Tag: تابش دہلوی

  • تابش دہلوی کا تذکرہ جو عمدہ شاعر اور خوب صورت نثر نگار بھی تھے

    تابش دہلوی کا تذکرہ جو عمدہ شاعر اور خوب صورت نثر نگار بھی تھے

    2004 میں آج ہی کے دن تابش دہلوی اس دارِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کی 93 سال تھی۔ وہ اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، نثر نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔

    مخصوص لب و لہجے کے حامل تابش دہلوی نے 9 نومبر 1911ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ اصل نام ان کا سید مسعود الحسن تھا اور دنیائے ادب میں تابش دہلوی مشہور ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، اور بعد میں لکھنؤ کے سینٹ فرانسز کانوینٹ اسکول میں داخل کروائے گئے۔ 1919ء میں اُن کے رشتے کے نانا مولوی عنایت اللہ نے انھیں حیدرآباد دکن کے مشہور دارُ الترجمہ میں بلوا لیا۔ وہاں ایک قدیم اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد رام جپسی اسکول نمبر1 سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دوسری جنگِ عظیم چھڑ جانے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور پھر وہ 1947ء میں پاکستان آگئے جہاں لاہور میں ابتدائی برسوں میں سکونت اختیار کیے رکھی اور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔ اسی عرصہ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شادی کے بعد ایف اے اور پھر 1958ء میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    پاکستان ہجرت سے قبل وہ 1932ء میں ٹیلی گراف کے محکمے میں ملازم رہے تھے اور کچھ عرصہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے، جہاں خبر خوانی اور ادبی پروگراموں کی میزبانی کی جس نے ان کا شوق شاعری اور ذوقِ ادب نکھارا۔ کراچی میں بھی 1963ء تک وہ ریڈیو پر خبریں پڑھتے رہے۔ ان کی آواز بھاری اور تلفظ و ادائیگی بہت خوب صورت تھی۔ 1963ء میں اسکول براڈ کاسٹ کے شعبے سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے اور 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    تابش دہلوی کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے ’’ساقی‘‘ میں شایع ہوئی تھی۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر غزل کی صنف کے ساتھ نعت گوئی، مرثیہ گوئی میں بھی کمال رکھتے تھے جب کہ دیگر اصنافِ سخن میں ہائیکو، آزاد نظموں کے ساتھ گیت نگاری اور ملّی نغمات بھی تخلیق کیے۔

    انھوں نے حیدر آباد دکن میں قیام کے دوران حضرت فانی بدایونی کے آگے زانوئے تلّمذ تہ کیا تھا اور ’’یاد ایّامِ صحبتِ فانی‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی تھی جو ان کی نثر نگاری کی اوّلین یادگار ہے۔ فکر و فن کے اعتبار سے ان کے کلام میں انفرادیت نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں قدیم اور جدید روّیوں کے اظہارِ خیال سے لے کر ہیئت تک بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی شاعری جہاں اچھوتی اور منفرد صفات کی حامل نظر آتی ہے، وہیں وہ ایک پختہ کار نثر نگار کے طور پر بھی ’’دید باز دید‘‘ کے وسیلے پہچانے جائیں گے جس میں شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے شامل ہیں۔ اردو کے اس معروف شاعر کے مجموعہ ہائے کلام نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھاؤں کے عنوان سے شایع ہوئے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    بابِ نظارہ مگر کُھلتا ہے

    وہ کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    سید مسعود الحسن کو شعر و سخن کی دنیا تابش دہلوی کے نام سے جانا گیا۔ اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر نے 2004ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ آج تابش دہلوی کی برسی ہے۔

    وہ 9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے نانا کے پاس حیدرآباد، دکن چلے گئے۔ وہیں پہلی سرکاری ملازمت شروع کی اور بعد میں پطرس بخاری کے توسط سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ یہاں ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر سے منسلک ہوگئے۔ تابش دہلوی نے ریڈیو پر خبرنامہ پڑھا اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

    1923ء میں انھوں نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ فانی بدایونی سے اصلاح لیتے رہے اور غزل اور نظم کے ساتھ نعت قصیدہ اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔

    انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ’’تمغۂ امتیاز‘‘عطا کیا تھا۔

    اردو شاعری میں انھو‌ں نے بڑا نام و مقام بنایا اور مشاعروں میں شرکت کرکے ہم عصر شعرا اور باذوق سامعین سے اپنے کلام پر داد پائی۔

    تابش دہلوی کے شعری مجموعے نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے شایع ہوئے۔

    وہ ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے اور ان کے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات کا خوب صورت و دل چسپ تذکرہ ہی نہیں نکلا بلکہ متعدد علمی و ادبی واقعات بھی کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے۔ دیدہ باز دید ان کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے جو ان کی نثر پر گرفت اور کمال کا نمونہ ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے

  • ایک بد ذوق اور خوش قسمت

    ایک بد ذوق اور خوش قسمت

    حضرت تابش ؔدہلوی کا شمار بھی اساتذۂ فن میں ہوتا ہے، لیکن ان کی خوش گوئی اور خوش فکری میں کلام نہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول شاعروں میں سے ہیں۔ ہمارے دل میں ان کا بے حد احترام ہے۔ اسی لیے ہم نے ان کے مجموعہ ہائے کلام کو ادباً دُور ہی سے دیکھا ہے۔

    ان کے نئے مجموعے کو قریب سے دیکھنے کی اتفاقی صورت یوں پیدا ہوگئی ہے کہ پچھلے دنوں ہم حیدر آباد سندھ جا رہے تھے، بس میں ہمارے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک کتا ب تھی، جسے وہ بڑے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔ ہمیں ان صاحب کی بد ذوقی پر حیرت ہوئی کہ بس کے تمام مسافر تو ڈرائیور کے ذاتی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے نازیہ اور زوہیب کے نئے گانوں سے محظوظ ہو رہے ہیں اور یہ صاحب کتاب پڑھ رہے ہیں۔

    اسی دوران بلا ارادہ ہماری نظر اس صفحے پر پڑی جو موصوف کے سامنے کھلا تھا۔ اس پر جلی حرفوں میں یہ عنوان درج تھا: ’’شان الحق حقی کی شادی پر غالبؔ سے معذرت کے ساتھ‘‘ ہم شان صاحب کے پرانے نیاز مند ہیں۔ اس لیے اس عنوان پر ہمیں بے حد تعجب ہوا۔ شان صاحب کی شادی پر غالب سے معذرت کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہ آئی۔

    شان صاحب غالبؔ کے دیوان کی شرح لکھتے یا تضمین کرتے تو معذرت کی گنجائش تھی، مگر شادی تو بالکل ایک مختلف کام ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہم سفر سے کتاب دیکھنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے فوراً اسے ہمارے حوالے کر دیا، جیسے وہ اسی انتظار میں ہوں کہ کوئی ان سے کتاب لے لے۔

    اس کے بعد وہ تو گانے سننے میں اور ہم کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے اور یوں ہم نے جناب شان الحق حقی سے نیاز مندی کا رشتہ رکھنے کی پاداش میں حضرتِ تابش دہلوی کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’غبارِ انجم‘‘ سے استفادہ کیا۔ اسے ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔

    (خامہ بگوش کے قلم سے از مشفق خواجہ)

  • تابش دہلوی: آج ہستی کا طلسم ٹوٹا تھا!

    تابش دہلوی: آج ہستی کا طلسم ٹوٹا تھا!

    سید مسعود الحسن کو دنیائے ادب میں تابش دہلوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ تابش دہلوی 23 ستمبر 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر اور براڈ کاسٹر کی برسی ہے۔

    9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہونے والے تابش دہلوی طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر اور پروڈیوسر وابستہ رہے۔ ان کا مخصوص لب و لہجہ بھی ان کی وجہِ شہرت ہے۔

    تابش دہلوی کا کلام مشاعروں سے ان کے شعری مجموعوں تک بہت پسند کیا گیا۔ ان کی شاعری نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے مجموعوں‌ میں‌ محفوظ ہے۔ تابش دہلوی نے اپنے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات اور علمی و ادبی واقعات کو خوب صورتی سے صفحات پر اتارا۔ دیدہ باز دید ایک ایسی ہی تصنیف ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے

  • مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    دلی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔

    شاعرِ نازک طبیعت ہوں، مرا دل کٹ گیا
    ساقیا لینا کہ شاید بال پیمانے میں تھا

    یہ مشہور شعر آغا شاعر قزلباش کا ہے۔

    (تابش دہلوی کی کتاب دید و باز دید سے انتخاب)