Tag: بیکٹیریا

  • خطرناک بیکٹیریا گھر اور اسپتال کی کن دو جگہوں پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلاتے ہیں؟

    خطرناک بیکٹیریا گھر اور اسپتال کی کن دو جگہوں پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلاتے ہیں؟

    ناروِچ: برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک بیکٹیریا کچن یا اسپتال کاؤنٹرز پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک تحقیقی جریدے PLOS بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک قسم کے بیکٹریا انسانوں کی تیار کردہ کسی جگہ کی سطح جیسے کچن یا اسپتال کے کاؤنٹرز وغیرہ پر اپنے وجود کو برقرار رکھ بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔

    پودوں اور جرثوموں کی سائنس کے ایک آزاد تحقیقی ادارے جان انیز سینٹر (John Innes Centre) کے محققین نے ان وجوہ کا پتا لگایا جس کے نتیجے میں یہ خطرناک بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    ریسرچ کے دوران اُن میکینزمز پر توجہ مرکوز کی گئی جو موقع پرست انسانی پیتھوجین (سوڈومونس ایروگینوسا) کو مختلف مقامات کی سطح پر زندہ رہنے کے قابل بناتے ہیں، اور نقصان دہ بیکیٹریا کو ہدف بنانے کے لیے نئے طریقوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ پیتھوجینک بیکٹیریا مختلف ماحول میں ہر قسم کا دباؤ برداشت کرتے ہیں، اس میں ایک میکینزم شوگر مالیکیول (ٹری ہیلوس) کا ہوتا ہے جو مختلف قسم کے بیرونی دباؤ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، بالخصوص اوسموٹک شاک (یعنی خلیوں کے آس پاس نمک کی مقدار میں اچانک تبدیلیاں)۔

    محققین نے اس تحقیق کے دوران یہ جاننے کی کوشش کہ بیکٹیریا کس طرح بیرونی دباؤ کو برداشت کرتا ہے، اس کے لیے انھوں نے یہ تجزیہ کیا کہ پی ایروگینوسا کس طرح شوگر مالیکیول (یعنی ٹری ہیلوس) میں میٹابولک تعامل کرتا ہے۔

    تجربات سے پتا چلا کہ ٹری ہیلوس یا گلائکوجن راستوں میں سے اگر رکاوٹ آئے تو پی ایروگینوسا کی انسان کی بنائی سطحات پر زندہ رہنے کی صلاحیت نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔

  • دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک صدی قدیم ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو دھات کھاتا ہے، تاحال ماہرین اس کے ٹھوس ثبوت نہیں تلاش کر سکے۔

    یہ بیکٹیریا کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے اور ان کے خیال میں دھات کھانے والا یہ بیکٹیریا ایک صدی سے زائد عرصے سے موجود ہے۔

    یہ جرثومے ایک معدنی دھات کے ساتھ مختلف تجربات کے دوران حادثاتی طور پر دریافت ہوئے۔

    ہوا یوں کہ کیل ٹیک میں انوائرمینٹل مائیکروبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جیرڈ لیڈبیٹر نے اپنے دفتر کے سنک پر مینگنیز لگا ہوا ایک گلاس چھوڑا۔

    کیمپس کے باہر کام کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے دفتر نہ آسکے لیکن جب وہ اپنے دفتر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس گلاس پر سیاہ مواد لگا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آکسڈیسائزڈ مینگنیز تھا اور اس مرکب کو بیکٹیریا نے بنایا تھا۔

    پروفیسر جیرڈ کا کہنا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا بیکٹیریا ہے جو اپنے ایندھن کے طور پر مینگنیز کو استعمال کرتا ہے، یہ ان جرثوموں کا ایک شاندار پہلو ہے کہ وہ ایسے عناصر جیسے دھات جیسی چیزوں کو بھی ہضم کر سکتے ہیں اور اس کی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس نوع سے تعلق رکھنے والے بیکٹیریا زمین میں موجود پانی میں رہتے ہیں، بیکٹیریا پانی میں موجود آلودگی کو صاف کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دریافت ان کو زمین کے عناصر اور زمین کے ارتقا میں دھاتوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    اس سے قبل 1873 میں میرین ریسرچرز اس بیکٹیریا کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن وہ اس کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکے تھے۔

  • انواع و اقسام کی غذا استعمال کریں، طبی تحقیق

    انواع و اقسام کی غذا استعمال کریں، طبی تحقیق

    طبی ماہرین کے مطابق انسانی معدے میں اربوں کھربوں مائکروبز موجود ہوتے ہیں جو جسم کے لیے مفید اور بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    یہ معدے کے نظام کے لیے ضروری اور بعض مقوی غذاؤں کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    انسان کے جسم میں موجود مختلف جراثیم الگ الگ کام انجام دیتے ہیں اور انھیں طبی سائنس نے مختلف گروہوں اور خانوں میں ان کی افادیت اور کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے۔ طبی محققین کے مطابق انواع و اقسام کی غذائیں استعمال کرنا انسانوں کی اچھی صحت کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ ان مائکروبز کا ہر گروہ مختلف قسم کے کھانوں پر زیادہ پھلتا پھولتا ہے اور اس کا ہماری جسمانی صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

    طبی محققین کے مطابق ہمارے جسم سے فاسد مادوں کے اخراج کے ساتھ بہت سے ایسے بیکٹیریا بھی نکل جاتے ہیں جو درحقیقت انسانی جسم کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ اسے بہتر بنانے اور صحت و توانائی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اقسام کی غذا کھائیں۔ یہ طریقہ ہمارے معدے میں پلنے والے بیکٹریا کو بھی پھلنے پھولنے میں مدد دے گا اور وہ مختلف النوع ہوں گے جس کا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔

    ایک طبی تحقیق کے مطابق کوئی فرد جب اپنی نیند کے اوقات تبدیل کرتا ہے تو اس سے بھی معدے کا وہ نظام متأثر ہوتا ہے جو جراثیم سے متعلق ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم میں موجود مائکروبز یا مفید جراثیم کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے غذائی چارٹ یا کسی ماہرِ غذائیت سے مدد لی جائے تو بہتر ہے۔

  • مضرصحت جراثیم کو کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    مضرصحت جراثیم کو کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    انسانی جسم کسی اسٹیٹ آف دی آرٹ سے کم نہیں، مختلف قسم کے پیچیدہ نظاموں پر مشتمل ہمارا جسم ایک ایسا مربوط اور منظم سسٹم ہے جس میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی جھول نہیں ملتا۔

    اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ احسن التخلیق انسانی جسم کو جراثیم کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے بنانے والے کوئی راست اقدام نہیں کیے ہوں گے۔

    drug-post-2

    بیرونی فضاء میں موجود کوئی بھی جرثومہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد اسے بیمار، نحیف اور کمزور کرسکتا ہے اس چیز سے بچنے کے لیے ہمارے خالق نے ایک سبک رفتار اور چابک دست عناصر پر مشتمل ایلیٹ فورس بنا رکھی ہے جو خون کے ذریعے ہمارے پورے جسم میں ہمہ وقت گشت پر رہتے ہیں۔

    drugs

    جی ہاں بات ہو رہی ہے خون میں موجود سفید خلیوں کی جو انسانی جسم کے لیے پولیس فورس کا کام دیتی ہے جب بھی کوئی خطرناک جرثومہ ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہی پولیس فورس جرثومہ کے خلاف جنگ کرتی ہے اور اسے توڑ پھوڑ دیتی ہے جس کے باعث ہم جراثیم کے مضر اثرات سے محفوظ رہ پاتے ہیں اس پورے نظام کو قوت مدافعت بھی کہا جاتا ہے۔

    جب کبھی یہ قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے تو خطرناک جراثیم ہمارے جسم میں پوری تباہ کاریوں کے ساتھ سرائیت کر جاتے ہیں اور یوں ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔

    ایسی صورت حال میں معالجین اینٹی بایوٹک ادویات تجویز کرتے ہیں جو جسم پر حملہ آور مضر جراثیم کو تباہ کر دیتے ہیں، مختلف قسم کے جراثیم کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ قسم کی اینٹی بایوٹک استعمال کی جاتی ہیں تا ہم ان کے سائیڈ ایفیکٹس کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    اینٹی بایوٹک کے بے جا اور بے تحاشا استعمال کی وجہ سے جہاں جسم کی قوت مدافعت مزید کم ہوجاتی ہے وہیں جراثیم بھی اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں جس کے بعد اینٹی بایوٹک موثر نہیں رہی ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں: امریکا میں اینٹی بیکٹریل صابن پر پابندی


    اس دقت کے پیش نظر اب سائنس دانوں نے ایک ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو مضر بیکٹیریا کو کھا جاتا ہے اس طرح خطرناک جراثیم جسم میں پنپ نہیں پاتے گویا سائنس دانوں نے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے کے مصداق مضر جراثیم کو تباہ کرنے کے لیے مفید بیکٹیریا کا استعما ل کیا اس طرح وہ مریض جو اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت رکھتے ہیں اب قابل علاج ہو جائیں گے۔

    drugs-post-1

    سائنس دانوں کے مطابق بیڈیلووِبریو نامی بیکٹیریا تیزی سے تیرنے والا بیکٹیریا ہے جو دوسرے مضر بیکٹریا کے اندر گھس جاتا ہے اور انھیں اندر سے کھانا شروع کر دیتا ہے اور خوراک مکمل کرنے کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو کر مضر بیکٹیریا کے جسم سے باہر نکل آتا ہے۔

    سائنس دانوں نے بیڈیلوویبریو بیکٹیریا کا استعمال شنگیلا نامی مضر بیکٹیریا کے خلاف کیا جوآنتوں کے انفیکشن کا باعث بنتا ہے اور انسان کو فوڈ پوائزنگ سمیت قے اور دست میں مبتلا کردیتا ہے۔کامیاب تجربے میں مشاہدہ کیا گیا کہ بیڈیلوویبریو بیکٹیریا نے مضر بیکٹیریا شنگیلا کو تباہ کردیا جس کے باعث مریض جلد ہی شفایاب ہو گیا۔