Tag: بیماریاں اور علاج

  • سینٹ کلڈا میں بیماری لانے والی مسافر کشتی!

    سینٹ کلڈا میں بیماری لانے والی مسافر کشتی!

    یورپی ملک اسکاٹ لینڈ کے مغرب میں چند چھوٹے جزیروں کو سینٹ کلڈا کے نام سے پہچانا جاتا ہے جہاں انسانوں نے صدیوں کے دوران آبادی کا تصور تک نہ کیا اور بہت کم لوگ ہی ان جزائر یا اس کے قریب آباد ہوئے۔ اس زمانے میں ان جزائر پر پہنچنے کے لیے کشتی کے ذریعے ہی سفر ممکن تھا۔

    سترھویں سے انیسویں صدی کے دوران سینٹ کلڈا اور قریب کی آبادی میں ایک عجیب مسئلہ سامنے آیا کہ وہاں جب بھی کوئی کشتی اور باہر کے لوگ آتے تو مقامی باسیوں کو زکام ہو جاتا۔ وہ ہفتہ دس دن میں ٹھیک بھی ہو جاتے، لیکن کشتی کے مسافروں‌ میں ایسا کوئی معمولی طبی مسئلہ تک نظر نہ آتا تھا۔ وہ بظاہر صحت مند ہوتے۔

    یہ معاملہ اتنا عام ہو گیا کہ مقامی لوگوں میں سے جب کوئی اس میں‌ مبتلا ہو جاتا تو وہ اسے ”کشتی والوں کی کھانسی” کہتے، تاہم زکام اور کھانسی کی اصل وجہ کوئی نہ جان سکا اور یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ باہر سے آنے والوں کی وجہ سے پھیلنے والا مسئلہ ہے۔

    آج ہمیں میڈیکل سائنس نزلہ، کھانسی اور زکام جیسے طبی مسئلے اور امراض کی وجہ جراثیم یا وائرس بتاتی ہے۔

    کہتے ہیں قدیم یونانی طبیبوں نے زکام کا سبب جسمانی رطوبتوں کا عدم توازن بتایا تھا۔ تاہم اس سے آگے نہیں‌ بڑھ سکے تھے۔

    1914 میں بھی ایک طبی محقق نے زکام کا سبب کسی نادیدہ مخلوق یعنی وائرس کو بتایا، مگر وہ سادہ طبی تجربات سے آگے نہ بڑھ سکا جب کہ 1927 میں امریکی سائنس دان نے ثابت کیاکہ یہ بیماری کسی "وائرس” سے ہوتی ہے جسے بعد میں نام دیا گیا اور ثابت ہوا کہ یہ ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں اور کسی بھی چیز کی سطح پر لگ سکتے ہیں اور مصافحہ کرنے یا وائرس زدہ شئے کو تھامنے سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مختلف امراض میں مبتلا کرنے والے وائرس کی ایک انسان سے دوسرے میں‌ منتقل ہونے کا طریقہ بھی الگ ہوتا ہے۔ نزلہ زکام کے علاوہ ہیپا ٹائٹس، ریبیز، ایڈز یا کرونا وائرس کے پھیلنے اور انسانوں میں منتقل ہونے کی وجہ اور اسباب الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر وائرس ہوا سے ہماری سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔

  • بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    حکیم کفایت اللہ خاں بے حد غیور طبیعت کے حامل تھے۔ نوابین اور راجے مہاراجے خطیر معاوضے کی پیش کش کرتے تھے، مگر حکیم صاحب کو یہ سب گوارا نہ تھا۔

    نواب رام پور کی سفارش پر ایک مرتبہ نواب صاحب ٹونک کی مدقوق ہم شیر کے علاج کے لیے آمادہ ہوئے۔

    وہ کسی بھی علاج سے تن درست نہ ہوسکی تھیں۔ حکیم صاحب نے ان کا علاج کیا اور کچھ عرصے بعد مریضہ کی صحت رفتہ رفتہ عود کر آئی۔

    نواب ٹونک نے بہ اظہارِ مسرت نوابی انعامات سے نوازا، ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کردیا کہ مصاحبین بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔

    پھر کیا تھا، لاکھوں کے انعامات جمع ہوگئے، لیکن حکیم صاحب کو یہ پسند نہیں آیا۔

    اپنے ملازمین اور مصاحبین کو واپسی کے لیے رختِ سفر کی تیاری کا حکم دیا۔

    نواب ٹونک کے ذاتی انعامات قبول کرلیے۔ دیگر عطیات و انعامات یہ کہہ کر یوں ہی چھوڑدیے کہ میں چندے کے لیے نہیں آیا تھا۔

    اس کے بعد اصرار کے باوجود کبھی ٹونک نہیں گئے۔

    ( حکیم عبد الناصر فاروقی کی مرتب کردہ کتاب ”اطبا کے حیرت انگیز کارنامے“ سے انتخاب)