Tag: بیگم حضرت محل

  • ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    برصغیر کی تاریخ کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکر و فریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا تھا۔ انھیں ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    اس دور اندیش، بہادر اور غیّور خاتون نے انگریز کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر ہر مذہب کے پیروکاروں کو متحد ہونے کی تلقین کی اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

    بیگم حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ وہ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    ہندوستان پر قبضہ کرتے ہوئے انگریز اودھ کے دربار پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے، لیکن انھیں یہ معلوم نہیں‌ تھا کہ ایک لڑکی راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو جائے گی۔

    تاریخ نے اس لڑکی کو کئی نام دیے مثلاً محمدی خانم، مہک پری، افتخار النساء، راج ماتا، جنابِ عالیہ، لیکن اس لڑکی کا سب سے مشہور نام بیگم حضرت محل تھا۔

    انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ہندوستانی ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کیا اور وہ کلکتہ چلے گئے تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔

    بیگم حضرت محل نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں انگریزوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم اور باحوصلہ ثابت ہوئیں، کیوں کہ وہ پالیسی سازی اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ایک عورت ہونے کے باوجود میدانِ جنگ میں عزم و ہمّت کی مثال قائم کی۔ وہ دو سال تک لڑائی جاری رکھتے ہوئے اپنی افواج کو منظّم اور ان کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کرتی رہیں۔ ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات بڑھ گئیں، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ انگریزوں نے انھیں وظیفہ و شاہانہ طرزِ زندگی اور دوسری مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محروم ہوجانے کے بعد ان کا آزادی کا خواب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور وہیں ان کا مدفن بنا۔

  • جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    تاریخِ ہند کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکروفریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا۔ بیگم حضرت محل کو ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ ایک دور اندیش، بہادر اور غیّور ہندوستانی تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر مسلمانوں اور ہندوﺅں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دیا۔

    حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    مغل سلطنت کی کم زوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کردیا اور انھیں کلکتہ بھیج دیا تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے انگریزوں کو ہندوستان بھر سے باہر نکالنے کی جدوجہد شروع کی۔

    بیگم حضرت محل نے قابض انگریز افواج کو للکارا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں برطانوی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے اتریں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیگم حضرت محل انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم و باحوصلہ نکلیں، وہ پالیسی ساز اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کی اور اپنے عوام کی امنگوں اور امیدوں کا مرکز بنی رہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے انگریزوں سے دو سال تک لڑائی جاری رکھی اور اپنی افواج کو منظّم رکھنے کے ساتھ طاقت میں اضافہ کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مسلسل متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہیں، لیکن ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات کے باعث فوج اور ریاست کی سطح پر مدد اور حمایت کم ہوتی چلی گئی، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ اس موقع پر جب انگریز حکومت نے انھیں مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محرومی کے سبب وہ اپنی آزادی کے خواب کی تکمیل نہ کرسکیں، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے اور ان کے خلاف مہم جوئی جاری رکھی۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی، لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں نہیں‌ گئیں بلکہ ان کے اسی جذبے اور آزادی کے جنون نے ہندوستانی عورتوں کو بھی ہمّت اور حوصلہ دیا اور ہندوستان آزاد ہوا اور اسی سے متاثر ہوکر مسلمان خواتین مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھی ہوئیں اور تحریکِ پاکستان کو کام یاب بنایا۔