Tag: بی بی سی

  • پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل

    پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دنیا بھر کی 100 متاثر کن خواتین ’بی بی سی 100‘ کی فہرست جاری کردی جس میں پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر کرشنا کماری بھی شامل ہیں۔

    بی بی سی کی جانب سے یہ فہرست ہر سال جاری کی جاتی ہے جس میں پاکستانی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، رواں برس یہ اعزاز صحرائے تھر کی کرشنا کماری کے حصے میں آیا ہے جو ہندوؤں کی کولھی / دلت قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    کرشنا کولھی قبیلے کے ایک غریب خاندان میں فروری 1979 میں پیدا ہوئیں۔ وہ اور ان کے اہل خانہ 3 سال تک ایک وڈیرے کی نجی جیل میں قید رہے۔

    39 سالہ کرشنا کی 16 سال کی عمر میں ہی شادی ہوگئی تھی، شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں تاہم ان کے شوہر نے انہیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی اور کرشنا نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

    وہ سماجی کارکن بھی ہیں اور کئی برس سے تھر کی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    رواں برس مارچ میں سینیٹ انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں خواتین کی مخصوص نشست پر ٹکٹ جاری کیا، بعد ازاں کامیاب ہو کر انہوں نے پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

    کرشنا قانون سازی کے عمل کا حصہ بن تھر کے باسیوں کی صحت اور تعلیم کے لیے اقدامات کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔

  • نوازلیگ واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی

    نوازلیگ واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی

    لندن : نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہورہی ہے، شریف برادران کے حامیوں کی رائے الگ الگ ہے، ایک جانب مایوسی جبکہ دوسری طرف خوش فہمی عروج پر ہے، مسلم لیگ نواز واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے نوازکیمپ اورشہباز کیمپ کے اختلافات پر مبنی رپورٹ شائع کردی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شریف برادران میں اختلافات کی خلیج گہری ہوتی جارہی ہے،دونوں کے کیمپوں کی رائے الگ الگ ہے۔

    رائے اور سیاسی حکمت عملی کے لحاظ سے مسلم لیگ نواز واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے، نواز اور شہباز شریف کے قریب سمجھے جانے والوں کی سوچ میں فرق بہت واضح دکھائی دے رہا ہے۔

    نواز شریف کے قریبی ساتھی موجودہ حالات میں مایوس دکھائی دیتے ہیں انہیں آئندہ عام انتخابات ہونے کا بھی یقین نہیں ہے بلکہ وہ تو مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کا ہونا بھی غیر یقینی قراردے رہے ہیں۔

    دوسری جانب شہباز شریف کیمپ میں ان کے آئندہ عام انتخابات میں وزیراعظم بننے کا یقین ظاہرکیا جارہا ہے، شہباز شریف سے قریب سمجھے جانے والے بعض رہنماؤں کاخیال ہے کہ نواز شریف نا اہل نہ بھی ہوتے تو بھی 2018 کے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار شہباز شریف ہی کو بننا تھا۔


    مزید پڑھیں: پارٹی ساکھ کی بحالی کیلئے نواز لیگ کا امریکا سے مدد لینے کا فیصلہ، ذرائع


    شہبازشریف کیمپ کے لوگوں کو یقین ہے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری اور ان کے ہمنواؤں کو بس اتنا ملے گا کہ ان کی سیاست اور ساکھ بنی رہے گی لیکن شریفوں کو جیل بھجوانے کےقصے پرانے ہوگئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔ 

  • افغان مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت ہے: خواجہ آصف

    افغان مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت ہے: خواجہ آصف

    وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے لیے سیاسی حل کی ضرورت ہے فوجی نہیں۔ فوجی حل پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان افغانستان کے 40 فیصد سے زائد علاقے میں موجود ہیں۔ انہیں پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں کی ضرورت نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج جو کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے نہیں ہوئی۔

    خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا مستقبل قریب میں ختم ہونے کا امکان نہیں۔ افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیئے۔ فوجی حل ناکام ہوچکا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • میں نے گاؤں جلتے دیکھا،روہنگیا مسلمانوں پرمظالم کا آنکھوں دیکھا حال

    میں نے گاؤں جلتے دیکھا،روہنگیا مسلمانوں پرمظالم کا آنکھوں دیکھا حال

    لندن : برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے بتایا ہے کہ انہوں نے میانمار میں خود اپنی آنکھوں کے سامنے ایک گاؤں کو جلتے ہوئے دیکھا ہے, انہیں میانمار حکومت کی جانب سے چند صحافیوں کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے کیلئے بلایا گیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کے پابند تھے کہ وہ صرف وہیں جا سکتے ہیں جہاں انہیں مقامی حکومت لے جائے صحافیوں نے کہیں اورجانے کی اجازت مانگی تو انہیں منع کردیا گیا۔

    جوناتھن نے بتایا کہ وہ ماؤنگدا کے قریبی علاقے ال لے تھان کیاؤ سے لوٹ رہے تھے کہ ایک کھیت سے دھواں اٹھتا دیکھا۔ ہم اس طرف بھاگے تو وہاں خطرناک آگ لگی ہوئی تھی، بیس سے تیس منٹ میں پورا گاؤں راکھ ہوگیا۔

    کچھ دیر میں وہاں سے چند نوجوان چھریاں، تلواریں اور غلیلیں تھامے نکلے، کیمرے پر نہ آنے کی شرط پر انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ وہ رخائن کے بودھسٹ ہیں، یہ آگ انہوں نے ہی لگائی ہے جس میں پولیس نے بھی ان کی مدد کی۔

    صحافیوں کی ٹیم کو کچھ دور ایک اسلامی مدرسہ دکھائی دیا جس کی چھت جھلس رہی تھی، راستے میں کھلونے، خواتین کے کپڑے اور گھروں کا سامان بکھرا پڑا تھا، ایک جگ میں بچا ہوا پیٹرول بھی ملا۔

    جوناتھن نے لکھا کہ جب تک وہ اس علاقےسے باہر نکلے تمام گھر سلگ رہے تھے کچھ ہی دیر بعد صرف سیاہ ڈھانچے باقی رہ گئے۔

    واضح رہے کہ دو ہفتے قبل میانمار کے ریاست رخائن میں پھر سے بھڑک اٹھنے والے تشدد کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 64 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

    پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور رخائن کے بودھ ان کے گاؤں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • نواز جندال ملاقات بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ: بی بی سی کا دعویٰ

    نواز جندال ملاقات بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ: بی بی سی کا دعویٰ

    غیر ملکی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی اسٹیل ٹائیکون سجن جندال اور وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ تھی۔ نشریاتی ادارے کے مطابق ملاقات پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی بھارتی کوشش کا حصہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بی بی سی میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سجن جندال اور نواز شریف کی ملاقات بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ تھی۔

    ملاقات کے بعد دفتر خارجہ نے اس غیر رسمی ملاقات کو نجی قرار دیا تھا۔ بعد ازاں وزیر اعظم کی صاحبزادی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دو دوستوں کی ملاقات ہے، اسے غلط رنگ نہ دیا جائے۔

    تاہم بی بی سی کا دعویٰ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی کے تحت کی جانے والی اس ملاقات کے بارے فوجی قیادت کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: وزیر اعظم نواز شریف سے بھارتی اسٹیل ٹائیکون کی ملاقات

    رپورٹ کے مطابق، ’بعض اہم سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنی ایک حالیہ ملاقات میں سجن جندال کے دورہ پاکستان کے بارے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اعتماد میں لیا ہے‘۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا، ’ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے فوجی قیادت کو بتایا ہے کہ سجن جندال اہم بھارتی حکام کی ایما پر ان سے ملے تھے اور یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کم کرنے کی بھارتی کوشش کا حصہ ہے‘۔

    بی بی سی کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت نے بھی سجن جندال کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بارے میں اپنے افسران کو اعتماد میں لیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ہے کہ سجن جندال کی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ ہے۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ فوجی قیادت نے واضح کیا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو کسی بھی قیمت پر کسی لین دین کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 27 اپریل کو بھارتی اسٹیل ٹائیکون سجن جندال سمیت بھارت کا 3 رکنی وفد خصوصی طیارے کے ذریعے کابل سے اسلام آباد پہنچا تھا۔

    مزید پڑھیں: سجن جندال کو 10 روزہ ویزا جاری کرنے کا انکشاف

    بھارتی وفد میں سجن جندال، سوکیت سنگال، وریندر ببر سنگھ شامل تھے۔ 3 رکنی وفد کو وزیر اعظم ہاؤس اور دفتر خارجہ کی ہدایت پر 10 روزہ بزنس ویزا جاری کیا گیا جو لاہور اور اسلام آباد کے لیے تھا۔

    تاہم سجن جندال اور ان کے ساتھی ویزا نہ ہونے کے باوجود مری کی سیر کو بھی گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی پاسپورٹ 199 ممالک کی فہرست میں 196 نمبرپر

    پاکستانی پاسپورٹ 199 ممالک کی فہرست میں 196 نمبرپر

    کراچی : پاکستانی پاسپورٹ دنیا کی بُری دستاویز بن گیا، دنیا کے199 ممالک کی فہرست میں 196 نمبر آگیا۔ سویڈن پہلے نمبر پر بیلجیئم دوسرے اٹلی اور سپین تیسرے نمبر پرجبکہ بھارت 160ویں اور افغانستان سب سے آخری نمبر پر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک امریکی کمپنی کے سروے میں پاکستانی پاسپورٹ کو سفر کے لیے دنیا کے سب سے زیادہ برے ممالک کے پاسپورٹ میں شمار کیا گیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 199 ممالک کی فہرست میں پاکستان کے پاسپورٹ کا درجہ 196 نمبر پر رکھا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق نومیڈ کیپیٹلسٹ نامی فرم دنیا بھر کے ممالک کو پانچ چیزوں کی وجہ سے درجہ دیتی ہے جن میں ویزہ، فری ٹریول، ٹیکسوں کا نظام، ان کی بین الاقوامی ساکھ، دہری شہریت اور وہاں کی شہری آزادی شامل ہیں۔

    اس میں بغیر ویزہ سفر کی سہولت کو 50 فیصد رینکنگ دی گئی ہے، جبکہ ٹیکسیشن کو 20 فیصد، ساکھ کو 10 فیصد، دہری شہریت کو 10 فیصد اور مجموعی ساکھ کو بھی 10 فیصد رینکنگ دی گئی ہے، ہر ملک کی ویلیو اس کے انفرادی اسکور کو دیکھ کر لگائی جاتی ہے۔

    نومیڈ پاسپورٹ انڈیکس 2017 کے مطابق 199 ممالک کی فہرست میں سویڈن پہلے نمبر پر آیا ہے جبکہ بیلجیئم دوسرے اور اٹلی اور سپین تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔

    برطانیہ کا اس فہرست میں 16 واں نمبر، امریکہ کا 35 واں، انڈیا کا 160 واں جبکہ آخری نمبر پر افغانستان ہے۔ آخری پانچ ممالک میں بالاترتیب لیبیا (195)پاکستان (196)، اریٹریا (197)، عراق (198) اور افغانستان (199) شامل ہیں۔

  • ٹی وی پر والد کا براہ راست انٹرویو، بچے شرارتوں میں مشغول

    ٹی وی پر والد کا براہ راست انٹرویو، بچے شرارتوں میں مشغول

    بعض اوقات سنجیدہ موضوعات میں بھی ایسا عنصر نکل آتا ہے کہ بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ روز برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے انٹرویو کے دوران پیش آیا جس نے سب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔

    پروفیسر رابرٹ کیلی شمالی کوریا کے سنجیدہ موضوع پر بی بی سی کو اسکائپ کے ذریعے تجزیاتی انٹرویو دے رہے تھے جو براہ راست نشر ہورہا تھا۔

    انٹرویو کے دوران اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور ان کی کمسن بیٹی کمرے میں داخل ہوگئی اور کھیلنے لگی۔

    اگلے ہی لمحے کھلے دروازے سے والکر پر سوار ایک اور چھوٹا بچہ کمرے کے اندر آ پہنچا۔ اس صورتحال پر پروفیسر رابرٹ نے خود پر کنٹرول رکھتے ہوئے اینکر سے معذرت کی۔

    ذرا دیر بعد بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون بھاگتی ہوئی آئیں اور دونوں بچوں کو کمرے سے باہر نکالا۔ ان خاتون کی بوکھلاہٹ اور بچوں کو کمرے سے باہر نکالنے کی تگ و دو بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

    ان لمحات نے انٹرویو دینے والے تجزیہ کار کو تو یقیناً خفت میں مبتلا کردیا لیکن دیکھنے والوں کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی۔ بی بی سی نے ان بچوں کو اپنے شو کا اسٹار قرار دے دیا۔

  • پارک لین فلیٹس، بی بی سی اپنی خبر پر قائم

    پارک لین فلیٹس، بی بی سی اپنی خبر پر قائم

    لندن: پارک لین فلیٹس کے حوالے سے شائع خبر کے متعلق بی بی سی کا کہنا ہے کہ ادارہ اپنی خبر پر قائم ہے اور صحافی کے خلاف کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کی جارہی۔

    تفصیلات کے مطابق بی بی سی  نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رپورٹر (اطہر کاظمی) یا پارک لین میں واقع فلیٹس کے بارے میں شائع ہونے والی خبر پر کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں ہو رہی، ادارہ اپنے صحافتی اقدار پر قائم ہے اور مطمئن ہے کہ یہ خبر درستی اور غیر جانب داری سمیت ہمارے ادارتی معیار پر پوری اترتی ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے نے شریف خاندان کے لندن پارک لین میں موجود فیلٹس کے حوالے سے خبر شائع کی تھی، جس کے بعد گزشتہ رات سماجی رابطوں کی ویب سائٹ اور میڈیا میں ان خبروں کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ بی بی سی میں ’’پارک لین فلیٹس کب خریدے گئے، کب فروخت ہوئے کی سرخی سے شائع ہونے والی خبر پر ادارے نے تحقیقات شروع کردی ہیں‘‘۔

    پڑھیں: ’’ لندن فلیٹس : حسین نوازنے بی بی سی کے سوالات کا اب تک جواب نہ دیا ‘‘

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وزیراعظم کی صاحب زادی مریم نواز نے بھی بی بی سی پر شائع ہونے والی خبر کی تردید کی تھی تاہم اب بی بی سی نے اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ادارہ اپنی خبر پر قائم ہے اور صحافی کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی جارہی۔

    بی بی سی کے مطابق اس خبر کی وضاحت کی لیے کسی نے ادارے سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ سوشل میڈیا اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اس خبر پر تحقیقات کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ بی بی سی نے اس خبر کو اپنی صحافتی اقدار اور ادارتی معیار پر پورا اترنے کے بعد شائع کیا تھا۔

  • بوکوحرام کا شبہ، نائجیرین فوج نے اپنے پچاس شہری مارڈالے

    بوکوحرام کا شبہ، نائجیرین فوج نے اپنے پچاس شہری مارڈالے

    ابُوجا : نائجیریا کی فوج نے جنگوؤں کے شبے میں اپنے ہی پچاس سے زائد معصوم شہری مار ڈالے، فضائی حملے میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نائجیریا کی فضائیہ نے ملک کے شمال مشرقی علاقے رن میں حادثاتی طور پر حملہ کرکے عام شہریوں کو ہلاک اور زخمی کردیا ہے۔

    بین الاقوامی امدادی ادارے کے مطابق اس واقعے میں کم از کم 50 افراد مارے گئے ہیں جب کہ ایک سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق یہ حملہ نائجیریا اور کیمرون کی سرحد کے قریب کیا گیا جہاں فوج بوکو حرام کے جنگجوؤں سے لڑ رہی ہے۔

    فوج کے ترجمان میجر جنرل لکی ارابور نے کہا کہ جیٹ طیارے کے ہواباز نے غلطی سے سمجھ لیا کہ وہ جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ اس علاقے میں بوکو حرام کے جنگجو جمع ہو رہے ہیں۔ نائجیریا کے صدر محمد بخاری نے اس جانی نقصان پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے صبر کی درخواست کی ہے۔

    صدر کے ترجمان نے کہا کہ صدر بخاری کی انتظامیہ ریاست بونو کی حکومت کو اس ‘افسوس ناک غلطی سے نمٹنے’ میں مدد دے گی۔

  • لندن فلیٹس : حسین نوازنے بی بی سی کے سوالات کا اب تک جواب نہ دیا

    لندن فلیٹس : حسین نوازنے بی بی سی کے سوالات کا اب تک جواب نہ دیا

    اسلام آباد: بی بی سی نے بھی لندن اپارٹمنٹس کے حوالے سے حسین نواز سے سوالات کردیئے، اپنی اسٹوری میں کہا ہے کہ دو ہفتے گزر گئے لیکن حسن نواز اورحسین نواز نے اس حوالے سے اب تک کوئی جواب داخل نہیں کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے شریف خاندان کے پارک لین فلیٹس کا معاملہ اٹھادیا، بی بی سی نے سوال کیا ہے کہ ریکارڈ میں نوے کی دہائی سے فلیٹس ان کی ملکیت ہیں، دوہزار چھ میں خریداری کا کیوں کہا؟

    مذکورہ سوالات کا حسین نواز نے اب تک جواب نہیں دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس انیس سو نوے کی دہائی میں خریدے گئے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

    بی بی سی اردو کو حاصل شدہ سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کر چکے ہیں۔

    bbc-post-01

    برطانیہ میں کاروباری کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے کی دستاویزات کے مطابق حسن نواز نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ لیمٹڈ کمپنی سنہ 2001 میں کھولی تھی اور اس پر ان کا جو پتہ درج ہے وہ پارک لین کے فلیٹ کا ہی ہے۔

    اس حوالے سے بی بی سی نے وزیرِاعظم پاکستان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سے تحریری طور پر رابطہ کیا تھا اور ان سے ان فلیٹس کی ملکیت اور خریداری کی تاریخ سے متعلق اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

    حسین نواز کو لکھے گئے خط میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ فلیٹ سنہ 2006 میں خریدے گئے تھے لیکن برطانوی حکومت کے محکمہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ کے مطابق ان فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے، اس حوالے ان کا کیا مؤقف ہے؟

    بی بی سی کی رپورٹ کا مکمل احوال جاننے کیلئے لنک پر کلک کریں 

    بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات میں آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے بارے میں بھی سوال شامل تھا جس میں سب سے اہم بات ان کمپنیوں کی خریداری کی تاریخ کے حوالے سے تھی۔ لیکن دو ہفتے گزرنے کے باوجود تاحال وزیراعظم کے صاحبزادے کی جانب سے اب کسی سوال کا جواب نہیں دیا جا سکا۔