Tag: بیت الخلا

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: بیت الخلا کی عدم دستیابی سے سیلاب متاثرین کی مشکلات دوہری

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: بیت الخلا کی عدم دستیابی سے سیلاب متاثرین کی مشکلات دوہری

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد صحت و صفائی کی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔

    ٹوائلٹ کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    ٹوائلٹ کی موجودگی انسانی تہذیب کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ 200 برسوں کے دوران ٹوائلٹ کی سہولت نے انسان کی اوسط عمر میں 20 سال کا اضافہ کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

    دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں مناسب بیت الخلا یا ہاتھ دھونے کی سہولیات حاصل نہیں یعنی ہر 3 میں سے 1 شخص، جبکہ 1 ارب سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 700 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    صحت و صفائی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    واٹر ایڈ کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

    یونیسف کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید ابتر

    پاکستان میں رواں برس آنے والے سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے، کروڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ریلیف کیمپس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    ان کیمپس میں مناسب بیت الخلا کی عدم دستیابی کی وجہ سے صفائی کی صورتحال نہایت خراب ہے اور ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔

    زیادہ تر کیمپس میں لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں جس سے کیمپس میں آلودگی پھیل رہی ہے نتیجتاً لٹے پٹے، بیمار اور کم خوراکی کا شکار سیلاب متاثرین اسہال، ٹائیفائڈ، جلدی اور سانس کے امراض اور دیگر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس صورتحال کو طبی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل ہے تاکہ صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جاسکے۔

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: وہ سہولت جس نے انسان کی عمر میں 20 سال اضافہ کیا

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: وہ سہولت جس نے انسان کی عمر میں 20 سال اضافہ کیا

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    ٹوائلٹ کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    ٹوائلٹ کی موجودگی انسانی تہذیب کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ 200 برسوں کے دوران ٹوائلٹ کی سہولت نے انسان کی اوسط عمر میں 20 سال کا اضافہ کیا ہے۔

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

    دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں مناسب بیت الخلا یا ہاتھ دھونے کی سہولیات حاصل نہیں یعنی ہر 3 میں سے 1 شخص، جبکہ 1 ارب سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 700 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    صحت و صفائی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    واٹر ایڈ کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

    یونیسف کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    عدم توجہی کا شکار سینیٹری ورکرز

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 290 ارب کلو انسانی فضلہ پیدا ہوتا ہے جنہیں ٹھکانے لگانے والے سینیٹری ورکرز بدترین حالات کا شکار ہیں۔

    پاکستان میں کرونا وبا کے دوران جہاں ہر اس شعبے میں کام کرنے والے افراد کی تکریم کی گئی جو اس وبا کے دوران گھروں سے نکلے اور نہایت ضروری خدمات انجام دیں، وہیں اس سارے عرصے کے دوران سینیٹری ورکرز کی جانب ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی جو صفائی ستھرائی کا عمل سر انجام دے کر کووڈ کی وبا کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

    حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے والے سینیٹری ورکرز ایک طرف تو سخت معاشی مسائل کا شکار ہیں وہیں سماجی طور پر بھی ان سے بدترین رویہ رکھا جاتا ہے۔

    سینیٹری ورکرز کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق حفاظتی لباس اور آلات کے بغیر لوگوں کی غلاظت اور گندگی کو صاف کرنے والے خاکروب عام طور پر سانس اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں دی جاتی۔

    اس تحقیق کے مطابق پاکستان بھر میں 1998 سے 2007 تک 70 سیورمین گٹروں کو صاف کرنے کے دوران حادثاتی طور پر انتقال کرگئے۔

    صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 1988 سے 2012 تک 70 سینیٹری ورکرز اور سیورمین کام کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ 2011 سے 2019 تک پاکستان بھر میں بند گٹروں کو کھولنے کی کوشش کے دوران بھی 16 گٹر مین ہلاک ہوئے۔

    واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں صحت و صفائی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اس وقت تک ناکام ہیں جب تک سینیٹری ورکرز کو کام کے لیے محفوظ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، ان کے معاشی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اور ان سے برتی جانے والی سماجی تفریق ختم نہیں کی جاتی۔

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان کی 10 فیصد آبادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

    دنیا بھر میں 60 کروڑ سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا کی صرف 45 فیصد آبادی کو صاف ستھرے اور محفوظ ٹوائلٹ میسر ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں 3 ارب افراد کو ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 800 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    اسی طرح گندے پانی سے ہونے والی بیماریاں ہر سال دنیا بھر میں 8 لاکھ 29 ہزار افراد کی جان لے لیتی ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہے، یہ تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے اور زیادہ تر دیہات یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔

    دوسری جانب سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

    وزیر اعظم عمران خان نے بھی سنہ 2023 تک ملک کی تمام آبادی کے لیے ٹوائلٹس تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سیاحت میں کمی کی وجہ پبلک ٹوائلٹس کی عدم فراہمی بھی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے تمام پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز کو اپنے واش رومز صاف رکھنے کا آرڈر چلا گیا ہے، ہر ٹوائلٹ کے باہر ایک واٹس ایپ نمبر دیا جائے گا جس پر گندے ٹوائلٹس کی تصاویر بھیجی جاسکیں گی، اس کے بعد مذکورہ پمپس اور اسٹیشن مالکان کو جرمانہ کیا جائے گا۔

  • لندن: طیارے کے بیت الخلا میں بم کی اطلاع

    لندن: طیارے کے بیت الخلا میں بم کی اطلاع

    لندن: برطانیہ میں ایک مسافر طیارے کے بیت الخلا میں بم کی اطلاع ملنے پر حکام میں کھلبلی مچ گئی۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق پولینڈ کے شہر کراکو سے آئرلینڈ کے شہر ڈبلن جانے والی ایک پرواز کو اس وقت لندن کے اسٹین سٹیڈ ایئرپورٹ اتار لیا گیا جب اس کے ٹوائلٹ سے بم کی اطلاع پر مشتمل ایک نوٹ برآمد ہوا۔

    بیت الخلا سے برآمد نوٹ میں لکھا گیا تھا کہ جہاز میں دھماکا خیز مواد موجود ہے، ایئرپورٹ حکام کو اطلاع ملتے ہی کھلبلی مچ گئی، رائن ایئر کی پرواز کو فوری طور پر لندن کے ایئرپورٹ اسٹین سٹیڈ کی طرف موڑا گیا، طیارے کو بہ حفاظت اتارنے کے لیے برطانوی رائل ایئر فورس کے 2 لڑاکا طیاروں کو بھی طلب کیا گیا، ٹائفون جیٹس نے مسافر طیارے کو ایئرپورٹ پر اتارا۔

    ایئر پورٹ پر تمام حفاظتی اقدامات پہلے سے کر دیے گئے تھے، طیارے کے اترتے ہی جہاز کو مسافروں سے مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا۔

    برطانوی پولیس جہاز کے تمام مسافروں کو چیک کر رہی ہے، کلیئر ہونے کے بعد مسافروں کو اسپیئر جہاز کے ذریعے روانہ کیا جائے گا، طیارے میں دھماکا خیز مواد کی موجودگی کے سلسلے میں برطانوی حکام کی جانب سے تاحال کوئی اپ ڈیٹ جاری نہیں کی گئی۔

  • ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر میں اس وقت ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، ٹوائلٹ پیپر اور دیگر صفائی کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانہ وار ان اشیا کی خریداری کر رہے ہیںِ۔

    لوگ نہ صرف خریداری کر رہے ہیں بلکہ ان اشیا کو زیادہ سے زیادہ خریدنے کے چکر میں ان کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں، ایسے ہی کچھ واقعات امریکا اور برطانیہ کی سپر مارکیٹس میں بھی پیش آرہے ہیں جہاں لوگ ٹوائلٹ رول کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

    امریکی بیت الخلاؤں میں ٹوائلٹ رول کے استعمال کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔

    آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ دنیا بھر میں بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے پانی کا مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں پانی کے بغیر باتھ روم جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

    اس مقصد کے لیے لوٹے یا دوسرے نالی دار برتن، ہینڈ شاورز یا بیڈیٹ (جو ایک نالی کی شکل میں کموڈ سے ہی منسلک ہوتی ہے) کا استعمال عام ہے۔ تاہم امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ امریکی اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے بیڈیٹ سب سے پہلے فرانس میں متعارف کروائے گئے۔ بیڈیٹ بھی ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے پونی یا چھوٹا گھوڑا۔ یہ بیڈیٹس پہلی بار فرانس میں 1700 عیسوی میں استعمال کیے گئے۔

    اس سے قبل بھی وہاں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کیا جاتا تھا تاہم بیڈیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ ابتدا میں بیڈیٹ صرف اونچے گھرانوں میں استعمال کیا جاتا تھا تاہم 1900 عیسوی تک یہ ہر کموڈ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

    یہاں سے یہ بقیہ یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلا لیکن امریکیوں نے اسے نہیں اپنایا۔ امریکیوں کا اس سے پہلا تعارف جنگ عظیم دوئم کے دوران ہوا جب انہوں نے یورپی قحبہ خانوں میں اسے دیکھا، چنانچہ وہ اسے صرف فحش مقامات پر استعمال کی جانے والی شے سمجھنے لگے۔

    سنہ 1960 میں آرنلڈ کوہن نامی شخص نے امریکن بیڈیٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر اسے امریکا میں بھی رائج کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ امریکیوں کے ذہن میں بیڈیٹ کے بارے میں پرانے خیالات ابھی زندہ تھے۔

    اس کے علاوہ امریکی بچپن سے ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے کے عادی تھے چانچہ وہ اپنی اس عادت کو بدل نہیں سکتے تھے۔

    اسی وقت جاپان میں بیڈیٹ کو جدید انداز سے پیش کیا جارہا تھا۔ ٹوٹو نامی جاپانی کمپنی نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے الیکٹرک بیڈٹ متعارف کروا دیے تھے۔

    اب سوال یہ ہے کہ امریکی بیت الخلا میں پانی کے استعمال سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں؟

    اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔

    اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی اس کی بڑی وجہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ اب بھی امریکا میں کئی لوگوں کو علم ہی نہیں کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی متبادل طریقہ ہے۔

    امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایک بیڈیٹ شاور میں ایک گیلن پانی کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    اس ضمن میں ایک تجویز ویٹ وائپس کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا متبادل ہوسکتے ہیں، تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ ویٹ وائپس کا مستقل استعمال جلد پر خارش اور ریشز پیدا کرسکتا ہے۔ یہ وائپس سیوریج کے لیے بھی خطرہ ہیں جو گٹر لائنز میں پھنس جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رفع حاجت کے لیے پانی کا استعمال پیشاب کی نالی کے انفیکشن ہیمرائیڈ سمیت بے شمار بیماریوں سے تحفظ دے سکتا ہے جبکہ یہ صفائی کا بھی احساس دلاتا ہے۔

    اب اس وقت کرونا وائرس کے بعد ٹوائلٹ پیپر کی قلت کے پیش نظر دنیا امریکیوں کو ویسے بھی لوٹوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب ماہرین نے بھی کہا ہے ٹوائلٹ پیپر کی نسبت پانی کا استعمال اس وائرس سے بچنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

  • جدہ میں عوامی باتھ روم کے استعمال پر فیس مقرر

    جدہ میں عوامی باتھ روم کے استعمال پر فیس مقرر

    ریاض: جدہ کے ساحل جدہ کورنیش پر بنے باتھ رومز کے استعمال پر فیس عائد کردی گئی، مقامی افراد نے فیس عائد ہونے پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی شہر جدہ کے ساحل جسے کورنیش کہا جاتا ہے، پر بنے باتھ روم استعمال کرنے کے لیے فیس مقرر کر دی گئی ہے۔ ترجمان بلدیہ کے مطابق اسمارٹ باتھ روم کے لیے 7 ریال جبکہ روایتی بیت الخلا کے لیے 3 ریال فی کس مقرر کیے گئے ہیں۔

    محکمہ بلدیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ جدہ کے ساحل پر بنائے گئے باتھ روم کا کنٹریکٹ دینے کے لیے ٹینڈرز بھی طلب کیے جائیں گے۔

    ترجمان بلدیہ کے مطابق ساحل جدہ کی بہترین تفریح گاہ ہے اور یہاں روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں، ان کی ضروریات کے لیے بلدیہ کی جانب سے بیت الخلا تعمیر کیے گئے ہیں۔ ساحل کے مختلف مقامات پر 10 روایتی جبکہ 8 اسمارٹ بیت الخلا موجود ہیں۔

    اسمارٹ بیت الخلا میں داخلے کے لیے پری پیڈ کارڈ حاصل کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ پری پیڈ کارڈ مختلف قیمتوں کا ہوتا ہے تاہم اس کے کریڈٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

    اسمارٹ بیت الخلا میں گرم اور ٹھنڈے پانی کی سہولت کے علاوہ ہاتھ خشک کرنے کے لیے ایئر بلوورز کا بھی خصوصی انتظام موجود ہے۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والوں کا کہنا ہے کہ بلدیہ کی جانب سے روایتی باتھ رومز کو بھی نجی اداروں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے جس سے انہیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    البتہ کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ بہترین اقدام ہے اور اس سے لوگوں کو صاف ستھرے باتھ رومز ملیں گے۔

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: پاکستان میں ڈھائی کروڑ افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: پاکستان میں ڈھائی کروڑ افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہماری زندگیوں میں بیت الخلا کی موجودگی کی اہمیت اور پسماندہ علاقوں میں اس کی عدم فراہمی کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 4 ارب سے زائد افراد ایک مناسب بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں، لگ بھگ 70 کروڑ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، جبکہ 3 ارب افراد کو ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 2 لاکھ 80 ہزار اموات ہوتی ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    بھارت میں واش رومز کی تعمیر پر اس قدر سرعت سے کام کیا گیا کہ رواں برس بھارت کو کھلے میں رفع حاجت کے رجحان سے پاک قرار دیا جاچکا ہے، نیپال بھی اس فہرست میں شامل ہوچکا ہے، تاہم پاکستان میں اب بھی ڈھائی کروڑ افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    یونیسف کے مطابق پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں لوگ کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔ یعنی کل آبادی کے 13 فیصد حصے کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ یہ تعداد زیادہ تر دیہاتوں یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔

    یونیسف ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے روزانہ پانچ سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    نئی صدی کے آغاز میں طے کیے جانے والے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز میں (جن کا اختتام سنہ 2015 میں ہوگیا) صاف بیت الخلا کی فراہمی بھی ایک اہم ہدف تھا۔ پاکستان اس ہدف کی نصف تکمیل کرنے میں کامیاب رہا۔

    رپورٹس کے مطابق سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔

    سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

    پاکستان اس ہدف کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں یونیسف کی ترجمان انجیلا کیارنے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں باتھ روم کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز اور خوش آئند کامیابی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے بیت الخلا کے استعمال اور صحت و صفائی کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات اور آگاہی مہمات چلائی جانی ضروری ہیں۔

  • بیت الخلا کا معاملہ سنگین، بھارتی حکومت نے دلہے پر انوکھی شرط عائد کردی

    بیت الخلا کا معاملہ سنگین، بھارتی حکومت نے دلہے پر انوکھی شرط عائد کردی

    بھوپال: بھارتی ریاست مدھیا پردیش میں بیت الخلا کا معاملہ سنگین ہوگیا، حکومت نے دلہے پر انوکھی شرط عائد کرتے ہوئے باتھ روم میں سیلفی لینے کا مطالبہ کردیا، سیلفی لینے پر دلہن کو انعام دیا جائےگا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مدھیا پردیش کی حکومت نے شادی کے لیے یہ انوکھی اسکیم متعارف کروائی ہے جس کے لیے درخواست صرف اسی صورت میں دی جاسکتی ہے جب دلہن یہ ثابت کردے کہ اس کے شوہر کے گھر میں باتھ روم موجود ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق سرکاری افسران ہر گھر میں باتھ روم چیک نہیں کرسکتےلہٰذا انہوں نے دلہا سے باتھ روم میں کھڑے ہوکر سیلفی لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    مدھیا پردیش میں دلہن اگر یہ ثابت کردیتی ہے کہ اس کے شوہر کے گھر میں باتھ روم موجود ہے تو حکومت کی جانب سے اسے 51 ہزار روپے انعام کے طور پر دئیے جائیں گے۔

    باتھ روم میں کھڑے ہوکر سیلفی لینے کی شرط صرف دیہاتی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ بھوپال شہر کی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھوپال کے ایک شہری کا کہنا تھا کہ اسے بتایا گیا ہے کہ جب تک دلہا باتھ روم میں موجود اپنی تصاویر فراہم نہیں کرے گا تب تک قاضی اس کا نکاح بھی نہیں پڑھائے گا۔

    یاد رہے کہ بھارت میں باتھ روم کے حوالے سے حکومت کی اسکیم 2013 سے ہے تاہم اس میں تصویر کا اضافہ حال ہی میں کیا گیا ہے۔

  • امریکی رفع حاجت کے لیے پانی کی جگہ ٹوائلٹ پیپر کیوں استعمال کرتے ہیں؟

    امریکی رفع حاجت کے لیے پانی کی جگہ ٹوائلٹ پیپر کیوں استعمال کرتے ہیں؟

    دنیا بھر میں بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے پانی کا مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں پانی کے بغیر باتھ روم جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

    اس مقصد کے لیے لوٹے یا دوسرے نالی دار برتن، ہینڈ شاورز یا بیڈیٹ (جو ایک نالی کی شکل میں کموڈ سے ہی منسلک ہوتی ہے) کا استعمال عام ہے۔ تاہم امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ امریکی اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے بیڈیٹ سب سے پہلے فرانس میں متعارف کروائے گئے۔ بیڈیٹ بھی ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے پونی یا چھوٹا گھوڑا۔ یہ بیڈیٹس پہلی بار فرانس میں 1700 عیسوی میں استعمال کیے گئے۔

    اس سے قبل بھی وہاں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کیا جاتا تھا تاہم بیڈیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ ابتدا میں بیڈیٹ صرف اونچے گھرانوں میں استعمال کیا جاتا تھا تاہم 1900 عیسوی تک یہ ہر کموڈ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

    یہاں سے یہ بقیہ یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلا لیکن امریکیوں نے اسے نہیں اپنایا۔ امریکیوں کا اس سے پہلا تعارف جنگ عظیم دوئم کے دوران ہوا جب انہوں نے یورپی قحبہ خانوں میں اسے دیکھا، چنانچہ وہ اسے صرف فحش مقامات پر استعمال کی جانے والی شے سمجھنے لگے۔

    سنہ 1960 میں آرنلڈ کوہن نامی شخص نے امریکن بیڈیٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر اسے امریکا میں بھی رائج کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ امریکیوں کے ذہن میں بیڈیٹ کے بارے میں پرانے خیالات ابھی زندہ تھے۔

    اس کے علاوہ امریکی بچپن سے ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے کے عادی تھے چانچہ وہ اپنی اس عادت کو بدل نہیں سکتے تھے۔

    اسی وقت جاپان میں بیڈیٹ کو جدید انداز سے پیش کیا جارہا تھا۔ ٹوٹو نامی جاپانی کمپنی نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے الیکٹرک بیڈٹ متعارف کروا دیے تھے۔

    اب سوال یہ ہے کہ امریکی بیت الخلا میں پانی کے استعمال سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں؟

    اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔

    اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی اس کی بڑی وجہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ اب بھی امریکا میں کئی لوگوں کو علم ہی نہیں کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی متبادل طریقہ ہے۔

    امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایک بیڈیٹ شاور میں ایک گیلن پانی کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    اس ضمن میں ایک تجویز ویٹ وائپس کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا متبادل ہوسکتے ہیں، تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ ویٹ وائپس کا مستقل استعمال جلد پر خارش اور ریشز پیدا کرسکتا ہے۔ یہ وائپس سیوریج کے لیے بھی خطرہ ہیں جو گٹر لائنز میں پھنس جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رفع حاجت کے لیے پانی کا استعمال پیشاب کی نالی کے انفیکشن ہیمرائیڈ سمیت بے شمار بیماریوں سے تحفظ دے سکتا ہے جبکہ یہ صفائی کا بھی احساس دلاتا ہے۔

  • دنیا کی 62 فیصد آبادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم

    دنیا کی 62 فیصد آبادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہماری زندگیوں میں بیت الخلا کی موجودگی کی اہمیت اور پسماندہ علاقوں میں اس کی عدم فراہمی کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔

    اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    عالمی اداروں کے مطابق اس وقت دنیا کی 62 اعشاریہ 5 فیصد آبادی کو محفوظ سینی ٹیشن کی سہولت میسر نہیں، ان افراد کی تعداد لگ بھگ 4 ارب سے زائد بنتی ہے۔

    89 کروڑ 20 لاکھ افراد کھلے میں حوائج ضروریہ پوری کرتے ہیں جبکہ 1 ارب 80 کروڑ افراد فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سینی ٹیشن کا غیر محفوظ نظام ہے۔

    دنیا بھر میں اس ناقص سینی ٹیشن کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح 2 لاکھ 80 ہزار سالانہ ہے۔

    پاکستان میں بیت الخلا کی عدم دستیابی

    عالمی ترقیاتی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان کی لگ بھگ پونے 7 کروڑ آبادی صاف ستھرے بیت الخلا یا سرے سے ٹوائلٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں لوگ کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔ یعنی کل آبادی کے 13 فیصد حصے یا 2 کروڑ 5 لاکھ افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔

    یہ تعداد زیادہ تر دیہاتوں یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔

    مزید پڑھیں: بل گیٹس فاؤنڈیشن نے ماحول دوست ٹوائلٹ تیار کرلیا

    یونیسف ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورت حال کی وجہ سے روزانہ پانچ سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    دوسری جانب نئی صدی کے آغاز میں طے کیے جانے والے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز میں (جن کا اختتام سنہ 2015 میں ہوگیا) صاف بیت الخلا کی فراہمی بھی ایک اہم ہدف تھا۔ پاکستان اس ہدف کی نصف تکمیل کرنے میں کامیاب رہا۔

    رپورٹس کے مطابق سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔

    سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

    پاکستان اس ہدف کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں یونیسف کی ترجمان انجیلا کیارنے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں باتھ روم کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز اور خوش آئند کامیابی ہے۔

    کئی دیہی علاقوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یا کسی سماجی تنظیم کے تعاون سے باتھ روم کی تعمیر کروا رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانیوں کو باتھ روم کی اہمیت کا احساس ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے بیت الخلا کے استعمال اور صحت و صفائی کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات اور آگاہی مہمات چلائی جانی ضروری ہیں۔