Tag: بیماری

  • بدبخت بیٹے نے ماں کی بیماری سے تنگ آکر اسے قتل کردیا

    بدبخت بیٹے نے ماں کی بیماری سے تنگ آکر اسے قتل کردیا

    نئی دہلی: بھارت میں 30 سالہ بیٹے نے اپنی ماں کی بیماری سے تنگ آکر اسے قتل کردیا، قاتل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ماں کو نجات دلانے کے لیے یہ مذموم قدم اٹھایا۔

    بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع پلغار میں بدبخت بیٹے نے اپنی 62 سالہ ماں کی مستقل بیماری سے تنگ آکر اس کی جان لے لی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ 30 سالہ جے پرکاش نامی شخص نے اپنی ماں پر لوہے کی راڈ سے حملہ کیا، ماں اس وقت کچن میں مصروف تھی۔ پولیس کے مطابق خاتون موقع پر ہی ہلاک ہوگئیں۔

    واقعے کے بعد چھوٹے بیٹے نے پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر قاتل بیٹے کو گرفتار کرلیا۔ ماں کا مردہ جسم پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا گیا۔

    پولیس کو دیے جانے والے بیان میں قاتل بیٹے نے بتایا کہ وہ اپنی ماں کی ہر وقت کی بیماریوں سے تنگ آگیا تھا اور اسے مکتی (نجات) دلاناچاہتا تھا، اسی لیے اس نے یہ مذموم حرکت کی۔

    پولیس نے بیٹے پر قتل کی دفعات عائد کی ہیں۔

  • وزارت صحت کو لشمینیا کی دواؤں کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت

    وزارت صحت کو لشمینیا کی دواؤں کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت

    اسلام آباد: وزارتِ صحت کو لشمینیا کی دواؤں کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت کی گئی ہے، اس سلسلے میں وفاقی دار الحکومت میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں وزیر صحت خیبر پختون خوا ہشام خان نے شرکت کی، ڈی جی ہیلتھ، سی ای او ڈریپ، عالمی ادارۂ صحت کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ ترجمان وزارت نے بتایا کہ اجلاس میں لشمینیا بیماری کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

    معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ حکومت لشمینیا بیماری کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہی ہے، یہ بیماری انسانوں تک سینڈ فلائی کے ذریعے پھیلتی ہے، خیبر پختون خوا، بلوچستان اور پنجاب کے بعض علاقے لشمینیا سے متاثر ہیں۔

    وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے اجلاس میں وزارتِ صحت کو لشمینیا پر قومی ایکشن پلان تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) لشمینیا ایکشن پلان کے لیے تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  لشمینیا بیماری ہے، اس کا علاج دوا سے ہوتا ہے، دم درود سے نہیں

    ڈاکٹر ظفر مرزا نے وزارتِ صحت کو متعلقہ دواؤں کی دستیابی یقینی بنانے اور ملک میں دستیابی کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت کی۔

    واضح رہے کہ خیبر پختون خواہ کا علاقہ جنوبی وزیرستان ان دنوں لشمینیا نامی بیماری کی زد میں ہے، یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور اس میں متاثرہ جگہ پر زخم ہو جاتے ہیں، ماہرین کے مطابق علاج مہنگا ہے اور ویکسین تا حال دریافت نہیں ہو سکی ہے۔

  • صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا

    صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا

    لاہور: صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص نور الحسن کو لاہور منتقل کر دیا گیا، نور الحسن کو پاک فوج کی جانب سے ایئر ایمبولینس کی مدد فراہم کی گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق موٹاپے کے شکار شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے، نور الحسن کا وزن تین سو بیس کے جی ہے، لاہور منتقلی کے لیے انھیں پاک فوج نے ایئر ایمبولینس فراہم کی۔

    نور الحسن کا موٹاپا کم کرنے کے لیے نجی اسپتال میں سرجری کی جائے گی، انھوں نے ایک ویڈیو میں آرمی چیف سے اپیل کی تھی کہ انھیں ایئر ایمبولینس کی مدد فراہم کی جائے، جس پر پاک فوج کے سربراہ نے ہدایت جاری کر دی تھی۔

    نور الحسن کو گھر سے ایک ٹرک میں ڈال کر لے جایا گیا، بعد ازاں آرمی ہیلی کاپٹر میں انھیں لاہور منتقل کر دیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    قبل ازیں نور الحسن کو ہیلی کاپٹر میں بٹھانے کے لیے ریسکیو 1122 سے مدد لی گئی، ریسکیو 1122 نے کرین کی مدد سے نور الحسن کو ایئر ایمبولیس میں سوار کیا۔

    ڈاکٹر معاذ الحسن لاہور میں نور الحسن کا موٹاپا کم کرنے کے لیے سرجری کریں گے۔

    واضح رہے کہ نور الحسن انتہائی زیادہ وزن کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر ہیں، اور وہ دس سال سے بستر پر پڑے ہوئے ہیں، انھیں عام ایمبولینس پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

  • آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    صادق آباد: ضلع رحیم یار خان کے علاقے صادق آباد سے موٹاپے کے شکار ایک شہری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مدد کی درخواست کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صادق آباد کے بیمار نور حسن نے آرمی چیف سے مدد کی درخواست کی ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صادق آباد کے شہری کی مدد کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

    صادق آباد کے شہری نور حسن کا وزن 320 کلو گرام ہے، موٹاپے کے شکار شہری نے سوشل میڈیا پر آرمی چیف سے مدد کی اپیل کی تھی۔

    موٹاپے کی بیماری کے شکار نور حسن کو فوجی ایئر ایمبولینس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نور حسن کو خصوصی ہیلی کاپٹر پر کل صادق آباد سے لاہور منتقل کیا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  آرمی چیف نے کینسر میں مبتلا 2 بچیوں کی خواہش پوری کر دی، آئی ایس پی آر

    پاک فوج کا ہیلی کاپٹر نور حسن کو لاہور منتقل کرے گا، نور حسن انتہائی زیادہ وزن کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر ہے، اور وہ دس سال سے بستر پر پڑا ہوا ہے۔ نور حسن نے ایئر ایمبولینس کے لیے درخواست کی تھی۔

    موٹاپے میں مبتلا شہری کو عام ایمبولینس پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا، لاہور کے نجی اسپتال میں نور حسن کا علاج کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ مارچ کے مہینے میں آرمی چیف نے کینسر میں مبتلا 2 بچیوں کی خواہش پوری کی تھی، بچیوں نے سپاہی بننے کی خواہش کی تھی، جویریہ اور روبا نے فوجی وردیاں پہن کر یادگار شہدا پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔

  • نیند کی کمی آپ کو کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے؟

    نیند کی کمی آپ کو کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے؟

    پرسکون اور بھرپور نیند انسانی جسم کی اہم ضرورت ہے، نیند پوری نہ ہونا بہت سے مسائل کا شکار کرسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند پوری نہ ہونے سے سب سے پہلا اثر آپ کی جسمانی توانائی اور دماغی کارکردگی پر پڑتا ہے۔ نیند کی کمی سے آپ سارا دن تھکن اور سستی کا شکا رہیں گے۔ آپ اپنے کام ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے سکیں گے، نہ ہی نئے تخلقیی خیالات سوچ سکیں گے۔

    یہی نہیں نیند کی کمی آپ کو بدمزاج اور چڑچڑا بھی بنا سکتی ہے۔ طویل عرصے تک نیند کی کمی کا شکار رہنے والے افراد موٹاپے، ڈپریشن، ذیابیطس، ذہنی دباؤ اور امراض قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    آئیں دیکھیں کہ نیند کی کمی ہمیں کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے۔

    ڈپریشن

    ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی آپ کو تھکن کا شکار کر سکتی ہے جس کے بعد آپ چڑچڑے پن کا شکار ہوجائیں گے اور صحیح سے اپنے روزمرہ کے کام سرانجام نہیں دے پائیں گے۔ یہ چڑچڑاہٹ آگے چل کر ڈپریشن میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

    توجہ کی کمی

    اگر آپ نے اپنی نیند پوری نہیں کی تو آپ کا دماغ غیر حاضر رہے گا جس کے باعث آپ کسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پائیں گے۔

    یہ صورتحال آگے چل کر اے ڈی ایچ ڈی یعنی اٹینشن ڈیفسٹ ہائپر ایکوٹیوٹی ڈس آرڈر میں تبدیل ہوجائے گی جس کا شکار شخص کسی بھی چیز پر تسلسل سے اپنا دھیان مرکوز نہیں کر سکتا۔

    ذیابیطس

    نیند کی کمی آپ کے جسم میں موجود انسولین کے ہارمون کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ انسولین ہماری غذا میں موجود شکر کو جذب کرتا ہے جس کے باعث یہ ہمارے جسم کا حصہ نہیں بن پاتی۔

    اگر یہ ہارمون کام کرنا چھوڑ دے تو جسم میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے ذیابیطس کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ اس بیماری کا واحد علاج مصنوعی طریقہ سے جسم میں انسولین داخل کرنا ہی ہے۔

    ہائی بلڈ پریشر

    نیند کی کمی بلڈ پریشر میں اضافہ کرتی ہے اور آپ کو ہائی بلڈ پریشر کا مریض بنا سکتی ہے۔

    کولیسٹرول میں اضافہ

    نیند کی کمی سے آپ کے جسم میں کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے آپ موٹاپے اور امراض قلب سمیت کئی بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

  • بیماری میں آرام کرنے کا نقصان جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    بیماری میں آرام کرنے کا نقصان جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    آج کل سردیوں کا موسم ہے اور ہر دوسرا شخص نزلہ زکام کا شکار ہے۔ یہ نزلہ اور زکام بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے اور آپ بخار یا سینے کے انفیکشن میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کو لگتا ہو کہ ایسی حالت میں آرام کرنا زیادہ مناسب ہے اور دفتر سے ایک دو دن کی چھٹی لے کر اسے بستر میں گزارنا چاہیئے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ اپنی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر آپ نزلہ زکام یا سردی لگنے کی صورت میں آرام کرنا پسند کرتے ہیں تو آپ اپنی بیماری کو شدید بنا رہے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں آپ کو سارا دن بستر میں گزارنے کے بجائے ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی کرنی چاہیئے۔

    اس بارے میں ڈاکٹر ایرک بتاتے ہیں کہ نزلے کی حالت میں آرام کرنا آپ کے گلے میں موجود بلغم کو سخت کردیتا ہے جس کے بعد یہ سینے میں جم جاتا ہے اور یہ چیسٹ انفیکشن اور نمونیا کا باعث بھی بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نمونیا اور اس کی علامات سے آگاہی حاصل کریں

    اس کے برعکس اگر ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی کی جائے اور جسم کو متحرک حالت میں رکھا جائے تو بلغم جمتا نہیں اور یہ بآسانی جسم سے باہر نکل آتا ہے۔

    ڈاکٹر ایرک کہتے ہیں، ’ضروری نہیں کہ آپ جم جائیں اور بھاری بھرکم وزش کریں۔ اس کے لیے اپنے روزمرہ کے کام انجام دینا جس میں آپ کا جسم حرکت میں آئے، یا صرف چہل قدمی کرنا بھی کافی ہوگا‘۔

    تو اگر آپ بھی نزلے کا شکار ہیں تو آرام کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات جاری رکھیں۔

  • جسم پر اُگنے والے پیڑ پودے، کیا یہ کوئی بیماری ہے یا کچھ اور؟

    جسم پر اُگنے والے پیڑ پودے، کیا یہ کوئی بیماری ہے یا کچھ اور؟

    ڈھاکا : ’ٹری مین‘ کے نام سے مشہور بنگلادیشی شہری دراصل ایک شدید قسم کی جلدی بیماری میں مبتلا ہے‘ اس بیماری میں ہاتھوں اور پیروں میں درخت نما جڑیں نکل آتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بنگلا دیش کے جنوبی حصّے میں رہنے والا ابو البجندار جو 2016 سے خبروں میں ’ٹری مین‘ سے مشہور ہیں، درحقیقت ایپی ڈرمو ڈسپلیژیا نامی جلدی مرض میں مبتلا ہے جس میں ہاتھ اور پیروں میں درخت کی شاخیں نما جڑیں نکل آتی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بنگلادیشی شہری سنہ 2016 کے بعد دوبارہ اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے، جہاں انہیں دوبارہ سرجری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق 28 سالہ ابو البجندار گزشتہ 2 دہائیوں سے اس عجیب و غریب میں مبتلا ہے۔

    ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ متاثرہ شہری کی سنہ 2016 میں 25 سرجریاں کی گئی تھیں اور مزید علاج باقی تھا لیکن بجندار مئی میں علاج ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے ہمیں اس کا مزید علاج کرنا تھا ڈاکٹر نے متاثرہ شہری نے بارہا اسپتال میں رہ کر علاج مکمل کروانے کی گزارش کی لیکن وہ نہیں رکے اور گھر چلے گئے‘۔

    ڈھاکا میڈیکل کالج کی ترجمان ڈاکٹر سامنتا لال کا کہنا ہے کہ بجندار اتوار کے روز اپنی والدہ کے ہمراہ اسپتال واپس آئے تھے، انہیں کم از کم چھ ماہ قبل آجانا چاہیے تھا لیکن انہیں بہت دیر ہوچکی ہے‘۔

    ڈاکٹر کے مطابق بجندار کی حالت پہلے سے بدترین ہوچکی ہے اور ان کے ہاتھوں پر بندھنے والی گانٹھیں ایک انچ تک لمبی ہوچکی ہیں، اور اب ان کے پیروں سمیت جسم کے مختلف حصّوں پر درخت نما جڑیں نکل آئیں ہیں۔

    ڈھاکا میڈیکل اسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بجندار کی مزید چھ سرجریاں کی جائیں گی۔

    مزید پڑھیں : ہاتھی سر والا عجیب الخلقت انسان

    مزید پڑھیں : برازیلین شہری انوکھے مچھرکے کاٹنے سے ’ ہاتھی پیر‘ نامی بیماری میں مبتلا

    ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ایپی ڈرمو ڈسپلیژیا نامی بیماری کے باعث بنگلادیشی شہری کی قوت مدافعت کو بھی متاثر کیا ہے، جس کے باعث ابو البجندار جلدی کینسر جیسی کئی بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ بیماری بہت نایاب ہے اور دنیا بھر میں چند ہی لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔

    متاثرہ بنگلادیشی شہری کا کہنا ہے کہ ’میں عام آدمی کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہوں، میں اپنی بیٹی کو گلے لگانا چاہتا ہوں‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دو برس قبل آپریشن کے باعث بنگلادیشی شہری کے ہاتھ ایک عام آدمی کی طرح ہوگئے تھے۔

  • لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایک ایسا مرض ہے جس سے ہم عام طور پر واقف ہیں۔ ہمارے آس پاس موجود افراد میں سے ایک نہ ایک شخص ضرور ہکلاتا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے۔

    وہ گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرزد ہوتا ہے۔

    زبان کی اسی لکنت کا شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانے کے لیے آج آگاہی برائے ہکلاہٹ کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔

    ہکلاہٹ کی وجوہات کیا ہیں؟

    ماہرین اس مرض کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ ان مطابق یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے، اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں بھی ہکلانے لگتے ہیں جو جزوی ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔

    ہکلاہٹ کی ایک اور وجہ بچوں کی نشونما میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے دوران جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو وہ ہکلاتے ہیں۔ 98 فیصد بچے نارمل طریقے سے بولنے لگتے ہیں لیکن 2 فیصد بچوں کی ہکلاہٹ مستقل ہوجاتی ہے اور باقاعدہ مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ زبان کی لکنت کی وجہ جسم میں موجود 3 مختلف جینز میں پایا جانے والا نقص ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو ان کے لیے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

    لکنت کا سب سے پہلا علاج تو آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔

    ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔

    سنہ 2010 میں اس موضوع پر ہالی ووڈ میں ایک فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ بنائی گئی۔ فلم میں انگلینڈ کے شہزادہ البرٹ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جو ہکلاہٹ کا شکار تھا۔

    اس کے باپ کی موت کے بعد تخت کو ایک بادشاہ کی ضرورت تھی لیکن البرٹ اپنی ہکلاہٹ کے مرض کے باعث ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ وہ عوامی اجتماعات میں خطاب کے دوران اپنی ہکلاہٹ کے باعث بے حد شرمندگی کا شکار تھا۔

    فلم میں اس کی اہلیہ ایک معالج کو اس کا مرض دور کرنے پر مامور کرتی ہے جو مختلف نفسیاتی اور طبی طریقوں سے بالآخر اس کا علاج کردیتا ہے۔

  • موسمِ سرما کی آمد سے قبل امریکی شہری فلو سے بچاؤ کی تدابیر کرنے لگے

    موسمِ سرما کی آمد سے قبل امریکی شہری فلو سے بچاؤ کی تدابیر کرنے لگے

    موسمِ سرما قریب آتے ہی امریکی شہریوں نے فلو کی ویکسین لگوانا شروع کردی ہے ، گزشتہ برس فلو کے طاقت ور ترین وائرس نے حملہ کیا تھا جس میں ہزاروں امریکی ہلاک ہوگئے تھے۔

    گزشتہ موسم سرما کے دوران امریکا میں فلو کا ایک ایسا وائرس سرگرم ہو گیا تھا جس پر ویکسین کا زیادہ اثر نہیں تھا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا اور زیادہ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار امریکی فلو سے ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد گزشتہ کئی دہائیوں میں فلو سے مرنے والے امریکیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

    خبررساں ادارے اے پی کی ایک رپورٹ میں بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے مرکز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں فلو اور اس کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے 56 ہزار کے درمیان رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اکثریت بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلو کی شدت اس سال فروری کے مہینے میں دیکھی گئی اور مارچ کے آخر میں یہ وائرس تقریباً ختم ہو گیا۔

    بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ہر سال کتنے افراد فلو سے ہلاک ہوتے ہیں۔ کیونکہ فلو اتنا عام ہے کہ اس کے متعلق اطلاع ہی نہیں دی جاتی اور جو لوگ فلو سے مرتے ہیں ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر بھی عموماً فلو نہیں لکھا جاتا ، بلکہ اس مرض کا اندارج کیا جاتا ہے کہ جو فلو کے سبب پیدا ہوا تھا۔

    امریکی تاریخ میں فلو کا سب سے شدید حملہ 1918 میں ہوا تھا۔ یہ مرض وبا کی صورت میں تقریباً دو سال تک جاری رہا اور اس میں 5 لاکھ سے زیادہ امریکی ہلاک ہوئے تھے ۔

    محکمہ صحت کے عہدے داروں نے بتایا کہ اس سال فلو کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کو زیادہ بہتر بنایا گیا ہے۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگر ویکسین فلو کا حملہ نہ بھی روک سکے تو بھی وہ اس کی شدت میں کمی کر دیتی ہے۔

  • ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    لندن : برطانوی سائنسدانوں نے تپ دق کی تشخیص میں اہم پیش رفت حاصل کرلی ہے جس سے علاج مزید موثر ہو جائے گا۔

    تفصیلات کےمطابق اوکسفرڈ اور برمنگھم کے سائنس دانوں نے ٹی بی کی تشخیص میں جینوم سیکونسنگ کا طریقہ استعمال کر کے اہم پیش رفت حاصل کر لی ہے۔

    برطانوی سائنسدانوں کی اس اہم پیش رفت کےبعد جن مریضوں کو درست دوا کےانتخاب کے لیےمہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا اب ان کے اندر بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کی شناخت چند دنوں کے اندر اندر ہو سکے گی۔

    برطانوی وزیرِ صحت جیریمی ہنٹ کاکہناہے کہ اس پیش رفت سے زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔

    خیال رہےکہ برطانیہ میں ٹی بی کےمریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے،لیکن اس کے باوجود انگلینڈ میں اس مرض کی شرح یورپ کےدوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


    مزید پڑھیں: پاکستان ٹی بی کا شکار پانچواں بڑا ملک


    سائنس دانوں کےمطابق جینوم سیکونسنگ کی مدد سے وہ ایک ہفتے میں مختلف نمونوں کے اندر ڈی این اے کی شناخت کر سکتے ہیں۔مرض کی جلد تشخیص کی بدولت مریضوں کا علاج جلد شروع کیا جا سکتا ہے۔

    مائیکرو بیالوجسٹ پروفیسر گریس اسمتھ نےکہاکہ ہم یہ معلومات دے سکتے ہیں کہ بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کون سے ہیں اور ان پر کون سی ادویات اثر نہیں کرتیں۔

    واضح رہےکہ اس وقت دنیا بھر میں تشویش ہے کہ ٹی بی کے ایسے جراثیم سامنے آ رہے ہیں جن پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔اس کے باعث اس مرض کو دنیا سے ختم کرنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔