Tag: بیگم محمد علی جوہر

  • جدوجہدِ آزادی کی راہ نما بیگم محمد علی جوہر

    جدوجہدِ آزادی کی راہ نما بیگم محمد علی جوہر

    بیگم محمد علی جوہر آل انڈیا مسلم لیگ کی وہ راہ نما تھیں جو آزاد وطن کے لیے میدانِ عمل میں آگے آگے رہیں اور اسی عظیم مقصد کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے والے اپنے شوہر کا ساتھ کچھ اس طرح نبھایا کہ وہ مثال بن گیا۔

    قرار داد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حصول کی منظّم تحریک شروع کی تھی، اس میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے بھی نمایاں کردار ادا کیا اور بیگم محمد علی جوہر انہی میں سے ایک ہیں۔

    بیگم محمد علی جوہر مارچ 1947ء میں وفات پاگئی تھیں، لیکن جدوجہد آزادی کی اس خاتون راہ نما کا نام آج بھی تاریخ میں‌ زندہ ہے۔ ان کا اصل نام امجدی بانو تھا اور تعلق ریاست رامپور سے تھا۔ 1902ء میں ان کا تحریک خلافت اور آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔

    1919ء میں جب مولانا محمد علی جوہر کو خلافت تحریک کے سلسلے میں جیل بھیجا گیا تو بیگم محمد علی جوہر عملی سیاست سے منسلک ہوگئیں۔ اسی برس انھوں نے خود بھی قید و بند کی صعوبت اٹھائی اور رہائی کے بعد عملی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہوگئیں اور 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد مسلم لیگی خواتین کو ایک پرچم تلے متحد رکھنے کے لیے کوشاں رہیں۔

    23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انھوں نے ہندوستان کی مسلمان خواتین کی جانب سے قراردادِ لاہور کی تائید میں تقریر کی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے طویل جدوجہد کے بعد پاکستان حاصل کر لیا۔

  • بیگم محمد علی جوہر کی وفات

    بیگم محمد علی جوہر کی وفات

    بیگم محمد علی جوہر تحریکِ آزادی کی نام ور خاتون راہ نما تھیں جنھوں نے خواتین کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا اور خواتین کے دلوں میں آزادی کے جذبے کو اُبھارا۔ وہ ایک نڈر اور سمجھ دار خاتون تھیں جنھوں نے اس وقت کی سیاست میں‌ اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کی یہ خاتون راہ نما 1947ء میں وفات پاگئی تھیں۔

    28 مارچ کو دنیا سے رخصت ہوجانے والی بیگم محمد علی جوہر کا اصل نام امجدی بانو تھا۔ وہ 1885ء میں ریاست رام پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 5 فروری 1902ء کو ہندوستانی مسلمانوں کے خیر‌خواہ اور آزادی کے متوالے اور تحریکِ‌ خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔

    1919ء میں جب مولانا محمد علی جوہر کو تحریکِ‌ خلافت کے حوالے سے جیل بھیجا گیا تو بیگم محمد علی جوہر میدانِ عمل میں اتریں۔ اسی برس انہیں خود بھی قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کرنی پڑی۔ رہائی کے بعد وہ عملی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہوگئیں اور 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد سیاسی میدان میں ان کی نیابت کرنے لگیں۔

    23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انہوں نے ہندوستان کی مسلمان خواتین کی جانب سے قرار دادِ لاہور کی تائید میں تقریر کی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی راہ نما تھیں جنہوں نے اس قرار داد کو قرار دادِ پاکستان کا نام دیا۔ ہندوستانی پریس نے طنز کے طور پر اس نام کو ایسا اچھالا کہ لفظ پاکستان زبان زدِ خاص و عام ہو گیا اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی طویل جدوجہد سے جو وطن حاصل کیا اس کا نام پاکستان رکھا گیا۔

    مسلم لیگ کے تمام بڑے بڑے راہ نما اور خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اُن کی بے حد عزّت کرتے تھے اور اُن کی تجاویز اور آرا کو اہمیت دیتے تھے۔