ایک انسانیت سوز واقعہ پیش آیا، پودا اکھاڑنے پر پڑوسی کی 12 سالہ بچی کو زندہ جلایا گیا۔

    پولیس حکام کے مطابق شیورونا گاؤں میں ایک بارہ سالہ بچی نے گھر کے باہر کھیلتے ہوئے پڑوسی سکندر یادو کے گھر میں لگے کندری (سبزی کی ایک قسم) کا پودا اکھاڑ دیا۔

    پڑوسی کو خبر ہوئی تو اس اپنی بیوی کویتا دیوی کے ساتھ مل کر پہلے بچی کو خوب زد و کوب کیا، پھر انھوں نے بچی پر مٹی کا تیل چھڑک دیا اور بے دردی سے آگ لگا دی۔

    واقعے کے بعد بچی کو سنگین حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں اس کی جان بچانے کے لیے علاج جاری ہے۔

    واقعے کی ایف آئی آر ہفتے کے روز برونی تھانہ میں درج کرائی گئی، رپورٹ کے مطابق بچی بری طرح سے جھلسی ہے، اور اس کی حالت نہایت سنگین ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ واقعے چھان بین کی جا رہی ہے، ملزمان کی تلاش بھی جاری ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے، تاہم ذرائع بتاتے ہیں دونوں گھرانوں میں پہلے ہی سے تنازعہ چل رہا تھا۔

  • "مہنگے” سموسوں نے دکاندار کی جان لے لی

    "مہنگے” سموسوں نے دکاندار کی جان لے لی

    بھارت میں سموسے کی قیمت پر ہونے والا جھگڑا س قدر بڑھ گیا کہ دکاندار کی جان لے گیا، پولیس ملزم کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

    بھارتی ریاست بہار میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے کے بعد علاقے میں خوف کی فضا پھیل گئی، واقعہ بہار کے علاقے روہتناگ میں ایک کنفیکشنری دکان پر پیش آیا۔

    عینی شاہدین کے مطابق 2 افراد نے سموسوں کی قیمت پر دکاندار سے بحث شروع کی، اس دوران دکان کے اندر سے دوسرا بھائی بھی نکل آیا۔

    جھگڑا اتنا بڑھا کہ خریدنے والے نے جیب سے پستول نکال کر دونوں پر فائرنگ کردی۔

    فائرنگ کے بعد 26 سالہ بھائی موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ دوسرے چھوٹے بھائی کو شدید زخمی حالت میں قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ دوسرے کی تلاش جاری ہے، پولیس علاقے کا گشت بھی کر رہی ہے۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

  • بھارت: ماں نے 3 بچوں سمیت خودکشی کرلی

    بھارت: ماں نے 3 بچوں سمیت خودکشی کرلی

    نئی دہلی: بھارت میں گھریلو پریشانیوں سے تنگ 27 سالہ ماں نے 3 بچوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی، ایک 5 سالہ بچی کو زندہ بچا لیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست بہار کے ضلع کیمور میں گھریلو تنازعہ سے تنگ ایک خاتون نے اپنے 3 معصوم بچوں کے ساتھ کنویں میں کود کر خودکشی کرلی۔

    بہار کی رہائشی 27 سالہ رادھیکا گزشتہ روز گھر سے نکلیں اور 500 میٹر کی دوری پر ایک کھیت میں واقع کنویں میں کود گئیں۔

    رادھیکا دیوی نے پہلے اپنے ایک سال کے بیٹے انیس کمار، پھر ڈھائی سالہ مہیشا اور پھر 5 سالہ ماہیما کو کنویں میں پھینک کر خود بھی چھلانگ لگا لی۔

    حادثے کے بعد مقامی افراد جائے وقوع پر جمع ہوگئے جنہوں نے پولیس کو بھی اطلاع دی۔

    ریسکیو ٹیم نے کافی دیر کی مشقت کے بعد کنویں سے دو بچیوں کو باہر نکالا جا سکا، ڈھائی سالہ مہیشا کی موت ہو چکی تھی جبکہ 5 سالہ ماہیما کی سانسیں چل رہی تھیں جسے فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔

    ریسکیو ٹیم کی تلاش 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری ہے لیکن تاحال رادھیکا دیوی اور اس کے بیٹے کی لاشیں نہیں نکالی جاسکیں۔

  • بھارت کا وہ علاقہ جہاں بجلی کے میٹر تو ہیں لیکن بجلی نہیں

    بھارت کا وہ علاقہ جہاں بجلی کے میٹر تو ہیں لیکن بجلی نہیں

    نئی دہلی: بھارتی ریاست بہار کا بیلوا ٹانڈا گاؤں جہاں سڑکوں پر بجلی کے کھمبے اور گھروں میں بجلی کے میٹر تو لگ گئے لیکن بجلی کی سہولت میسر نہیں آسکی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے ضلع گیا کا بیلوا ٹانڈا گاؤں جو آزادی کے بعد سے آج تک بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے، حکام نے تین سال قبل گاؤں کی سڑکوں پر بجلی کے کھمبے اور گھروں میں بجلی کے میٹر تو لگا دیے لیکن آج تک گاؤں والوں کو بجلی کی سہولت مہیا نہیں کی جاسکی۔

    بیلوا ٹانڈا گاؤں گیا ہیڈا کوارٹر سے درجنوں میل دور نہیں بلکہ صرف سات کلو میٹر دور ہے۔محکمہ بجلی کے افسران نے بھی اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

    گاؤں میں رہنے والے افراد کا کہنا ہے کہ تین سال قبل بجلی کے کھمبے اور میٹر لگائے گئے اور دو سے تین دن کے لیے بجلی کی سپلائی بھی ہوئی لیکن اس کے بعد سے سپلاتی جو معطل ہوئی آج تک بحال نہیں ہوسکی، اب تو تار گرنے لگے ہیں اور میٹر بھی خراب ہوگئے ہیں

    حیرانی کی بات یہ ہے کہ بجلی کی فراہمی نہ ہونے کے باوجود بھی گاؤں والوں کو بجلی کا بل بھیجا جاتا ہے۔

    ایگزیکٹیو انجینئر اندر دیو کا کہنا ہے کہ بجلی کے تار، کھمبے اور ٹرانسفرمر ہیں تو بہت جلد بجلی کی فراہمی بھی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ گاؤں میں بجلی نہ ہونے سے متعلق مجھے علم نہیں تھا، مقامی افسران سے اس سے متعلق معلومات حاصل کر کے جلد کارروائی کی جائے گی۔

  • بڑا نقصان، کرونا ٹیسٹ کے لیے جمع سیکڑوں سیمپلز بارش کے پانی میں بہہ گئے

    بڑا نقصان، کرونا ٹیسٹ کے لیے جمع سیکڑوں سیمپلز بارش کے پانی میں بہہ گئے

    بہار: بھارتی ریاست بہار کے ایک اسپتال میں کو وِڈ 19 کے ٹیسٹ کے لیے جمع کیے گئے سیکڑوں سیمپلز بارش کے پانی میں بہہ گئے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بہار کے ضلع آرا میں صدر اسپتال میں بارش کی وجہ سے پانی بھرنے کے باعث کرونا کی جانچ کے لیے جمع شدہ سیکڑوں سیمپل ضایع ہو گئے۔

    اسپتال میں موجود تقریباً 300 سیمپلز 5 اور 6 جولائی کو لائے گئے تھے، تاہم ضلع میں لگاتار بارشوں کے باعث صدر اسپتال میں پانی بھر گیا تھا، اسپتال انتظامیہ نے سیمپلز کی حفاظت کی خاطر انھیں آئس باکس میں رکھ دیا تھا۔

    بھارت میں لاپرواہی کی بدترین مثال، کرونا مریض کی لاش کسی اور خاندان کے حوالے

    بارش کی وجہ سے اسپتال کے اندر میڈیکل، سرجیکل وارڈ اور او پی ڈی کے سامنے ایک فٹ پانی کھڑا ہو گیا تھا، جسے پمپ لگا کر باہر نکالا گیا، تاہم پانی نکالے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ کو وِڈ نائنٹین کے لیے لائے گئے سیمپل پانی میں بہہ چکے ہیں۔

    اسپتال میں پانی بھرنے سے مریضوں اور تیمارداروں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

    واضح رہے کہ ریاست بہار میں کرونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، دن بہ دن ریاست میں کرونا کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، اب تک بہار میں کرونا کے 14 ہزار 575 کیسز کی تصدیق کی جا چکی ہے، وائرس انفیکشن سے 119 مریض ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

  • نیپال سرحدی فورس کے ہاتھوں بھارتی شہری ہلاک، تین زخمی

    نیپال سرحدی فورس کے ہاتھوں بھارتی شہری ہلاک، تین زخمی

    بہار: نیپال سرحدی فورس کے ہاتھوں ایک بھارتی شہری ہلاک جب کہ 3 زخمی ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک بھارتی شہری کی ہلاکت اور تین زخمی ہونے کا یہ واقعہ نیپال کی سرحد سے جڑی بھارتی ریاست بہار کے ضلع سیتامڑھی میں آج صبح پیش آیا۔

    یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بھارتی شہریوں پر فائرنگ کیوں کی گئی، تاہم واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں سرحدی فورس کے افسران کی ایک میٹنگ بھی طلب کی گئی ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب انڈیا اور نیپال کے درمیان کالاپانی ریجن پر قبضے کے تنازعات چل رہے ہیں، بھارت نے اپنے نقشے میں درہ لیپولیک، درہ لمپیادھورا اور کالا پانی کو اپنے علاقے بتایا ہے۔

    بھارت کو ایک اور جھٹکا : نیپالی پارلیمنٹ نے نیا نقشہ منظور کرلیا

    دوسری طرف نیپال بھی ان علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے سیاسی نقشے میں انھیں شامل کیا ہے، جس پر دونوں ممالک میں سیاسی اور سفارتی تناؤ پیدا ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل نیپال کے وزیر اعظم نے نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں مذکورہ علاقے بھی نیپال میں شامل کیے گئے تھے، اب نیپالی پارلیمنٹ نے یہ نقشہ منظور بھی کر لیا ہے۔

    دونوں ممالک کے درمیان اس تنازعے کے بعد متعدد بار سرحدی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں، جس پر نیپال کے نائب وزیر اعظم کو بھارت کو دھمکی دینی پڑی کہ وہ باز نہ آیا تو نیپال کی فوج لڑنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔

  • کرونا وائرس: چلے بھی ’جاؤ‘ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    کرونا وائرس: چلے بھی ’جاؤ‘ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    یورپ کے خوبصورت ترین ملک نیدر لینڈز میں اس بار بہار تو آئی ہے، رنگین اور خوشبودار پھول بھی کھلے ہیں، لیکن یہ پھول اس بار لہلہانے کے بجائے کچرے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں۔

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں ہر طرح کے کاروبار کو شدید متاثر کیا ہے، وہیں نیدر لینڈز میں پھولوں کا کاروبار بھی رک گیا ہے۔

    نیدر لینڈز میں بہار کی آمد ہے، یہ وہ وقت ہے جب پورے ملک میں سرخ، گلابی، سفید، زرد اور ہر طرح کے پھول تیار ہوچکے ہیں اور اب انہیں ملک بھر میں کی جانے والی مختلف نمائشوں میں پیش کیا جانا تھا جبکہ دنیا بھر میں اس کی فروخت بھی کی جانی تھی، لیکن کرونا وائرس نے پوری دنیا کے کاروبار زندگی کو معطل کردیا ہے۔

    کرونا وائرس کے خدشے کے تحت دنیا بھر کے اجتماعات منسوخ کردیے گئے ہیں جس میں نیدر لینڈز میں ہونے والی پھولوں کی نمائشیں بھی شامل ہیں، جبکہ سرحدیں بند ہونے سے امپورٹ ایکسپورٹ بھی رک چکا ہے چنانچہ یہ لاکھوں کروڑوں پھول اب یونہی گوداموں میں پڑے ہیں۔

    پھولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد نے مجبوراً اب ان پھولوں کو کچرے کے ڈھیر میں پھینکنا شروع کردیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں رنگین اور خوشبودار پھولوں کو جب ٹرکوں کی مدد سے ڈمپ کیا جاتا ہے تو آس پاس کا علاقہ رنگوں اور خوشبوؤں سے نہا جاتا ہے۔

    پھولوں کے کاروبار سے وابستہ مائیکل وین کا کہنا ہے کہ ایسا ان کی زندگی میں پہلی بار ہورہا ہے، پھولوں کی نیلامی اور نمائش نیدر لینڈز میں تقریباً سو سال سے ہورہی تھی اور یہ پہلی بار ہورہا ہے جب ان کے عروج کے سیزن میں کاشت کار خود ہی انہیں کچرے میں پھینک رہے ہیں۔

    ان کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی تقریباً 70 سے 80 فیصد پھولوں کی پیداوار اسی طرح ضائع کردی گئی ہے۔

    دنیا بھر میں ہونے والی پھولوں کی پیداوار کا نصف حصہ نیدر لینڈز میں کاشت ہوتا ہے، نیدر لینڈز اس میں سے 77 فیصد پیداوار دنیا بھر میں فروخت کرتا ہے۔ پھولوں کی یہ ایکسپورٹ زیادہ تر جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی میں کی جاتی ہے۔

    نیدر لینڈز کی یہ صنعت لگ بھگ 6.7 ارب ڈالر سالانہ کمائی کی حامل ہے اور یہ ملکی مجموعی معیشت یعنی جی ڈی پی میں 5 فیصد حصے کی شراکت دار ہے۔

    ملک بھر میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد پھولوں کی کاشت، اس کی ترسیل، تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہیں اور اب اس بدترین نقصان کے بعد یہ سب دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ زیادہ تر افراد خاندانی طور پر کئی دہائیوں سے اس صنعت سے وابستہ ہیں۔

    مائیکل وین کے مطابق ان کا مجموعی ریونیو رواں برس 85 فیصد گھٹ گیا ہے، اس نقصان کے بعد اب وہ ڈچ حکومت کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ پھولوں کے کاروبار سے منسلک تمام کمپنیز، تاجر اور کاشت کار شدید ترین مالی نقصان سے دو چار ہوئے ہیں۔

    ایک کاشت کار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے زیادہ تر پھول کھاد بنانے کے لیے دے دیے ہیں، ’بھاری بھرکم مشینوں کے نیچے جب میرے ہاتھ کے اگائے ہوئے رنگین خوبصورت پھول کچلے جاتے ہیں تو انہیں دیکھنا بہت مشکل کام ہے‘۔

    مائیکل کا کہنا ہے کہ کچھ افراد اپنے پھولوں کو پھینکنے کے بجائے اسپتالوں میں طبی عملے کو بھجوا دیتے ہیں اور سڑک پر دکھائی دیتے اکا دکا راہگیروں کو دے دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق صرف ایک نیدر لینڈز ہی نہیں، پھولوں کی کاشت سے منسلک دیگر ممالک بھی اسی صورتحال سے دو چار ہیں جن میں کینیا اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ دونوں افریقی ممالک گلاب کی پیداوار کے لیے سرفہرست ہیں۔

    کینیا میں پھولوں کی پیداوار کا 70 فیصد حصہ یورپ بھیجا جاتا ہے، وہاں بھی اب ان پھولوں کو کچرے میں پھینکا جارہا ہے۔

  • بہار میں گرمی کے باعث 91 افراد ہلاک، عوام کا وزیر صحت کے خلاف احتجاج

    بہار میں گرمی کے باعث 91 افراد ہلاک، عوام کا وزیر صحت کے خلاف احتجاج

    نئی دہلی: بھارتی ریاست بہار میں شدید گرمی کے باعث گزشتہ 30 گھنٹوں کے دوران کم از کم 91 افراد ہلاک ہوگئے، وزیر صحت کومریضیوں کی عیادت کے دوران اسپتال میں ضروری اشیاء کی عدم فراہمی کے خلاف شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیدار وجے کمار کا کہنا تھا کہ یہ ہلاکتیں تین اضلاع میں ہوئی ہیں جہاں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تھا۔

    وجے کمار کا کہنا تھا کہ مگادار ریجن کے تین اضلاع میں 91 افراد جاں بحق ہوئے اور یہ علاقے خشک سالی کا بھی شکار ہوئے تھے، گزشتہ روز دوپہر کو اچانک یہ افسوس ناک پیش آیا اور ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ افراد اسپتال پہنچے تھے۔

    عہدیدار کے مطابق اکثر ہلاکتیں ہفتے اور اتوار کی رات کو ہوئی تھیں اور چند اموات اتوار کو صبح ہوئیں، صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اورنگ آباد میں واقع سرکاری اسپتال میں مزید 40 سے زائد متاثرہ افراد طبی امداد دی جارہی ہے۔

    محکمہ صحت کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ مزید مریض اسپتال لائے جارہے ہیں جنہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے اور اگر گرمی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو مزید اموات کا خدشہ ہے۔

    عہدیداروں کے مطابق اکثر متاثرہ افراد کی عمریں 50 برس سے زائد ہیں جبکہ کم عمر بچے بھی ہلاک شدگان میں شامل ہیں جو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال پہنچ رہے ہیں اور انہیں بخار، ڈائیریا اور متلی کی شکایت ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بہار حکومت نے لوگوں کو غیرضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی ہے، دریاوں اور جھیلوں میں پانی کی سطح کم ہو گئی، لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

    بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ وزیر صحت ہرش وردھن نے متاثرین کی عیادت کےلیے اسپتال کا دورہ کیا تو متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے.

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ متاثرین کی جانب سے اسپتال میں ضروری اشیا‌ء یسے بیڈ، ادویات ودیگر اشیاء کی عدم فراہمی خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ 2015 میں بھی ہیٹ ویو کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان میں 3 ہزار 500 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • بھارتی شیلٹر ہوم میں کم سن بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

    بھارتی شیلٹر ہوم میں کم سن بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

    نئی دہلی : بہار کے سرکاری شیلٹر ہوم میں کم عمر لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے، پولیس نے واقعے کے مرکزی ملزم سمیت 20 افراد کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے شہر مظفر پور میں میں واقع سرکاری شیلٹر ہومز میں مقیم لڑکیوں سے زبردستی بیہودہ گانے پر ڈانس کروانے اور نیم بے ہوشی کی حالت میں جنسی زیادتی کرنے کے جرم میں مرکزی ملزم براجیش تھاکر پر فرد جرم عائد ہوگئی۔

    بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سیکس اسکینڈل کا تعلق طاقتور سیاست دانوں اور بیوروکریٹس سے ہےم جس کی تحقیقات بھارتی پولیس کے کرائم برانچ انویسٹی گیشن یونٹ نے کی ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ایجنسی نے اسکینڈل کے مرکزی ملزم براجیش تھاکر کے خلاف 73 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ تیار کی ہے، جو کئی برس سے شیلٹر ہوم چلا رہا تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ براجیش ٹھاکر، شیلٹر ہوم کے عملے سمیت 20 افراد کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت سنگین جنسی جرائم کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    چارج شیٹ کے مطابق ملزمان نے کم عمر لڑکیوں کو جبراً بیہودہ کپڑے پہن کر بھوجپوری گانے پر ڈانس کرنے مجبور کیا اور زبردستی منشیات دیں۔

    کرائم برانچ انویسٹی گیشن ٹیم کا کہنا ہے کہ جن متاثرہ لڑکیوں سے زیادتی و ڈانس پر مزاحمت کی انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    بھارت کے نجی ادارے کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق مذکورہ شیلٹر ہوم میں 10 برسوں کے دوران درجنوں لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

    میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزمان کی جانب سے شیلٹر ہوم میں مقیم 42 میں سے 34 لڑکیوں کو جنسی حوس کا نشانہ بنایا گیا ہے، بھارتی حکام کی جانب سے افسوس ناک واقعے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد چار منزلہ شیلٹر ہوم کو مسمار کردیا گیا ہے۔

    بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ براجیش ٹھاکر کے سیاسی جماعت جنتا دل یونائیٹڈ وزراء کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، سپریم کورٹ نے انکشاف کیا کہ ٹھاکر ’بہت اثر و رسوخ رکھنے والا شخص‘ ہے لہذا اسے ریاست کے باہر جیل میں منتقل کیا جائے تاکہ کیس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ سیکس اسکینڈل کے مرکزی ملزم کی جانب سے چندراشیکر ورما پر بارہا الزامات عائد کیے جانے کے بعد اعلی حکام نے چندرا شیکر ورما کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کیا تھا جس کے بعد سماجی بہود کی وزیر منجو ورما نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

  • موسم خزاں ۔ شاعروں کی نظر میں

    موسم خزاں ۔ شاعروں کی نظر میں

    سال کا ہر موسم اور ہر ماہ اپنے اندر کچھ الگ انفرادیت رکھتا ہے۔ دھوپ کے گھٹتے بڑھتے سائے، سردیوں کی لمبی راتیں، ٹھنڈی شامیں، پت جھڑ، پھولوں کے کھلنے کا موسم، بارش کی خوشبو اور بوندوں کا شور، ہر شے اپنے اندر الگ جادوئی حسن رکھتی ہے۔

    آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ کسی کو موسموں پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ لیکن بہرحال شاعروں اور تخلیق کاروں کی تخلیق کا مرکز یہی موسم ہوتے ہیں۔

    پرانے وقتوں میں بھی شاعر و ادیب موسموں کی خوشبو محسوس کر کے اپنی تخلیقات جنم دیا کرتے تھے۔ ستمبر کا مہینہ جسے پت جھڑ یا خزاں کے موسم کا آغاز کبھی کہا جاتا ہے بھی کئی تخلیق کاروں کے فن کو مہمیز کردیا کرتا ہے۔

    آپ نے آج تک مشرقی ادب میں ستمبر کے بارے بہت کچھ پڑھا ہوگا، آئیے آج سمندر کے اس طرف مغربی ادب میں جھانکتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ مغربی شاعروں و ادیبوں نے ستمبر کے بارے میں کیا لکھا۔

    sep-5

    انگریزی ادب کا مشہور شاعر ولیم ورڈز ورتھ جو فطرت کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کے لیے مشہور ہے، ستمبر کے لیے لکھتا ہے

    موسم گرما کو رخصت کرتے ہوئے
    ایک روشن پہلو دکھائی دیتا ہے
    موسم بہار کی نرمی جیسا
    پتوں کے جھڑنے کا موسم
    خود روشن ہے
    مگر پھولوں کو مرجھا دینے کے لیے تیار ہے

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر رابرٹ فنچ کہتے ہیں، ’ستمبر میں باغوں میں سناٹا ہوتا ہے، سورج سروں کو جھلسانے کے بجائے نرم سی گرمی دیتا ہے، اسی لیے مجھے ستمبر بہت پسند ہے‘۔

    sep-7

    اٹھارویں صدی کا ایک آئرش شاعر تھامس مور ستمبر کے لیے لکھی گئی ایک نظم میں کہتا ہے

    ستمبر کا آخری پھول
    باغ میں اکیلا ہے
    اس کے تمام خوبصورت ساتھی پھول
    مرجھا چکے ہیں یا مر چکے ہیں

    اٹھارویں صدی کے برطانوی ادیب ہنری جیمز لکھتے ہیں، ’نرم گرم سی دھوپ اور اس کی روشنی، یہ سردیوں کی سہ پہر ہے۔ اور یہ دو لفظ ادب میں سب سے زیادہ خوبصورت الفاظ ہیں‘۔

    sep-4

    مشہور شاعر تھامس پارسنز کہتا ہے

    دکھ اور گرے ہوئے پتے
    غمگین سوچیں اور نرم سی دھوپ کا موسم
    اف! میں، یہ چمک اور دکھ کا موسم
    ہمارا جوڑ نہیں، پر ہم ساتھ ہیں