Tag: بیگم شائستہ اکرام اللہ

  • یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    تحریکِ آزادی میں فعال کردار ادا کرنے والی شائستہ اکرامُ اللہ نے قیامِ‌ پاکستان کے بعد سفارت کار کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں اور علم و ادب کے میدان میں اپنے زورِ قلم کے لیے بھی پہچانی گئیں۔

    وہ 22 جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ شائستہ اکرام اللہ کے والد حسّان سہروردی ہندوستان میں برطانوی وزیر کے مشیر تھے۔ ان کے شوہر اکرام اللہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی 1932ء میں ہوئی تھی۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اس زمانے کی اپنی یادوں کو تحریری شکل بھی تھی جن میں حقائق بیان کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے یادوں بھری اپنی کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    وہ شائستہ اختر سہروردی کے نام سے شادی سے پہلے افسانے لکھا کرتی تھیں جو اس وقت کے مشہور اور قابلِ ذکر ادبی پرچوں میں شایع ہوتے تھے۔ 1940ء میں وہ لندن یونیورسٹی کی پہلی ہندوستانی خاتون بنیں جس نے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔

    انھیں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جب کہ مراکش میں بحیثیت سفارت کار بھی خدمات انجام دیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ نے افسانوی ادب کو اپنا مجموعہ کوششِ ناتمام کے نام سے دیا، دلّی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے، فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ، لیٹرز ٹو نینا، اور دیگر کتب ان کے ادبی مشاغل کی یادگار ہیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز عطا کیا گیا تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 2000ء کو وفات پائی اور کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں پیوندِ خاک ہوئیں۔

  • تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    بیگم شائستہ اکرام اللہ معروف مصنف اور سفارت کار تھیں۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان میں فعال حصّہ لیا۔

    ان کا وطن کوکلکتہ تھا جہاں وہ حسان سہروری کے گھر میں پیدا ہوئیں جو برطانوی وزیرِ ہند کے مشیر تھے۔ 1932ء میں ان کی شادی جناب اکرام اللہ سے ہوئی جو قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اپنی اس زمانے کی یادوں کو بھی تحریری شکل دی تھی جن میں کئی حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    (پروفیسر مشیر الحسن کی کتاب ’’منقسم قوم کی وراثت‘‘ سے خوشہ چینی)

  • تحریکِ آزادی کی راہ نما اور نام وَر ادیب بیگم شائستہ اکرام اللہ کی برسی

    تحریکِ آزادی کی راہ نما اور نام وَر ادیب بیگم شائستہ اکرام اللہ کی برسی

    بیگم شائستہ اکرام اللہ جدوجہدِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کی راہ نما، سیاسی شخصیت اور کام یاب سفارت کار ہی نہیں‌ بلکہ معروف ادیب بھی تھیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ 22 جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد ہندوستان میں برطانوی وزیر کے مشیر تھے۔ ان کے شوہر اکرام اللہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی 1932ء میں ہوئی تھی۔

    وہ شائستہ اختر سہروردی کے نام سے شادی سے پہلے افسانے لکھا کرتی تھیں جو اس وقت کے مشہور اور قابلِ ذکر ادبی پرچوں میں شایع ہوتے تھے۔ 1940ء میں وہ لندن یونیورسٹی کی پہلی ہندوستانی خاتون بنیں جس نے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔

    وہ بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن اور قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ انھیں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جب کہ مراکش میں بحیثیت سفارت کار خدمات انجام دیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ نے افسانوی ادب کو اپنا مجموعہ کوششِ ناتمام کے نام سے دیا، دلّی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے، فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ، لیٹرز ٹو نینا، اور دیگر تصانیف ان کے قلم کے زور اور ادبی مشاغل کی یادگار ہیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ کو حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نشانِ امتیاز عطا کیا تھا۔ 10 دسمبر 2000ء کو وفات پانے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ کو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔