Tag: بیرسٹر علی ظفر

  • بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟  بیرسٹر علی ظفر  نے بتادیا

    بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتادیا

    لاہور : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کی وجہ بتادی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل بانی پی ٹی آئی سےاڈیالہ جیل میں ملاقات ہوئی، ملاقات میںانہوں نے کہا حکومت کے پاس نہ اختیار ہے نہ مذاکرات کامیابی میں انکی مرضی، حکومت کی نیت ٹھیک نہیں اس لئے میں مذاکرات کو ختم کرتا ہوں۔

    علی ظفر نے بتایا کہ انہوں نے ہدایت کی آگے جا کر سول ڈس اوبیڈیئنس کی تحریک شروع ہو گی اور کہا تمام ہاؤسز میں بھی احتجاج کریں،اپوزیشن کا کام ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو وہاں آواز اٹھائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس کی اجازت نہیں تو واک آوٹ ہی ہو گا، پیکا قانون میں ایسی شقیں ہیں جوآزادی اظہاررائےکو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    پیکا قانون پر بیرسٹر علی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھاتی اور کوئی دستاویزسامنے آتا، جس طرح چھپا کر ترامیم کی جا رہی ہے یہ ظاہر ہے آئینی حق کونقصان پہنچایاجا رہا ہے۔

    رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ چاہے کوئی بھی حکومت ہو، کسی دوسرے ملک کو اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی دنیا میں کہیں بھی ہوتو ہر ملک اسکے خلاف کھڑا ہوگا، پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرمختلف ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

  • مذاکرات شروع ہو جائیں تو سول نافرمانی کی کال واپس لے سکتے ہیں، بیرسٹر علی ظفر

    مذاکرات شروع ہو جائیں تو سول نافرمانی کی کال واپس لے سکتے ہیں، بیرسٹر علی ظفر

    اسلام آباد : پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ مذاکرات شروع ہوجائیں تو سول نافرمانی کی کال واپس لے سکتے ہیں، دو شرائط پوری کریں پھر مذاکرات کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کی ، صحافی نے سوال کیا مذاکرات اورسول نافرمانی اکٹھےچل سکتےہیں؟ تو علی ظفر کا کہنا تھا کہ مذاکرات شروع ہو جائیں توسول نافرمانی کی کال واپس لےسکتے ہیں۔

    رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ 3،2دن سے یہ تاثر جارہا ہےکہ پی ٹی آئی مذاکرات کی درخواست کررہی ہے، بانی پی ٹی آئی نے بھی غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم نے کسی سے مذاکرات کی بھیک مانگی نہ درخواست کی، ہم نےتومذاکرات کےدروازےکھولے ہیں۔۔

    انھوں نے بتایا کہ ہم نےدوشرائط رکھی ہیں وہ پوری کریں ہم مذاکرات کریں گے ، پہلی شرط 25،24 اور 26 نومبر احتجاج پر جو ہوا اس پر کمیشن بنائیں، دوسری شرط بغیرمقدمات جو کارکنان جیل میں ہیں انہیں رہا کریں، یہ دو شرائط مانتے ہیں تو مذاکرات کےدروازے کھلے ہیں۔

    رہنما کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بات کرنا چاہتی ہے توکوئی حرج نہیں، بات کرنے کا اختیار جس کے پاس ہے وہ آئے ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔

    اس سے قبل سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ مذاکرات کیلئے کوئی زبردستی نہیں مذاکرات جوبھی پیشرفت ہوگی شام تک پتہ چل جائے گا، ۔مذاکرات کیلئےگائیڈ لائن اڈیالہ جیل سےبانی پی ٹی آئی ہی دیں گے۔

  • جسٹس یحییٰ آفریدی بہترین ججز میں سے ایک ہیں، بیرسٹر علی ظفر

    جسٹس یحییٰ آفریدی بہترین ججز میں سے ایک ہیں، بیرسٹر علی ظفر

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی بہترین ججز میں سے ایک ہیں، وہ متنازع نہیں ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پروگرام خبر میں اظہار خیال کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی تینوں بہترین ہیں، آئینی ترمیم کے بعد تو جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس ہوں گے۔

    علی ظفر نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی بالکل متنازع جج نہیں ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی کی مرضی ہے کہ وہ چیف جسٹس بنتے ہیں یا نہیں۔

    پی ٹی آئی کی کامیابی تھی کہ پہلا جو ڈرافٹ آیا تھا اس میں بہت چیزیں ختم کرائی گئیں، پی ٹی آئی کا سیاسی اسٹینڈ تھا کہ پہلا والا ڈرافٹ کامیاب نہیں ہوسکا، نچلی سطح پر جو عدالتیں ہیں وہاں ہمیں انصاف کی امید نہیں ہے۔

    بیرسٹرعلی ظفر کہا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں کیسز جاتے ہیں تو ہمیں ریلیف مل جاتا ہے، سائفر کیس، عدت کیس اور توشہ خانہ کیسز دیکھ لیں سب غلط تھے۔

    انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کا جواصول ہے وہ لاگو ہونا چاہیے، وکلا کی جانب سے سنیارٹی اصول کی بحالی کا مطالبہ ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے مزید کہا کہ وکلا کا مطالبہ ہے ایگزیکٹیو کے پاس اتھارٹی نہیں ہونی چاہیے چیف جسٹس کا تقرر کرے، جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ میں جوتقسیم ہےاسےختم کرپائیں گے۔

  • آئینی ترامیم کے نام پر اژدھا نظر آرہا ہے ،بیرسٹرعلی ظفر

    آئینی ترامیم کے نام پر اژدھا نظر آرہا ہے ،بیرسٹرعلی ظفر

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے نام پر اژدھا نظر آرہا ہے، وزیراعظم کے نامزد ججز پر بنائی جانے والی عدالت قبول نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر  نے مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کی میٹنگ میں فیصلہ نہیں ہوسکتے، آئینی ترامیم کے نام پر اژدھا نظرآرہا ہے، قبول نہیں۔

    رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ترامیم کااختیارپارلیمنٹ کاہےلیکن کس قسم کی ترامیم اصل نقطہ یہ ہے، نظر آرہا ہےکہ آئینی ترمیم سے متعلق آج یا اگلی میٹنگ میں کوئی فیصلہ ہوجائے، مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف ترامیم کی تجاویزآرہی ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ بینچز ابھی بھی بنتے ہیں، سینئر ججز پر مشتمل بینچ بن جائے ہرج نہیں لیکن آئینی عدالت میں 5 ججز وزیراعظم کی مرضی کے ہوں گے یہ قبول نہیں۔

    علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ اپنی تجویز ریکارڈ پر رکھنا چاہتے ہیں،ایسی آئینی ترامیم قبول نہیں کریں گے، ایسی آئینی عدالت بنانی ہے کہ وہ ربڑ اسٹمپ ہو تو کوئی قبول نہیں کرے گا۔

    انھوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس ترمیم کے لیے نمبر گیم پوری نہیں ہے، حکومت اور پیپلزپارٹی کے ڈرافٹ میں لفظوں کا فرق ہے مقصد ایک ہے، حکومت ڈمی کورٹ بنانا چاہتی ہے۔

    بلاول بھٹو کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو آئینی عدالت پر قائداعظم کا خواب پہلے کیوں یاد نہیں آیا، ڈرافٹ دیکھا ہے یہ عدالتی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، حکومت آئینی عدالت کا چیف جسٹس اور ججزخود تعینات کرنا چاہتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ آگے نہیں چل سکتا، کمیٹی کا آئندہ اجلاس 21 اکتوبر کے بعد ہی ہونے کا امکان ہے تاہم وزیراعظم کے نامزد ججز پر بنائی جانے والی عدالت قبول نہیں۔

  • آئینی ترمیم کیلئے جے یو آئی ساتھ نہیں دیتی تو حکومت کو کتنے ووٹوں کی ضرورت ہوگی؟

    آئینی ترمیم کیلئے جے یو آئی ساتھ نہیں دیتی تو حکومت کو کتنے ووٹوں کی ضرورت ہوگی؟

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے جے یو آئی ساتھ نہیں دیتی تو حکومت کو 12 سے زائد ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئینی ترمیم روکنے میں جے یو آئی (ف) نے کردار ادا کیا ہے، آئینی ترمیم کو روکنے میں دوسرا کردار آرٹیکل 63 اے کا ہے،

    علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نظرثانی سے متعلق کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو پھر صورتحال تبدیل ہوگی، موجودہ بینچ کو غیرآئینی سمجھتے ہیں حکومت اسی بینچ کے فیصلے کا انتظار کررہی ہے۔

    رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ سینیٹ میں کوئی بھی پی ٹی آئی ممبر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں ہوگا، سینیٹ میں کوئی بھی ممبران کیساتھ نہیں جاتا تو یہ آئینی ترمیم نہیں لاسکتے۔

    بیرسٹرعلی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے تمام ممبرز سیف ایریاز میں ہیں امید ہے کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں کریگا۔

    انھوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں آئین وقانون کے مطابق بحث کی ہے، آج سپریم کورٹ میں جو واقعہ ہوا اس کی بالکل حمایت نہیں کرتا، سپریم کورٹ میں وکیل کو اس قسم کا رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔

  • ’’بانی پی ٹی آئی کیخلاف اب صرف نکاح کیس میں سزا ختم ہونا باقی ہے‘‘

    ’’بانی پی ٹی آئی کیخلاف اب صرف نکاح کیس میں سزا ختم ہونا باقی ہے‘‘

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کیخلاف اب صرف نکاح کیس میں سزا ختم ہونا باقی ہے۔

    پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما بیرسٹر علی ظف کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ انصاف کی جیت ہوئی، سائفر کیس کا فیصلہ آئین و قانون کے خلاف تھا، کوئی بھی عدالت ہوتی سائفر کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیتی۔

    بیرسٹر علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح کا نکاح کیس ہے اس میں بھی آخر میں اسی قسم کا فیصلہ آنا ہے۔ نچلے فیصلے میں بدیانتی تھی اور وہ آئین و قانون کے خلاف ایک غلط فیصلہ تھا.

    پوری قوم خوش ہے، پی ٹی آئی خوش ہے اور ہم انشااللہ اس فتح کو جشن منائیں گے، اس کے بعد توشہ خانہ کیس میں بھی سزا پہلے ہی معطل ہوچکی ہے۔

    اب عدت کا کیس رہ گیا ہے جس میں تھوڑی دیر ہورہی ہے لیکن آخر کار اس میں بھی فیصلہ یہی ہونا ہے جو سائفر کیس کا فیصلہ آیا ہے۔

    فیصلے میں اس سے قبل کسی قسم کی شہادت نہیں دی گئی تھی جبکہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود کے وکیل کو اس کیس میں پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا جبکہ ان کی جگہ دوسرے وکلا کو پیش کیا گیا۔

    خیال رہے کہ سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عدالت نے انھیں بری کردیا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمودقریشی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

    عدالت نے سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو بری کردیا۔

  • پی ٹی آئی کا توشہ خانہ کیس کے فیصلے کیخلاف  ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان

    پی ٹی آئی کا توشہ خانہ کیس کے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے توشہ خانہ کیس کے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر  علی ظفر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اطلاع ملی کہ ہم ہائی کورٹ جارہے ہیں تو صبح صبح فیصلہ سنا دیا، احتساب عدالت میں وکلاکو جرح کی اجازت نہیں دی گئی۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، ملزم کا بیان قلمبند کئے بغیر فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا،کل شام تک بیان قلمبند نہیں ہوئے تھے، بیانات ریکارڈ کئے بغیر فیصلہ سنایا گیا۔

    بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ فیصلے کی کاپی کے لیے درخواست دیں گے، توشہ خانہ کیس کےفیصلےکیخلاف بھی ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریں گے ، احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرنے کی متفرق درخواست بھی دیں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے میں آئینی وقانونی نکات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

  • بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں  پیش کردیا

    بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں پیش کردیا

    اسلام آباد : بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    وکیل پی ٹی آئی بیرسٹرعلی ظفر نے سماعت کے وقفے کے بعد دلائل میں کہا کہ انٹراپارٹی الیکشن میں نامزدگی فارم ایک ہی سائیڈکی جانب سے جمع کرائے گئے، انٹراپارٹی الیکشن میں کوئی مدمقابل پینل ہی نہیں تھا، اسلام آباد میں انٹراپارٹی الیکشن کیلئے کوئی جگہ دینے کو تیارنہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کو دلائل کیلئےکتنا وقت درکار ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں، کاغذات نامزدگی جمع ہوناپہلا اور انتخابات کامقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کے ساتھ ہے، الیکشن کمیشن نےآئی جی کےپی کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق تمام اخبا رات نے شائع کیا،عوام آگاہ تھے، پولیس کوالیکشن کے مقام سےمتعلق آگاہ کردیاگیاتھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ اکبرایس بابرجس وقت آئےاس وقت تک نامزدگی فارم جمع کرانےکاوقت ختم ہوگیاتھا، وقت 3 بجے کا تھا مگر پھر بھی اکبر ایس بابر کو آفس آنے کی اجازت دی گئی، اگر اکبر ایس بابر کا پینل ہوتا تو انٹرا پارٹی الیکشن لڑ سکتے تھے، آج تک اکبرایس بابرنےاپناپینل نہیں دیا، ابھی بھی نہیں بتایاکہ میرایہ پینل تھااورمیں الیکشن لڑناچاہتاتھا، اگراکبرایس بابرکےپاس اپناپینل ہوتاتوہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا،کہیں لکھا ہوا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ایک شخص انٹراپارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتا، چیف جسٹس نے مزید پوچھا چیئرمین کے انتخابات کیلئے بھی پینل ہونا لازمی ہے؟ چیئرمین کا الیکشن کہاں ہوا تھا، جس پربیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ چیئرمین کیلئے پینل کا ہونا لازمی نہیں،وہ اکیلئے لڑ سکتا ہے، پارٹی چیئرمین کا الیکشن بھی پشاور میں ہوا تھا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہم کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے انکی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں،اکبرایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑناچاہتےتھے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے سینیٹرکاانتخاب بھی اِن ڈائریکٹ ہوتاہے،مطلوبہ ووٹ حاصل کرنےہوتےہیں، اگرآپ کوایک ووٹ بھی نہ پڑےتوآپ سینیٹرنہیں بن سکتےتھے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ میں ٹیکنوکریٹ نشست پر بلامقابلہ سینیٹ رکن منتخب ہواتھا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے،آپ ڈکٹیٹرشپ کی طرف جا رہے ہیں ایک آدمی کہہ دے یہ پینل وہ پینل، یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، سیکرٹری جنرل بھی ایسے ہی آ گئے، چیئرمین بھی ایسے ہی آ گئے، بورڈ بھی ایسے ہی آ گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ الیکشن ہے یا سلیکشن یا کیا ہے ؟ آپ کیوں نہیں الیکشن کرواتے، مسئلہ کیا تھا؟ بڑی بڑی ہستیاں توبلا مقابلہ آجاتی ہیں لیکن آپ کےتوچھوٹےسےچھوٹاعہدیداربھی بلا مقابلہ منتخب ہوا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ن لیگ میں نواز شریف اور مریم نواز بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ اے این پی کو بھی کوئی 20 ہزار کا جرمانہ ہوا ہے، وکیل نے بتایا کہ جی آج ہی فیصلہ آیا ہے 20 ہزار جرمانہ کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی انتخابات کروائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ لیکن آپ کا مسئلہ تو کافی پرانا چل رہا ہے، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا آخر مسئلہ کیا تھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ن لیگ کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا اور کہا ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتےرہتےہیں، اس پرتبصرہ نہیں کریں گے۔

    علی ظفر کا کہنا تھا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو 20ہزارروپے جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ علی ظفر نے کہا کہ آپ اختلافی نقطہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ پیشہ ورانہ انداز میں دلائل دیتے ہیں، بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔

  • الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے غیر قانونی آرڈر کے ذریعے بلے کا نشان چھینا تھا، بیرسٹر علی ظفر

    الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے غیر قانونی آرڈر کے ذریعے بلے کا نشان چھینا تھا، بیرسٹر علی ظفر

    پشاور : پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے غیر قانونی آرڈر کے ذریعے بلے کا نشان چھینا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کومبارک باددیناچاہتا ہوں ، پشاورہائیکورٹ نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنےکی روایت کو قائم کیا۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سےغیرقانونی آرڈرکےذریعےبلے کا نشان چھینا تھا، پشاور ہائیکورٹ نےالیکشن کمیشن کے آرڈر کو کالعدم قرار دے دیا ہے، پی ٹی آئی کوالیکشن جیتنےسےکوئی نہیں روک سکے گا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےفیصلہ کیا تھا کہ 20 دنوں میں انٹر پارٹی الیکشن کرائے جائیں،پی ٹی آئی الیکشن کمشنر جس نےالیکشن کرایا کہا گیا اس کی تعیناتی درست نہیں، تعیناتی درست نہ ہونے کا کہہ کرانٹرپارٹی الیکشن کوکالعدم قراردیاگیاتھا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے ہمیں سننے کے بعد اسٹے آرڈر دیا تھا، الیکشن ایکٹ اور آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے، پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پوری بحث سنی۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کےآرٹیکل 17میں انتخابی نشان ہمارا بنیادی حق ہے، سپریم کورٹ ججمنٹ بھی کہتی ہےآرٹیکل 17کےمطابق انتخابی نشان نہیں لیاجاسکتا، اللہ کاشکرہےآج انصاف اورقانون کےمطابق پشاورہائیکورٹ نےفیصلہ دیا۔

    پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ پشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا آپ کے پاس انٹرپارٹی کالعدم قراردینےکااختیارنہیں تھا، الیکشن کمیشن آف پاکستان ہمارامخالف بن گیا ہے لیکن پشاورہائیکورٹ کےفیصلےکےبعدکچھ باقی نہیں رہ جاتا۔

    انھوں نے کہا کہ عدالت میں ہمارا پارٹی الیکشن مانا گیا اور بلے کا نشان بحال ہوگیا، ہم عارضی آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے، ہم نےآج سپریم کورٹ سےاپنی درخواست واپس لےلی، اب 15منٹ میں انتخابی نشان ویب سائٹ پر نہ ڈالا گیا توتوہین عدالت ہوگی۔

  • پاکستان تحریک انصاف کا ہفتے کو انٹراپارٹی الیکشن کرانے کا اعلان

    پاکستان تحریک انصاف کا ہفتے کو انٹراپارٹی الیکشن کرانے کا اعلان

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے ہفتے کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا ، چیئرمین پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں لڑیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کرائے تھے ،الیکشن کمیشن نے دوبارہ انٹراپارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا،  2022میں کرائےگئے انٹراپارٹی الیکشن کی تفصیل الیکشن کمیشن کو دی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے زبانی فیصلہ سنایا اس کےبعدپھر تحریری فیصلے میں تاخیر ہوئی۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا 20دن میں انٹراپارٹی الیکشن کرانے کافیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے،ہمارے پاس دو راستے تھے الیکشن کمیشن کافیصلہ چیلنج کرتے یا انٹراپارٹی الیکشن کراتے، ہم انٹراپارٹی الیکشن بھی کرائیں گے اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج بھی کریں گے۔

    انھوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی فوراً انٹراپارٹی الیکشن کرانے کی منظوری دی ہے، کل پارٹی نے فیصلہ کیا ہے اس ہفتے کو انٹراپارٹی الیکشن کرارہےہیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ لیں یا نہیں اس پر قانونی رائے مانگی گئی ، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ کیس میں سزا سنائی گئی جو غیر قانونی ہے، توشہ خانہ کیس میں شہادت اور دفاع کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس میں سزاسنائی گئی جوغیرآئینی اورغیرقانونی ہے،توشہ خانہ کےتحائف ڈکلیئر نہ کرنے پر نااہلی نہیں بنتی ، توشہ خانہ کیس معطل ضرور ہوا ہے مگر حتمی فیصلہ اس پر ابھی نہیں ہوا ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ چیئرمین نے کہا کوئی خطرہ نہیں لینا چاہتاکہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے انتخابی نشان اور الیکشن سے دور کرنے کی اجازت نہ دے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا توشہ خانہ کیس کا جلد سے جلد فیصلہ ہو، توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے بعد دوبارہ پارٹی کے الیکشن میں حصہ لوں گا، انٹراپارٹی الیکشن کی اہمیت نہیں، عام انتخابات لڑناچاہتا ہوں، چیئرمین پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن میں عارضی طورپر حصہ نہیں لیں گے۔