Tag: بہمنی سلطنت

  • ہزاروں‌ سال کی داستان سناتا قلعہ گول کنڈہ

    ہزاروں‌ سال کی داستان سناتا قلعہ گول کنڈہ

    حیدرآباد دکن کا گول کنڈہ قلعہ کئی صدیوں کے بعد بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ ہے اور آسمانوں سے باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ قلعہ کئی حکم رانوں‌ کے عروج اور زوال کا گواہ ہے۔ اس نے کئی راجہ اور ان کی سلطنتوں کو بستے، اجڑتے دیکھا اور ان میں سے اکثر کے لیے جائے امان اور ان کی پناہ گاہ ثابت ہوا۔

    ہندوستان کا گول کنڈہ پانچ حکومتوں کا پاسدار رہا ہے۔ اس کی بنیاد کاکتیا سلطنت میں رکھی گئی تھی۔ بہمنی سلطنت کے فرماں‌ رواؤں‌ نے اس قلعے کو اپنایا اور قطب شاہی خاندان نے اسی قلعے میں اپنی بادشاہی کی بنیاد رکھی۔ اس پر مغلوں نے اپنا قبضہ جمایا اور دکن میں آصف جاہی خاندان کے آنے تک یہ قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔

    یہ قلعہ بالخصوص کاکتیا سلطنت کے زوال اور بہمنی سلطنت کے عروج کا گواہ ہے۔ اس نے سلطان محمد قلی قطب شاہ کی خودمختاری دیکھی اور جمشید قلی قطب شاہ کی عیّاری بھی۔ قلعہ گول کنڈہ یتیم محمد قلی قطب شاہ کے بچپن کا نگہبان رہا تو سلطان محمد قلی قطب شاہ کا حامی بھی۔

    قلعہ گول کنڈہ اپنے طرزِ تعمیر کے ساتھ منفرد اور دل کش بھی ہے اور جدید دور میں‌ ترقی یافتہ انسانوں‌ کے لیے تاریخ کی ایک ایسی خستہ کتاب بھی جس میں کسی سلطنت اور ریاست کے سیاسی اور عسکری امور اور نظام و طرزِ حکومت کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

    جنوبی ہندوستان کی ریاست تلنگانہ کے شہر حیدر آباد(دکن) کا یہ قلعہ قطب شاہی سلطنت کا پایۂ تخت رہا ہے جس کی بنیاد دست یاب معلومات کے مطابق 1143ء میں کاکتیا سلطنت کے راجہ نے رکھی تھی۔ اس کے بعد بہمنی سلطنت قائم ہوئی توا یہ گول کنڈہ قلعہ ان کے کام آیا۔ اور پھر بہمنی سلطنت کے زوال پر علاقہ گول کنڈہ کے گورنر سلطان قلی قطب شاہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے اس قلعے کو اپنی تحویل میں‌ لے لیا۔ قطب شاہی حکومت کم و بیش ایک سو اسّی سال تک قائم رہی۔ محمد قلی قطب شاہ کا دور اپنی ادبی سرگرمیوں، علمی کاوشوں کی وجہ سے یادگار ہے جس میں ملّا وجہی اور احمد گجراتی جیسے شعراء منظرِ عام پر آئے۔

    گول کنڈہ قلعہ تین قطب شاہی ادوار کو دیکھتے ہوئے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ قلعہ تین کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا صرف ایک صدر دروازہ ہے۔ اس دروازے کی اوپری سطح فولاد سے بنی ہوئی ہے اور اس کا دروازہ ساگوان کی لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ اس دروازے کے سامنے ایک دیوار بطور رکاوٹ بنائی گئی تھی تاکہ حملہ آور اندر آسانی سے داخل نہ ہوسکیں۔

    صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب دو منزلہ عمارت نظر آئے گی جسے کبھی بطور اسلحہ خانہ استعمال کیا جاتا ہو گا۔ تاریخی کتب کے مطابق 150 کمروں پر مشتمل اس عمارت میں سپاہیوں کے ہتھیار اور گولہ بارود رکھا جاتا تھا۔

    یہاں‌ یہ بات قابلِ‌‌ ذکر ہے کہ گول کنڈہ ہیروں کے کاروبار کے لیے مشہور تھا۔ مؤرخین کے مطابق صدر دروازے کے دائیں جانب، ایک تہ خانے نما عمارت شاہانِ وقت کی وفات کے بعد ان کے غسل کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہاں ایک سرنگ بھی موجود ہے جس سے سیدھا ساتویں‌ گنبد تک پہنچا جاسکتا ہے۔ خیال ہے کہ اسی سرنگ سے جنازے کو آگے لے جایا جاتا تھا۔

    اس قلعے کی اہم خصوصیت اس کا نظامِ آب رسانی ہے۔ قلعے کے نیچے کے حصے میں تین حوض بنے ہوئے ہیں جن کا پانی اوپر تک پہنچایا جاتا تھا۔

    قلعے میں ایک مسجد ہے جو دو میناروں‌ کے ساتھ ابراہیم قطب شاہ نے بنوائی تھی۔ کہتے ہیں‌ کہ اسی کے نقشے کو دیکھ کر اس کے بیٹے محمد قلی قطب شاہ نے چار مینار بنوایا تھا جو حیدرآباد شہر کی پہچان اور دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    قلعہ گول کنڈہ میں ایک مقام فن اور ثقافت سے متعلق سرگرمیوں اور تفریح‌ کے لیے مخصوص تھا جب کہ ایک ہال کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ یہاں بیٹھ کر بادشاہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتا تھا۔ اس قلعہ میں‌ کئی مہمان خانے بھی بنائے گئے تھے۔

    آج کے بھارت کا یہ تاریخی اور ثقافتی ورثہ اگرچہ خستہ حالی کا شکار ہے، مگر قلعہ گول کنڈہ کا رخ کرنے والے اس کے بنیادی ڈھانچے سے قلعہ کی شان و شوکت اور اندر موجود عمارتوں سے اس دور کے طرزِ تعمیر کے ساتھ اس زمانے کے طرزِ حکومت اور ان کے انتظامی امور کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

    (ماخوذ از تاریخِ دکن)

  • گول کنڈا اور قطب شاہی خاندان

    گول کنڈا اور قطب شاہی خاندان

    سلطان قلی قطب شاہ، اویس قلی کا بیٹا تھا جو بہمنی سلطنت کے زوال پر ایران سے جان بچا کر د کن آیا اور اپنی قابلیت، جاں بازی اور وفا داری کی بدولت تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا گیا۔

    وہ سنہ 1495ء میں تلنگانہ کا صوبے دار بنایا گیا اور 1518ء میں محمود شاہ بہمنی کی موت کے بعد سلطان ولی قطب شاہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ اس نے گول کنڈا کو محمد نگر کا نام دے کر اپنا پایۂ تخت بنایا۔ اس طرح قطب شاہی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ یہ سلطنت کم و بیش ایک سو اسی سال تک سر زمینِ دکن پر قائم رہی۔ اورنگ زیب نے ابوالحسن تانا شاہ کے دور میں گول کنڈا فتح کر لیا جس کے ساتھ ہی بہمنی سلطنت کا نشان بھی مٹ گیا۔

    دکن میں جب اردو ادب کا چرچا ہوا اور اسے دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی نظر گجری ادب پر ہی گئی۔ اس روایت کو معیار تسلیم کرکے انھوں نے اس کے ان تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کرلیا جو ان حالات میں تہذیبی اور لسانی سطح پر جذب کیے جاسکتے تھے۔ اس تہذیبی، معاشی اور سیاسی صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات ویران ہونے لگا اور دکن کے ادبی مراکز ابھرنے لگے۔

    بہمنی بادشاہوں کے جانشینوں میں قطب شاہی خاندان کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اردو (دکھنی) ادب کی سرپرستی کے لحاظ سے ان کا دور ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس دور میں اردو زبان و ادب نے غیر معمولی ترقی کی۔ ان کے عہدِ اردو ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

    گول کنڈا کے پہلے چار بادشاہ سلطان قلی، جمشید قلی، سبحان قلی اور ابراہیم قلی زیادہ تر جنگ وجدل میں مصروف رہے۔ ابراہیم قطب شاہ کے انتقال کے وقت گول کنڈا اردو کا مرکز بن چکا تھا۔ وجہی، احمد اور غواصی اسی کے دور میں پیدا ہوئے۔

    اس کا فرزند قلی قطب شاہ تو علم و ادب کا پروانہ تھا۔ قطب شاہی حکم رانوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ اپنی وسیع المشربی، عوام دوستی اور کشادہ دلی کے اوصافِ حسنہ کے علاوہ شعر و سخن کا اعلٰی مذاق بھی رکھتے تھے۔

    ان کی خوش ذوقی کے سبب گول کنڈا اور حیدرآباد میں علمی اور ادبی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ابراہیم قلی قطب شاہ نے اپنے بیرونی محل کا ایک حصہ شاعروں اور خوش نویسوں کے لیے مختص کر رکھا تھا جہاں ادباء تالیف و تصنیف کا کام کرتے تھے۔ محل کا ایک حصہ ادبی تبادلۂ خیال اور شعر خوانی کے لیے مخصوص تھا۔

    قلی قطب شاہ جسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے ایک کثیر الجہات شاعر تھا۔قلی قطب شاہ کی کلیات میں مثنویاں، قصیدے، ترجیع بند، مراثی بزبان فارسی و دکھنی اور رباعیاں موجود ہیں۔ دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے تھے۔

    اس کے دور میں ملا وجہی اور احمد گجراتی ایسے شعراء منظر عام پر آئے۔ قطب شاہی سلطنت کا آخری تاج دار ابوالحسن تانا شاہ بھی نہایت قابل اور علم کا قدر دان تھا۔ تانا شاہ کی اورنگزیب کے ہاتھوں شکست اور گرفتاری پر دکن کی یہ علم پرور اور ادب دوست سلطنت اپنے اختتام کو پہنچی۔ سلاطینِ گول کنڈا عقیدے کے لحاظ سے اہلِ تشیع تھے۔ ان کے تعلقات ایران کے ساتھ ہمیشہ گہرے رہے۔ شاید اسی وجہ سے قطب شاہی خاندان کے بادشاہوں نے ایرانی تہذیب و ادب کو اتنی اہمیت دی کہ فارسی اسلوب، آہنگ، لہجہ، اصناف اور مذاقِ سخن ابتداء ہی سے یہاں کی مشترکہ زبان اردو پر چھا گئے۔

    قطب شاہی عہد میں غزل ایک اہم اور مقبول صنف سخن کے طور پر ابھری۔ گول کنڈا میں مثنوی کی روایت بھی بڑی مستحکم ہے اور قصیدے کا رواج بھی ملتا ہے۔

    گول کنڈا میں نثر کی روایت بھی موجود ہے۔ ابتداء میں نثر صرف تبلیغی مقاصد تک محدود رہی۔ اس میں ادبی چاشنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملّا وجہی کی سب رس جو اردو نثر کا شاہ کار ہے، تاریخی اعتبار سے اسی دور کی یاد گار ہے۔

    مختصر یہ کہ قطب شاہی دور کا ادب فکری، تخلیقی، اسلوب و آہنگ، اصناف اور اوزان کے اعتبار سے فارسی ادب سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ اسے اپنانے کی شعوری کوشش کرتا رہا ہے۔

    (جی۔ ایم۔ اصغر کے مضمون سے اقتباسات)

  • بہمنی سلطنت: تاج الدّین فیروز شاہ کا عہد گلبرگہ کا بامِ‌ عروج ثابت ہوا

    بہمنی سلطنت: تاج الدّین فیروز شاہ کا عہد گلبرگہ کا بامِ‌ عروج ثابت ہوا

    بہمنی سلطنت کا آٹھواں حکم ران ابو المظفر تاج الدّین فیروز شاہ تھا جس کا دورِ حکومت 1397ء سے 1422ء تک رہا۔

    فیروز شاہ کی تاریخِ پیدائش اور اس کے ابتدائی حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں، لیکن مؤرخین اس کا یومِ وفات یکم اکتوبر 1422ء بتاتے ہیں۔ آج اس بہمنی سلطان کا یومِ‌ وفات ہے جس کے بارے میں قیاس یہ ہے کہ وہ 1371ء میں پیدا ہوا اور 1397 میں تخت سنبھالا تھا۔ گلبرگہ اس سلطنت کا دارُالخلافہ تھا۔

    تاج الدّین فیروز شاہ کی پیدائش کے حوالے سے اس قیاس کو محمد قاسم فرشتہ کے اس تذکرے سے تقویت ملتی ہے کہ وہ اپنے چچا داؤد شاہ کے اِنتقال کے وقت سات سال کا تھا جب کہ اس کے بھائی احمد شاہ کی عمر چھے برس تھی۔

    فیروز شاہ کے ابتدائی حالات کا بھی کوئی علم نہیں، سوائے اِس کے کہ اس کی پیدائش اس کے چچا محمد شاہ اوّل کے عہد میں ہوئی تھی اور انھوں نے ان دونوں بھائیوں کو استاد فضل اللہ کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنے بھیجا تھا۔ انہی کے حلقے میں فیروز شاہ کی تربیت اور درس مکمل ہوا۔ دونوں بھائیوں نے جو فیروز شاہ اور احمد شاہ کے نام سے بعد میں بہمنی سلاطین مشہور ہوئے، نے استاد کی خصوصی توجہ اور شفقت سے خوب دل لگا کر علم حاصل کیا۔

    مؤرخین کے مطابق تاج الدّین فیروز شاہ غیر معمولی طور پر ذہین اور طبّاع واقع ہوا تھا۔ اس نے اپنے استاد فضل اللہ کے علم و فضل سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کی صحبت سے خوب فیض پایا۔ فیروز شاہ نے اپنے ذخیرۂ علم سے جو شعور اور دانش سمیٹی تھی، اسے پھیلانے کا فیصلہ کیا اور تخت نشینی کے بعد بہمنی سلطنت میں تعلیم اور مدارس کی سرپرستی کے ساتھ اساتذہ کی پزیرائی اور عزّت کرتا رہا۔

    بہمنی سلطنت کی تاریخ میں فیروز شاہ کے دور کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور خود اسے ذی علم اور فاضل ترین حکم ران تسلیم کیا جاتا ہے جس نے اپنے عہد میں تہذیب و تمدن اور علم و فضل کی بڑی قدر کی اور اس کے فروغ کے لیے نمایاں کام کیا۔

    فیروز شاہ دکن کے بہمنی خاندان کے اُن سلاطین میں سے ہے جن کو مؤرخین نے دکن کا تاج بھی کہا ہے کیوں کہ اُس کا عہدِ حکومت دکن کا بامِ ترقی تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں فیروز شاہ نے سلطنت کو سنبھالا تھا جب اغیار کے ہاتھوں اسے دھکا لگ رہا تھا اور ڈر تھا کہ کہیں یہ نوخیز سلطنت برباد نہ ہوجائے، لیکن فیروز شاہ نے اسے ایسی مضبوط طنابوں سے جکڑ دیا کہ سلطنت عرصہ دراز تک مستحکم رہی۔

    فیروز شاہ سیاست اور امورِ سلطنت میں بھی اپنی فہم و فراست اور ذہانت کے سبب کام یاب رہا اور وہ ایسا حکم ران تھا جس نے تمام اقوام اور روایات کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی ہمسایہ سلطنتوں کے سیاسی تعلقات پر بھی قائم رکھے اور معقول تدبیر سے جواب دیا۔

    فیروز شاہ مصلح بھی تھا جس نے سیاست اور معاشرت میں بڑی اِصلاحات بھی کیں۔ اہلِ دکن کے دل و دماغ میں ایک تلاطم اور معاشرت میں طوفان برپا کر دیا اور زندگی کا نیا مطمح نظر پیدا کرکے ایک جدید معاشرہ تشکیل دیا۔

    فیروز شاہ کا علمی شغف تمام بہمنی سلاطین سے زیادہ تھا۔ اُسے دکن کا مُعلَّم سلطان بھی کہا جاتا ہے جس نے زندگی بھر اپنی رعایا کی علمی و اِخلاقی خدمت بھی کی اور دکن میں علم کے بڑے بڑے خزانے جمع کردیے۔

    فیروز شاہ کی علم نوازی سے گلبرگہ مرکزِ‌ علم و فضل بن گیا تھا اور سلطنت کو آس پاس کی ریاستوں میں پہچان و قبولیت ملی۔

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔