Tag: بیربل

  • دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    بیربل بادشاہ اکبر کا محبوب اور مشہور رتن رہا ہے جسے اکبر اعظم نے ابتداً اس کی ذہانت، شگفتہ مزاجی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے اپنے دربار میں جگہ دی تھی۔ بعد میں وہ بادشاہ کے مصاحبوں میں شامل ہوا۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں‌ پڑھیے

    1556ء میں بیربل نے دربار میں قدم رکھنے کے بعد وہ شہرت پائی کہ آج بھی اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں بیربل کی ذہانت و دانائی اور لطیفہ گوئی کے کئی واقعات، قصّے اور کہانیاں مشہور ہوئیں۔ اکبر اور بیربل سے منسوب ان قصوں میں بہت کچھ من گھڑت بھی ہے۔ مگر یہ سبق آموز اور دل چسپ ہیں۔ تاہم ان کی حقیقت اور صداقت مشکوک ہے۔ انھیں محض خوش مذاقی اور تفریحِ طبع کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی قصّہ ہے۔

    ایک بار کسی درباری نے اکبرِ اعظم سے کہا: "جہاں پناہ! بیربل اگرچہ عقل مند آدمی ہے، مگر خاکسار کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ بیربل کی جگہ اگر آپ مجھے عنایت فرمائیں تو شاید آپ کا یہ نمک خوار بیریل سے زیادہ اچھا کام کرے گا اور حضور کو اپنی حاضر جوابی اور برجستگی کا ثبوت دے گا۔

    اکبر نے اُس سے کہا: اس میں شک نہیں کہ تم ایک قابل، پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہو۔ لیکن شاید تم بیربل کا مقابلہ نہیں کر سکو۔

    لیکن وہ شخص اصرار کرتا رہا تو اکبر نے کہا: اچھا اس کا فیصلہ کل دربار میں ہو جائے گا کہ تم بیربل کی جگہ لینے کے اہل ہو یا نہیں۔ ساتھ ہی تمھاری عقل مندی، فراست اور حاضر جوابی کا امتحان بھی ہو جائے گا۔

    چنانچہ دوسرے دن دربار میں اکبر اعظم نے اس شخص سے ایک عجیب و غریب سوال کیا کہ "بتاؤ اس وقت جو لوگ دربار میں بیٹھے ہیں ان کے دلوں میں کیا ہے۔”

    وہ شخص اکبر کا یہ سوال سن کر سٹپٹا گیا اور کہنے لگا: "حضور! یہ میں کیسے جان سکتا ہوں بلکہ کوئی بھی کیسے بتا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ جاننا تو ناممکن ہے۔

    تب یہی سوال اکبر نے پیربل سے کیا۔ بیربل! کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت یہاں موجود لوگوں کے دلوں میں کیا ہے؟

    جی ہاں، کیوں نہیں۔ بیربل نے جواب دیا: ” حضور! سب لوگوں کے دلوں میں ہے کہ مہابلی کی سلطنت ہمیشہ قائم رہے۔ اگر یقین نہ ہو تو آپ ان سے دریافت کر لیجیے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ۔

    بیربل کی یہ دانش مندانہ بات سن کر تمام درباری مسکرانے لگے اور اکبر بھی مسکراتے ہوئے اس شخص کو دیکھنے لگا جو بیربل کی جگہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس نے شرمندگی سے سَر جھکا لیا۔

    (اکبر اور بیربل کی کہانیاں سے ماخوذ)

  • بیوقوفوں کی فہرست میں اکبر بادشاہ کا نام سب سے اوپر کیوں؟

    بیوقوفوں کی فہرست میں اکبر بادشاہ کا نام سب سے اوپر کیوں؟

    ہندوستان میں بادشاہوں اور والیانِ سلطنت کے درباروں سے مختلف ادوار میں جہاں علم و فضل میں‌ ممتاز شخصیات وابستہ رہی ہیں، وہیں مختلف ذہین اور طبّاع لوگوں کا تذکرہ بھی تاریخی کتب میں ملتا ہے جن میں‌ سے ایک ابو الحسن المعروف ملّا دوپیازہ بھی ہیں۔

    یہ اکبر کے دور میں‌ ذہین اور حاضر دماغ مشہور تھے اور دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ان کی سوانح عمری‘‘ اور ان سے متعلق مختلف قصّے اور تذکرے ہمیں کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ملّا دوپیازہ کی حاضر دماغی کا ایک واقعہ منشی محمد الدین فوق کی مرتب کردہ کتاب ’’ابو الحسن ملّا دوپیازہ کی سوانح عمری‘‘ میں‌ موجود ہے جسے ہم یہاں آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کررہے ہیں۔

    ایک دن کوئی سوداگر اکبر بادشاہ کے پاس چند عمدہ گھوڑے لایا۔ بادشاہ نے گھوڑوں کو پسند کیا اور حکم دیا کہ اسی قسم کے گھوڑے اور لاؤ، اور اس کے واسطے اس سوداگر کو ایک لاکھ روپیہ پیشگی دلوا دیا۔

    اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز بادشاہ نے ملّا صاحب کو حکم دیا کہ ملک کے بیوقوفوں کی ایک فہرست تیار کر کے دکھلاؤ۔

    ملاّ دوپیازہ نے چند ایک نام لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیے، جن میں بادشاہ کا نام سب سے پہلے لکھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران ہوا اور اس کی وجہ دریافت کی۔

    ملّا صاحب نے یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے بے سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ سوداگروں کو دلوا دیا اور وہ اب شکل بھی نہیں دکھلائیں گے۔

    بادشاہ نے کہا اگر وہ لے آئے تو؟ ملّا نے جواب دیا، اگر لے آئے تو آپ کا نام کاٹ کر ان کا لکھ دوں گا۔ بادشاہ یہ سن کر لاجواب ہو گیا۔

  • کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    ہر دور میں بادشاہوں اور حکم رانوں کے دربار میں مشیر، علما اور مختلف شعبوں کے قابل اور باصلاحیت لوگ اور دانا شخصیات موجود رہے ہیں جن سے یہ حکم راں مختلف امور اور عوامی مسائل پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فرمان جاری کرتے تھے۔

    مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی بات کی جائے تو تاریخ میں اکبر کے "نو رتن” بہت مشہور ہیں۔ یہ نو لوگ انتہائی ذہین، دانا اور اپنے علم و کمال کی وجہ سے اکبر کو پسند تھے۔

    انہی میں ایک "بیربل” بھی تھا جسے تاریخ کی کتابوں میں ذہین اور حاضر جواب لکھا گیا ہے۔ یہ واقعہ جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں اکبر اور بیربل سے منسوب ہے۔

    کہتے ہیں ایک روز بادشاہ چاقو سے سیب چھیل رہا تھا۔ ذرا توجہ بٹی اور چاقو کی نوک اس کی کلائی پر لگ گئی اور وہ زخمی ہو گیا۔ بیربل کے منہ سے بے اختیار شکر الحمدللہ نکل گیا۔

    بادشاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں زخمی ہوا ہوں اور تم شکر ادا کر رہے ہو۔

    بیربل نے عرض کیا، حضور میں نے سیانوں سے سنا تھا انسان کو چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے بچاتی ہے۔ آپ کی کلائی زخمی ہو گئی، میرا خیال ہے خدا نے آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ اس نے بیربل کو جیل میں ڈلوا دیا اور اگلے روز شکار پر چلا گیا۔ شکار کے دوران وہ اور اس کے چند درباری اپنے لشکر سے بچھڑ گئے اور جنگل میں ایک قبیلے کے وحشی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    انھوں نے اکبر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی دیوی پر قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ درباریوں کی گردن اتارنے کے بعد جب اکبر کی باری تو اس کی کلائی پر پٹی بندھی تھی، قبیلے کے سردار کے دریافت کرنے پر اکبر نے بتایا کہ وہ زخمی ہو گیا تھا، تو اس نے مایوسی سے سر ہلایا اور اسے جانے کی اجازت دے دی، سردار نے کہا کہ ہم دیوی کو کسی زخمی کی قربانی پیش نہیں کرسکتے۔

    کہتے ہیں یوں اکبر کی جان بچی اور تب اسے بیربل کی بات یاد آئی۔ اس نے واپس آکر بیربل کو جیل سے نکالا اور اس سے معذرت اور اس کی دل جوئی کی۔