Tag: بیوٹی کریم

  • بیوٹی کریم میں چھپائی گئی ہیروئن برآمد

    بیوٹی کریم میں چھپائی گئی ہیروئن برآمد

    اسلام آباد : اینٹی نارکوٹکس فورس نے کارروائی کرتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر مسافر کے سامان میں موجود بیوٹی کریم میں چھپائی گئی 300 گرام ہیروئن برآمد کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق اینٹی نارکوٹکس فورس کا منشیات کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، 6 کارروائیوں کے دوران 32 کلوگرام سے زائد منشیات برآمد کرکے خاتون سمیت 7 ملزمان گرفتار کرلئے گئے۔

    ترجمان اے این ایف نے بتایا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر مسافر کے سامان میں موجود بیوٹی کریم میں چھپائی گئی 300 گرام ہیروئن برآمدکرلی، اپر دیر کا رہائشی ملزم پرواز نمبر QR-615 کے ذریعے جدہ کیلئے روانہ ہو رہا تھا۔

    دوسری کارروائی میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہنگو کے رہائشی میاں بیوی کوگرفتارکرلیا، ملزمان کے پیٹ سے مجموعی طور پر 60 آئس بھرے کیپسول برآمد ہوئے،ملزمان بذریعہ پرواز نمبر PK-287 قطر کیلئے روانہ ہو رہے تھے۔

    اس کے علاوہ ایک اور کارروائی میں پی ڈبلیو ڈی ٹاوٴن اسلام آباد میں موٹرسائیکل سوار 2 ملزمان سے 350 گرام آئس برآمد کرلی۔

    راولپنڈی میں واقع کوریئر آفس میں پارسل سے 297 گرام ایم ڈی ایم اے برآمدہوئی، مذکورہ پارسل نیدرلینڈ سے کراچی کیلئے بک کروایا گیا تھا۔

    ترجما ن اے این ایف کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کے خلاف انسداد منشیات ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

  • حکومت کا رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف بڑا ایکشن

    حکومت کا رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف بڑا ایکشن

    اسلام آباد: حکومت نے رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف بڑا ایکشن لے لیا، غیر معیاری کریموں میں انٹرنیشنل برانڈز بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے کونے کونے میں دستیاب رنگ گورا کرنے والی کریمیں اور صابن وسیع پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں، لیکن یہ ہماری جلد کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت زرتاج گل نے کہا کہ 59 کریموں کا لیب ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں 57 میں مرکری پایا گیا، ان کریموں میں انٹرنیشنل برانڈز بھی شامل تھے، اسی طرح لیب ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ 14 صابنوں میں سے 4 صابن جلد کے لیے خطرہ ہیں۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا حل کمپنیوں کے ساتھ مل کر نکالا جائے گا، اس سلسلے میں کاسمیٹک کمپنیوں کو سال کے آخر تک کا وقت دے دیا گیا ہے۔

    زرتاج گل نے کہا کہ انھیں حکومت میں آنے سے قبل بھی اس مسئلے کا احساس تھا، وہ اشتہارات دیکھا کرتی تھیں تو سوچتی تھیں کہ خواتین کیوں اپنے رنگ کے حوالے سے شرم محسوس کرتی ہیں، لوگ بھی ان پر باتیں بناتے ہیں۔ سانولی خواتین کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ کا رنگ صاف نہیں تو شادی نہیں ہوگی۔

    انھوں نے کہا کہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں بنانے والی نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس صورت حال کو بہت ہوا دی، پہلے انھوں نے سانولے رنگ کو ذلت آمیز بنا دیا اور پھر طرح طرح کی کریمیں لانچ کر دیں کہ ہماری کریمیں استعمال کرنے سے آپ فخر سے چل سکیں گی۔ میں نے ان کے خلاف مہم شروع کی ہے۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا جب میں وزیر بنی تو میں نے یہ دیکھا کہ ہم کن کن انٹرنیشنل پروٹوکولز کے پابند ہیں، ان میں میرے سامنے مِناماٹا کنونشن آیا جس پر ہم نے بھی 2013 میں دستخط کیے ہیں، لیکن اس پر آج تک کام نہیں ہوا تھا۔میں نے اسے نکلوا کر اس پر کابینہ میں کام کروایا، تو ظاہر ہے کہ اس کا پتا سب کو ہوا، کمپنیوں کو اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے، میری کئی سی ای اوز سے بھی بات ہوتی رہی ہے۔ پہلے میرے پاس ایسا کوئی قانون ہی نہیں تھا کہ مارکیٹ سے غیر معیاری کریمیں اٹھائی جاتیں، لیکن اب ان کے خلاف کارروائیاں ہوں گی۔

    باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فلم اور ٹی وی اداکارہ آمنہ الیاس نے کہا کہ گندمی رنگت کی وجہ سے خواتین کو کیا کچھ نہیں سہنا پڑتا، لیکن سانولی رنگت صرف عورتوں ہی کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ مردوں کا بھی یہی حال ہے، سانولے لوگوں کو دوستوں میں طعنے پڑتے ہیں۔

    انھوں نے کہا خواتین میں یہ مسئلہ اس لیے زیادہ نمایاں ہوتا ہے کہ ایک تو ان کی شادیوں کا بڑا مسئلہ ہے کہ لڑکا چاہے جیسا بھی ہو لڑکی ہمیں گوری چاہیے۔ اور یہ مسئلہ خواتین ہی کی طرف سے خواتین کے لیے ہوتا ہے۔ مائیں بھی بیٹیوں پر دباؤ ڈالتی رہتی ہیں کہ یہ لگاؤ وہ لگاؤ۔ شادیوں کی وجہ سے لڑکیوں پر اس حوالے سے زیادہ پریشر ہے۔

    آمنہ الیاس نے کہا میں نے ورک پلیسز پر یہ نوٹ کیا ہے گوری خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے، بالخصوص ایئر ہوسٹس کو دیکھیں۔ جاب کے حوالے سے بھی عورتوں کو یہ مسئلہ بہت زیادہ فیس کرنا پڑتا ہے۔ کریمز کی تشہیر کرنے والی اداکاراؤں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آمنہ نے کہا اداکاراؤں کی وجہ سے بھی لڑکیوں کو اس کی ترغیب ملتی ہے جو بیوٹی کریمز کی تشہیر کر رہی ہوتی ہیں۔ہمیں دوسروں کو کم خوب صورت محسوس نہیں کرانا چاہیے۔

  • خبردار :  بیوٹی کریم نقصان پہنچا سکتی ہے

    خبردار : بیوٹی کریم نقصان پہنچا سکتی ہے

    اے آر وائی (ویب ڈیسک ) خواتین خوبصورت اوردل کش نظرآنے کے لئے مختلف کریموں کا استعمال کرتی ہیں ۔ لیکن اکثر ان کے غلط انتخاب سے جلد کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ا س کے متعلق تحقیق بھی کی جارہی ہے۔ ان کریموں کے اثرات کے حوالے سے ایک ریسرچ کی گئی ۔

    ڈاکٹر جان مک فیڈن لندن کے مشہور ڈرما ٹولوجسٹ ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ موسچرائزر ‘ ماسک ‘ شیمپو اوریہاں تک کہ کنڈیشنر بھی اسکن الرجی کا باعث ہوسکتے ہیں ۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ اورٹن برطانیہ کے ماہر ڈاکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ کسی ایسے پروڈکٹ کے استعمال کے بعد جس میں شامل ہونے والے اجزاءکوبرداشت کرنے کی طاقت اس شخص میں نہ ہو وہ فوری طورپر الرجی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں پورے جسم پر خارش شروع ہوجاتی ہے اور جسم پر لال دھبے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

    ڈاکٹر ڈیوٹ نے اپنی ایک تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آج سے چند سال پہلے سو میں سے دو یا تین افراد کا کاسمیٹک الرجی کا شکار ہوتے تھے ۔

    لیکن اب کاسمیٹک الرجی کا شکار ہونے والے افراد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ دس سال پہلے تک لوگ الرجی نامی کسی بیماری سے واقف نہیں تھے آج ہر دس میں سے ایک فرد کو الرجی کا مرض لاحق ہے ۔ اس لیے الرجی موجودہ دور کاایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے مارکیٹ میں رنگ گورا کرنے‘ داغ دھبوں کو دور کرنے والی دانوں اورپھنسیوں سے نجات دلانے والی بہت سی ایسی کریمیں دستیاب ہیں جنہیں کاسمیٹک پروڈکٹ کی جانب سے پڑتال کرنے والے ادارے کو چیک نہیں کروایا جاتا ۔

    ایسی تمام کریمیں جو چھوٹی‘ بڑی کاسمیٹک کی دکانوں اورپارلر میں فروخت ہو رہی ہیں اسکن الرجی کا سبب بنتی ہیں ان کریموں کو فروخت کا لیبل بھی لگادیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کریمیں خرید سکیں۔ اگر ہم اس حوالے سے کی جانے والی ریسرچ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قدرتی اجزاءیا ہربل پروڈکٹ بھی اسکن الرجی یا دوسری بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

    اس لیے جب کبھی آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے استعمال میں کوئی ایسی پروڈکٹ یا کریم ہے جس سے آپ کوخارش ہوتی ہے تو اسے معمولی جان کر نظر انداز نہ کریں بلکہ ایسے کیمیکل والے پروڈکٹ کااستعمال فوری طورپر ترک کردیں۔ خریداری سے پہلے لیبل کو اچھی طرح پڑھیں اور یہ تصدیق کریں کہ اس کی تیاری میں کوئی ایسے اجزاء شامل تو نہیں کیے گئے جس سے جلد کی بیماریوں کاخطرہ ہو۔

    اس بات کوہمیشہ یاد رکھیں کہ قدرتی اجزاءسے بنائے جانے والے کاسمیٹک آپ کی جلد کے لیے اتنے ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جتنے کہ کیمیکل اجزاءسے بنائے گئے کریم ‘ لوشن اوردیگر میک اپ کا سامان۔ خواتین اکثر وبیش تر جھریاں‘جھائیاں اور کیل مہاسوں سے پریشان دکھائی دیتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر روز نئی نئی کریمیں بھی آزماتی رہتی ہیں ایسی تمام غیر معیاری کریمیں جلد کی بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہیں ۔

    جن میں سے ایک الرجی ہے اس لیے کسی بھی کریم کو استعمال کرنے سے پہلے اس کے معیارکے بارے میں ضرور معلومات حاصل کریں ۔ اکثر کریموں کی خوشبو بھی الرجی کا سبب ہوتی ہے جس کا اندازہ عموماً خواتین کو نہیں ہوپاتا۔ وہ کریم استعمال کرنے کے بعد مسلسل خارش‘ جلن اوردیگر پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتی ہیں اور یہ سمجھ ہی نہیں پاتیں کہ ان کی اس تکلیف کی وجہ کریم کی خوشبو بھی ہوسکتی ہے ۔

    خواتین اکثر یہ غلطی بھی کرتی ہیں کہ اپنی جلد کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے مختلف گھریلو ٹوٹکے بھی اپناتی ہیں وہ بنا سوچے سمجھے ہر ٹوٹکا آزمالیتی ہیں ۔ یہ ٹوٹکے بہرحال اثر دکھاتے ہیں مگر چونکہ ہر جسم ایک علیحدہ ساخت رکھتا ہے اوراس کی ضروریات بھی مختلف ہوتی ہیں یوں ہر ٹوٹکا آزمانے سے بیماری مزید بگڑ سکتی ہے ۔

    اگرگھریلو ٹوٹکوں سے ہی علاج کرنا مقصود ہو تو پہلے ان ٹوٹکوں میں استعمال ہونے والے اجزاءکا اچھی طرح جائزہ لیں اوراس بات کا یقین کرلیں کہ ٹوٹکے میں استعمال ہونے ولے اجزاءکو برداشت کرنے کی طاقت آپ کے جسم میں موجود ہے ۔

    بہتر یہ ہے کہ کسی بھی جلد کی بیماری کا خود علاج کرنے کے بجائے پہلے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرلیاجائے تاکہ کسی نقصان کااندیشہ باقی نہ رہے۔ غیر معیاری اورسستی کریمیں استعمال کرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے چہرہ جھلس گیا ہو یہ کریمیں چہرے کی اندرونی جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں ۔

    کچھ کریمیں چہرے کی اندرونی جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں کچھ کریمیں تو اس حد تک خطرناک ہوتی ہیں کہ ان سے جلد کے کینسر کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ خواتین سب سے زیادہ ان کریموں سے متاثر ہوتی ہیں جو کم وقت میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ کریں۔

    اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق کامطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مصنوعی طورپر کسی کی رنگت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر کوئی کریم یہ دعویٰ کرے کہ وہ کم وقت میں رنگ گورا کرسکتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ۔ بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو یہ وقتی ثابت ہوگا۔

    جیسے ہی کریم کا استعمال بند ہوگا ۔ رنگت دوبارہ سے اپنی پرانی ڈگر پرآجائے گی اورمختلف بیماریاں بھی سراٹھانے لگیں گی ۔ رنگ گورا کرنے والی کریموں میں فارمولا کریمیں بے حد مشہور ہیں۔ یہ کریمیں کس فارمولا کے تحت بنائی جاتی ہیں ۔یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن ان کریموں کے استعمال سے ہونے والے نقصان سے اکثرخواتین واقف ہوں گی ۔

    فارمولا کریم سے چہرے کی کھال اترنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کریمیں نشے کی طرح ہیں جب تک ان کا استعمال جاری ہے یہ آپ کے حق میں بہتر ہیں لیکن جیسے ہی آپ نے ان کو استعمال کرنا بند کیاآپ کے چہرے پردانے نکلنا شروع ہو جائیں گے یا پھر اس سے دوسری بیماری کا خدشہ بھی رہتا ہے ۔

    موجودہ دور میں بے شک کاسمیٹک پروڈکٹ کااستعمال ترک نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن ان کی خریداری میں احتیاط بہت سے جلدی مسائل سے بچا جا سکتی ہے۔