Tag: بیرم خان

  • بیرم خان:‌ مغلیہ دور کا وہ منصب دار جس نے تکبّر کے ہاتھوں شکست کھائی

    بیرم خان:‌ مغلیہ دور کا وہ منصب دار جس نے تکبّر کے ہاتھوں شکست کھائی

    مغلیہ دور کے ایک سپاہ سالار بیرم خان کا تذکرہ ہمیں تاریخ کی کتب میں ملتا ہے جو بادشاہ اکبر کا اتالیق اور وہ شخص بھی تھا جس نے اس وقت مغل اقتدار کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا جب بادشاہ ہمایوں کو آگرہ سے فرار ہونا پڑا تھا۔ اسے بیرم بیگ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔

    بیرم خان صرف سپاہ سالار، ایک مدبّر اور زیرک درباری ہی نہیں تھا بلکہ علم و ادب کا رسیا بھی تھا۔ ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھنے والے بیرم خان نے ان زبانوں میں شاعری بھی کی۔ اس نے کئی عالموں اور اہلِ قلم شخصیات کو اپنے عہد میں دربار میں‌ جگہ دی۔

    مؤرخین نے بیرم خان کو ترکی النّسل لکھا ہے۔ اس کی جائے پیدائش وسطیٰ بدخشاں کا علاقہ بتایا جاتا ہے۔ بیرم خان کے باپ کا نام سیفالی بیگ بہارلو اور اس کے دادا جنبالی بیگ تھے اور یہ دونوں مغل شہنشاہ بابر کی فوج میں ملازم تھے۔ بیرم خان نے بھی اپنے دادا اور باپ کی طرح فوج اور سپاہ گری کو اپنایا۔ شاہی فوج میں اس کی کارکردگی اور خدمات نے نہ صرف اس کے مناصب میں اضافہ کیا بلکہ وہ وقت کے ساتھ دربار میں نمایاں اور مقبول ہوتا گیا۔بیرم خان 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوا تھا اور کئی سال کے دوران اس نے فوج میں مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے مغلوں کی کئی لڑائیوں‌ اور معرکوں میں فتح دلوائی۔ مؤرخین کے مطابق جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ مغل بادشاہ ہمایوں نے بیرم خان کو ’خانِ خاناں‘‘ کا لقب دیا تھا جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔ اکبر کے دور میں‌ بھی بیرم خان نے حکومت کے استحکام کے لیے ناقابلِ‌ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ اکبر کو سازشوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بطور مشیرِ خاص بروئے کار لاتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے اکبر کے خلاف اکثر مہم جوئی ناکام بنائی۔ لیکن پھر یہی اکبر اس کے خلاف ہوگیا۔ اس کے اسباب میں بیرم خان کا مغرور ہو جانا، اقربا پروری اور بعض ایسے فیصلے تھے جنھیں بادشاہ نے سرکشی اور بیرم خان کا اپنی حد سے تجاوز کرنا سمجھا۔ اس پر بیرم خان کے حاسدین نے بھی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بیرم خان کے خلاف بھڑکانے میں کام یاب رہے۔ مغل خاندان اور بادشاہت کے لیے اس کی گراں قدر خدمات اور کارناموں‌ کی وجہ سے اکبر نے اسے اپنی شاہی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجانے کی پیشکش کی تھی لیکن اس موقع پر بھی بیرم خان نے ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا جس کی تفصیل تاریخ کچھ یوں بتاتی ہے۔

    بیرم خان کا سنہ پیدائش 1501ء ہے۔ مغل خاندان کے اس وفادار کو 31 جنوری 1561ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ مؤرخ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی، لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے بے مثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ بادشاہت پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہمیشہ ایک وفادار سرپرست کی حیثیت سے امورِ سلطنت چلاتا رہا۔ اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان نے امورِ مملکت سے خود کو الگ کر لیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت بھی کی۔ یہ 1556ء کی بات ہے۔

    شاہانِ وقت سے قربت کے سبب درباری بیرم خان سے حسد کرتے تھے۔ لیکن بیرم خان سے بھی کچھ غلطیاں‌ بھی سرزد ہوئی تھیں‌ جس نے اس کی وفاداری کو مشکوک اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک 1560ء میں اس کا زوال شروع ہوگیا اور اس کی وجہ اپنے اعزاء کو نوازنا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان نے اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کردیا اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کر دی جس میں اسے شکست ہوئی۔ لیکن اس کی مغل خاندان سے وفاداری اور طویل رفاقت کی بنا پر اکبر نے اس کو بخش دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو دربار سے رخصت لے کر باقی زندگی عیش سے گزار دے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج پر جانے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکا قصد کیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ راستے میں بیرم خان پٹن میں‌ چند دن ٹھیرا۔ وہاں ایک روز سیر و تفریح کی غرض سے وہ جس علاقہ میں تھا، اسی علاقہ میں مبارک خان لوحانی نامی شخص بھی موجود تھا اور اس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے کسی سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اپنے چالیس افغان ساتھیوں کے ہمراہ اسی مقام پر سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ مبارک خان کو جب علم ہوا کہ بیرم خان یہا‌ں موجود ہے تو اس نے ملاقات کا پیغام بھجوایا اور جب وہ بیرم خان کی اجازت سے اس کے پاس پہنچا تو موقع پاکر اس کی پشت پر خنجر مار دیا۔ اس کا یہ وار ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ خنجر سینے کے آر پار ہوچکا تھا۔ بیرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کو مقبرۂ شیخ حسام الدّین کے احاطہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ میر علی شیر قانع کا بیان ہے کہ بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کو مشہد لے جایا گیا اور وہاں‌ تدفین کی گئی۔

  • بیرم خان: مغل خاندان کا وہ اعلیٰ منصب دار جسے تکبّر لے ڈوبا

    بیرم خان: مغل خاندان کا وہ اعلیٰ منصب دار جسے تکبّر لے ڈوبا

    ہندوستان میں مغلیہ دور کے سپاہ سالار بیرم خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ بادشاہ اکبر کا اتالیق رہا اور یہی بیرم خان شاہی خاندان کا ایسا وفادار بھی تھا جس نے اس وقت مغل اقتدار کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا جب بادشاہ ہمایوں آگرہ سے فرار ہونے پر مجبور ہوگیا تھا۔

    بیرم خان کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں بیرم بیگ کے نام سے بھی کیا گیا۔ وہ ایک سپہ سالار، ایک مدبّر اور ہوشیار درباری ہی نہیں بلکہ علم و ادب کا رسیا بھی تھا۔ اسے ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بیرم خان نے دونوں زبانوں میں شاعری بھی کی۔ اس نے شاہی دربار میں کئی عالم اور اہلِ قلم شخصیات کو جگہ دے رکھی تھی۔

    بیرم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترکی النّسل تھا۔ اس کی جائے پیدائش وسطیٰ بدخشاں کا علاقہ بتایا جاتا ہے۔ بیرم خان کے باپ کا نام سیفالی بیگ بہارلو اور اس کے دادا جنبالی بیگ تھے اور یہ دونوں مغل شہنشاہ بابر کی فوج میں ملازم تھے۔ بیرم خان نے بھی اپنے دادا اور باپ کی طرح فوج اور سپاہ گری کو اپنایا۔ شاہی فوج میں اس کی کارکردگی اور خدمات نے نہ صرف اس کے مناصب میں اضافہ کیا بلکہ وہ وقت کے ساتھ دربار میں نمایاں اور مقبول ہوتا گیا۔بیرم خان 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوا تھا اور کئی سال کے دوران اس نے فوج میں مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے مغلوں کی کئی لڑائیوں‌ اور معرکوں میں فتح دلوائی۔ مؤرخین کے مطابق جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔بادشاہ ہمایوں نے بیرم خان کو ’خانِ خاناں‘‘ کا لقب دیا تھا جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔

    بادشاہ اکبر کے دور میں‌ بھی بیرم خان نے حکومت کے استحکام کے لیے ناقابلِ‌ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ اکبر کو سازشوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بطور مشیرِ خاص بروئے کار لاتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے اکبر کے خلاف اکثر مہم جوئی ناکام بنائی۔ لیکن پھر یہی اکبر اس کے خلاف ہوگیا۔ اس کے اسباب میں بیرم خان کا مغرور ہوجانا، اقربا پروری اور بعض ایسے فیصلے تھے جنھیں بادشاہ نے سرکشی اور بیرم خان کا اپنی حد سے تجاوز کرنا سمجھا۔ اس پر بیرم خان کے حاسدین نے بھی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بیرم خان کے خلاف بھڑکانے میں کام یاب رہے۔ مغل خاندان اور بادشاہت کے لیے اس کی گراں قدر خدمات اور کارناموں‌ کی وجہ سے اکبر نے اسے اپنی شاہی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجانے کی پیشکش کی تھی لیکن اس موقع پر بھی بیرم خان نے ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا جس کی تفصیل تاریخ کچھ یوں بتاتی ہے۔

    بیرم خان کا سنہ پیدائش 1501ء ہے۔ مغل خاندان کے اس وفادار کو 31 جنوری 1561ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ مؤرخ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی، لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے بے مثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ بادشاہت پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہمیشہ ایک وفادار سرپرست کی حیثیت سے امورِ سلطنت چلاتا رہا۔ اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان نے امورِ مملکت سے خود کو الگ کر لیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت بھی کی۔ یہ 1556ء کی بات ہے۔

    شاہانِ وقت سے قربت کے سبب درباری بیرم خان سے حسد کرتے تھے۔ لیکن بیرم خان سے بھی کچھ غلطیاں‌ بھی سرزد ہوئی تھیں‌ جس نے اس کی وفاداری کو مشکوک اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک 1560ء میں اس کا زوال شروع ہوگیا اور اس کی وجہ اپنے اعزاء کو نوازنا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان نے اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کردیا اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کر دی جس میں اسے شکست ہوئی۔ لیکن اس کی مغل خاندان سے وفاداری اور طویل رفاقت کی بنا پر اکبر نے اس کو بخش دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو دربار سے رخصت لے کر باقی زندگی عیش سے گزار دے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج پر جانے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکا قصد کیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ وہ راستے میں پٹن میں‌ چند دن ٹھیرا۔ ایک روز وہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا۔ وہ جس علاقہ میں تھا، وہاں ایک مبارک خان لوحانی نامی شخص بھی موجود تھا جس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے کسی سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اپنے چالیس افغان ساتھیوں کے ہمراہ اسی مقام پر سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ مبارک خان کو جب علم ہوا کہ بیرم خان یہا‌ں موجود ہے تو اس نے ملاقات کا پیغام بھجوایا اور جب وہ بیرم خان کی اجازت سے اس کے پاس پہنچا تو موقع پاکر اس کی پشت پر خنجر مار دیا۔ اس کا یہ وار ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ خنجر سینے کے آر پار ہوچکا تھا۔ بیرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کو مقبرۂ شیخ حسام الدّین کے احاطہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ میر علی شیر قانع کا بیان ہے کہ بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کو مشہد لے جایا گیا اور وہاں‌ تدفین کی گئی۔

  • اکبر بادشاہ کے اتالیق اور مغل خاندان کے وفادار بیرم خان کا تذکرہ

    اکبر بادشاہ کے اتالیق اور مغل خاندان کے وفادار بیرم خان کا تذکرہ

    مغلیہ دور کی مشہور شخصیت بیرم خان کو تاریخ‌ ایک ایسے سپاہ سالار کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے مغلوں کے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا جب مغل بادشاہ ہمایوں آگرہ سے فرار ہو گیا تھا۔ بیرم بیگ یا بیرم خان کو اکبر کے اتالیق ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بیرم خان ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ اس نے ان دونوں زبانوں میں شاعری بھی کی۔ وہ علم کا رسیا بھی تھا اور اس کے دربار میں عالم اور اہلِ قلم موجود تھے۔

    ترک نسل کے بیرم بیگ نے وسطیٰ بدخشاں کے علاقے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سیفالی بیگ بہارلو اور دادا جنبالی بیگ شہنشاہ بابر کی فوج میں تھے۔ مغل بادشاہ ہمایوں نے اسے’’خانِ خاناں‘‘ کا لقب دیا جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، اور اسی کے بعد وہ بیرم خان کے نام سے مشہور ہوا۔ بیرم خان 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوا تھا اور ایک عرصہ تک مغلوں کی فتوحات میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ مؤرخین کے مطابق جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔

    بادشاہ اکبر کے دور میں‌ بھی بیرم خان نے حکومت کے استحکام کے لیے ناقابلِ‌ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ اکبر کو سازشوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے اکبر کے خلاف اکثر مہم جوئی ناکام بنائی۔ بیرم خان کا سنہ پیدائش تاریخ کی کتابوں میں‌ 1501ء درج ہے جسے 31 جنوری 1561ء میں قتل کر دیا گیا۔

    مؤرخ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی، لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے بے مثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ بادشاہت پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہمیشہ ایک وفادار سرپرست کی حیثیت سے امورِ سلطنت چلاتا رہا۔ اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان نے امورِ مملکت سے خود کو الگ کر لیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت بھی کی۔ یہ 1556ء کی بات ہے۔

    شاہانِ وقت سے قربت کے سبب درباری بیرم خان سے حسد کرتے تھے۔ لیکن بیرم خان سے بھی کچھ غلطیاں‌ بھی سرزد ہوئی تھیں‌ جس نے اس کی وفاداری کو مشکوک اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک 1560ء میں اس کا زوال شروع ہوگیا اور اس کی وجہ اپنے اعزاء کو نوازنا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان نے اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کردیا اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کر دی جس میں اسے شکست ہوئی۔ لیکن اس کی مغل خاندان سے وفاداری اور طویل رفاقت کی بنا پر اکبر نے اس کو بخش دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو دربار سے رخصت لے کر باقی زندگی عیش سے گزار دے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج پر جانے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکا قصد کیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ وہ راستے میں پٹن میں‌ چند دن ٹھیرا۔ ایک روز وہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا۔ وہ جس علاقہ میں تھا، وہاں ایک مبارک خان لوحانی نامی شخص بھی موجود تھا جس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے کسی سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اپنے چالیس افغان ساتھیوں کے ہمراہ اسی مقام پر سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ مبارک خان کو جب علم ہوا کہ بیرم خان یہا‌ں موجود ہے تو اس نے ملاقات کا پیغام بھجوایا اور جب وہ بیرم خان کی اجازت سے اس کے پاس پہنچا تو موقع پاکر اس کی پشت پر خنجر مار دیا۔ اس کا یہ وار ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ خنجر سینے کے آر پار ہوچکا تھا۔ بیرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کو مقبرۂ شیخ حسام الدّین کے احاطہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔میر علی شیر قانع کا بیان ہے کہ بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کو مشہد لے جایا گیا اور وہاں‌ تدفین کی گئی۔