Tag: بی بی سی

  • سدھو موسے والا نے کیا کیا تھا کہ قتل ہوا؟ گینگسٹر نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتا دیا

    سدھو موسے والا نے کیا کیا تھا کہ قتل ہوا؟ گینگسٹر نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتا دیا

    بھارت کے عالمی شہرت یافتہ ہپ ہاپ گلوکار سدھو موسے والا کے گینگسٹر کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی وجوہ منظر عام پر آ گئیں۔

    3 سال قبل 2022 میں دن دہاڑے سدھو موسے والا کے سفاکانہ قتل کے ماسٹر مائنڈ اور مفرور گینگسٹر گولڈی برار نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ سدھو موسے والا کی اکڑ برداشت سے باہر ہو گئی تھی۔

    گینگسٹر گولڈی برار نے کہا موسے والا نے ایسی غلطیاں کیں جنھیں معاف نہیں کیا جا سکتا تھا، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، یا وہ بچتا یا ہم۔

    جھگڑا کبڈی میچ سے شروع ہوا


    گولڈی برار کا مزید کہنا تھا کہ موسے والا کا مخالف گروپ کے کبڈی گینگ کو سپورٹ کرنا گینگ لیڈر لارنس بشنوی کی ناراضی کی وجہ بنا۔ خیال رہے کہ گولڈی برار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سدھو موسے والا کے قتل کے بعد سے کینیڈا فرار ہو گیا تھا۔

    گولڈی برار اور لارنس بشنوئی
    گولڈی برار اور لارنس بشنوئی

    واضح رہے کہ پنجابی کے ہپ ہاپ اسٹار سدھو موسے والا کے قتل نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جنھیں کرائے کے قاتلوں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر کے زندگی سے محروم کر دیا تھا، چند ہی گھنٹے بعد فیس بک پر گولڈی برار کے نام سے ایک پنجابی گینگسٹر نے قتل کے حکم کی ذمہ داری قبول کی۔

    لیکن اس قتل کے تین سال بعد بھی آج تک کسی کو بھی ٹرائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، جب کہ گولڈی برار بھی ابھی تک مفرور ہے، اور اس کا ٹھکانا کسی کو معلوم نہیں، تاہم بی بی سی نے اس سے رابطہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

    گولڈی برار نے نہایت سرد مہری نے جواب دیتے ہوئے کہا ’’موسے والا نے اپنے تکبر میں کچھ غلطیاں کیں جو ناقابل معافی تھیں، ہمارے پاس اسے مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، اسے اپنے کیے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا، یا تو وہ رہتا یا ہم، اتنی سی بات تھی۔‘‘

    موسے والا لارنس بشنوئی کو گڈ مارننگ گڈ نائٹ میسجز بھیجتا تھا


    گولڈی برار نے بتایا کہ موسے والا لارنس بشنوئی سے رابطے میں تھا، وہ لارنس کی چاپلوسی کرتا تھا، اسے ’گڈ مارننگ’ اور ’گڈ نائٹ‘ میسجز بھیجتا تھا۔ ’’ہمارے درمیان پہلا تنازعہ کبڈی کے میچ سے شروع ہوا، موسے والا اس ٹورنامنٹ کو فروغ دے رہا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس ٹورنامنٹ کا اہتمام بشنوئی کے دشمن گینگ بامبیہا کر رہا تھا۔‘‘

    برار کے مطابق موسے والا ان کے دشمنوں کی تشہیر کر رہا تھا، لارنس بشنوئی اور دیگر اس سے ناراض ہو گئے تھے، اور انھوں نے سدھو کو دھمکی دی کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم بعد میں ودھو مدکھیڑا نے معاملہ رفع دفع کرا دیا، لیکن جلد ہی دشمن گینگ نے مدکھیڑا کو مار دیا، اور برار کا دعویٰ ہے کہ اس قتل میں سدھو شامل تھا۔

    گولڈی برار نے کہا موسے والا سیاست دانوں اور اقتدار میں لوگوں کے ساتھ مل گیا تھا، اور وہ ہمارے حریفوں کی مدد کے لیے سیاسی طاقت، رقم اور اپنے وسائل کا استعمال کر رہا تھا، ہم نے اسے قانون کے ہاتھوں گرفتار کر کے سزا دلوانی چاہی لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، آخر ہم نے خود ہی یہ معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کر لیا۔

  • غزہ رپورٹنگ پر وائٹ ہاؤس پہلی بار بی بی سی سے ناراض

    غزہ رپورٹنگ پر وائٹ ہاؤس پہلی بار بی بی سی سے ناراض

    لندن: وائٹ ہاؤس بی بی سی سے اس بات پر ناراض ہو گیا ہے کہ امداد کے لیے آنے والے فلسطینیوں کے قتل کی رپورٹنگ کیوں کی گئی؟

    میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ حمایت سے قائم ’غزہ فاؤنڈیشن‘ کے ہلاکت خیز واقعے کی رپورٹنگ پر وائٹ ہاؤس ناراض ہو گیا ہے۔

    غزہ میں فلسطینی اس وقت اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنے تھے جب وہ غزہ فاؤنڈیشن کے مرکز پر آ کر خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، بی بی سی کی اس رپورٹنگ کو کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں امداد اور خوراک کے متلاشی فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہوئیں، وائٹ ہاؤس نے ’’غیر درست‘‘ قرار دے دیا ہے۔

    اگرچہ برطانوی نشریاتی ادارہ غزہ جنگ کی جانب دار رپورٹنگ پر تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے، تاہم یہ پہلی بار ہے کہ اب اسرائیل اور امریکا نے اس پر تنقید کی ہے، اور ایک بار کی درست رپورٹنگ کو بھی ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔


    امریکی یونیورسٹی نے فلسطینیوں کی حمایت پر بھارتی طالبہ میگھا ویموری کو سزا دے دی


    وائٹ ہاؤس نے رپورٹ میں کیے گئے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ ’امریکا نے اس واقعے کو منظر سے ہٹایا‘ یعنی اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ منگل کے روز وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے برطانوی ادارے پر الزام لگایا کہ اس نے اتوار کے روز رفح میں ہونے والی ہلاکتوں کی خبر کے لیے حماس پر انحصار کیا ہے۔

    یہ ہلاکت خیز اور اندوہناک واقعہ منگل کو غزہ فاؤنڈیشن کی طرف سے قائم کیے گئے امداد تقسیم کرنے کے مرکز پر پیش آیا تھا، جس کے بعد فاؤنڈیشن کے مرکز کو امریکا نے بدھ کے روز تزئین و آرائش کے نام پرخوراک تقسیم کرنے کی سرگرمیوں کو معطل رکھا۔ اس ہلاکت واقعے میں کم از کم 27 فلسطینی قتل کر دیے گئے تھے۔ واقعے کے بعد آئی ڈی ایف نے اس علاقے کو جنگی زون قرار دے کر اپنے جنگی جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔

    امریکی پریس سیکریٹری لیویٹ نے بیان میں یہ بھی کہا بی بی سی نے اپنی اسٹوری واپس لے لی ہے، تاہم نشریاتی ادارے نے اس دعوے کو مکمل بے بنیاد قرار دے دیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ اپنی اسٹوری پر قائم ہے۔

  • بی بی سی نے بھارتی جھوٹ کا پردہ چاک کردیا، مودی، بھارتی فوج پر تنقید جاری

    بی بی سی نے بھارتی جھوٹ کا پردہ چاک کردیا، مودی، بھارتی فوج پر تنقید جاری

    بی بی سی نے بھارتی جھوٹ کا پردہ چاک کردیا، نریندر مودی، بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد بی بی سی کی رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ پہلگام جیسے سیاحتی مقام پر سیکیورٹی موجود کیوں نہیں تھی، پہلگام حملے کے بعد پولیس کم ازکم ایک گھنٹے بعد جائے وقوع پر پہنچی۔

    بی بی سی نے مودی سرکار اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر کئی سوالات اٹھائے ہیں، صحافی انورادھا بھیسن نے بتایا کہ فورسز کو پہنچنے میں دیر ہوئی مگر چند گھنٹے میں ان کے پاس حملہ آوروں کی تصاویر تھیں۔

    صحافی انورادھا بھیسن نے کہا کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد بھی کشمیر میں ایسے واقعات ہورہے ہیں۔

    پہلگام حملے میں ہلاک سیلیش کی بیوہ شیتل کلاٹھیا تعزیت کےلیے آنے والے وزیر پر برس پڑی، وزیر کو کہا کہ آپ کے پاس بہت سی وی آئی پی کاریں ہیں لیکن ٹیکس دینے والوں کا کیا ہے۔

    حملے کے وقت وہاں موجود شیتل نے کہا کہ 26 افراد پہلگام میں مارے گئے، وہاں نہ کوئی سیکیورٹی تھی اور نہ ہی میڈیکل ٹیم تھی، پہلگام واقعے میں بال بال بچ جانے والے پارس جین نے دعویٰ کیا کہ پہلگام میں نہ کوئی پولیس اہلکار تھا اور نہ ہی فوجی موجود تھا۔

    بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق سی آر پی ایف کا کیمپ حملے سے 7 کلومیٹر دور جبکہ راشٹریہ رائفلز محض 5 کلومیٹر دور تھی۔

  • نیٹ فلکس کے ڈرامہ "ایڈولیسینس” نے ریٹنگز کی نئی تاریخ رقم کردی، ویڈیو دیکھیں

    نیٹ فلکس کے ڈرامہ "ایڈولیسینس” نے ریٹنگز کی نئی تاریخ رقم کردی، ویڈیو دیکھیں

    نیٹ فلکس کے ڈرامہ "ایڈولیسینس” نے برطانیہ میں ریٹنگز کی نئی تاریخ رقم کر دی،  اب تک کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شو بن گیا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نیٹ فلکس کے ڈرامے "ایڈولیسینس” نے برطانیہ کی ٹی وی ریٹنگز میں پہلی بار سب سے اوپر آ کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔

    یہی نہیں اس ڈرامے نے بی بی سی کے مشہور شوز "دی اپرینٹس” اور "ڈیتھ ان پیراڈائز” کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

    نیٹ فلکس ٹوڈم پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کرائم ڈرامہ سیریز ’’ایڈولیسینس‘‘ Adolescence کو صرف چار دنوں میں نیٹ فلکس پر 3.24 ملین ویوز ملے ہیں، اور یہ اسٹریمر کے ٹاپ شو کے طور پر ابھرا ہے۔

    ریٹنگز کے سرکاری ادارے بارب کے مطابق، "ایڈولیسینس” کی پہلی قسط کو اپنی ریلیز کے پہلے ہفتے میں 6.45 ملین افراد نے دیکھا۔

    یہ برطانیہ میں کسی بھی اسٹریمنگ شو کے لیے ایک ہفتے میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی تعداد ہے، جو جنوری 2024 میں نیٹ فلکس کے ڈرامے "فول می ونس” کی 6.3 ملین ناظرین کی تعداد کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔

    اس شو کی ریلیز کے فوری بعد سوشل میڈیا پر15 سالہ برطانوی اداکار اوون کوپر کی زبردست اداکاری کی خوب تعریف کی گئی۔ اس سیریز میں اوون کوپر نے جیمی ملر کا کردار ادا کیا ہے، جبکہ اسٹیفن گراہم نے اس کے والد کا کردار نبھایا ہے۔

    اس ڈرامے کو ناقدین اور ناظرین کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی، خاص طور پر اس کی سنجیدہ کہانی کی وجہ سے جو ایک 13 سالہ لڑکے کے گرد گھومتی ہے، یہ 13 سالہ لڑکا جسے اپنے اسکول کی ہم جماعت لڑکی کیٹی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے، اپنی تمام تر بے گناہی کی درخواست کے باوجود پولیس اس کے خلاف ایک مضبوط مقدمہ بنادیتی ہے۔

    "ایڈولیسینس” کی دوسری قسط 5.94 ملین ناظرین نے دیکھی، جبکہ بی بی سی ون کے "دی اپرینٹس” اور "ڈیتھ ان پیراڈائز” بالترتیب تقریباً 5.8 ملین ناظرین کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔

  • رشتوں میں پڑتی دراڑیں اور بھرتا زہر، محب مرزا  بول پڑے

    رشتوں میں پڑتی دراڑیں اور بھرتا زہر، محب مرزا بول پڑے

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار محب مرزا کا شادی شدہ لوگوں کو مشورہ ہے کہ تعلق اگر زہریلا ہوجائے تو اسے نبھانا ضروری نہیں ہے۔

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار و ہوسٹ محب مرزا نے حال ہی میں بی بی سی اردو کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے جس میں اُنہوں اپنے نئے ڈرامہ میں کردار کے بارے میں بات کی۔

    محب مرزا نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر انسان کسی نہ کسی صدمے کا شکار ہے جس کا اس کی شخصیت پر بھی اثر پڑتا، اگر کسی صدمے کا انسان کی شخصیت پر زیادہ اثر ہو رہا ہے تو اسے تھراپی کی ضرورت ہے۔

    محب مرزا نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خصوصی طور پر مرد حضرات ذہنی صحت پر کبھی بات نہیں کرتے اور وہ مینٹل ہیلتھ کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے، ایسے مسائل پر معاشرتی سطح پر بات نہیں ہوتی۔

    اداکار نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شادی کو نبھانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن ہر صورت شادی کو نبھانے کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔

    محب مرزا کا کہنا تھا کہ میں یہاں پر طلاق کو فروغ دینے کی کوشش نہیں کر رہا لیکن اگر تعلق زہریلا ہو جائے تو اسے نبھانا ضروری نہیں ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ اتنی کڑواہٹ کسی کو بھی زندگی میں نہیں پالنی چاہیے۔

  • بی بی سی پریزنٹر کو پائلٹ نے پرواز سے زبردستی اتار دیا، وجہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    بی بی سی پریزنٹر کو پائلٹ نے پرواز سے زبردستی اتار دیا، وجہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    لندن: بی بی سی کی ایک خاتون پریزنٹر کو اس وقت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب لندن سے ترکیہ جاتے ہوئے پائلٹ نے انھیں فیملی سمیت طیارے سے اتار دیا۔

    بی بی سی کی پریزینٹر 49 سالہ جارجی پالمر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی الرجی کی وجہ سے مسافروں سے مونگ پھلی نہ کھانے کی درخواست کی تھی، جس پر پائلٹ نے انھیں فیملی سمیت ترکی جانے والی پرواز سے باہر نکال دیا۔

    جارجی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا، پائلٹ نے بیٹی کو الرجی ہونے کے باعث طیارے سے اتارا، جارجی کے مطابق انھوں نے طیارے کے عملے سے درخواست کی کہ اعلان کر دیں کہ جہاز میں کوئی مونگ پھلی نہ کھائے، کیوں کہ ان کی بیٹی کو اس سے الرجی ہے، اگر کسی نے طیارے میں مونگ پھلی کھائی تو میری بیٹی مر سکتی ہے۔

    تاہم جب یہ بات پائلٹ کو پتا چلی تو وہ جارجی پر بھڑک اٹھے اور فوری انھیں طیارے سے باہر نکال دیا۔ جارجی پالمر بی بی سی پر موسم کی خبریں سناتی ہیں، وہ اپنے شوہر 48 سالہ نک سولوم، 12 سالہ روزی اور 14 سالہ اینی کے ساتھ لندن، گیٹوِک سے دالامان جا رہی تھیں۔

    جارجی کے مطابق وہ مسافروں سے درخواست کر رہی تھیں کہ وہ مونگ پھلی نہ کھائیں، تاہم جب کپتان کو معلوم ہوا تو اس نے اس خاندان کے ساتھ اڑان بھرنے سے انکار کر دیا۔

  • لوگ تربوز کھانے سے کیوں خوفزدہ ہیں؟

    لوگ تربوز کھانے سے کیوں خوفزدہ ہیں؟

    ماہ رمضان میں روزہ داروں کا سب سے پسندیدہ پھل تربوز ہوتا ہے جو مٹھاس فراہم کرنے کے ساتھ پیاس کو بھی بجھاتا ہے اور اس کے بہت سے طبی فوائد بھی ہیں۔

    تربوز ایک فرحت بخش اور خوش ذائقہ پھل ہے لوگ عموماً اسے رمضان کے دوران کھانا پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کا جوس پسند کرتے ہیں مگر آج کل گاہک اسے خریدنے اور کھانے سے خوفزدہ ہیں؟

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کےمطابق مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں لوگ تربوز کھانے سے خوفزدہ ہیں اس کی وجوہات جان کر آپ بھی حیران ہوجائیں گے۔

    رمضان

    اس حوالے سے کشمیر کے باسیوں کا کہنا ہے کہ تربوز میں کچھ ملاوٹ ہے اس لیے ہم اسے خریدنے سے ڈر رہے ہیں اور جب پھل ہی ہمارے لیے مضر صحت بن جائے تو ہم لوگ کیا کریں؟

    کشمیر کے بازاروں میں بیٹھے پھل فروش جنہوں نے اپنی دکانوں اور ٹھیلوں پر لال لال، میٹھے اور رسیلے تربوز سجا رکھے ہیں لیکن ان کو خریدنے کے لیے کوئی گاہک نہیں ہے۔

    اس صورتحال کی سب کی وجہ ایک غلط معلومات پر مبنی ٹویٹ ہے جو ایک مقامی ڈاکٹر کی جانب سے کیا گیا تھا، اس کو بنیاد بنا کر لوگوں نے تربوز خریدنا ہی چھوڑ دیئے۔

    مقبوضہ کشمیر کے ایک ڈاکٹر نے ایکس پر ایک پیغام لکھا کہ بے موسمی تربوز سے بچیے جسے مختلف نقصاندہ ادویات اور مسالے لگا کر مصنوعی طریقے سے پکایا گیا ہے اور اس میں رنگ کے انجیکشن لگائے جا رہے ہیں جس سے کینسر کا خطرہ ہے۔

    کشمیر

    اس ٹوئٹ کے بعد افواہوں کا بازار گرم ہوگیا اور لوگوں نے حفظ ماتقدم کے تحت تربوز کا ہی بائیکاٹ کرڈالا اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کے اس کاروبار سو وابستہ افراد کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

    اس حوالے سےمقبوضہ کشمیر کی ڈپٹی کمشنر فوڈ اینڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ شگوفہ جلال نے میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق تربوز ہر لحاظ سے صحت بخش اور جراثیم سے پاک ہے۔ ان میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی یہ کھانے کے لیے محفوظ ہیں۔

     

  • آسٹریلیا جانے کے خواہشمند افراد کے لیے اہم معلومات

    آسٹریلیا جانے کے خواہشمند افراد کے لیے اہم معلومات

    سڈنی : آسٹریلیا میں اگلے دو سال کے دوران غیرملکیوں کی تعداد کو نصف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد آسٹریلین امیگریشن نظام میں بہتری لانا ہے۔

    آسٹریلوی حکومت کی جانب سے یہ اعلان گزشتہ دنوں کیا گیا جس کے سبب عارضی ویزوں پر آسٹریلیا میں مقیم غیرملکی طلباء کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ’10 سالہ مائیگریشن اسٹریٹیجی‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر کیے جانے والے اس اعلان نے غیرملکی طلباء کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

    اس حوالے سے سڈنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سینٹر فار میڈیا ٹرانزیشن میں بطور پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو کام کرنے والی ڈاکٹر عائشہ جہانگیر نے بتایا کہ ابھی پالیسی آئے کچھ روز ہی ہوئے ہیں تو کافی بے یقینی موجود ہے اور لوگ الجھن کا شکار ہیں۔

    ’انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ یہ پالیسی انہیں کس طرح سے متاثر کرسکتی ہے کیا وہ تارکین وطن جن کے ویزے ابھی پراسیسنگ میں ہیں، کیا وہ بھی متاثر ہوں گے؟‘

    یاد رہے کہ آسٹریلیا کے ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران ملک میں آنے والے غیر ملکی تارکین وطن افراد کی تعداد پانچ لاکھ دس ہزار رہی ہے جبکہ کوویڈ19کی پابندیاں لاگو ہونے سے قبل یہ تعداد سالانہ ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہوا کرتی تھی۔

    دس سالہ نئی پالیسی کیا ہے؟

    آسٹریلیا میں اس وقت لگ بھگ ساڑھے چھ لاکھ غیر ملکی طلبہ مقیم ہیں اور ان میں سے بیشتر پہلے عارضی ویزے (اسٹوڈنٹ ویزا) کی میعاد پوری ہونے کے بعد دوسرے ویزا حاصل کرکے مقیم ہیں۔

    نئے منصوبے کے تحت بین الاقوامی طلبہ اور کم ہنر والے ورکرز کے ویزا قواعد کو مزید سخت کیا جائے گا۔ تاہم اب بھی ملک میں ہنر مند ورکرز کی کمی ہے اور ان کی ملک میں آمد کے حوالے سے اب بھی مشکلات موجود ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے موجود ’عارضی سکلز شارٹج‘ ویزا کی جگہ ’سکلز ان ڈیمانڈ‘ ویزا کا اجرا کیا جائے گا۔ اس چار سال پر محیط ویزا کے لیے تین مختلف راستے ہوں گے۔ ایک راستہ ’سپیشلسٹ سکلز‘ رکھنے والے افراد کے لیے ہو گا اور اس کے ذریعے ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں سے منسلک انتہائی باصلاحیت افراد کو آسٹریلیا بلانے کی کوشش کی جائے گی۔

    ایک راستہ ’کور اسکلز‘ یعنی بنیادی صلاحیتوں کے حوالے سے ہو گا جس میں شعبوں کی فہرست کو آسٹریلوی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے اعتبار سے تبدیل کیا جاتا رہے گا۔ لیکن اس راستے سے ورک فورس کی کمی کو پورا کیا جائے گا۔

    تیسرا راستہ ’ضروری صلاحیتوں‘ کے حوالے سے ہے یعنی ہیلتھ کیئر جیسے شعبے جہاں ورکرز کی کمی ہے۔ اس کے حوالے سے تفصیلات ابھی زیرِ غور ہیں۔ ان نئے قوانین میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے انگریزی زبان کے ٹیسٹ یعنی آئلٹس کے حوالے سے سخت معیار رکھے گئے ہیں۔

    آسٹریلیا کے وزیر داخلہ کلیئر او نیل کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی سے آسٹریلیا میں ایسے ہنر مند افراد کو آنے کا موقع ملے گا جن کی ملک کو زیادہ ضرورت ہے، اس کے علاوہ جو لوگ پہلے سے ہی ملک میں رہ رہے ہیں، کام کر رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ان کے استحصال کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔

    خیال رہے کہ آسٹریلیا میں اب نظامِ زندگی گزرانے کے لیے اخراجات میں اضافہ ہوگیا ہے اور کرائے پر رہنے کے لیے مکانات لینا مشکل ہوگئے ہیں اور طلبہ کو کام یا پڑھائی کی جگہ سے خاصا دور رہائش اختیار کرنا پڑتی ہے۔

  • غزہ شہادتیں: اپنے ہی صحافیوں کا بی بی سی پر جانب داری کا الزام

    غزہ شہادتیں: اپنے ہی صحافیوں کا بی بی سی پر جانب داری کا الزام

    الجزیرہ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بی بی سی کے اپنے صحافیوں نے براڈکاسٹر پر اسرائیل فلسطین تنازع میں تعصب کا الزام لگا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباریوں کے باوجود جس میں 15 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہوئے، بی بی سی نے جانب داری دکھاتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اپنے ہی صحافیوں نے کہا ہے کہ بی بی سی اسرائیل اور حماس تنازعہ کے معاملے کو درست طریقے سے بیان کرنے میں ناکام رہا، فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلی متاثرین کے لیے انسانیت کی دہائی زیادہ دی، اور کوریج میں اہم تاریخی سیاق و سباق کو قصداً نظر انداز کیا۔

    اس سلسلے میں برطانیہ میں مقیم بی بی سی کے ساتھ کام کرنے والے 8 صحافیوں کی طرف سے الجزیرہ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جو 2,300 الفاظ پر مشتمل ہے، اس خط میں بی بی سی پر ’’عام شہریوں کو دیکھنے کا دوہرا معیار‘‘ برتنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے، جب کہ یوکرین میں مبینہ روسی جنگی جرائم پر براڈکاسٹر نے کوئی لغزش نہیں دکھائی۔

    خط میں لکھا گیا ہے کہ ’’اسرائیل کے دعوؤں پر تنقید نہ کر کے اور نظر انداز کر کے بی بی سی درست طور سے (غزہ) کی کہانی پیش کرنے میں ناکام رہا، اور اسی وجہ سے وہ غزہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں لوگوں کو بتانے اور سمجھانے میں مدد کرنے میں ناکام رہا۔‘‘

    صحافیوں نے خط میں سوال اٹھایا کہ 7 اکتوبر سے اب تک ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں، آخر ہمارے ادارتی مؤقف کو تبدیلی کے لیے کتنی بڑی تعداد درکار ہے؟

    واضح رہے کہ جوابی کارروائی کے خوف سے صحافیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اس کا بی بی سی کے ایگزیکٹوز کو یہ خط بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، کیوں کہ اس طرح کے اقدام سے بامعنی بات چیت ممکن نہیں رہ پائے گی۔

  • کشتی حادثے سے متعلق بی بی سی کے تہلکہ خیز شواہد ، یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک بنادیا

    کشتی حادثے سے متعلق بی بی سی کے تہلکہ خیز شواہد ، یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک بنادیا

    لندن : یونان کشتی حادثے سے متعلق بی بی سی نے تہلکہ خیز شواہد حاصل کرلیے، جس میں دعویٰ کیا ہے کہ کہ کشتی سمندرمیں ڈوبنے سے پہلے سات گھنٹے تک ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی۔

    تفصیلات کے مطابق یونان کشتی حادثے سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے نے اہم شواہد حاصل کرلیے، بی بی سی نے بتایا کہ میرین ٹریفک کی سے ٹریکنگ ڈیٹا کی ایک کمپیوٹر اینی میشن حاصل کی ہے، جس نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے۔

    جن میں کہا گیا ہے کشتی نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ نقشے پرنہیں دکھائی دی۔

    ٹریکنگ ڈیوائس ڈیٹا سامنے آنے کے باوجود یونانی کوسٹ گارڈز اپنے دعوے پر قائم ہیں کہ کشتی کو کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔

    برطانوی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ مسافروں سے بھری کشتی سمندرمیں ڈوبنےسے پہلے سات گھنٹے تک ایک ہی جگہ پرکھڑی رہی۔

    اقوام متحدہ نے کشتی ڈوبنے کے واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی جبکہ یہ بھی پتا چلایا جائے گا کہ یونان کی جانب سے کشتی ڈوبنے سے پہلے بروقت بچاؤ کی کوششیں اور ضروری اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔