Tag: بی آر ٹی

  • گرین، ریڈ لائن بس سروس اور پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق تشویش ناک تفصیلات

    گرین، ریڈ لائن بس سروس اور پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق تشویش ناک تفصیلات

    کیا گرین اور ریڈ لائن بس سروس سے کراچی کے شہریوں کی، منی بسوں کی چھتوں پر سفر سے جان چھوٹ جائے گی؟ کیا یہ سروس ٹرام اور سرکلر ریلوے کا متبادل ہو سکتی ہے؟ اس رپورٹ میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوششش کی گئی ہے۔

    دو چشم کشا خبریں

    گرین لائن، بلیو لائن بس سروس کراچی کے ڈھائی کروڑ بدقسمت اور محروم عوام کے لیے کیا راحت اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی؟ اس سوال کے جواب سے قبل دو خبروں کی طرف جاتے ہیں، کچھ عرصہ قبل دو خبریں سامنے آئی تھیں، پہلی یہ کہ یورپی ملک لگزمبرگ ہر طرح کی عوامی ٹرانسپورٹ مفت فراہم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، اور دوسری خبر میں امریکی میگزین بلومبرگ نے کراچی کو عوامی ٹرانسپورٹ کے لحاظ سے دنیا کا بد ترین شہر قرار دے دیا تھا۔

    اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کے صرف 42 فی صد عوام کو خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے، جب کہ مقامی سطح پر ماس ٹرانزٹ کا کوئی بھی منصوبہ فعال نہیں ہے۔

    ان دونوں خبروں پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یورپی ملک جس نے پبلک ٹرانسپورٹ مفت کر دی، وہاں ایک تو عوام کے لیے سفری آسانی پیدا ہو گئی، دوسرا عوام کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا رجحان بڑھا، دوسری جانب کراچی ہے جہاں لاکھوں عوام سستی سواری کو ترس رہے ہیں، عوامی ٹراسپورٹ دستیاب نہ ہونے کے سبب شہری ذاتی سواری کے استعمال پر مجبور ہیں، جس سے سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ  اور ماحول میں آلودگی دونوں بڑھ رہے ہیں۔

    پبلک ٹرانسپورٹ کیا ہے؟

    ہمارے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف بھی واضح نہیں ہے، شاید ہم رکشوں، مزدوں، چنگ چی، ویگنوں کو ہی پبلک ٹراسپورٹ سمجھتے ہیں مگر دراصل پبلک ٹرانسپورٹ ماس ٹرانزٹ کے وسیع منصوبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ، اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

    1981 میں کراچی کی آبادی 54 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور آج متنازعہ مردم شماری کے مطابق 2 کروڑ ہے۔ 1978 میں کچی آبادی 20 لاکھ تھی اور آج ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے زائد ہے۔ 2005 میں نجی گاڑیوں کی تعداد 23 لاکھ 59 ہزار 256 تھی اور2021 جون کی حاصل شدہ رپورٹ میں یہ تعداد 80 لاکھ 60 ہزار تک جا پہنچی ہے۔

    1995 میں جہاں موٹر سائیکلوں کی تعداد 3 لاکھ 61 ہزار 616 تھی، وہیں 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 55 لاکھ 84 ہزار 274 ہو گئی، جب کہ کاروں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب تھی جو 16 لاکھ 6773 ہو گئی ہے۔

    دوسری طرف، گزشتہ 40 برسوں میں کراچی کا شہری پھیلاؤ بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے، گزشتہ 22 برسوں کے دوران کراچی میں عوامی ٹرانسپورٹ یا سڑک کے انفرا اسٹرکچر کے مقابلے میں نجی سواریوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان غیر معمولی تبدیلیوں کے نتیجے میں سڑکوں پر ٹریفک کے رش، روڈ حادثات بالخصوص 55 لاکھ موٹر سائیکلوں کی سڑکوں پر موجودگی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں اور سواریوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات اور ان کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ اور شہر کا فضائی معیار بھی سنگین حد تک متاثر ہوا۔ ان حالات نے شہریوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

    کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالات زار کیا ہے؟

    کراچی میں رکشوں اور ٹیکسیوں کی تعداد شہر کی کل ٹریفک کا 10 فی صد ہے، جو 8 فی صد مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہے، ایک جائزے کے مطابق کراچی شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم 1998 میں 20 ہزار بسوں اور منی بسوں پر مشتمل تھا، آج یہ سکڑ کر صرف 4000 تک آ چکا ہے، جس میں تقریباً 3500 منی بسیں اور 500 بسیں ہیں، جو روزانہ صرف 56 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔

    یہ تعداد روزانہ سفر کرنے والوں کا صرف 42 فی صد ہے، گویا کراچی میں ایک بس کے حصے میں یومیہ 257 مسافر آتے ہیں، اسی طرح 1998 میں ان بسوں کے 200 روٹس تھے جو اب صرف 80 رہ گئے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت زار دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد سے اس نظام میں کوئی جدت نہیں لائی جا سکی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث لوگوں کی اکژیت موٹر سائیکلوں یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 2000 نئی موٹر سائیکلیں اور 1000 نئی گاڑیاں لائی جا رہی ہیں۔ جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے لیے اس وقت 10 ہزار بڑی بسوں کی ضروت ہے۔

    کراچی سرکلر ریلوے، ماضی، حال اور مستقبل

    ماضی میں سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا مؤثر ذریعہ تھا، جس کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچتے تھے لیکن سرکلر ریلوے 1999 میں بند ہو گئی۔ اس کا 43 کلومیٹر طویل ٹریک تجاوزات کی نذر ہو گیا اور کئی مقامات پر تو ریلوے ٹریک کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

    ٹریفک مسائل کے حل کے لیے کراچی کی شہری حکومت  نے 2006 میں جاپانی حکومت کے ایک ادارے جاپان انٹرنیشل کوآپریشن ایجنسی کے تعاون سے سرکلر ریلوے کی احیا کے لیے ایک جامع اور مفصل رپورٹ تیار کرائی، جس کا مقصد سرکلر ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت 43 کلو میٹر ریلوے لائن پر تجاوزات کا خاتمہ، وہاں آباد افراد کی متبادل جگہوں پر منتقلی اور جدید ترین ٹرین سسٹم متعارف کرانا تھا۔ مگر یہ منصوبہ بھی سرکاری تاخیری حربوں اور سرخ فیتے کا شکار ہو گیا۔

    عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک یہاں تک کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی بہت حد تک حکومتیں عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کر نے کی حتی الامکان کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اگرچہ ٹرانسپورٹ آئینی لحاظ سے صوبائی معاملہ ہے، لیکن ملک کی معاشی سرگرمیوں کے اہم مرکز کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری کے لیے وفاقی حکومت بھی ایک بڑے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہے۔

    مسئلے کا حل کیا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی تباہی کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا، جب سرکاری ٹرانسپورٹ کے نظام کو ادارے کی نا اہلی اور کرپشن کے باعث بند کر دیا گیا۔ پہلے کراچی ٹرانسپورٹ اور پھر سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کو بتدریج تباہ و برباد کردیا گیا۔ اگرچہ مختلف حکومتوں نے مختلف  ادوار میں سرکاری سطح پر عوام کے لیے ٹرانسپورٹ بسوں کا اہتمام کیا مگر نتیجہ تباہی و بربادی  ہی نکلا۔ اس کا ایک مظاہرہ بلدیاتی نظام کے تحت شہری حکومت کا سی این جی بسوں کو کراچی کی سڑ کوں پر چلانے کا منصوبہ تھا۔

    50 بسیں منصوبے کے تحت چلائی گئیں مگر یہ منصوبہ بھی بد انتظامی، خرد برد اور نااہلی کا بری طرح شکار ہوا، یہاں تک کہ ان بسوں کے لیے بنائے گئے بس ٹرمینل آج نجی مذبح خانوں، گاڑیوں کی مرمت، رنگ و روغن کرنے والوں، سبزی اور پھل فروشوں، اور بھکاریوں کی آماج گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، جس کے اطراف میں کروڑوں روپے کی مالیت کی سینکڑوں ناکارہ بسیں ایک قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہیں۔

    لیاری ایکسپریس وے، ناقص حکومتی منصوبہ بندی کی بدترین مثال

    ہم یہاں کراچی میں بننے والے لیاری ایکسپریس وے کی مثال لیتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چند ہزار گاڑیوں کے لیے سفر کا وقت کم کرنا تھا، یہ منصوبہ 23 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اس کی تعمیر کے سبب 2 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی، جب کہ المیہ یہ بھی ہے کہ لیاری ایکسپریس وے پر بسوں اور کمرشل گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

    لیکن اس منصوبے پر آنے والی لاگت سے 2 ہزار بسیں چلائی جا سکتی تھیں جو لاکھوں افراد کو سفری سہولت مہیا کر سکتی تھیں۔ آج کی بات کریں تو 42 ارب روپے کی لاگت سے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس کا مقصد سپر ہائی وے پر واقع بڑے تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے سے بھی گاڑی چلانے والے ہی مستفید ہوں گے، جب کہ غریب اور سفری سہولیات سے محروم عوام کے لیے کوئی جامع نظام ہنوز دلی دور است کے مترادف نظر آتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں سے یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہو جاتی کہ کراچی کو ایک مؤثر ٹرانسپورٹ کا نظام درکار ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ موجودہ کراچی میں سفری پریشانیوں کا حل کے سی آر کو بتایا جاتا ہے۔ نجی ٹرانسپورٹ مافیا کے حوالے سے کراچی بس سروس آرگنائزیشن کے سربراہ ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ سرکاری یا پبلک ٹرانسپورٹ کو ناکام کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر یہ کاروبار اتنا منافع بخش ہے تو جن کے پاس آج بھی نجی ٹرانسپورٹ کے پرمٹ ہیں وہ لوگ نئی گاڑیاں کیوں نہیں خرید کر سڑکوں پر لے آتے، حقیقت یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی، ہڑتالوں اور احتجاجوں کے دوران جلائی جانے والی گاڑیوں کا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ ’دوسری طرف جب جلسے جلوس ہوتے تھے تو دو دو تین تین دن کسی کی بھی بس پکڑ لی جاتی تھی جس سے ٹرانسپورٹر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔‘
    کیوں کہ کوئی بھی ’نئی سرمایہ کاری کا رسک اٹھانے کو تیار نہیں، دو ڈھائی کروڑ کون لگائے گا جب کرایہ بھی زیادہ سے زیادہ 50 روپے ہے۔‘

    پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ضروری کیوں؟

    ہمارا ماحول جس تیزی سے بدل رہا ہے، یقیناً اس میں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر ٹریفک میں کمی لائی جائے تو یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ اور عوام میں اس کے استعمال کا رجحان بڑھانے کے لیے مراعات دینا ضروری ہے، جیسا کہ کرائے کم کیے جائیں، عوام کو آگاہی دی جائے کہ وہ ہر صورت ان سہولیات کا استعمال کریں۔

    بی آر ٹی بس سروس بظاہر اچھی ابتدا لیکن

    ہاں یہ ایک اچھا آغاز تو ہے لیکن اس سے شہریوں کی سفری مشکلات میں بہت بڑی تبدیلی نہیں آئے گی، بلکہ اس طرح کے منصوبوں پر ماہرین ایک الگ رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنی رقم میں آپ بی آر ٹیز بنا رہے ہیں اتنے میں آپ کراچی کو تقریباً 20 ہزار بڑی بسیں دے سکتے تھے، جب کہ اس بی آرٹیز سے صرف 6 فی صد مسافر استفادہ کر سکیں گے۔ جب کہ 20 ہزار بسیں بہت بڑے رقبے کو سہولت فراہم کر سکتی ہیں اور ان میں اضافہ بھی آسان ہے۔

  • بی آر ٹی کی کل سے ممکنہ بندش، نگران صوبائی وزیر نے حل پیش کر دیا

    بی آر ٹی کی کل سے ممکنہ بندش، نگران صوبائی وزیر نے حل پیش کر دیا

    پشاور: کل سے ممکنہ طور پر بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) بند ہونے جا رہی ہے، اس بندش کو روکنے کے لیے نگراں صوبائی وزیر کی جانب سے تجویز سامنے آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بی آر ٹی کی کل سے ممکنہ بندش کے تناظر میں نگراں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شاہد خٹک نے حل پیش کر دیا ہے، انھوں نے کہا بی آر ٹی کے مسائل کے حل کے لیے ٹرانس پشاور کو محکمہ ٹرانسپورٹ کے حوالے کیا جائے۔

    نگراں صوبائی وزیر شاہد خٹک نے کہا محکمہ ٹرانسپورٹ نے کبھی بھی بی آر ٹی کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، بی آر ٹی کمپنیوں کو ادائیگیاں شروع سے محکمہ ٹرانسپورٹ کی بجائے ٹرانس پشاور کر رہی ہے۔

    انھوں ںے کہا سابق حکومت نے رولز کے برعکس ٹرانس پشاور کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے حوالے کیا تھا، بی آر ٹی کے معاملات اب بھی ایڈیشنل چیف سیکریٹری دیکھ رہے ہیں، اے سی ایس ٹرانس پشاور کو محکمہ ٹرانسپورٹ کے حوالے کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

    شاہد خٹک کا کہنا تھا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کا کمپنی کے ساتھ صرف ٹرمینل کی لیز کا معمولی مسئلہ ہے جو حل کر لیا جائے گا۔

  • ‘نیب کو بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیسز پر انکوائری سے کون روک رہا ہے؟’

    ‘نیب کو بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیسز پر انکوائری سے کون روک رہا ہے؟’

    پشاور: ہائی کورٹ نے بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیسز پر نیب سے استفسار کیا ہے کہ ان پر کون انھیں انکوائری سے روک رہا ہے، وہ عدالت کو بتا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر مالم جبہ اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ میں شروع ہوئی تو جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ بتائیں بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر کیسز میں انکوائری سے کس نے آپ کو (نیب) روکا ہے۔

    درخواست گزار وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر نیب کو انکوائری رپورٹ جمع کرنے کے احکامات دیے تھے لیکن ابھی تک وہ رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی۔

    پراسیکیوٹر نیب ریاض خان نے عدالت کو بتایا کہ نیا آرڈیننس آیا ہے اس کی روشنی میں اس معاملے کو دیکھیں گے، عدالت ہمیں تھوڑا اور وقت دے۔

    اس پر جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتا دیں بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر کیسز انکوائری سے آپ کو کون روک رہا ہے، نیب جب سب کو ایک جیسا ٹریٹ نہیں کرے تو پھر شک ہو جاتا ہے۔

    جج نے کہا نیب کو طریقے آتے ہیں، جس کو پکڑنا ہوتا ہے اس کو پکڑ لیتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایسا آرڈر جاری کریں کہ نئے آرڈیننس سے نیب کا کام رک گیا ہے۔ جج نے کہا نیب کے کیسز ختم ہوگئے ہیں، جس نے عدالت میں درخواست دی ہے انھیں ان کیسز کی فکر ہے لیکن نیب کو نہیں ہے۔

    علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مالم جبہ کیس کو نیب نے بند کر دیا ہے، یہ کیس محکموں کے درمیان کا معاملہ تھا، ہم نے کہا تھا کہ محکمے مل بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر میں ہم نے انکوائری رپورٹ طلب کی ہے، ایک کیس میں تو انکوائری بھی مکمل ہے اور فائل بھی یہاں سے گئی ہے، لیکن لگتا ہے اس انکوائری پر کوئی بیٹھ گیا ہے۔

    عدالت نے پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ انوسٹیگیشن آفیسر کہاں ہے، اس پر پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ انوسٹیگیشن آفیسر آج نہیں ہے ہم آئندہ سماعت پر رپورٹ جمع کر دیں گے۔

    عدالت نے نیب سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 12 جنوری 2022 تک ملتوی کر دی۔

  • بی آر ٹی میں سفر کے لیے آج سے اہم شرط

    بی آر ٹی میں سفر کے لیے آج سے اہم شرط

    پشاور: بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) میں سفر کے لیے اہم شرط عائد کر دی گئی، آج سے ان بسوں میں سفر ویکسینیشن سرٹیفکیٹ سے مشروط ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان ٹرانس کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی میں سفر کرونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

    آج سے کرونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ دکھا کر ہی بی آر ٹی میں سفر کیا جا سکے گا، ترجمان ٹرانس کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسینیشن سرٹیفیکٹ نہ ہونے پر سفر کی اجازت نہیں ہوگی۔

    ترجمان نے بتایا کہ حکومتی احکامات پر بی آر ٹی میں 20 ستمبر تک ویکسینیشن کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی، جو آج ختم ہو گئی ہے، فیصلے کے مطابق کرونا ویکسینیشن کی ایک ڈوز والے مسافر بی آر ٹی میں سفر کر سکیں گے۔

    پشاور: بی آر ٹی کی کامیابی کے بعد پرانی بسوں کو اسکریپ کرنے کا کام تیزی سے جاری

    واضح رہے کہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ شروع ہونے کے بعد پرانی ویگنوں اور ڈبلیو گیارہ بسوں میں عوامی سواری کا رجحان تقریباً ختم ہوگیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق بی آر ٹی پشاور کا ڈبلیو گیارہ بسیں اور پرانی فورڈ ویگنوں کو کباڑ (اسکریپ) کرنے کا منصوبہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر خان کے مطابق بی آر ٹی جیسے جدید سفری سہولت کے بعد صوبائی دارالحکومت پشاور میں چلنے والی پرانی دھواں چھوڑنے والی بوسیدہ ڈبلیو گیارہ ٹائپ منی بسوں اور ویگنوں کو مرحلہ وار اسکریپ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور اب تک 226 پرانی بسوں اور ویگنوں کو اسکریپ کیا جا چکا ہے۔

  • بی آر ٹی بس میں آگ لگنے کا چوتھا واقعہ، بس سروس معطل کر دی گئی

    بی آر ٹی بس میں آگ لگنے کا چوتھا واقعہ، بس سروس معطل کر دی گئی

    پشاور: بی آر ٹی بس میں آگ لگنے کا چوتھا واقعہ رونما ہو گیا ہے، جس کے بعد بس سروس عارضی طور پر معطل کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ کی ایک بس میں آگ لگنے کا چوتھا واقعہ رونما ہو گیا ہے، ریسکیو ذرایع کا کہنا ہے کہ حیات آباد کے قریب بی آر ٹی بس میں معمولی آگ بھڑک اٹھی، جسے ریسکیو کے فائر فائٹرز نے موقع پر پہنچ کر بجھا دیا، واقعے میں مسافر محفوظ رہے۔

    تاہم ترجمان ٹرانس پشاور نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی آر ٹی بس سروس عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے، بی آر ٹی کی تمام بسوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا، کیوں کہ مسافروں کی حفاظت ادارے کی اوّلین ترجیح ہے۔

    ترجمان ٹرانس پشاور نے بتایا کہ بس بنانے والی کمپنی کی ٹیم مفصل انداز میں تمام بسوں کا جائزہ لے گی، بی آر ٹی کی 2 بسوں میں لگنے والی آگ کی وجوہ پر تفتیش جاری ہے، تمام بسوں کی جامع تحقیقات اور انسپیکشن کی جائے گی۔

    بی آر ٹی پر پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ

    ترجمان محمد عمیر خان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ شہریوں اور مسافروں کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے۔

  • بی آر ٹی پر پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ

    بی آر ٹی پر پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ

    پشاور : بی آر ٹی پر پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ، ابتدائی طورپرڈھائی سوپولیس اہلکارتعینات کئےجائیں گے، توڑپھوڑ اور سیکیورٹی گارڈز پر تشدد کے بعد پولیس تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی آپریشن پشاور منصور امان نے بی آر ٹی پر پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا ، توڑپھوڑ اور سیکیورٹی گارڈز پر تشدد ہونے کے بعد پولیس تعیناتی کا فیصلہ کیاگیا، ابتدائی طورپرڈھائی سوپولیس اہلکارتعینات کئے جائیں گے۔

    منصور امان کا کہنا ہے کہ بی آرٹی سینٹرل کمانڈ اسٹیشن پر بھی پولیس تعینات ہوگی، رش کےباعث عارضی طورپرپولیس کی تعیناتی کافیصلہ کیا گیا۔

    یاد رہے 2 روز قبل وزیراعظم عمران خان نے بی آرٹی منصوبے کاافتتاح کیا تھا، بی آرٹی منصوبہ 27کلومیٹر طویل ہے جو 30اسٹیشنز پر مشتمل ہے، ٹریک کی کل لمبائی 27 کلومیٹر ہے اور ابتدائی طورپر220 ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلیں گی۔

    30اسٹیشنزکےعلاوہ متصل روٹس کیلئے 5سڑکوں کانیٹ ورک بنایاگیاہے، بی آرٹی کا فی اسٹاپ کرایہ 10روپے جبکہ مکمل سفر کا کرایہ50 روپے ہے جبکہ بسوں میں انٹرنیٹ اور موبائل چارجنگ کی سہولت بھی موجود ہے۔

    بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی پاکستان کا سب سے بہترین میٹروبس پراجیکٹ ہے، انشااللہ بی آرٹی منصوبہ عام آدمی کیلئے ایک نعمت بنے گا، پہلی بار پاکستان میں ہائبرڈ بسیں آئی ہیں ، ان بسوں کی بدولت پشاور میں آلودگی میں کمی آئے گی۔

  • وزیر اعظم 13 اگست کو بی آر ٹی افتتاح کریں گے

    وزیر اعظم 13 اگست کو بی آر ٹی افتتاح کریں گے

    پشاور: وزیر اعظم عمران خان 13 اگست کو بی آر ٹی (بس ریپڈ ٹرانزٹ) کا افتتاح کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم تیرہ اگست کو خود بی آر ٹی کا افتتاح کریں گے، اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان بھی موجود ہوں گے۔

    پشاور سے اے آر وائی نیوز کے نمائندے شہزاد محمود کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت کے فلیگ شپ منصوبوں میں شامل بی آر ٹی مکمل ہو چکا ہے، یہ پشاور شہر کے باسیوں کے لیے سفری سہولیات پر مبنی عالمی معیار کا منصوبہ ہے۔

    یہ منصوبہ خیبر پختون خوا کے واحد میٹرو پولیٹن شہر پشاور کے لیے معاشی سرگرمیوں اور خوش حالی کے نئے دور کا آغاز بھی ثابت ہوگا، اس منصوبے کے لیے ماحول دوست ہائبرڈ بسوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

    بی آر ٹی اسٹیشن

    اس منصوبے کا مخصوص کوریڈور 27 کلو میٹر پر مشتمل ہے، کرائے کی وصولی کے لیے ایک خود کار نظام وضع کیا گیا ہے، مسافروں کو بسوں اور اسٹیشنز پر بہترین سہولیات میسر ہوں گی۔

    بی آر ٹی بس کا انٹرنس، خواتین کا سیکشن

    سہولیات میں مفت وائی فائی کی سہولت بھی شامل ہے، بس اسٹیشنز میں مسافروں کی سہولت کے لیے خود کار برقی سیڑھیاں اور لفٹس بھی لگائی گئی ہیں، معذور اور معمر افراد کے لیے بھی مخصوص سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

    بی آر ٹی منصوبے سے شہر سے خستہ حال بسوں کا خاتمہ ممکن ہوگا، اگر دیگر ٹرانسپورٹ نے بی آر ٹی منصوبے کا روٹ استعمال کرنے کی کوشش کی تو ان پر جرمانہ ہوگا، بی آر ٹی منصوبے کے سفری کارڈ کی وصولی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    خیال رہے کہ بی آر ٹی منصوبہ 200 سے زائد بسوں پر مشتمل ہے۔

  • بی آر ٹی منصوبے کو 3 ماہ بعد مستقل پراجیکٹ ڈائریکٹر مل گیا

    بی آر ٹی منصوبے کو 3 ماہ بعد مستقل پراجیکٹ ڈائریکٹر مل گیا

    پشاور: بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کو 3 ماہ بعد مستقل پراجیکٹ ڈائریکٹر مل گیا، کے پی حکومت نے ظفر علی شاہ کو ڈی جی پی ڈی اے تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق 3 ماہ سے ظفر علی شاہ کے پاس ڈی جی پی ڈی اے کا اضافی چارج تھا، تاہم اب انھیں مستقل طور پر پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا ہے۔

    سرکاری ذرایع کا کہنا تھا کہ محکمہ بلدیات نے ظفر علی شاہ، مطیع اللہ خان اور عطا الرحمان کے نام بھجوائے تھے، وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے ڈی جی پی ڈی اے کے لیے ظفر علی شاہ کے نام کی منظوری دے دی۔

    30 جون 2020 کو بی آر ٹی منصوبہ مکمل کر لیں گے، وزیر ٹرانسپورٹ

    ڈی جی پی ڈی اے کے نام کی منظوری آج کے پی کابینہ سے بھی لی جائے گی۔ خیال رہے کہ بی آر ٹی منصوبے کے دوران پی ڈی اے کے 3 ڈی جیز کو ہٹایا جا چکا ہے۔

    گزشتہ ماہ وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد نے کہا تھا کہ 30 جون 2020 تک بی آر ٹی منصوبہ مکمل کر لیں گے، ٹھیکے دار کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے، وقت پر کام مکمل ہو جائے گا، اگر کام وقت پر مکمل نہیں کیا گیا تو جرمانہ عائد کریں گے۔

    اس سے قبل ایف آئی اے نے پشاور میں ہائی کورٹ کے حکم پر بی آر ٹی منصوبے کی انکوائری شروع کی تھی، تاہم رواں ماہ کے آغاز میں سپریم کورٹ نے بی آر ٹی پشاور کی تحقیقات کے حکم پر عمل درآمد روک دیا تھا، اور منصوبے کی لاگت اور تکمیل کی تفصیلات طلب کر لی تھیں۔ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے معاملہ جوں کا توں رکھنے کا حکم بھی دے دیا تھا۔

  • بی آر ٹی منصوبہ: پشاور ہائی کورٹ نے منصوبہ بندی نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کر دیا

    بی آر ٹی منصوبہ: پشاور ہائی کورٹ نے منصوبہ بندی نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کر دیا

    پشاور: بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل کے سلسلے میں تاخیر پر پشاور ہائی کورٹ نے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے سوال کر لیا، جسٹس قیصر رشید نے استفسار کیا کہ منصوبے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قیصر رشید نے پی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا کہ بی آر ٹی مسئلہ کب حل ہو رہا ہے؟

    کیس کے سلسلے میں عدالت کے سامنے ڈی جی پی ڈی اے، سی ای او ڈبلیو ایس ایس پی، اور چیف انجینئر پی ڈی اے پیش ہوئے۔

    پشاور ہائی کورٹ نے تینوں اعلیٰ حکام کو شہر کا دورہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بارش میں شہر کا دورہ کریں، آپ کو عوامی مسائل کا اندازہ ہوگا، جہاں نکاس آب کا مسئلہ ہے اس کو حل کریں۔

    جسٹس قیصر رشید نے پوچھا ڈی جی پی ڈی اے بتائیں بی آر ٹی مسئلہ کب حل ہو رہا ہے؟ اس منصوبے کی تکمیل میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ ڈی جی پی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے بس 3 دن قبل ہی عہدے کا چارج سنبھالا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بی آر ٹی منصوبہ، پیپلزپارٹی نے پرویزخٹک کیخلاف نیب میں درخواست جمع کرا دی

    جسٹس قیصر نے استفسار کیا کہ بارش کا پانی سیلاب کی طرح بہتا ہے، کیا بی آر ٹی کا نتیجہ عوام کو ملے گا؟ چیف انجینئر نے جواب دیا کہ وہ ابھی نکاسی آب کے لیے نالے بنا رہے ہیں، اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

    جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ چیف انجینئر صاحب آپ کو پہلے پتا نہیں تھا نکاسی آب کا؟ کیا اب دوبارہ سڑکیں کھو دیں گے، افسوس کہ آپ لوگوں نے پہلے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔

    دریں اثنا عدالت نے متعلقہ حکام کو ڈیڑھ ماہ میں نکاسی آب کا مسئلہ حل کرنے کا حکم جاری کیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 12 جون تک ملتوی کر دی گئی۔

  • بی آر ٹی بسوں کے حوالے سے غلط پروپیگنڈا ہو رہا ہے: وزیر اطلاعات کے پی

    بی آر ٹی بسوں کے حوالے سے غلط پروپیگنڈا ہو رہا ہے: وزیر اطلاعات کے پی

    پشاور: خیبر پختون خوا کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسف زئی نے کہا ہے کہ بی آر ٹی روٹس پر چلنے والی بسوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی حکومت کے وزیر اطلاعات و تعلقات عامہ نے بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی روٹس پر چلنے والی بسوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈے کی تردید کر دی ہے۔

    شوکت علی یوسف زئی نے اس حوالے سے کہا کہ زو بسیں (12 میٹر لمبی) ہر لحاظ سے جدید ترین بسیں ہیں، ان بسوں میں دونوں اطراف پر دروازے بنائے گئے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بسوں کے حوالے سے غلط اور بے بنیاد خبریں گردش کر رہی ہیں، زو بسیں بی آر ٹی روٹ کے ساتھ ساتھ باڑہ روڈ، کوہاٹ روڈ اور چارسدہ روڈ وغیرہ کے فیڈر روٹس پر چلائی جائیں گی۔

    یہ بھی پڑھیں:  بی آر ٹی منصوبہ، جس نے غلطی کی اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے: پرویز خٹک

    وزیر اطلاعات نے کہا کہ فیڈر روٹس پر زیادہ رش ہونے کی وجہ سے بسوں کی بائیں اطراف کے دروازے استعمال ہوں گے کیوں کہ ٹریفک بائیں جانب چلتی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی روٹ پر اسٹیشن پلیٹ فارمز دائیں جانب ہونے کی وجہ سے دائیں جانب کی دروازے استعمال ہوں گے۔

    دریں اثنا، آج پشاور فیز تھری چوک کے قریب بی آر ٹی بس کی ٹکر سے ایک خاتون زخمی ہوئیں جنھیں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا، جہاں ترجمان ایچ ایم ایچ کے مطابق خاتون زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔ ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کی شناخت تا حال نہیں ہو سکی ہے۔