Tag: بہنیں

  • بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری

    بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق فیصلہ جاری کردیا، بےبنیاد مقدمہ بازی پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے فیصلہ تحریر کیا، سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ خواتین کی وراثتی جائیدادوں کو تحفظ ملنا چاہیے، بدقسمتی سے خواتین کو شرعی وراثتی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

    خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم رکھنے کیلئے کچھ وکلا سہولت فراہم کرتے ہیں، بےبنیاد مقدمہ بازی پر درخواست گزار پر 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا گیا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جرمانے کی رقم وراثتی جائیداد سے محروم رکھی گئیں بہنوں کو ادا کی جائے۔

  • فیصل آباد سے اغوا کی گئی دو بہنیں ایک ماہ بعد اسلام آباد سے بازیاب

    فیصل آباد سے اغوا کی گئی دو بہنیں ایک ماہ بعد اسلام آباد سے بازیاب

    فیصل آباد کے یونیورسٹی ٹاؤن سے اغوا کی گئی دو بہنیں ایک ماہ بعد اسلام آباد سے بازیاب کرالی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی ٹاؤن کے رہائشی زاہد کی دو بیٹیوں 18 سالہ نورالہدیٰ اور 12 سالہ مہر ماہ کو نو اکتوبر کو گھر سے اغوا کیا گیا تھا۔

    تھانہ ملت ٹاؤن پولیس نے مغوی بہنوں کے بھائی محمد احمد کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کیا تھا، ڈی ایس پی نشاط آباد سرکل عمر دراز کی قیادت میں اسپیشل ٹیم نے سوشل میڈیا چیٹ اور آئی ڈی کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگایا اور لیڈی پولیس کے ہمراہ اسلام آباد کے نواحی علاقے میں چھاپہ مار کر ایک گھر سے دونوں بہنوں کو بازیاب کروا لیا۔

    پولیس نے دو اغواکاروں نصر محمود اور حمیداللہ کو بھی گرفتار کر کے فیصل آباد منتقل کر دیا، گرفتار کئے گئے ملزمان کو آج مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔

  • 4 بہنوں کے ویٹ لفٹنگ میں بے شمار سونے چاندی کے تمغے

    4 بہنوں کے ویٹ لفٹنگ میں بے شمار سونے چاندی کے تمغے

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک دو نہیں بلکہ 4 بہنوں نے ویٹ لفٹنگ میں بے شمار کامیابیاں حاصل کر کے نہ صرف اپنے والدین بلکہ ملک کا نام بھی روشن کردیا۔

    لاہور کی ٹوئنکل سہیل، ورونیکا سہیل، مریم سہیل اور سیبل سہیل کئی سال سے ویٹ لفٹنگ مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں اور اب تک بے شمار سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیت چکی ہیں۔

    چاروں بہنوں کو پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    یہ چاروں اسپورٹس میں اپنا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چاروں اب تک کئی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے والد کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے انہیں کھیلوں کا شوق پیدا ہوا۔

    ٹوئنکل نے بتایا کہ ابتدا میں خاندان والوں نے ان کے والد کی بے حد مخالفت کی، ان کے دادا بھی اس کے سخت خلاف تھے، لیکن جب ان کی بہن نے پہلا گولڈ میڈ جیتا تو سب سے پہلی مبارکباد دادا نے ہی دی۔

    چاروں بہنوں کا کہنا ہے کہ حکومت ویٹ لفٹنگ کو سپورٹ نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ اپنے اخراجات پر بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں، اگر حکومت انہیں سپورٹ کرے تو وہ مزید مقابلوں میں حصہ لے کر ملک کا نام روشن کریں گی۔

  • کوئی دباؤ نہیں، بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے!

    کوئی دباؤ نہیں، بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے!

    کراچی: گھوٹکی کی نو مسلم بہنوں کا کہنا ہے کہ ہم پر کوئی دباؤ نہیں، بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے نو مسلم بہنوں‌ آسیہ اورنادیہ کہتی ہیں کہ بچپن سے مسلمان ہونے کا شوق تھا، جو اب پورا ہوا.

    انھوں نے مزید کہا کہ ہم پر کسی قسم کا دباؤ نہیں، سسرال میں سب ہمارا خیال رکھتے ہیں، والدہ نے بلوایا تھا، مگر اب یہی ہمارا گھر ہے.

    ان کے شوہروں صفدر علی، برکت علی نے بھی پروگرام میں اظہار خیال کیا، انھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پرمطمئن ہیں.

    مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2نومسلم بہنوں کی تبدیلی مذہب درست قرار دے دی

    انھوں نے یہ بھی کہا کہ کئی لوگ پاکستان کا کھاتے ہیں، مگر انڈیا کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں. انڈیا کا پروپیگنڈا اس معاملے پر بالکل بے بنیاد ہے.

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں اور ان کی پہلی بیویوں نے بہ خوشی اس رشتے کی اجازت دی.

    یاد رہے کہ 11 اپریل 2019 کو اسلام آبادہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2 نومسلم بہنوں کی تبدیلی مذہب درست قراردیتے ہوئے دونوں لڑکیوں کی فراہمی تحفظ کی درخواست منظور کرلی تھی.

  • دھڑ جڑی بہنوں کی وہ کہانی جو آپ کو رونے پر مجبور کردے

    دھڑ جڑی بہنوں کی وہ کہانی جو آپ کو رونے پر مجبور کردے

    آج کل ایسے بچوں کی پیدائش عام ہوگئی ہے جن کا دھڑ آپس میں جڑا ہوا ہوتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دونوں بچوں کو علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہے جس کے بعد دونوں ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔

    تاہم آج سے ایک صدی قبل تک ایسے بچوں کو عفریت تصور کیا جاتا تھا اور ایسے بچے نہایت ترحم آمیز زندگی گزارتے تھے۔ ایسے ہی حالات کا شکار ہلٹن سسٹرز بھی تھیں جنہیں خوفزدہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا تاہم یہ اپنے وقت کی سپر اسٹارز بھی تھیں۔

    ہلٹن سسٹرز کا دھڑ آپس میں جڑا ہوا تھا، ڈیزی اور وائلٹ نامی یہ دھڑ جڑی بچیاں سنہ 1908 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق انہیں علیحدہ نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ان کا نظام دوران خون ایک تھا، اور الگ کرنے کی صورت میں دونوں کی موت واقع ہوسکتی تھی۔

    ان بچیوں کی والدہ کیٹ اسکنر ایک 21 سالہ غیر شادی شدہ خاتون تھیں جو ایسی بچیوں کی پیدائش کو اپنے گناہوں کی سزا سمجھنے لگی اور ایک دن اسپتال میں ہی لاوارث چھوڑ کر چلی گئی۔

    اسپتال کی ایک مڈ وائف میری ہلٹن نے ان بچیوں کو گود لے لیا لیکن اس کی نیت اچھی نہیں تھی اور یہیں سے ان بہنوں کی پر اذیت زندگی کا آغاز ہوا۔

    میری ان بچیوں کو ’عفریت‘ کا نام دیتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ ان کی نمائش کر کے وہ ان سے منافع کما سکتی ہے۔ میری نے انہیں ایک پب میں رکھا اور ان کی تصاویر پر مشتمل پوسٹ کارڈ بیچنا شروع کردیے۔

    پب میں آنے والے لوگ ان بچیوں کی تصاویر دیکھ کر تجسس میں مبتلا ہوجاتے اور ان بچیوں کو دیکھنا چاہتے جس کی انہیں قیمت ادا کرنی ہوتی۔ پب میں بھی کسی بھی وقت کوئی بھی شخص ان بچیوں کو دیکھنے کی فرمائش کر سکتا تھا اور انہیں چھو بھی سکتا تھا۔

    بعد میں ایک انٹرویو میں ہلٹن سسٹرز نے بتایا، کہ ان کی یادداشت میں بچپن کی یاد کے نام پر صرف سگاروں اور پائپوں کی بو محفوظ ہے، اور انہیں دیکھنے آنے والوں کا ناخوشگوار لمس، ’وہ بعض اوقات کپڑے ہٹا کر یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ہم کس طرح آپس میں جڑی ہوئی ہیں‘۔

    صرف 3 سال کی عمر میں ان بہنوں کو مختلف میلوں میں لے جایا جانے لگا جہاں ان کی باقاعدہ نمائش کی جاتی تھی۔ ان کی منہ بولی ماں میری نے انہیں گانا اور آلات موسیقی بجانا بھی سکھایا۔ جب بھی یہ بچیاں اس کی مرضی کے خلاف چلنے کی کوشش کرتی تو وہ بیلٹ سے ان پر تشدد کرتی۔

    یہ سب چلتا رہا، بچیاں بڑی ہوتی گئیں، اس دوران میری نے انہیں لے کر پورے انگلینڈ، جرمنی، اور آسٹریلیا کا سفر بھی کیا لیکن اسے زیادہ کامیابی اور خوشحالی نصیب نہ ہوسکی۔

    سنہ 1915 میں اس نے ایک بار پھر اپنی قسمت آزماتے ہوئے امریکا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ امریکا آنے کے 4 برس بعد میری کا انتقال ہوگیا اور اس کے داماد میئرز نے ان بہنوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

    میئرز اور اس کی بیوی ان کے لیے میری سے بھی زیادہ سخت نگہبان ثابت ہوئے، وہ ہر وقت ان کی کڑی نگرانی کرتے حتیٰ کہ انہیں اپنے کمرے میں ہی ساتھ سلاتے۔ اکثر اوقات وہ انہیں گھر سے نکالنے کی بھی دھمکی دیتے جس سے لڑکیاں خوفزدہ ہوجاتیں۔

    سنہ 1920 میں ان بہنوں نے تھیٹرز ایکٹس کرنا شروع کیے اور یہاں سے ان کی قسمت کھلی۔ یہ ووڈیول کا دور تھا جو اس وقت امریکا کی واحد عوامی تفریح تھی۔ جلد ہی یہ بہنیں مقبول ہوگئیں اور ایک وقت ایسا تھا کہ اخبار کے انٹرٹینمنٹ صفحات پر صرف ان بہنوں کا نام ہوتا۔

    ہلٹن سسٹرز اس وقت سیکسو فون بجاتیں اور گانے گاتیں جسے دیکھنے کے لیے اس قدر لوگ امڈ آتے کہ یہ ہفتے میں 5 ہزار ڈالر کمانے لگیں۔ اس قدر کمانے کے باوجود انہیں ایک پیسہ بھی نہ ملتا، وہ کہتی تھیں، ’ہم بے تحاشہ امیر لیکن تنہا لڑکیاں تھیں جو جدید غلامی کرنے پر مجبور تھیں‘۔

    سنہ 1931 میں اپنے ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور اپنے نگران میئرز کے خلاف کیس کردیا۔ جلد ہی کیس کا فیصلہ ہوا اور یہ بہنیں عدالت کے حکم پر میئرز سے 1 لاکھ ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔

    اب یہ بہنیں آزاد تھیں، انہوں نے صحیح معنوں میں اب زندگی کو دریافت کیا، اور گھومنا پھرنا اور پارٹیز میں جانا شروع کیا۔ اپنی علیحدہ شخصیتوں کے اظہار کے لیے انہوں نے ایک دوسرے سے مختلف کپڑے پہننا شروع کیے۔

    ان دونوں نے اپنا شو شروع کیا، لیکن اس وقت بولتی فلموں کی مقبولیت کا دور شروع ہوچکا تھا اور ووڈیول زوال پذیر ہورہا تھا۔ جلد ہی ان بہنوں کو بھی ایک فلم ‘فریکس‘ میں کاسٹ کرلیا گیا۔ یہ فلم اس وقت متنازعہ قرار پائی لیکن آج اسے کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔

    سنہ 1951 میں ان دونوں نے اپنی زندگی پر بنی فلم ’چینڈ فار لائف‘ میں کام کیا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان بہنوں کی مقبولیت میں بھی کمی آتی جارہی تھی۔ یہ دونوں شادی بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔

    10 سال بعد ان دونوں نے اپنی زندگی کا آخری عوامی شو کیا۔ جب عوامی زندگی کی رونقیں ختم ہوئیں تو یہ دونوں خالی ہاتھ تھیں اور ان کے پاس رہنے کے لیے گھر بھی نہ تھا۔

    زندگی گزارنے کے لیے ان بہنوں نے ایک گروسری اسٹور میں کیشیئر کا کام شروع کردیا جبکہ ایک چرچ کی جانب سے انہیں گھر فراہم کردیا گیا جس کے بعد ان کی زندگی پرسکون ہوگئی۔ شاید یہ ان کی زندگی کا واحد وقت تھا جو ان کے لیے پرسکون ثابت ہوا۔

    سنہ 1968 میں ہانگ کانگ فلو نامی وبا پھیلی جس نے دنیا بھر میں 10 لاکھ لوگوں کو اپنا شکار بنایا۔ اپنی زندگی کے آخری دن گزارتی یہ بہنیں بھی اس وبا کا شکار ہوگئیں، اور تھوڑے ہی عرصے میں کچھ دن کے وقفے سے انتقال کرگئیں۔ نشیب و فراز، پراسرار انفرادیت اور اذیت سے بھرپور زندگی کی یہ کہانی ان بہنوں کی موت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی۔

  • ضلع کرک کی 3 بہنیں بم ڈسپوزل اسکواڈ میں ایشیا کی پہلی ایلیٹ کمانڈوز

    ضلع کرک کی 3 بہنیں بم ڈسپوزل اسکواڈ میں ایشیا کی پہلی ایلیٹ کمانڈوز

    صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک میں ایک چھوٹے سے گاؤں کی رہائشی 3 بہنیں اس وقت بم ڈسپوزل اسکواڈ میں شامل ہیں اور وہ جنوبی ایشیا کی پہلی خواتین ایلیٹ کمانڈوز ہیں۔

    پری گل، ثمینہ گل اور رخسانہ گل گو کہ آج اپنے گاؤں کے لیے باعث فخر ہیں، تاہم یہ سفر ان کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ مقامی روایات اور سماجی رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا ان کے والدین کی حمایت کے بغیر نا ممکن تھا۔ ان کے والدین کو اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے پر رشتہ داروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    ثمینہ بتاتی ہے، ’ہمارا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے، ہم عید پر نئے کپڑے نہیں لیتے تھے۔ حتیٰ کہ جو پیسے ہمیں عیدی کے طور پر ملتے تھے وہ ہم اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے والد کو دے دیتے تھے‘۔

    یہ بلند حوصلہ بہنیں بتاتی ہیں کہ خاندان کی خواتین ان کی کتابوں کو پھاڑ دیتی تھی تاکہ یہ تعلیم حاصل نہ کریں۔

    رخسانہ کہتی ہے، ’اگر ہمارے والدین ہمارے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو آج ہم دوسرے لوگوں کے گھروں یا کھیتوں میں مشقت کر رہی ہوتیں۔ وہ بہت مشکل وقت تھا، لیکن ہمیں آج خوشی ہے کیوں کے اس وقت نے ہمیں مضبوط بنایا اور آج ہم اپنا سر فخر سے اٹھا سکتی ہیں‘۔

    خیال رہے کہ سنہ 2016 میں بم ڈسپوزل اسکواڈ میں پہلی بار ایک خاتون کو شامل کیا گیا تھا۔

    خیبر پختونخواہ کی پولیس فورس میں شامل خاتون اہلکار رافعہ قسیم بیگ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بننے والی پہلی پاکستانی اور ایشیائی خاتون ہیں۔

  • پی آئی اے کی 2 پائلٹ بہنوں کا منفرد ریکارڈ

    پی آئی اے کی 2 پائلٹ بہنوں کا منفرد ریکارڈ

    اسلام آباد: یوں تو پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے ہر قت خبروں میں رہتی ہے اور یہ خبریں عموماً منفی ہوتی ہیں، تاہم حال ہی میں دو پائلٹ بہنوں نے پی آئی اے کے 2 بوئنگ طیارے بیک وقت اڑا کر ایک تاریخ رقم کر ڈالی۔

    پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی کے ٹوئٹ کے مطابق یہ پی آئی اے کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ 2 سگی بہنوں مریم مسعود اور ارم مسعود نے 777 بوئنگ طیارے بیک وقت اڑائے۔ دونوں طیارے بیک وقت فضا میں محو پرواز ہوئے تاہم دونوں کی منزلیں مختلف تھیں۔

    بڑی بہن مریم کافی عرصہ سے پی آئی اے کے مختلف جہازوں کو بطور پائلٹ اڑا چکی ہیں تاہم حال ہی میں ان کی چھوٹی بہن ارم کو بھی جہاز اڑانے کا لائسنس مل گیا جس کے بعد دونوں بہنوں نے مختلف جہازوں میں بیک وقت اڑان بھری۔

    دو سگی بہنوں کا ایک ساتھ جہاز اڑانے کا یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کا پہلا ریکارڈ ہے۔

    اس سے قبل پاک فضائیہ کی خاتون فلائنگ آفیسر مریم مختار بھی فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں تاہم وہ گزشتہ برس میانوالی میں تربیتی پرواز کے دوران جہاز کو حادثہ پیش آنے کے سبب شہید ہوگئیں۔