Tag: بیکٹیریا

  • آسٹریلیا میں مٹی کے بیکٹیریا سے 14 افراد ہلاک

    آسٹریلیا میں مٹی کے بیکٹیریا سے 14 افراد ہلاک

    آسٹریلیا میں مٹی میں پائے جانے والے خطرناک بیکٹیریا سے 14 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملیؤڈوسس نامی بیماری مٹی یا کیچڑ میں پائے جانے والے بیکٹیریا سے پھیلتی ہے، عام طور پر یہ بیکٹیریا شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آسٹریلیا میں کوئنز لینڈ کے کچھ حصوں میں رواں ماہ 59 انچ سے زائد بارش سے سیلابی صورتِ حال پیدا ہوئی تھی۔

    واضح رہے کہ رواں سال اب تک 94 افراد اس بیکٹیریا سے متاثر ہو چکے ہیں، یہ بیماری سانس کے ذریعے یا خون میں شامل ہو کر پھیلتی ہے۔

    دوسری جانب امریکا کی ریاست ٹیکساس میں بچوں میں خسرہ کی وباء مسلسل پھیل رہی ہے، لوگوں کی بڑی تعداد اسپتالوں کا رخ کررہی ہے۔

    امریکی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ریاست ٹیکساس میں سب سے پہلے 5 فروری کو خسرہ کی وباء کی تصدیق کی گئی تھی جس کے بعد سے بچوں میں کیسز مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ بچوں میں پھیلنے والے خسرہ کے کیسز کی تعداد بڑھ کر 58 تک پہنچ گئی ہے، زیادہ تر کیسز کا شکار ہونے والے بچے ہیں، جبکہ 6بالغ افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔

    افریقی ملک میں ہیضے کی وباء پھیل گئی، 108 افراد ہلاک

    حکام کے مطابق متاثرہ 13 مریضوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جن میں سے 4 کی ویکسینیشن ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

  • Tardigrade:‌ وہ جاندار جو روئے زمین پر ہولناک تباہی کے باوجود زندہ بچ سکتا ہے!

    Tardigrade:‌ وہ جاندار جو روئے زمین پر ہولناک تباہی کے باوجود زندہ بچ سکتا ہے!

    آج کا انسان گویا ترقی کی معراج پر ہے۔ خلا کی وسعتوں‌ سے زمین کی انتہا تک، سمندر کی گہرائی سے پربتوں کی بلندی تک دریافت اور ایجادات کا سلسلہ جاری ہے، لیکن کائنات آج بھی اس کے لیے معما ہے۔ انسان اس عجائب خانۂ قدرت میں قدم قدم پر خود کو حیران و ششدر پاتا ہے۔

    روئے زمین پر بسنے والی مخلوقات میں‌ اگر ہم صرف خرد بینی جاندار ہی کی بات کریں تو ان کی اقسام کا شمار ممکن نہیں۔ عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے یہ جاندار شاید لاکھوں کی تعداد میں‌ ہمارے ساتھ اور اس ماحول میں‌ موجود ہیں، یا پھر کروڑوں یا شاید اربوں ایسے جاندار اس کائنات کا حصّہ ہیں جن میں‌ اکثر کے وجود سے انسان اب تک لاعلم ہے، لیکن ہم بات کررہے ہیں‌ Tardigrade کی جس سے انسان کا ابتدائی تعارف 1773 میں‌ ہوا تھا۔

    یہ ایک مائیکرو اسکوپک (خرد بینی) جاندار ہے جس کا مسکن جوہڑ اور تالاب کا سبزہ، خشک اور گیلے پتّے، پودے اور ندی نالے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کا حجم تقریباً ایک ملی میٹر ہوتا ہے جس میں تقریباً 40 ہزار خلیات ہوتے ہیں، اور قد کاٹھ میں‌ یہ عام بیکٹیریا جیسا ہوتا ہے۔

    خرد حیاتیات کے ماہرین کے مطابق یہ دنیا کے سخت ترین جانداروں میں‌ سے ایک ہے جو 150 درجہ حرارت سے لے کر 200 تک برداشت کرسکتے ہیں۔ 1983 میں جاپان میں محققین نے‌ اس جاندار پر تجربات کے دوران اسے برف میں محفوظ کردیا اور 32 سال بعد دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ جاندار زندہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بغیر کھائے پیے کئی سال تک اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھنے والے جانداروں‌ میں‌ سے ایک ہے۔

    سائنسی تجربات کے دوران معلوم ہوا کہ Tardigrade خلا میں بھی رہ سکتے ہیں۔ 2007 میں اس حوالے سے سائنسی تحقیق کے دوران جب اس جاندار کی دو اقسام کو خلا میں چھوڑا گیا تو ان میں‌ سے ایک تہائی زندہ رہی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ جاندار عملِ تولید بھی کرتے ہیں اور ان کی مادّہ انڈے دیتی ہے۔ اس کی تقریبآ 1300 اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ خرد حیاتیات کے ماہرین کے مطابق ان کی بعض اقسام کی خوراک چھوٹے بیکٹیریا، یک خلوی پودے، سبزہ ہیں‌ جب کہ بعض‌ اپنے ہی خاندان کے خود سے چھوٹے جانداروں‌ کو ہڑپ کرجاتے ہیں۔ کئی سال تک بغیر کھائے پیے زندہ رہنے والے اس جاندار کی مختلف اقسام دنیا کے ہر کونے میں پائی جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتنے سخت جان ہیں‌ کہ دنیا کی تباہی کے بعد بھی اگر کوئی جاندار زندہ بچ سکتا ہے تو وہ Tardigrade ہی ہوگا۔ پہلی بار دنیا کو اس جاندار سے متعارف کروانے والے سائنس داں نے اسے little water bear کہا تھا، لیکن 1777 میں‌ ایک حیاتیاتی ماہر نے اسے Tardigrada کا نام دیا جس کا مطلب ہے، سست رو۔

  • کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    جرمن ماہرین نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، اگر انسان مریخ پر جائے گا تو وہاں بھی وہ بیکٹیریا زندہ رہیں گے اور بیماری کا سبب بنتے رہیں گے۔

    جرمن ایرو اسپیس سینٹر کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں رہنے والے چند ایسے بیکٹیریا ہیں، جو جسم پر زیادہ دباؤ پڑنے سے بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، چناں چہ مریخ پر یہ بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ وہاں ان کی نشوونما بھی ممکن ہے۔

    ایسٹرو بائیولوجی نامی سائنسی جریدے میں جنوری 2024 میں ایک ریسرچ شائع ہوئی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ انسانوں میں متعدد امراض کا سبب بننے والے 4 ایسے مائکروبز (جرثومے) ہیں جو مریخ کے شدید ماحول میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور نشوونما بھی پا سکتے ہیں۔

    جرثوموں کی یہ صلاحیت جانچنے کے لیے جرمن ایروسپیس سینٹر کے سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی طور پر مریخ کا ماحول تیار کر کے تجربات کیے، جس سے مذکورہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سائنس دان ایک عرصے سے مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں، اور دنیا بھر کی اسپیس ایجنسیاں مریخ کی جانب مشن روانہ کر رہی ہیں تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔ اس ڈیٹا سے لیباٹریز میں تجربات کر کے یہ معلوم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ انسان مریخ کے شدید ماحول اور انتہائی کم درجہ حرارت میں کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔

    محققین کے مطابق مریخ زمین سے نسبتاً قریب ہے اور مریخ کا ایک دن زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے، اس لیے سائنس دان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیوں کے قیام میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں حالاں کہ مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورت حال بھی نامناسب ہے، جنھیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ توماسو زکاریا کے مطابق لیبارٹری میں مریخ کا مصنوعی ماحول تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے پانی کی عدم موجودگی، ہوا کا انتہائی کم دباؤ، سورج کی جھلسا دینے والی الٹرا وائلٹ تابکار شعاؤں اور مہلک زہریلی نمکیات کو مصنوعی طریقے سے اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔

    انسانی جسم میں چار عام بیکٹیریا رہتے ہیں، جو یوں تو بے ضرر ہیں لیکن بیرونی عوامل یا دباؤ کے زیر اثر ہمارے لیے مہلک ثابت ہوتے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، مریخ کے تیار کردہ مصنوعی ماحول میں ان بیکٹیریا پر بار بار تجربات کیے گئے، حیرت انگیز طور پر یہ مائیکروبز نہ صرف اس شدید ماحول میں زندہ رہے بلکہ مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی یا ریگولتھ میں نشوونما بھی کی۔

    محققین کے مطابق بیکٹیریا انتہائی سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں، جو زمین پر اربوں سالوں سے موجود ہیں، اس لیے مریخ یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچے پر تحقیق کے لیے بیکٹیریا موزوں ترین سمجھے جاتے ہیں۔ جب بیکٹیریا کی کالونیوں کو مصنوعی مریخ کی مٹی میں رکھا گیا تو بیکٹیریا زہریلے اثرات سے مرے نہیں چار میں سے تین قسم کے بیکٹیریا زندہ رہے اور 21 دن تک ان کی نشوونما بھی نوٹ کی گئی۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کم زور مدافعتی نظام والے خلا باز مریخ پر بیماریوں کا شکار جلد ہوں گے، اس لیے انھیں اپنے ساتھ بہت سی ادویات ساتھ لے جانا ہوں گی، اور ان جرثوموں کا مریخ میں زیادہ خطرناک بن جانا بھی قرین قیاس ہے۔

  • موذی مرض جذام سے کیسے بچا جائے؟

    جذام جیسی موذی مرض بیکٹیریا اور جراثیم سے پھیلتی ہے۔

    ’جذام‘ جسے عام طور پر ’کوڑھ‘ بھی کہا جاتا ہے اس متعدی مرض کا شمار دنیا کی قدیم ترین بیماریوں میں ہوتا ہے اور ایک زمانے میں اس مرض میں مبتلا افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ایسے افراد کو سماج سے الگ کردیا جاتا تھا۔

    جزام ایکسپرٹ ڈاکٹر مطہر ضیاء نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ بیکٹیریا سے پھیلنے والی بیماری ہے، اور یہ ہوا سے زریعے  پھیلتی ہیں۔

    ڈاکٹر مطہر کا کہنا تھا کہ یہ ناک کے زریعے جسم میں داخل ہوتی ہے، جس کے بعد یہ جلد، بازو اور ٹانگوں کی مخصوص نسوں پر اثر کرتی ہے۔

    اس بیماری کی علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا ہونے والے شخص کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے اس میں پیپ پڑجاتی ہے اور بعض اوقات انسانی گوشت اس سے متاثر ہوتا ہے اور مرض سے بدبو بھی آتی رہتی ہے۔

    جزام ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی علامت ظاہر ہونے میں دو سے پانچ سال یا 20 سال کا وقت بھی لگ سکتا ہے، تاہم جلد میں نشان ہوجاتی ہے۔

    اگر آپ کو اپنے جسم پر جذام سے متعلق علامات نظر آئیں تو آپ بنیادی نگہداشت کے ڈاکٹر سے مشورہ کر سکتے ہیں، ڈاکٹر آپ کو جذام کے ماہر، جنرل فزیشن، یا ڈرمیٹالوجسٹ کے پاس بھیج سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس موذی بیماری کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں برازیل اور انڈونیشیا میں ہے، تاہم پاکستان میں اس کی تعداد بہت کم ہے۔

  • اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال کا خوفناک نقصان

    اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال کا خوفناک نقصان

    دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال بے حد عام ہوچکا ہے، لیکن حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ اس کا خوفناک نقصان سامنے آرہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ سال 2020 میں دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک کے غلط یا زیادہ استعمال سے بیکٹیریاز کے طاقتور ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس سے انفیکشن مزید طاقتور ہوگئے۔

    ادارے کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے 87 ممالک سے حاصل کیے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے غلط یا زیادہ استعمال سے انفیکشن بڑھ گئے، جس سے بیماریاں شدید ہوگئیں۔

    رپورٹ کے مطابق ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور متوسط ممالک میں اینٹی بائیوٹک کے غلط یا زیادہ استعمال سے بیکٹیریاز اور انفیکشن طاقتور ہوگئے، جن پر اینٹی بائیوٹک دوائیاں بھی اثر نہیں کر رہیں بلکہ الٹا انفیکشن بڑھ رہے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں بیکٹیریاز اور انفیکشنز کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت 50 فیصد تک بڑھ گئی، یعنی ان پر دوائیاں اثر نہیں کر رہی تھیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کلیبسیلا نمونیہ جیسے انفیکشنز سمیت جنسی عمل سے ہونے والے انفیکشن کے علاوہ دیگر انفیکشنز پر بھی اثر انداز نہیں ہو رہیں۔

    عالمی ادارے کے مطابق یہاں تک انفیکشنز اور بیکٹیریاز پر لاسٹ ریزورٹ اینٹی بائیوٹک ڈرگس یعنی ایڈوانس سطح کی اینٹی بائیوٹک بھی اثر دکھانے میں ناکام رہیں۔

    عالمی ادارہ صحت نے بیکٹیریاز اور انفیکشن کے طاقتور ہونے اور ان کی جانب سے اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے کو غلط یا زیادہ اینٹی بائیوٹک استعمال سے جوڑا ہے۔

    ادارے نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا کہ وہ انفیکشنز اور بیکٹیریاز کے طاقتور ہونے اور ان سے نمٹنے کے لیے ادویات کے ڈیٹا کی دستیابی کو یقینی بنائیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 کے مقابلے میں 2020 میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے باوجود بیکٹیریاز اور انفیکشنز میں 15 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مجموعی طور پر کرونا کے پہلے سال اینٹی بائیوٹک کے خلاف بیماریوں کی مزاحمت 50 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

  • مچھر کے کاٹنے سے کوما؟ کیا کوئی نئی بیماری سامنے آگئی

    مچھر کے کاٹنے سے کوما؟ کیا کوئی نئی بیماری سامنے آگئی

    مچھر کے کاٹنے کے بعد جرمنی کا ایک 27 سالہ شخص کوما میں چلا گیا جس کے بعد اس کی 30 سرجری کی گئی۔

    یہ واقعہ جرمنی کے شہر روڈرمارک میں رونما ہوا جہاں جرمن شخص مچھر کے کاٹنے کے بعد چار ہفتے تک کوما میں رہا۔

    ڈاکٹرز کے مطابق نوجوان جگر، گردے، دل پھیپھڑوں سمیت مختلف بیماریوں کا شکار تھا، اسی دوران اس کے ران کا آپریشن بھی کیا گیا۔

    27 سالہ جرمن شخص سیباسٹین نے بتایا کہ میں نے کبھی بیرون ملک کا دورہ نہیں کیا، مجھے لگتا ہے یہ ایشیا ٹائیگر نے نہیں بلکہ یہی مچھر نے کاٹا ہے۔

    سیباسٹین کا کہنا تھا کہ 2021 کے موسم گرما میں مچھر نے کاٹا تھا جس کے بعد مجھے فلو ہوا تھا، پھر میری بیماری میں اضافہ ہوا اور میں بستر میں پڑ گیا، مجھے بخار تھا میں کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا۔

    اس نے مزید بتایا اسی دوران ایک دن میں نے دیکھا کہ میری بائیں ران میں ایک بڑا پھوڑا بن گیا ہے، ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کے لیے ٹشو کا نمونہ لیا جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ’سیراٹیا مارسیسنس‘ نامی بیکٹیریا نے ران کا آدھا حصہ کھا لیا ہے۔

    اس کے بعد ڈاکٹرز اس فیصلے پر پہنچے کے یہ مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے ہوا ہے، جس کے بعد ماہرین کی مدد لی گئی۔

    سیباسٹین کے 30 سے زیادہ آپریشن ہوئے اس دوران اس کی 2 انگلیوں کو جزوی طور پر کاٹ دیا گیا، جس کے بعد اب وہ ٹھیک ہے۔

    اس کے بعد اس شخص نے دوسروں کو تنبیہ کی اور کہا کہ صحیح وقت پر ڈاکٹرز کے پاس چلے جانا چاہیے، کیوںکہ ایک چھوٹا سا ڈنک بھی جان لیوا ہو سکتا ہے۔

    تاہم ڈاکٹرز نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ سیباسٹین کے دیگر بیماریوں کی وجہ کیا تھی، لیکن ڈاکٹر نے یہ کہا کہ ران میں پھوڑ کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہی ہے، دوسری جانب یہ بھی واضح نہیں کہ اسے کس مچھر نے کاٹا تھا۔

  • پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے اور ماہرین اس سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے اس بیکٹیریا کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا جو سمندر پر تیرتے پلاسٹک پر ہوتا ہے۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے سمندر میں تیرتے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر موجود اینٹی بائیوٹک بنانے والے 5 بیکٹیریا کو علیحدہ کیا اور ان کی متعدد بیکٹریل اہداف کے خلاف آزمائش کی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ یہ اینٹی بائیوٹکس عام بیکٹیریا کے ساتھ اینٹی بیکٹیریا کی مزاحمت کرنے والے سپر بگ کے خلاف بھی مؤثر تھے، سپر بگ بیماریاں پھیلانے والے ان بیکٹیریا کو کہتے ہیں جو بہت کم ادویہ سے ختم ہوتے ہیں اور ان کی ادویات سے مزاحمت بڑھ کر جان لیوا ہوچکی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہر سال 50 سے 1 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں شامل ہوتا ہے جس میں پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے لے کر مائیکرو پلاسٹکس تک شامل ہوتے ہیں۔

    حیاتیات اس پلاسٹک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنے لیے پورا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

    جہاں اس بات کے تحفظات ہیں کہ پلاسٹک کے اوپر اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا بن سکتے ہیں وہیں کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو نئی اینٹی بائیوٹکس بنانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

    یہ اینٹی بائیوٹکس مستقبل میں سپر بگ جیسے اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے خلاف استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش

    ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش

    واشنگٹن: طبی سائنس دانوں‌ نے ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بایوفوٹونکس نامی جرنل میں شایع شدہ ایک مقالے میں محققین نے کہا ہے کہ بہت تھوڑی دیر کے لیے اگر سخت جان بیکٹیریا اور جراثیموں پر لیزر شعاعیں ماری جائیں تو وہ مر سکتے ہیں۔

    انھوں نے اس طریقے کو short-term pulse laser (قلیل مدتی پلس لیزر) کہا ہے، اس کے ذریعے ناقابل علاج بیکٹیریا (سپربگز) اور دیگر ایسے جراثیم ختم کیے جا سکتے ہیں جو کسی بھی طرح تلف نہیں ہوتے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے اس طریقے کے ذریعے زخموں کو جراثیموں سے پاک کیا جا سکتا ہے، اور خون کے نمونوں میں بھی بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ چوں کہ یہ عمل ایک مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس سے صحت مند خلیات کو نقصان نہیں پہنچتا۔

    تحقیق سے وابستہ پروفیسر شا وائی ڈیوڈ سین کہتے ہیں کہ ہم لیزر کی بدولت سخت جان بیکٹیریا کو ختم کر کے زخم سے انفیکشن کا خطرہ کم سے کم کر سکتے ہیں، اور خون میں بھی لیزر ڈال کر اسے بیماریوں سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ خون میں جراثیم کا مسئلہ ڈائیلاسز کے مریضوں میں زیادہ پایا جاتا ہے، اب صرف ایک ہی بار پورے خون پر لیزر مار کر اسے صاف ستھرا اور مریض دوست بنانا ممکن ہو گیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اسے مشہور اور بدنام بیکٹیریا ایم آر ایس اے پر آزمایا گیا جس کا پورا نام ملٹی ڈرگ ریسسٹنٹ اسٹیفلوکوکس اوریئس ہے، یہ جلد سے پھیپھڑوں تک کے انفیکشن کی وجہ بنتا ہے۔ دوسری جانب لیزر سے ای کولائی بیکٹیریا کو بھی مارا گیا جو پیشاب کی نالی میں انفیکشن پیدا کرتا ہے۔

    تمام کیسز میں لیزر 99.9 فی صد جراثیم اور بیکٹیریا کو تباہ کر دیتی ہے۔

  • ہمارے جسم کے اندر موجود بیکٹیریا بجلی بھی بنا سکتے ہیں

    ہمارے جسم کے اندر موجود بیکٹیریا بجلی بھی بنا سکتے ہیں

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق آنتوں اور نظام ہاضمہ میں پائے جانے والے کئی بیکٹیریا، دوسری اقسام کے بیکٹیریا سے زیادہ بجلی بناتے ہیں اور ان کی اسی خاصیت سے فائدہ اٹھا کر کئی اہم امور انجام دیے جاسکتے ہیں۔

    اس سے پہلے بھی ایسے کئی بیکٹیریا دریافت ہوچکے ہیں جنہیں الیکٹروجینک یا بجلی بنانے والا کہا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارے نظام ہاضمہ میں لاتعداد اقسام کے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو مفید بھی ہوسکتے ہیں اور مضر بھی، اس فہرست میں ایسے دونوں بیکٹیریا شامل ہیں جو مختلف طریقوں سے بجلی کی ہلکی مقدار خارج کرتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر ڈین نے بتایا کہ اس فہرست میں لسٹیریا اور کلاسٹریڈیئم جیسے بیکٹیریا شامل ہیں جو رگوں کی بیماری گنگرین کی وجہ بنتے ہیں۔ پھر ان میں پروبائیوٹکس سے وابستہ مفید بیکٹیریا کی بھی ایک طویل فہرست شامل ہے۔

    ان کے مطابق اس دریافت سے ان کی کارکردگی، امراض یا کسی فائدے کے بارے میں جاننے میں بہت مدد ملے گی۔

    دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے بدن کے اندر لگے پیوند (گرافٹ) کو بجلی کی فراہمی یا بیکٹیریا پر مبنی بیٹری بنانے میں بھی مدد مل سکے گی جس سے چھوٹے سینسر اور آلات کو چلانا ممکن ہوسکے گا۔

  • زخموں میں انفیکشن روکنے والا نیا مواد تیار

    زخموں میں انفیکشن روکنے والا نیا مواد تیار

    اسٹاک ہوم: سائنس دانوں نے زخموں میں انفیکشن روکنے والا نیا مواد تیار کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے ایک ایسا مواد (نیا ہائیڈرو جل) تیار کیا ہے جو زخموں میں انفیکشن کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے بیکٹیریا کے خلاف بھی کارگر ہوگا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ہائیڈرو جل زخم کے بھرنے اور فوری صحیح ہونے کارگر ثابت ہوا ہے، بالخصوص اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف اس کے کارگر ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔

    یہ نیا مواد سویڈن کی چالمرز یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی کے محققین نے تیار کیا ہے، جو زخموں میں انفیکشن کی روک تھام کرتا ہے، یہ ایک خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہائیڈروجل (hydrogel) ہے، جو ہر طرح کے بیکٹیریا کے خلاف کام کرتا ہے، بشمول اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے والے۔

    یہ نیا مواد اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کے بڑھتے ہوئے عالمی مسئلے سے نمٹنے کے لیے بڑی امید قرار دی جا رہی ہے، عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کو عالمی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

    چالمرز یونی ورسٹی کے شعبہ کیمسٹری و کیمیکل انجینئرنگ کے محقق، پروفیسر مارٹن اینڈرسن کا کہنا ہے کہ مختلف قسم کے بیکٹیریا پر اس نئے ہائیڈروجل کی جانچ کے بعد ہم نے اس کی اعلیٰ سطح کی تاثیر دیکھی، ان بیکٹیریا کے خلاف بھی جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم بن چکے ہیں۔

    اس نئے جراثیم کُش مادے میں فعال مادہ اینٹی مائکروبیل پیپٹائڈز پر مشتمل ہے، اینٹی مائکروبیل پیپٹائڈز چھوٹے پروٹین ہیں جو ہمارے مدافعتی نظام میں قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔

    مارٹن اینڈرسن کے مطابق ان اقسام کے پیپٹائڈز کے ساتھ اس بات کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے کہ بیکٹیریا ان کے خلاف مزاحمت پیدا کر سکیں، کیوں کہ یہ صرف بیکٹیریا کی بیرونی جھلیوں کو ہی متاثر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ محققین طویل عرصے سے پیپٹائڈز کے استعمال کی کوششیں کر رہے ہیں تاہم وہ کامیاب نہیں ہوئے تھے۔