Tag: بے گھر افراد

  • لندن میں بڑا بحران، بے گھر لوگ خیموں میں رہنے لگے

    لندن میں بڑا بحران، بے گھر لوگ خیموں میں رہنے لگے

    لندن : برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی گلیوں میں کھلے آسمان تلے سونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، شہر کے مرکزی علاقے میں لوگوں نے خیمے لگالیے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں انسانی بحران تیزی سے جنم لے رہا ہے جس کے نتیجے میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

    ملک میں بڑھتی مہگائی اور گھروں کے کرایوں میں ہوشربا اضافے کے سبب وسطی لندن کے علاقے ایک پارک میں بے شمار بے گھر افراد کے خیمے نصب ہیں۔

      اس ساری صورتحال میں سماجی تنظیمیں برطانوی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔

    اس حوالے سے لندن کے بلدیاتی ادارے اس بحران پر قابو پانے کیلیے ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ فنڈنگ اور وسائل کی کمی کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔

    دوسری جانب فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ مسئلے کی جڑ کو تلاش کرے، کسی کو اپنی زندگی سڑکوں پر نہیں گزارنی چاہیے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ملک میں زندگی بسر کرنے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اگر ایکشن نہ لیا گیا تو آنے والے مہینوں میں بے گھر افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : شام میں چند دنوں میں 50 ہزار افراد بے گھر ہو گئے، اقوام متحدہ

    فلاحی اداروں کے مطابق ایمرجنسی رہائش گاہوں میں بھی جگہ کا فقدان ہے اور حکومتی امداد بھی ناکافی ہے، جس کی وجہ سے حالات پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

  • لبنان: بے گھر افراد کی مدد کیلئے ماہانہ 250 ملین ڈالر درکار

    لبنان: بے گھر افراد کی مدد کیلئے ماہانہ 250 ملین ڈالر درکار

    لبنان میں بحران کو ختم کرنے کیلئے موجودہ انچارچ ناصر یاسین نے انکشاف کیا ہے کہ لبنان میں بے گھر افراد کی مدد کیلئے ماہانہ ڈھائی سو ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ناصر یاسین نے بتایا کہ ماہانہ 250 ملین ڈالر کی ضرورت ہے، ہم مقامی انتظامیہ اور بین الاقوامی امداد کے ذریعے صرف 20 فیصد افراد کی مدد کر پا رہے ہیں جبکہ بے گھر لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں اُن کا کہنا تھا کہ سرکاری انتظامیہ مقامی انتظامیہ اور بین الاقوامی امداد کے ذریعے بہت کم افراد کی مدد ہو پارہی ہے، بہت سے افراد نے سرکاری سرکاری عمارتوں یا اپنے رشتہ داروں کے گھروں پناہ لی ہوئی ہے۔

    لبنان کے حالات بیان کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا کہ اسکول، بازار اور خالی کمپلیکس سب بے گھر افراد کیلئے پناہ گاہ بن گئے ہیں۔ ہم انہیں ممکنہ مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کیلئے بہت کچھ کرنا ہے۔

    واضح رہے کہ لبنان میں بحران کو ختم کرنے کیلئے موجودہ انچارچ ناصر یاسین لبنان جنگ کے آغاز کے بعد سے اپنا زیادہ تر وقت سرکاری ہیڈکوارٹرس میں کرائسس ٹیم کے ساتھ گزارتے ہیں جن میں لبنانی وزراء، یونائیٹیڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام اور لبنانی ریڈ کراس بھی شامل ہیں۔

    اُن کا رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آج ہی جنگ بندی چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برداری میں ہر کوئی یہ کہنے کی جرات کرے کہ لبنان اور غزہ میں کیا ہور ہا ہے۔

    ترکیہ کی فضائی کمپنیوں نے ایران کیلئے پروازیں منسوخ کردیں

    خیال رہے کہ لبنان میں اب تک اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، اقوام متحدہ نے متنبہ کیا تھا کہ ”لبنان کے دوسرا غزہ بننے کے خطرات ہیں۔“

  • شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    تیس سالہ مٹھو کا گھر پاکستان کے دو کروڑ کی آبادی والے سب سے بڑے شہر کراچی میں کے پی ٹی انٹرچینج فلائی اوور کے نیچے ہے۔ مٹھو کے ساتھ اُن کے بیس عزیز و اقربا بھی ساتھ رہتے ہیں جو کئی سال پہلے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں دو سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ٹنڈو الہ یار سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ آس پاس کے بلند و بالا اپارٹمنٹس اور دفاتر میں رہنے والے لوگوں کے برعکس، اِن کے پاس سخت موسمی حالات سے بچنے کے لئے فی الحقیقت کوئی پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔

    جولائی کے آخر کی جُھلسا دینے والی گرمی کے ایک دن جب ان کی بہن سوتری سرخ اینٹوں کے عارضی چولہے پر روٹیاں بنا رہی تھیں تو اُس وقت مٹھو نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بتایا کہ “ہمیں رفع حاجت یا غسل کے لئے خالی پلاٹوں پر جانا پڑتا ہے، چاہے اِس طرح کی شدید گرمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم یہاں پانی قریبی کالونیوں سے خالی ڈبوں میں بھر کر لاتے ہیں۔ حکومت ہمارے لئے کیا کرے گی؟ ہمیں حکومت پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ ہمیں شدید گرمی کے دوران یا بارشوں میں ہماری مدد کرے گی۔”

    کراچی میں بے گھر افراد کی تعداد کے حوالے سے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی اور بارشوں سے نمٹنے میں اِن کی مدد کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے

    مٹھو کا خاندان، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، کسی بھی سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ڈائریکٹر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اسماء غیور نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “آپ کو اِن بے گھر افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار، ڈیٹا، یا منصوبے نہیں ملیں گے۔ زیادہ سے زیادہ، یہ لوگ انتخابات کے قریب ممکنہ ووٹرز کے طور پر کام آسکتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر، اِن کے مسائل کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔”

    1988 میں قائم ہونے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم شہری – سٹیزن فار اے بیٹر انوائرنمنٹ (سی بی ای) کی جنرل سکریٹری امبر علی بھائی نے بے گھر افراد کو “اِس بڑے شہر کے کسی کو نظر نہ آنے والے لوگ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسے سیلاب کے دوران پولیس اِن بے گھر افراد کو پولیس اسٹیشنوں میں عارضی پناہ دے سکتی ہے، لیکن اُن کے پاس بھی مناسب جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہذا اِن بے گھر افراد کو عام طور پر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اِن بے گھر افراد کی نگرانی اور اِن کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے نادرا [نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی] کو بھی اِس مربوط عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔”

    شہری منصوبہ ساز اور کراچی اربن لیب کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر محمد توحید نے بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے موجودہ مشکلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” جب تک بے گھر افراد کی صحیح تعداد اور ان کے مقامات کا علم نہ ہو، وسائل مختص کرنا، ہنگامی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طویل مدتی حل نافذ کرنا مشکل ہے۔” یہ مسائل شدید گرمی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر بے گھر افراد کی آبادی تقریبا 20 ملین (دو کروڑ) یا اِس کی آبادی کا 9 فیصد ہے، لیکن سول سوسائٹی کے شعبے میں بھی کراچی جیسے شہروں کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں اور اِن مسائل کو حکومتی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے اعداد و شمار ناکافی ہیں۔

    علی بھائی نے کہا کہ بے گھر افراد سے نمٹنے کے لئے موجودہ قوانین، جیسے سندھ ویگرنسی آرڈیننس 1958 اور اس کی 1983 کی ترمیم کے باوجود، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے “اپنی ذمہ داریوں سےمکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات، جیسے گرمی کی لہریں یا شہر میں سیلاب آتے ہیں تو متاثرہ افراد کو خیرات دینے والے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    رؤف فاروقی، جو 2013 سے 2015 کے درمیان کراچی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے لئے کے ایم سی کے سب سے اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ بے گھر افراد کے لئے کوئی سرکاری اہتمام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، “زیادہ سے زیادہ، ہم اِنہیں عارضی پناہ کے لئے پولیس کے پاس یا ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس لے جاتے تھے۔”

    پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ موسم کی شِدّت سے بچاؤ کے لئے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے بے گھر افراد کو اِس موسم گرما میں شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ 23 سے 30 جون کے دوران اور 16 سے 23 جولائی کے دوران درجہ حرارت اوسط سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ “1990 کی دہائی کے وسط سے پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔”

    ایدھی فاؤنڈیشن، جو پاکستان کی محروم طبقے کی کمیونٹیز کی خدمت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے، کے کنٹرول روم کے انچارج محمد امین نے بتایا کہ اس سال اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ “15 سے 30 جون کے درمیان، ہمیں اپنے مردہ خانوں میں 1,540 لاشیں موصول ہوئیں جو کہ روزانہ کی اوسطاً 35 سے 40 لاشوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ اِن سب ہلاکتوں کو پوری طرح سے گرمی کے اثرات سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی ہلاکتوں کی بڑی تعداد نے اس سال جون کے آخر میں آٹھ روز تک چلنے والی گرمی کی لہروں کے دوران سرکاری طور پر 49 اموات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

    ڈاکٹر احمر، جو کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں واقع کراچی ایڈوینٹسٹ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں کام کرتے ہیں نے کہا کہ انکا پورا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس سال گرمی سے متعلق ہر قسم کے کیسز موصول ہوئے اور خاص طور وہ لوگ جو کسی مناسب چھت یا سایہ سے محروم ہیں وہ لُو ، تیز بخار، لو بلڈ پریشر اور چکر جیسی علامات کے ساتھ آئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر مون سون کی بارشیں جاری رہیں تو آلودہ پانی کی وجہ سے اسپتال گیسٹرو اینٹرائٹس (معدے اور آنتوں کی سوزش) کے مریضوں سے بھر جائے گا۔ جہاں تک بے گھر لوگوں کا تعلق ہے تو میں نے ان کے لئے کوئی خاص انتظامات یا اقدامات نہیں دیکھے ہیں۔ وہ تمام عملی مقاصد کے لئے غیر رجسٹرڈ شہری ہیں حالانکہ وہ واقعی بہت سی مصیبتوں کا شکار ہیں۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے ڈائریکٹر جنرل سید سلمان شاہ نے کراچی میں 2015 میں گرمی کی لہروں کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی، جس کے بعد ہیٹ ویومینجمنٹ پلان تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گرمی کی لہروں میں بے گھر افراد یا سڑکوں کے کنارے مقیم افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 2015 میں رمضان المبارک کے موقع پر آنے والی گرمی کی لہروں نے پاکستان بھر سے بہت سے لوگوں کو خیراتی امداد کے لئے کراچی کی طرف راغب کیا جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس عام طور پر گھر نہیں ہوتے اور وہ غیر سرکاری بستیوں، عارضی خیموں یا فلائی اوورز کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ 2024 کے منصوبے میں خاص طور پر شدید گرمی کی لہروں کے دوران بے گھر افراد کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنا شامل تھا اور اِس کے لئے شادی ہالز اور سرکاری دفاتر جیسی عمارتوں کو استعمال میں لایا جائے گا۔

    شاہ کے مطابق، اگرچہ سرکاری محکموں نے اس سال گرمی کی لہروں سے قبل شہریوں کی جانب سے محسوس کئے جانے والے اثرات کو کم کرنے کے لئے کام کیا تھا، لیکن یہ غیر متوقع طور پر طویل ثابت ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ “صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بار بار گرمی کی لہروں کے حوالے سے الرٹ اور روزانہ کی صورتحال کی رپورٹس جاری کرتی ہے لیکن کراچی میں بے گھر افراد کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا،” حالانکہ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کراچی میں لوگوں کی اصل تعداد زیادہ ہوگی کیونکہ شہر میں بہتر زندگی کی تلاش میں لوگوں کا مسلسل آنا جاری رہتا ہے۔

    سیلاب سے نمٹنے کے لئے تین سال قبل نالوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لئے انسدادِ تجاوزات مہم شروع کی گئی تھی جس سے نادانستہ طور پر شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اپریل میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ اِن عمارتوں کے اِنہدام کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو نئے مکانات مہیّا کئے جائیں۔

    شہر کے انفرااسٹرکچر(بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سول سوسائٹی کے ادارے اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق نے اس طرح کی پالیسیوں کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ “گجر اور اورنگی نالوں کے اوپر بنی عمارتوں کو ہٹانے کے نتیجے میں 6،900 ہاؤسنگ یونٹس منہدم ہوئیں اور ہر گھر میں ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ خاندان رہائش پذیر تھے۔ بے گھر ہونے کے بعد وہ کسی رشتہ دار کے گھر چلے جاتے ہیں جو کہ خود بھی غریب ہوتے ہیں۔” انہوں نے کہا، “چونکہ ایک بڑی تعداد پہلے ہی تنگ حالات میں رہ رہی ہے، اُس پر بے گھر رشتہ داروں کی آمد، چھوٹے گنجان مکانات یا عارضی پناہ گاہوں میں رہائشی کثافت (کم جگہ میں زیادہ لوگوں کا رہنا) کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کثافت موسمیاتی واقعات جیسے گرمی کی لہروں یا شدید بارشوں کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔” فاروق نے مزید کہا، ” گھروں کا یہ انہدام صرف اِن کے گھروں کو ہی نہیں مِسمار کرتا بلکہ اِن کی معاشی حالت، سماجی شناخت اور روابط بھی بکھر جاتے ہیں۔”

    ایک مقامی دائی نیہا منکانی جو غریب کمیونٹیز کے لئے ذہنی صحت کے کلینک چلا رہی ہیں، کے مطابق بے گھر خواتین کی حالت خاص طور پر سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کراچی میں بے گھر خواتین کو سیلاب اور گرمی کی لہروں کے دوران صحت کے حوالے سے مقابلتاً بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آلودہ سیلابی پانی انفیکشن، جلد کی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے لئے اُن کی حسّاسیت بڑھا دیتا ہے، اور ایسا بے گھر ہونے اور جذباتی صدمے کی وجہ سے ہوتا ہے۔” اس کے علاوہ، جب سیلاب آتا ہے تو لوگ ایک ساتھ ہجوم والی جگہوں پر رہنے کے لئے جاتے ہیں اور ایسے مواقع خواتین کے لئے جنسی تشدد کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غیر مستحکم غذائی ذرائع شدید موسم سے مزید متاثر ہوتے ہیں اور نتیجتاّ اِن خواتین کو کھانا بھی اچھی مقدار میں نہیں ملتا اور یہ غذائی قلت اور معدے کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

    منکانی نے گرمی کی شدید لہروں کے دوران خواتین کی صحت کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں کی ضرورت پر زور دیا، اور محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی تک ان کی محدود رسائی کو اجاگر کیا جس سے پانی کی کمی، پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور حمل میں پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جس میں قبل از وقت زچگی اور حمل کا نقصان بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ خواتین، خاص طور پر وہ جو مناسب پناہ گاہ سے محروم ہیں، گرمی سے مقابلتاً زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اور یہ نکتہ اُن کی صحت اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں اور اُنھیں صحت مند رکھنے کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کو اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • عالمی بینک کا پاکستان میں بے گھر افراد کیلئے بڑا اعلان

    عالمی بینک کا پاکستان میں بے گھر افراد کیلئے بڑا اعلان

    اسلام آباد : عالمی بینک نے فاٹا میں بے گھر افراد کیلیے 12 ملین ڈالر کی اضافی گرانٹ کا اعلان کردیا ، جس پر وفاقی وزیرخسرو بختیار نے عالمی بینک کا شکریہ ادا کیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی بینک اور پاکستان کے درمیان اضافی گرانٹ معاہدے پر دستخط کی تقریب وزارت اقتصادی امورمیں ہوئی، معاہدے کے تحت عالمی بینک فاٹا میں بے گھر افراد کیلئے 12 ملین ڈالر کی اضافی گرانٹ فراہم کرے گا، عالمی بینک کیجانب سے فاٹا کیلئے ریکوری پیکج 216 ملین ڈالرکا ہے

    وفاقی وزیرخسرو بختیار نے کہا عالمی بینک کی فاٹا کیلئے مالی گرانٹ کیلئے شکر گزارہیں، ریکوری پیکج سے فاٹا میں بے گھرافراد کی سپورٹ بچوں کی صحت اورسروس ڈلیوری میں مدد ملے گی۔

    خسروبختیار کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ میں4 نئے اضلاع کی فلاح و بہبود کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    یاد رہے گذشتہ سال دسمبر میں عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 30کروڑ ڈالر فنانسنگ کی منظوری دی تھی ، 30کروڑ ڈالر سندھ ریزیلئنس پراجیکٹ اور سالڈویسٹ منصوبے کے لیے دیے جائیں گے۔

    کنٹری ڈائریکٹرورلڈبینک نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ قدرتی آفات سے بچاؤ اور ہیلتھ ایمرجنسی کے لیے ہنگامی ایجنڈے پر بھی منظور ہونے والی رقم استعمال کی جاسکے گی۔

  • وزیر اعظم کی ہدایت پر پنجاب میں بے سہارا افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں قائم

    وزیر اعظم کی ہدایت پر پنجاب میں بے سہارا افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں قائم

    لاہور: وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر بے سہارا افراد کے لیے پنجاب کے 36 اضلاع میں 92 عارضی پناہ گاہیں قائم کردی گئیں جن میں 15 سو سے زائد بے گھر افراد کو منتقل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ہدایات پر بے سہارا افراد کے لیے اقدامات کرتے ہوئے پنجاب کے 36 اضلاع میں 92 عارضی پناہ گاہیں قائم کردی گئیں۔

    92 عارضی پناہ گاہوں میں 17 سو افراد کو منتقل کیا جا چکا ہے جنہیں کھانے پینے کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔ بہاولپور ڈویژن کے 3 اضلاع میں 8 پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جن میں 241 افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔

    ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے 4 اضلاع میں 5 پناہ گاہیں قائم کی ہیں، ان پناہ گاہوں میں 60 افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔ فیصل آباد ڈویژن کے 4 اضلاع میں قائم کی جانے والی 16 پناہ گاہوں میں 563 افراد اور گوجرانوالہ ڈویژن کے 6 اضلاع میں قائم کی جانے والی 10 پناہ گاہوں میں 108 افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔

    اسی طرح لاہور ڈویژن کے 4 اضلاع میں 11 پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جن میں 157 افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔ ملتان ڈویژن کے 4 اضلاع کی 8 پناہ گاہوں میں 280 اور راولپنڈی ڈویژن کے 4 اضلاع کی 5 پناہ گاہوں میں 127 افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔

    ساہیوال ڈویژن کے 3 اضلاع میں 5 پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جن میں 64 افراد کو رکھا گیا ہے جبکہ سرگودھا ڈویژن کے 4 اضلاع میں 24 پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جن میں 100 افراد کو منتقل کر دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ہدایت کی تھی کہ شدید سردی میں کوئی بھی شخص بغیر شیلٹر کے نہ رہے۔ پنجاب اور پختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ اس بات کو یقینی بنائیں۔

    وزیر اعظم نے کہا تھا کہ جو افراد پناہ گاہوں میں نہیں انتظامیہ ان کو کھانا اور عارضی پناہ گاہیں فراہم کرے۔

  • سرد موسم میں کسی کو بے گھر کرنا تکلیف دہ ہے، وزیراعلیٰ سندھ

    سرد موسم میں کسی کو بے گھر کرنا تکلیف دہ ہے، وزیراعلیٰ سندھ

    کراچی: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سرد موسم میں کسی کو بے گھر کرنا تکلیف دہ ہے، جو بھی بے گھر ہو ان کو خیمے دیے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کابینہ کی جانب سے صوبے میں گھروں کو مسمار کرنے سے پہلے متبادل کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ کے مطابق جن لوگوں کو بے گھر کریں گے وہ کہیں اور جا کر قبضہ کر کے گھر بنائیں گے۔

    صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ سندھ کینال کے ساتھ تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے، بدین گھوٹکی ودیگر اضلاع میں ہزاروں لوگ بے گھر ہیں۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ضلعی سطح پر بےگھر خاندانوں کا سروے کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سرد موسم میں کسی کو بے گھر کرنا تکلیف دہ ہے۔

    مراد علی شاہ نے عدالتوں سے درخواست کے لیے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ درخواست کر کے گھر مسمار سے پہلے متبادل انتظام کرنے کی اجازت لی جائے۔

    وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری، وزیرریونیو، وزیر کچی آبادی پر مشتمل کمیٹی قائم کی ہے جو کمیٹی بے گھر ہونے والے افراد کی نقصانات کا جائزہ لے گی۔

  • باصلاحیت طالبات نے بے گھر افراد کے لیے انوکھے خیمے تیار کرلیے

    باصلاحیت طالبات نے بے گھر افراد کے لیے انوکھے خیمے تیار کرلیے

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہائی اسکول کی باصلاحیت طالبات نے بے گھر افراد کے لیے شمسی توانائی سے مزین خیمے تیار کرلیے۔

    یہ خیمے کیلی فورنیا کے شہر سان فرنانڈو سے تعلق رکھنے والی 12 طالبات نے تیار کیے ہیں۔ ان طالبات نے اس سے قبل نہ تو کوڈنگ کی ہے، نہ سلائی اور نہ ہی تھری ڈی پرنٹنگ۔

    اس کے باوجود انہوں نے تھری ڈی پرنٹنگ اور ہاتھ کی سلائی کی مدد سے ایسے خیمے تیار کیے ہیں جو بے گھر افراد کو چھت فراہم کرسکتے ہیں۔

    خیمے کے اوپر لگا شمسی توانائی کا پینل موسم کی مناسبت سے خیمے کو حرارت یا ٹھنڈک اور بجلی فراہم کرتا ہے۔

    لاس اینجلس ہوم لیس سروس ایجنسی کے مطابق صرف کیلی فورنیا میں ایک سال کے اندر بے گھر افراد کی تعداد میں 36 فیصد اضافہ ہوا۔ پروجیکٹ کی ٹیم لیڈر ورونیکا کا کہنا ہے، ’بے گھر کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کے والدین مختلف بلز نہ بھر سکیں تو آپ بھی بے گھر ہوسکتے ہیں‘۔

    طالبات کے اپنے طور پر شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کو اب بے حد سراہا جارہا ہے، میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے بھی اس منصوبے کی معاونت کے لیے ان طالبات کو ایک مناسب رقم اور اپنے ماہرین کی معاونت فراہم کی ہے تاکہ اس منصوبے کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔

  • ہنگری: نئے قانون نے فٹ پاتھ پر سونا جرم بنا دیا

    ہنگری: نئے قانون نے فٹ پاتھ پر سونا جرم بنا دیا

    بوڈاپسٹ: ہنگری کے آئین نے بے گھری اور سڑکوں پر سونے کو جرم قرار دے دیا، آئین اب کہتا ہے کہ راستوں میں سونا ایک جرم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قانون کی یہ نئی شق پیر سے نافذ العمل ہو گئی ہے، شق میں کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات پر مستقبل رہائش اختیار کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

    [bs-quote quote=”بے گھر افراد جرمانہ ادا نہیں کر سکے تو جیل جانا پڑے گا” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    نئے قانون نے پولیس کو اختیار دے دیا ہے کہ گلیوں اور سڑکوں پر سونے والوں کو ہٹا دیں اور ان کی اشیا ضبط کر لی جائیں۔

    قانون میں شامل ترمیمی شق کے مطابق وہ بے گھر لوگ جو شیلٹر جانے سے انکار کریں، انھیں مفادِ عامہ کے کاموں میں شریک کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔

    شق میں مزید کہا گیا ہے کہ مفادِ عامہ کے کاموں سے بچنے کے لیے انھیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا، جرمانہ ادا نہیں کر سکے تو جیل جانا پڑے گا۔

    سماجی معاملات کے وزیر اٹیلا فولوپ نے نئے قانون کے حوالے سے کہا کہ یہ معاشرے کے مفاد میں لایا گیا ہے، بے گھر لوگوں کے لیے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  مسلمان پناہ گزینوں کی آبادکاری کے خلاف ہنگری کی حکمران جماعت آئین میں ترمیم کرے گی


    دوسری طرف نئے قانون پر تنقید بھی کی گئی ہے، اور اسے ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن کے ملک کے کم زور لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ قرار دیا گیا۔

    اقوام متحدہ کے ایک مندوب کا کہنا ہے کہ اس قانون سے احساس اجاگر ہوتا ہے کہ حکومت بے گھر لوگوں کے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی رویہ رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ بے گھری جرم کے برابر ہے۔

  • ایران میں قبروں کے مکین

    ایران میں قبروں کے مکین

    تہران: ایران کے دارالحکومت تہران سے کچھ دور واقع قبرستان میں بے گھر افراد کی قبروں میں رہائش نے ایرانی صدر حسن روحانی سمیت ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔

    ایران کے ایک مقامی اخبار میں بے گھر افراد سے متعلق شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں قبروں میں رہنے والے ان افراد کی تصاویر شائع کی گئیں۔

    iran-post-3

    iran-post

    یہ قبرستان دارالحکومت تہران سے 30 کلومیٹر دور واقع ہے اور یہاں 50 سے زائد مرد و خواتین قبروں میں رہائش پذیر ہیں جو بے گھر ہیں اور منشیات کے عادی ہیں۔

    کسی قدر خوفناک اور دکھ بھری یہ تصاویر شائع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں اور معروف شخصیات و عام افراد نے اسے ایک اذیت بھری اور خطرناک صورتحال قرار دے ڈالی۔

    iran-post-2

    آسکر ایوارڈ یافتہ ایرانی ڈائریکٹر اصغر فرہادی نے دل برداشتہ ہو کر ایرانی صدر حسن روحانی کو ایک خط بھی لکھا۔ انہوں نے کہا، ’ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد میں انتہائی دکھی اور شرمندہ ہوں‘۔

    انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کی اس حالت کے ذمہ دار آپ، میں اور ہم سب ہیں اور ہمیں اس پر شرمندہ ہونا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    صدر روحانی نے ان کے خط کا جواب دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا، ’یہ افراد مختلف سماجی مسائل کے ہاتھوں برباد ہو کر قبروں میں پناہ لینے پرمجبور ہوگئے۔ کون ہوگا جو ایسی انسانیت سوز تصاویر دیکھ کر شرمندہ نہ ہوگا‘۔

    انہوں نے کہا کہ میں نے مغربی ممالک میں بے گھر افراد کو کاغذ کے گتوں اور میٹرو اسٹیشن پر سوتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن کبھی کسی کو قبر میں رہتے ہوئے نہیں دیکھا۔

    iran-post-4

    ایرانی اخبار کی رپورٹ کے مطابق قبروں میں رہنے والے ان افراد میں سے کچھ ایسے ہیں جو گزشتہ 10 سال سے یہیں رہائش پذیر ہیں۔ انہی میں سے ایک شخص نے اخبار کے نمائندے سے سوال کیا، ’کیا ہم انسان نہیں؟ کیا ہم غیر ملکی ہیں؟ ہم بھی اسی ایران کے رہنے والے ہیں‘۔

    قبروں کے ان مکینوں نے اخبار کے توسط سے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں پناہ فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی سکون سے گزار سکیں۔

    iran-post-1

    واضح رہے کہ ماہرین معاشیات کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں ایران میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

    سنہ 2014 میں ملک میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے زائد تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 13 فیصد ہوگئی جبکہ ملک کا 27 فیصد نوجوان طبقہ روزگار سے محروم ہے۔

  • ریو 2016: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    ریو 2016: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    آپ کے خیال میں کسی ہوٹل میں کتنا کھانا ضائع ہوتا ہوگا؟

    سینکڑوں ٹن؟ ہزاروں ٹن؟

    آج کل برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اولمپک مقابلے چل رہے ہیں جس میں شرکت کے لیے 18 ہزار کھلاڑی، کوچ اور حکام شریک ہیں اور ان کی رہائش ’اولمپک ویلج‘ میں ہے۔

    rio-2
    اولمپک ویلج

    آپ کے خیال میں ان 18 ہزار افراد کا پیٹ بھرنے کے بعد وہاں کتنا کھانا ضائع ہوتا ہوگا؟

    یقیناً اتنی مقدار جسے آپ شمار بھی نہیں کر سکتے۔

    مزید پڑھیں: برازیل کی فضائی و آبی آلودگی کے باعث کھلاڑیوں کی صحت کو سخت خطرہ

    اب اس مقدار کو 3 سے ضرب دے دیں یعنی ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور عشائیہ۔ ضائع شدہ کھانے کی مقدار یقیناً اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔

    برازیل میں ایک طرف تو 21.4 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، صرف ریو ڈی جنیرو میں 56 ہزار افراد بے گھر ہیں اور سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان میں سے 340 بچے ہیں، جبکہ دوسری طرف اولمپک ویلج میں صرف ایک دن میں 12 ٹن خوراک ضائع ہورہی ہے۔

    rio-1

    اب اس کھانے کا کیا کیا جائے؟ معروف اطالوی شیف مسیمو بترا نے اس کا بہترین حل تجویز کیا۔

    بترا اٹلی میں ایک ریستوران اوشتریا فرانچسکانا کے مالک ہیں اور رواں سال ان کے ریستوران کو دنیا کے بہترین ریستوران کا اعزاز مل چکا ہے۔ وہ آج کل اولمپک میں شریک کھلاڑیوں کو بہترین ذائقوں سے روشناس کروانے کی کوششوں میں مصروف ماہرین اور شیفس کی رہنمائی کے لیے ریو ڈی جنیرو میں مقیم ہیں۔

    انہوں نے ضائع شدہ کھانے کو ری سائیکل کر کے بے گھر افراد تک پہنچانے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کو بے حد پسند کیا گیا اور اس پر کام شروع کردیا گیا جس کے بعد ایک روز قبل ضائع شدہ کھانے کو مختلف مشینوں کے ذریعہ پیک کر کے اولمپک ویلج کے آس پاس بے گھر افراد میں تقسیم کردیا گیا۔

    rio-3

    اس سے قبل یہ کھانا کچرے اور کوڑے دانوں میں پھینکا جارہا تھا اور اس کی وجہ اعلیٰ حکام سے اس منصوبے کی منظوری اور وسائل کی عدم دستیابی تھی۔

    بترا پچھلے 2 مہینوں سے اس خیال پر کام کر رہے تھے اور ان کے مطابق برازیلین صدر ڈیلما روسیف نے اس منصوبے کے لیے حامی بہت رد و کد کے بعد بھری۔ ’شاید وہ ہم پر بھروسہ نہیں کر پا رہی تھیں‘ انہوں نے بتایا۔

    ان کے اس کام میں ا کئی امریکی شیفس بھی شامل ہیں جبکہ کئی افراد رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔

    ایک اندازے کے بعد اولمپک کھیلوں کے اختتام تک 19 ہزار کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جا چکے ہوں گے۔