Tag: بینظیر بھٹو

  • دبئی کے  مادام تساؤ میوزیم میں بینظیر بھٹو کے مجسمے کی رونمائی

    دبئی کے مادام تساؤ میوزیم میں بینظیر بھٹو کے مجسمے کی رونمائی

    دبئی : متحدہ عرب امارات میں مادام تساؤمیوزیم میں بینظیربھٹو کے مجسمے کی رونمائی کی گئی، بینظیر بھٹو پہلی پاکستانی ہے، جن کا مجسمہ تساؤ میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی کے مادام تساؤ میوزیم میں بینظیر بھٹو کے مومی مجسمے کی تقریب منعقد کی گئی، جس میں بلال بھٹو نے شرکت کی۔

    بینظیر بھٹو کامومی مجسمہ مادام تساؤ میوزیم میں کسی پاکستانی شخصیت کے رکھے جانے والا پہلا مجسمہ ہے۔

    اس موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا میری والدہ نے خواتین کے حقوق کیلئےہمیشہ آواز اٹھائی اور دنیابھرمیں امن کی داعی رہیں۔

    خیال رہے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران یو اے ای کے وزیرخارجہ عبداللہ بن زید سے ملاقات کی۔

    بلاول بھٹو نے شیخ سعیدبن زید کے انتقال پر تعزیت کی جبکہ ملا قات میں دوطرفہ تعلقات کا جائزہ، اور علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    بلاول بھٹو نے پاکستان کی غیرمتزلزل حمایت پر یو اے ای کی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

  • لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    بیگم اشرف عباسی کا نام پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں‌ قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر کے طور پر درج ہے۔ ان کی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی اور ذوالفقار علی بھٹو انھیں سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

    ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ 1925 میں حکیم محمد سعید خان عباسی کے گھر پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم لاڑکانہ سے حاصل مکمل کرنے کے بعد دہلی اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہیں۔ یہ تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا اور وہ دو بچّوں‌ کی ماں تھیں جب ڈاؤ کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔

    بے نظیر بھٹو لاڑکانہ کے اس عباسی خاندان پر بہت اعتماد کرتی تھیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک پر عملی سیاست میں قدم رکھنے والی اشرف عباسی 1962ء میں صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور 1973 میں قومی اسمبلی میں‌ پہنچیں جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ اس کمیٹی کی بھی رکن رہیں جس نے 1973 کا آئین مرتب کیا تھا۔ 1977 کے انتخابات ہوئے تو بیگم اشرف عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے بعد محکمۂ بلدیات کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں سیاسی اور عوامی جدوجہد کرنے والے راہ نماؤں اور کارکنوں‌ کے ساتھ انھوں نے بھی متعدد مرتبہ نظر بندی اور قید جھیلی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور مختلف مواقع پر احتجاج کی قیادت کے دوران انھوں نے بھی لاٹھی چارج اور دوسری مشکلات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہیں۔

    سندھ میں بحالیٔ جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو بیگم اشرف عباسی بھی اگلی صفوں‌ میں رہیں اور اسی پاداش میں 14 ماہ جیل میں بھی گزارنے پڑے۔

    1988ء کے عام انتخابات میں وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ عملی سیاست سے دور ہوجانے کے بعد بیگم اشرف عباسی کئی جامعات کی سینڈیکیٹ ممبر اور ’شہید ذوالفقار بھٹو انسٹیٹیوٹ‘ لاڑکانہ کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا اور اس پلیٹ فارم سے مستحق اور نادار خواتین کی امداد کی جاتی تھی۔

    بیگم اشرف عباسی نے اپنی سیاسی زندگی اور ذاتی حالات اور واقعات پر مشتمل ایک کتاب سندھی زبان میں ’جیکی ھلن اکیلیوں‘ کے عنوان سے تحریر کی جس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا۔ بیگم اشرف عباسی نے 2014ء میں‌ آج ہی کے دن 89 برس کی عمر میں‌ وفات پائی۔

  • نیوزی لینڈ کی وزیراعظم  جیسنڈا آرڈن کا بینظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش

    نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا بینظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش

    لندن :نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے ہاورڈیونیورسٹی میں بینظیربھٹو کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے جمہوریت کے بارے میں ان کے نظریے کو سراہا۔

    نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن ہاورڈ یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کے دوران پاکستانی وزیراعظم بینظیربھٹوکی تعریف کیے بغیرنہ رہ سکیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن ہاورڈ یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کے دوران پاکستانی وزیراعظم بینظیربھٹوکی تعریف کیے بغیرنہ رہ سکیں۔

    جسینڈا آرڈن نے خطاب میں جمہوریت کے بارے میں بےنظیر کے نظریے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا بینظیر کے جمہوریت کے بارے میں خیالات آج بھی سچ لگتے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Jacinda Ardern (@jacindaardern)

    انہوں نے کہا کہ ‘جون 1989 میں پاکستان کی وزیر اعظم نے اسی جگہ پر کھڑے ہو کرخطاب کیا تھا ، جس میں انھوں نے اپنے سفر، نمائندہ حکومت، انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوری قوموں کو متحد ہونا چاہیے’۔

    جیسنڈا آرڈرن نے نے نظیر بھٹو سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں موجود تمام سیاسی اختلافات کے باوجود بینظیر کے بارے میں دو باتیں ناقابل تردید ہیں، پہلی بات کہ وہ ایک اسلامی ملک میں منتخب ہونے والی پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم تھیں، جب اقتدارمیں عورت کا ہونا ایک نایاب چیز تھی اور دوسری بات وہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے دوران بچے کو جنم دینے والی بھی پہلی خاتون تھیں۔

    اپنی تقریر میں آرڈن نے بتایا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل سے سات ماہ قبل 2007 میں جنیوا میں ان سے ملی تھیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں دنیا کی دوسری خاتون وزیراعظم ہوں ، جس نے وزارت اعظمیٰ کے منصب پر فائز رہتے ہوئے بچے کو جنم دیا۔

    نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے بتایا کہ میری بیٹی 21 جون 2018 کو پیدا ہوئی، بیٹی اور بینظیر کا تاریخ پیدائش بھی ایک ہے

  • 10 اپریل: ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور یادگار دن

    10 اپریل: ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور یادگار دن

    مارشل لاء 31 دسمبر 1985 کو اٹھا لیا گیا تھا اور اس کے اگلے ہی سال اپریل میں بے نظیر بھٹو بھی وطن واپس آگئیں جسے ملکی سیاست کی تاریخ میں نہایت اہم اور یادگار دن قرار دیا جاتا ہے۔

    لاہور میں سیاسی کارکنوں اور عوام نے بے نظیر بھٹو کا فقیدُ المثال استقبال کیا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں، طلبہ اور مختلف شہری تنظیموں کی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ملک بھر میں صحافیوں اور دانشوروں کے لیے ضیاءُ‌ الحق کا دورِ آمریت پھانسی کے پھندوں، کوڑوں کی سزاؤں، احتجاجی مظاہروں‌ کے دوران بدترین تشدد سہتے ہوئے اور جیل یا پھر عدالتوں میں‌ اپنے خلاف مختلف جھوٹے مقدمات لڑتے ہوئے گزرا تھا اور 1986ء میں انھیں نوجوان سیاسی لیڈر نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ 10 اپریل کو پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو تین سالہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آ رہی ہیں۔

    بے نظیر بھٹو اس جلاوطنی سے قبل کئی سال اپنے وطن میں نظر بند رہی تھیں۔ اس روز صبح کے وقت وہ بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچیں جہاں سیاسی جماعت کی اس قائد اور عوامی راہ نما کو مینارِ پاکستان پر جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ان کا استقبال ملک کی تاریخ کا ایک اہم اور نہایت منفرد و شان دار واقعہ ثابت ہوا۔ اس روز لاکھوں لوگ لاہور کی سڑکوں پر موجود تھے۔ محترمہ مینارِ پاکستان پہنچیں، لیکن عوام کے جلوس کی وجہ سے صرف 9 میل کا فاصلہ لگ بھگ دس گھنٹے میں طے ہوا۔ اس موقع پر کئی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے اور جیالے اپنی قائد کی آمد کی خوشی کے ساتھ بھٹو خاندان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ لاہور کے بعد بے نظیر بھٹو نے گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا، جہلم اور راولپنڈی کے بھی دورے کیے اور ہر جگہ عوام کا سمندر تھا اور لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔

    محترمہ بے نظیر بھٹو 3 مئی 1986ء کو کراچی پہنچیں جہاں شاہراہِ قائدین پر پارٹی کی جانب سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خطاب کے لیے جلسہ گاہ پہنچنے کے لیے بھی انھیں کئی گھنٹے سفر کرنا پڑا تھا۔

  • 1986: لاہور نے کیا دیکھا؟

    1986: لاہور نے کیا دیکھا؟

    ملک سے باہر دو سال سے زائد عرصے تک جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارشل لا کے بعد 1986 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

    لاہور وہ شہر تھا جہاں آج ہی کے روز (10 اپریل) ان کے طیارہ زمین پر اترا اور عوام کا ایک سمندر تھا جس نے پاکستان پیپلز پارٹی اورعوام کی قائد کا استقبال کیا۔ کہتے ہیں لاکھوں‌ لوگ اس روز سڑکوں پر موجود تھے۔

    جلاوطنی سے پہلے بے نظیر بھٹو کئی سال پاکستان میں نظر بند رہی تھیں۔ وطن آمد پر پروگرام کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کو مینارِ پاکستان پر جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا جس کے لیے وہ ایک جلوس کی شکل میں مینار پاکستان پہنچیں۔

    ایک طرف تو سیاست میں ان کی آمد اور اس سے پیدا ہونے والی زبردست ہلچل ملکی تاریخ میں محفوظ ہوگئی اور دوسری جانب لاکھوں کی تعداد میں عوام کی جانب سے والہانہ محبت کا اظہار اور شان دار استقبال یادگار ثابت ہوا۔

    یہی نہیں بلکہ 10 اپریل کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور میں مینارِ پاکستان کے لیے روانہ ہوئیں تو یہ سفر لگ بھگ دس گھنٹوں میں طے ہوا اور اس طرح وہ ایک منفرد اور یادگار سفر بن گیا۔

  • شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی آج منائی جائے گی

    شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی آج منائی جائے گی

    راولپنڈی : دختر مشرق ،سابق وزیر اعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق شہیدمحترمہ بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی آج منائی جارہی ہے،جبکہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں مرکزی تقریب کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔

    جلسہ گاہ میں اسٹیج تیار کرلیاگیا ہے،جبکہ پنڈال میں پارٹی پرچم، ذوالفقار بھٹو،بینظیر بھٹو،مرکزی قیادت کی تصاویر اور بڑے بڑے پوسٹرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔

    مرکزی تقریب سے سابق صدر آصف زرداری،بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی وصوبائی قائدین اور مقررین خطاب کریں گے۔

    جلسہ گاہ کی سخت سیکیورٹی کےلیےواک تھرو گیٹس نصب کیے گئے ہیں،جبکہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعےسے بھی نگرانی کی جائے گی۔

    جیالوں کی بڑی تعداد بھی برسی میں شرکت کےلیےلیاقت باغ آرہی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں سے جیالےقافلوں کی صورت میں راولپنڈی کی طرف رواں دواں ہیں۔

    ملک بھر کےتمام چھوٹے بڑے شہروں میں بھی پیپلز پارٹی کے زیراہتمام قرآن خوانی، دعائیہ تقریبات، کانفرنسز، سیمینارز، مذاکرے، تعزیتی اجتماعات اور مختلف تقریبات منعقد کی جائیں گی۔

    واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ 27دسمبر ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، بی بی شہید نے حفاظت پاکستان کی خاطر جان کی قربانی دی۔

    ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ بینظیر کی زندگی جمہوریت کے استحکام کے لیے جہد مسلسل تھی، 27 دسمبر ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے،، بینظیر کی شہادت پاکستان کا روشن مستقبل کا قتل ہے۔

  • 2 دسمبر کو ایسا کیا ہوا جس نے تاریخ رقم کر دی!

    2 دسمبر کو ایسا کیا ہوا جس نے تاریخ رقم کر دی!

    یہ 2 دسمبر 1988 کی بات ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب ایک خاتون نے سنبھالا۔ دنیا انھیں بے نظیر بھٹو کے نام سے جانتی ہے۔

    ملک میں نومبر کے مہینے میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جس میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت سے کام یاب نہیں ہوسکی تھی۔ اقتدار کی منتقلی ایک اہم ترین مرحلہ تھا اور سیاسی جماعتوں اور اتحادوں میں جوڑ توڑ جاری تھا جب کہ اس عہدے پر نام زدگی کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا تھا۔

    اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت سازی کی دعوت دی۔ پیپلز پارٹی کی قائد نے 2 دسمبر کو نمازِ جمعہ کے بعد وزیرِاعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور یوں اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی پاکستانی خاتون بنیں۔

    ایوانِ صدر میں حلف برداری کی تقریب میں بیگم نصرت بھٹو، آصف زرداری، صنم بھٹو، ٹکا خان، ولی خان، نواب زادہ نصراللہ خان، مسلح افواج کے سربراہ، مختلف ممالک کے سفارت کار اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکی۔ صرف ایک سال 8 ماہ بعد ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کے ذریعے اسمبلیاں برخاست کر دی تھیں۔

  • بینظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتی تھیں، بلاول زرداری

    بینظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتی تھیں، بلاول زرداری

    اسلام آباد : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتی تھیں، موجودہ حکومت کا ضمنی الیکشن میں بھی دھاندلی کا عمل جاری ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے کسانوں کا معاشی قتل ہورہا ہے، سندھ اور بلوچستان میں فصلوں کو ٹڈی دل نقصان پہنچارہی ہے۔

    اس سے مقابلے کیلئے سندھ اور بلوچستان حکومت کو وفاق سے فنڈز درکار ہیں،، اب تک حکومت نے اس مسئلے پر کوئی جواب نہیں دیا، اس سلسلے میں وفاق کو فوری قدم اٹھانا پڑے گا، ہنگامی بنیادوں پر پراقدامات کرنا ہونگے۔

    ہم نے اپنے عوام کے معاشی قتل کو روکنا ہے۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا ضمنی الیکشن میں بھی دھاندلی کا عمل جاری ہے، پیپلزپارٹی نے جنرل الیکشن میں سینیٹ میں معاملہ اٹھایا تھا، فوج کپولنگ اسٹیشن کاندلگانسے ادارے کنقصان پہنچے گا، شکست ہوتی ہے تو الزام الیکشن کمیشن پر لگنا چاہیے۔

    اس موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ ایک وزیر کا کہنا ہے کہ این آراو کیلئے امریکا کےسامنے گھٹنے ٹیکے، جس پر بلاول بھٹو نے کہا کہ بینظیر بھٹو ملک کی مقبول ترین لیڈر تھیں، وہ جمہوریت کی بحالی کے لئے دنیا بھر میں مہم چلاتی رہیں۔

    بینظیربھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کیا کرتی تھیں، بینظیر بھٹو نےامریکا میں یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ منافقت نہیں چلےگی، بینظیر بھٹو نے امریکا کو پریشر پوائنٹ کے طور پرمشرف کے خلاف استعمال کیا۔

    پیپلز پارٹی2002کےانتخابات جیتی تھی مگر اسے حکومت بنانے نہیں دی گئی، بلاول بھٹو نے کہا کہ بینظیر بھٹو جانتی تھیں کہ عوام میرے ساتھ ہیں، انہوں نے مشرف کو وردی اتارنے کے لئے مجبور کرایا، مجبورکرانا تھا کہ وردی اتارو جمہوریت واپس دو۔

    ایک سوال کے جواب میں فوج اہم ادارہ ہے بہت عزت کرتے ہیں، جہاں دہشت گردی سر اٹھاتی ہے پاک فوج ان کا مقابلہ کرتی ہے، الیکشن کمیشن کو جنرل الیکشن میں ہونی والی غلطیاں نہیں دہرائی جانی چاہیے۔

    بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی دباؤ اور پروپیگنڈےسےپہلےبھی نہیں ڈری نہ آج ڈری ہے، جمہوری اور معاشی حقوق پر پیپلزپارٹی کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، میں نہیں سمجھتا کہ پی اے سی غیرفعال ہے۔

  • مہد سے لحد تک بے نظیر

    مہد سے لحد تک بے نظیر

     محترمہ بے نظیر بھٹو کاچھیاسٹھ واں یوم پیدائش آج انتہائی عقیدت احترام سے منایا جائے گا، اس سلسلے میں مرکزی تقریب نواب شاہ میں منعقد کی جائے گی۔

    پیپلز پارٹی کی  سابق چیئر پرسن  اور دو بار پاکستان کی وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کی سالگرہ  کے موقع پر  نواب شاہ میں منعقد ہونے والی مرکزی تقریب سے  بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے، اس کے علاوہ ملک بھرمیں پیپلز پارٹی کے دفاتر پر قرآن خوانی کی تقاریب کا انعقاد کیا جائے گا۔

    بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی بے مثال لیڈر تھیں‘ آپ اکیس جون 1953 کو ذوالفقارعلی بھٹو اورنصرت بھٹو کے گھر پیدا ہوئیں۔

    ابتدائی تعلیم کراچی، راولپنڈی اور مری میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم پہلے ہاورڈ اور پھر آکسفورڈ سے حاصل کی ، بے نظیر جب کبھی پاکستان ہوتی تو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں شامل رہتیں۔

    بھٹوکا جیل سے بے نظیرکو آخری خط

    بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ پہلی بار آپ 1988ء میں پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا الزام لگا کر اپنے خصوصی اختیارت سے اسمبلی کو برخاست کیا اور نئے الیکشن کروائے۔

     2 اکتوبر، 1990ء کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے الائنس بنایا۔ جس کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔

    بے نظیر بھٹو کے بارے میں دلچسپ حقائق

    سنہ  1993ء میں اس وقت کے صدر نے غلام اسحاق خان کے نواز شریف کی حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔ جس کے بعد اکتوبر، 1993ء میں عام انتخابات ہوئے۔ جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں۔ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں بے امنی اور بد عنوانی،کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے  باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

    27دسمبر2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری عوامی جلسے سے خطاب کیا اس موقع پر عوام کی کثیرتعداد موجود تھی۔

    خطاب کے بعد جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے اپنے کارکنان سے اظہارِ یکجہتی کے لئے وہ گاڑی کی سن روف سے باہرنکلیں اور اس موقع پرایک نامعلوم شخص نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا اوراس کے ساتھ ہی ان کی گاڑی سے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک خود کش حملہ ہوا۔

    بلاول بھٹوکا بے نظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت

    بینظیربھٹوکو راولپنڈی جنرل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ بینظیربھٹوکو لاڑکانہ کے سے ملحقہ علاقے نوڈیرومیں ان کے والد ذوالفقارعلی بھٹو کے مزار میں دفن کیا گیا تھا۔

    اپنے ایامِ اسیری میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 21 جون 1978 کو اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو سالگرہ کے موقع پر ’’میری سب سے زیادہ پیاری بیٹی ‘‘کے عنوان سے خط لکھا تھا۔

    خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں تمہیں پیغام دیتا ہوں کہ صرف عوام پر یقین رکھو اور ان کی فلاح کے لیے کام کرو اور جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے

  • بے نظیر بھٹو کے بارے میں دلچسپ حقائق

    بے نظیر بھٹو کے بارے میں دلچسپ حقائق

    آج پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی منائی جارہی ہے۔ آج سے 11 برس قبل دسمبر کی ایک سرد شام ان پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    بے نظیر بھٹو کا کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون سربراہ بننا، ان کا سیاسی پس منظر، ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بھائیوں کی امواتیں، اور خود بے نظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت وہ عوامل تھے جنہوں نے انہیں ہمیشہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا کر رکھا۔

    تاہم سیاست میں آنے سے قبل ان کے بچپن اور نوعمری کا حصہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    آج ہم آپ کو بے نظیر بھٹو کے بارے میں ایسے ہی کچھ منفرد حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں جن سے آپ آج سے قبل واقف نہیں ہوں گے۔

    آبائی شہر

    بے نظیر بھٹو کا آبائی شہر کراچی تھا۔ وہ اسی شہر میں پیدا ہوئیں، پلی بڑھیں اور یہیں سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    پہلی زبان

    گو کہ بے نظیر بھٹو سندھی اور اردو زبان بہت خوبصورتی سے بولتی تھیں، تاہم انہیں سکھائی جانے والی پہلی زبان انگریزی تھی۔

    کراچی گرامر اسکول

    بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم کراچی کے بہترین تعلیمی ادارے کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی تھی۔

    ایرانی والدہ

    بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو ایرانی شہری تھیں۔ جب ان کی شادی ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی تو وہ ایران سے کراچی منتقل ہوگئیں اور یہیں رہنے لگیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو اپنی وزرات عظمیٰ کے دور میں جب خاتون اول نصرت بھٹو کے ساتھ ایران گئے تو اس وقت شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے ان دونوں کا استقبال کیا تاہم ان کی ملکہ فرح دیبا وہاں موجود نہیں تھیں، کیونکہ شاہی قوانین کے مطابق ملکہ، ایران کے کسی عام شہری کا استقبال یا اس کی میزبانی نہیں کرسکتی تھیں۔

    آکسفورڈ یونین کی پہلی ایشائی خاتون صدر

    دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران وہ آکسفورڈ تقریری یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ وہ اس عہدے پر منتخب ہونے والی پہلی ایشیائی خاتون تھیں۔

    شوہر آصف علی زرداری

    بے نظیر بھٹو اپنے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری سے عمر میں 2 سال بڑی تھیں۔ قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ یہ برتری دونوں کے رشتے میں بھی تھی اور بے نظیر بھٹو حاکمانہ مزاج رکھتی تھیں۔