Tag: تاج محل

  • تاج محل کا راز جاننے کے لیے عدالت جانے والے بی جے پی رکن کے ساتھ کمرہ عدالت میں کیا ہوا؟

    تاج محل کا راز جاننے کے لیے عدالت جانے والے بی جے پی رکن کے ساتھ کمرہ عدالت میں کیا ہوا؟

    آگرہ: الہٰ آباد ہائی کورٹ میں بی جے پی رہنما کی تاج محل کے کمروں میں بند ‘راز’ جاننے کے حوالے سے بڑی سبکی ہو گئی ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بی جے پی کے ایودھیا میڈیا انچارج ڈاکٹر رجنیش سنگھ نے عدالت میں عرضی داخل کر کے مطالبہ کیا کہ تاج محل کے 22 کمروں کو کھولا جائے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان میں کیا راز بند ہے، تاہم عدالت نے انھیں بری طرح جھڑک دیا۔

    الہٰ آباد کی عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس ڈی کے اپادھیائے نے رجنیشن کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ پہلے جا کر تاج محل پر تحقیق کرو، یونیورسٹی جاؤ، پی ایچ ڈی کرو، پھر عدالت آنا۔

    عدالت نے درخواست دینے والے ایودھیا بی جے پی لیڈر سے واضح لفظوں میں کہا کہ پی آئی ایل کا مذاق نہ بنائیں، پی آئی ایل نظام کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کا مذاق بنانا ٹھیک نہیں۔ انھوں نے کہا تاج محل کس نے بنوایا، اس تعلق سے پہلے تحقیق کرو، یونیورسٹی جاؤ، پی ایچ ڈی کرو تب عدالت آنا۔

    بی جے پی "تاج محل” کا کون سا راز جاننے عدالت پہنچی ہے؟

    عدالت نے کہا اگر آپ کو تحقیق سے کوئی روکے تب ہمارے پاس آنا، اب تاریخ کو آپ کے مطابق نہیں پڑھایا جائے گا۔

    واضح رہے کہ بی جے پی کے ایودھیا میڈیا انچارج ڈاکٹر رجنیش سنگھ نے عدالت میں درخواست دے کر مطالبہ کیا تھا کہ تاج محل کے 22 کمروں کو کھولا جائے، اور کمروں میں بند راز کو دنیا کے سامنے لایا جائے، کیوں کہ ہندو مذہبی پیشوا اور ہندو تنظیم جہاں تاج محل کو بھگوان شیو کا مندر بتاتے ہیں، وہیں مسلم اسے عبادت گاہ بتا رہے ہیں، اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے ہی میں نے ہائی کورٹ میں درخواست دی ہے کہ تاج محل کے بند 22 کمروں کو کھولا اور اس کی ویڈیوگرافی کی جائے۔

  • تاج محل کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کو قطب مینار بھی کھٹکنے لگا، خطرناک مطالبہ

    تاج محل کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کو قطب مینار بھی کھٹکنے لگا، خطرناک مطالبہ

    دہلی: تاج محل کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کو قطب مینار بھی کھٹکنے لگا ہے، اور وہ اسے مندر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بدھ کو بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعتوں نے نئی دہلی میں واقع قطب مینار کے سامنے احتجاج کیا، اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔

    انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمان حکمرانوں کے بنائے گئے ثقافتی ورثے قطب مینار کو وشنو مندر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق انتہا پسند ہندو جماعت کے سربراہ بھگوان گوئل نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو میمورنڈم دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ثقافتی مقام قطب مینار جو مسلم حکمراں قطب الدین ایبک نے تعمیر کرایا تھا، دراصل وشنو ٹیمپل تھا۔

    ثقافتی ورثے کے مقام جمع ہو کر نعرے بازی کرنے پر پولیس نے یونائیٹڈ ہندو فرنٹ کے سربراہ جے بھگوان گوئل کو گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔

    بی جے پی "تاج محل” کا کون سا راز جاننے عدالت پہنچی ہے؟

    بابری مسجد میں مندر کے قیام کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے نہ صرف مسلم علاقوں کے نام تبدیل کیے بلکہ وہ تاج محل، قطب مینار اور دیگر قدیم عمارتوں اور مساجد کو مندر میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے۔

    ابھی چند دن قبل الہٰ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایودھیہ ضلع کے میڈیا انچارج ڈاکٹر راجنیش سنگھ نے تاج محل میں موجود 20 کمروں کو کھلوانے کے لیے ایک پٹیشن دائر کی ہے جو یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا تاج محل کے ان 20 کمروں میں ہندو مورتیوں اور تاریخی عبارات کو چھپایا تو نہیں گیا ہے؟

  • ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ شاہ جہان کی اپنی محبوب ملکہ سے بے پناہ محبّت اور شہرہ آفاق عمارت تاج محل کی تعمیر جہاں اس دور کی ایک یادگار اور عجوبہ ہے، وہیں ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کی وہ نظم بھی پاک و ہند میں‌ مشہور ہے، جس کے ہر شعر میں محبّت کی اس یادگار سے نفرت اور بیزاری جھلک رہی ہے۔

    آج اسی ساحر لدھیانوی کی برسی ہے۔ اس مشہور شاعر کی نظمیں اثرانگیز اور دلوں میں اتر جانے والی ہیں۔ ان کے باغیانہ افکار نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور محبت کے رنگ بہم ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ دراصل ان کے جذبات اور احساسات کا وہ مجموعہ تھا جس میں دردمندی، محرومی، بیزاری، غصہ، نفرت، محبت، کیف و مستی، انا، ضد، شکوے شکایات سبھی کچھ تھا۔ وہ اپنے زمانے میں نوجوانوں میں مقبول اور ہر طبقے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوں سے ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں، ان کی شاعری اپنے عشقیہ مزاج کے باوجود ایک گہرے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔

    ساحر لدھیانوی 25 اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

    ہندوستان کی فلمی شاعری کے معیار کو بلند کرنے اور فلمی نغموں میں ادبی حسن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ انھیں بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    ساحر مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1939ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ لیکن آگے نہ پڑھ سکے اور کالج سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ اشتراکی نظریے سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ناکام عشق کے احساس غم نے ان کی شاعری کو چمکا دیا اور ان کے لفظوں میں ایک نئی تاثیر ڈال دی۔

    شاعری تو اسکول کے زمانے ہی میں‌ شروع کردی تھی، لیکن بعد میں لاہور کی ادبی فضا اور صحبتوں نے ان کی ادبی شخصیت اور شاعری کو بھی چمکایا۔ وہ کئی ادبی پرچوں کے مدیر رہے اور فلم انڈسٹری کے لیے لازوال گیت تخلیق کیے۔ 1950ء میں ساحر نے بمبئی میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی اور اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔

    وہ ایک رومان پرور شاعر تھے جن کے عشق کی داستانیں سبھی کی زبان پر تھیں اور عشق میں‌ ناکامی نے انھیں‌ سخت مایوس اور تلخ بنا دیا تھا۔ انھوں نے تاج محل کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

    تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

    بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
    ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
    اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
    میری محبوب پسِ پردہ تشہیر وفا
    تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
    مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
    اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

    ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
    کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
    لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
    کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
    یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
    مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
    سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
    جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
    میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

    جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
    ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
    آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
    یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
    یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

  • یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا تھا۔

    مؤرخین نے اسے طبعاً صلح جُو، غم گسار، صوفیا کا ارادت مند لکھا ہے۔ وہ فارسی، عربی اور سنسکرت کا عالم اور متعدد کتب کا مصنّف تھا۔

    شہزادہ دارا شکوہ کی نظر میں تمام مذاہب قابلِ احترام تھے۔ وہ جہاں مسلمان علما اور صوفیائے کرام کی مجالس میں شریک رہتا، وہیں ہندو، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں سے بھی علمی و مذہبی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں اسے ایک بدنصیب شہزادے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جسے 1659ء میں آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    دارا شکوہ شاہ جہاں کے بعد تخت کا وارث تھا، لیکن شہنشاہ کے چھوٹے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کرکے قید کر لیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور شہر اجمیر میں 1615ء میں‌ آنکھ کھولنے والا دارا شکوہ شاہ جہاں کا لاڈلا تھا۔ وہ بڑا ہوا تو ایک مفکّر، شاعر اور فنونِ لطیفہ کا شیدائی نکلا، لیکن سلطنت کے انتظام اور خاص طور پر فوجی امور میں اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

    مؤرخین نے دارا شکوہ کی شادی کو مغل دور کی مہنگی ترین تقریب لکھا ہے۔ اس شہزادے کا نکاح نادرہ بانو کے ساتھ ہوا۔ 1633ء میں شاہی خاندان میں ہونے والی شادی کی یہ تقریب کئی روز جاری رہی تھی۔

    محمد صالح کمبوہ لاہوری شاہ جہاں کے دربار سے منسلک ایک مؤرخ تھے۔ انھوں نے ’شاہ جہاں نامہ‘ جیسی کتاب لکھی جو بہت مشہور ہے۔

    وہ دارا شکوہ کی گرفتاری اور قتل کے بارے میں لکھتے ہیں، ’شہزادہ کو جب گرفتار کر کے دلّی لایا گیا تو اس کے جسمِ نازنین پر میلا کچیلا لباس تھا۔ یہاں سے اسے نہایت سرگردانی اور برگشتہ بختی کی حالت میں ہاتھی پر سوار کر کے خضر آباد پہنچایا گیا۔ کچھ عرصے ایک تنگ و تاریک گوشے میں رہا اور تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔‘

    قتل کے بعد اس کی لاش کو کہاں دفنایا گیا، اس بارے میں بتانا کچھ مشکل ہے، کیوں کہ کوشش کی گئی تھی کہ کسی کو اس کی قبر کا علم نہ ہوسکے۔

    دارا شکوہ کی قبر کہاں ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اس وقت کے ایک مؤرخ محمد کاظم ابن محمد امین منشی نے اپنی مشہور کتاب ’عالمگیر نامہ‘ میں لکھا ہے، ’دارا شکوہ کو ہمایوں کے مقبرے میں اس گنبد کے نیچے دفنا دیا گیا جہاں شہنشاہ اکبر کے بیٹے دانیال اور مراد دفن ہیں۔‘

    کسی شہزادے کا موت کے بعد یوں بے نام و نشان ہو جانا تعجب کی بات نہیں کیوں کہ تاریخ کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب شاہی خاندان میں مخالف کو مرنے کے بعد اس طرح ٹھکانے لگایا گیا ہو کہ کوئی اس کی قبر تک نہ پہنچ سکے۔

    مؤرخین کے مطابق اس بدنصیب شہزادے کا سر قلم کردیا گیا تھا۔ شاہ جہاں کے عہد کے مؤرخین کی تحریر اور بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کا دھڑ دلّی میں ہمایوں کے مقبرے میں کسی جگہ پیوندِ‌ خاک بنا، لیکن اس کا سَر تاج محل کے صحن میں کہیں دفن ہے۔

    رباعیات کے علاوہ دارا شکوہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سفینۃُ الاولیا، سکینۃُ الاولیاء اور حسناتُ العارفین مشہور ہیں۔

  • ایک باکمال گلوکار کے آگے شاعر کی کیا اوقات!

    ایک باکمال گلوکار کے آگے شاعر کی کیا اوقات!

    ساحر لدھیانوی کو جہاں ان کی نظموں اور فلمی شاعری کی وجہ سے ہندوستان بھر میں‌ پہچان ملی، وہیں‌ عاشقی اور تنک مزاجی کے لیے بھی پہچانے گئے۔

    ایک زمانہ تھا جب فلم نگری میں‌ ان کے گیتوں کا چرچا تھا اور ان کی شاعری اپنے وقت کی مشہور اور مقبول گلوکاراؤں کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئی۔ ایسی ہی ایک گلوکارہ اور ساحر لدھیانوی کے درمیان ایک گیت کی ریکارڈنگ کے دوران تلخ کلامی ہوئی اور بات اتنی بڑھی کہ وہ مغنیہ گانا ریکارڈ کروائے بغیر اسٹوڈیو سے چلی گئی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ہندوستانی گلوکارہ اور ساحر لدھیانوی ایک ہی ڈاکٹر سے علاج کراتے تھے۔ ایک مرتبہ ساحر صاحب بغرضِ علاج ڈاکٹر کے کلینک میں گئے اور انتظار گاہ میں بیٹھ گئے۔ وہ اپنی باری آنے کا انتظار کرنے لگے، کیوں کہ ڈاکٹر اپنے مطب میں کسی اور مریض کو دیکھنے میں مصروف تھا۔

    اچانک ساحر کو ڈاکٹر کے کمرے سے اسی گلوکارہ کی آواز سنائی دی جو گویا ڈاکٹر کی معلومات میں اضافہ کررہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل فلموں کے گیت گلوکاروں کے گلے کے کمال کی وجہ سے مقبول ہوتے ہیں، مگر یہ شاعر اور گیت کار لوگ دنیا بھر میں اپنے فن اور قابلیت کے ڈنکے پیٹتے پھرتے ہیں۔

    گلوکارہ بولے چلی جارہی تھی۔ اس نے کہا، اب تو حد ہو گئی ہے، ریڈیو پر گلوکار کے ساتھ اپنا نام بھی اناؤنس کرانا چاہتے ہیں اور اس مقصد سے دلّی تک بھاگے پھر رہے ہیں۔ شاعر ہو یا موسیقار بھلا ایک باکمال گلوکار کے آگے اس کی کیا اوقات ہے۔

    ایک گلوکارہ کے منہ سے صاحبِ قلم برادری کے لیے ایسے تضحیک آمیز الفاظ سن کر ساحر صاحب بھنّا گئے اور ڈاکٹر کے کیبن کا دروازہ کھول کر بغیر اجازت اندر گُھس گئے۔

    وہ ڈاکٹر کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس گلوکارہ سے مخاطب ہو کر بولے کہ ’’مادام، اگر ہمّت ہے تو آج کے بعد آپ میرے لکھے ہوئے گیت ہرگز نہ گائیے گا۔ ہم بھی دیکھیں گے کہ اچھی شاعری کے بغیر آپ کیسے کام یاب ہوتی ہیں۔‘‘ اس گلوکارہ نے وہاں بیٹھے ہوئے ان کا چیلنج تو قبول کر لیا، مگر عملی دنیا میں اپنے مسابقے کے پیشِ نظر دو دن ہی میں اسے بھلا بھی دیا۔

    (ماخذ: مضمون ‘چند یادگار نغمے’)

  • آگرہ اور تاج محل دھول مٹی سے اَٹ گئے

    آگرہ اور تاج محل دھول مٹی سے اَٹ گئے

    بھارت کے شہر آگرہ کا تاج محل کل کی طرح‌ آج بھی دیدنی ہے اور ‌مغل شہنشاہ شاہ جہاں‌ کی ممتاز محل سے محبت کی کہانی شاید رہتی دنیا تک دہرائی جاتی رہے، لیکن اس عظیم الشان عمارت کے حُسن اور اس کی آب و تاب کے لیے فضائی آلودگی ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

    بھارت کے شہر آگرہ میں لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کے چند دنوں بعد ہی تاج محل کی عمارت دھول مٹی سے اَٹ گئی اور اس کا سفید سنگِ مرمر خراب ہونے لگا جس کا سبب مختلف اقسام کی زہریلی گیسیں اور تاج محل کے قریب جاری تعمیراتی کام ہے۔

    آگرہ میں فضائی آلودگی کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے اور مقامی شہری سانس کی مختلف تکالیف، سینے کے امراض، آنکھ اور مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن شہریوں‌ کا کہنا ہے کہ حکومت یا انتظامیہ کی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی کوشش نظر نہیں‌ آرہی۔ مقامی شہریوں‌ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھول مٹی سے تاج محل کی عمارت ہی متاثر نہیں‌ ہورہی بلکہ اس فضا میں‌ سانس لینے والے ہر شخص کی صحّت کو خطرہ ہے۔

    جہاں‌ تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک ہے، وہیں آگرہ کا بھارت کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کی فہرست میں‌ نواں‌ نمبر ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس شہر میں‌ مختلف چھوٹے کارخانوں اور ہر قسم کے ٹریفک کے علاوہ تعمیرات کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے جس کے سبب فضا میں دھول مٹی اور ہوا میں مختلف کثافتیں بڑھ گئی ہیں۔

    بھارت کی تاریخی اور اہم یادگاروں کی حفاظت اور دیکھ بھال سے متعلق قائم کردہ کمیٹی کے چیئرمین سید منور علی کا کہنا ہے کہ تاج محل کی عمارت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سے ملحق راستوں پر 100 الیکٹرانک بسیں‌ چلائی جائیں‌ گی اور یہ ان گیسوں کے اخراج کا باعث نہیں‌ بنیں‌ گی جن کی وجہ سے تاج محل کا سفید سنگِ مرمر خراب ہو رہا ہے۔

  • تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    شہاب الدین محمد المعروف "شاہ جہاں” نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر راج کیا۔ وہ پانچواں مغل شہنشاہ تھا جس نے ممتاز محل کی محبت میں‌ وہ عظیم اور اعجوبہ عمارت تعمیر کروائی جسے دنیا بھر میں‌ "تاج محل” کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    شاہ جہاں کے دور کو مغلیہ سلطنت کے عروج کا عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658 میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے نے معزول کر دیا تھا۔

    شاہ جہاں فنِ تعمیر میں‌ دِل چسپی رکھتا تھا اور اس کے عہد میں کئی خوب صورت اور یادگار عمارتیں تعمیر کی گئیں جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ تاج محل ان میں‌ سے ایک ہے۔

    اسی مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایک نہایت قیمتی تخت تیار کرایا تھا جسے ’’تختِ طاؤس‘‘ کا نام دیا گیا۔

    اس تخت کا طول تیرہ جب کہ عرض ڈھائی گز اور اونچائی پانچ گز رکھی گئی تھی۔ تخت کے چھے پائے تھے جو خالص سونے سے تیار کیے گئے تھے۔

    ہندوستان کے فرماں‌ روا کے اس تخت پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے تھے جن میں قیمتی جواہر جڑے گئے تھے۔

    اس تخت کے دو کناروں‌ پر دو خوب صورت مور بنائے گئے تھے جن کی چونچ میں موتیوں کی لڑی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان موروں کے سینوں کو سرخ یاقوت سے سجایا گیا تھا جب کہ ٹیک یا پشت والے حصّے پر قیمتی ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

    نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تو ہر طرف بڑی تباہی اور بربادی ہوئی اور عمارتوں‌ کو نقصان پہنچا، یہی نہیں‌ بلکہ ان میں موجود قیمتی ساز و سامان، اور ہر قسم کی دولت لوٹ لی گئی جس میں‌ تختِ طاؤس بھی شامل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس حملے کے بعد‌ نادر شاہ یہ تخت بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا تھا۔

  • تاج محل کی مکین ’ممتازمحل‘ کا 426واں یوم پیدائش

    تاج محل کی مکین ’ممتازمحل‘ کا 426واں یوم پیدائش

    مغل سلطنت کے پانچویں طاقت ورحکمران شاہجہاں کی محبوب ملکہ ممتازمحل کا آج 426 واں یوم پیدائش ہے، شاہجہاں کی ممتاز سے محبت کی نشانی ’تاج محل‘ہے جو کہ ساری دنیا میں محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

    مغل سلطنت میں بے پناہ اختیارات کی حامل ملکاؤں میں ممتاز محل کو نمایاں مقام حاصل ہے ، ان کا اصل نام ارجمند بیگم تھا اور وہ 27 اپریل 1593 کو آگرہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

    ممتازمحل مغل شہنشاہ شاہجہاں کی تیسری اور سب سے محبوب بیوی تھیں ، دونوں کے 14 بچے تھے جن میں سے تین بیٹیاں اور چار بیٹے سلامت رہے۔

    ممتاز محل اور شاہ جہاں

    خیال کیا جاتا ہے کہ نورجہاں کے بعد اگر کسی ملکہ نے پردے کے پیچھے سے مغل تخت پر حکومت کی ہے تو وہ ممتاز محل ہی ہیں، ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں میں تخت کے حصول کی جنگ چھڑگئی جس کے سبب اورنگ زیب کے سوا سب مارے گئے، خود ان کے محبوب شوہر شاہجہاں تخت سے معزول ہوکر شاہی قلعے تک محدود ہورہے۔

    اس عظیم الشان ملکہ کا انتقال 17 جون 1631 کو برہان پور میں 14 ویں بچے کی پیدائش کے دوران انفیکشن کے سبب ہوا، کچھ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ ممتاز محل کے بے پناہ اثر ورسوخ اور کارسلطنت میں بے جا مداخلت کے سبب انہیں انتہائی خاموشی سے اس موت کی جانب دھکیلا گیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر صرف 39 سال تھی۔

    قتل کی کہانی بیان کرنے والے تاریخ دانوں کے بیان کو شاہ جہاں کے رویے سے کسی بھی طور تقویت نہیں ملتی کہ دو سال تک انہوں نے سوگ میں اپنے تمام کام ترک کردیے تھے اور کاروبارسلطنت مشیروں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ دو سال سوگ منا نے کے بعد ایک دن شہنشاہ کو خیال آیا کہ ممتاز کی قبر پر ایک ایسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جائے جس کے سبب رہتی دنیا تک لوگ اس محبت کو یاد رکھیں۔

    آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے 1633 میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ عظیم معمار استاد عیسیٰ شیرازی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، تاہم بادشاہ نامے کے مطابق شاہ جہاں خود اس عمارت کے آرکیٹیکٹ تھے ، استاد احمد لاہور ی کی نگرانی میں 20 ہزار مزدور 17 سال تک شب ور وز کام میں مشغول رہے ۔ کہتے ہیں اس زمانے میں’تاج محل‘ پر تین کروڑ 20 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تاج پر جاری کام کے سبب سلطنت میں قحط بھی پڑگیا تھا۔

    سفید سنگِ مرمر سے تعمیرکردہ یہ عظیم الشان عمارت جب مکمل ہوئی تو شہنشاہ نے ممتاز محل کی اس آخری آرام گا ہ کو تاج محل کا نام دیا۔ اور محل میں ایسی جگہ سکونت اختیار کی جہاں سے وہ اٹھتے بیٹھتے اس عمارت کا دیدارکرسکیں۔

    تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمریں دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔

    مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔

    ممتاز اور شاہجہاں کی آخری آرام گاہیں

    تاج محل کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہاں کی قبریں ہیں۔

  • آگرہ کی آلودگی نے تاج محل کا حسن گہنا دیا، عدالتی حکم کے باوجود حکومت غافل

    آگرہ کی آلودگی نے تاج محل کا حسن گہنا دیا، عدالتی حکم کے باوجود حکومت غافل

    آگرہ: سترہویں صدی میں تعمیر کردہ تاج محل اپنا اصل رنگ روپ کھو رہا ہے، جس کی وجہ سے اس عالمی ورثے پر خطرات کے بدل منڈلا رہے ہیں.

    تفصیلات کے مطابق دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہونے والے تاج محل کا بیش قیمت سفید سنگ مرمر زرد اور سبز رنگ میں‌ تبدیل ہوجاتا ہے، اس ضمن میں‌ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے غیرملکی ماہرین کی خدمات کرنے کے حکم پر تاحال عمل درآمد نہیں‌ ہوسکا.

    واضح رہے کہ آگرہ کا شمار دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے، یہ آلودگی محبت کی اس عظیم یادگار کو براہ راست متاثر کر رہی ہے.

    تاج محل اپنے پہلو میں بہتے آلودہ دریا، گاڑیوں اور کارخانوں کے دھویں اور اسموگ کی زد میں ہے، بھارتی عدلیہ نے حکومت کو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے تعمیرکردہ اس شاہ کار کی دیکھ بھال میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ٹھوس اقدامات کی ہدایت کی تھی، جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ آگرہ میں ہونے والی بارشوں اور طوفانی ہواؤں سے محبت کی عظیم الشان علامت تاج محل کے چار صدیوں سے کھڑے مینار منہدم ہوگئے۔


    محبت کی عظیم الشان علامت تاج محل کے صدیوں پرانے مینار ٹوٹ گئے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حکومت کوتاج محل کا رنگ بدلنے کی پروا نہیں‘ بھارتی سپریم کورٹ

    حکومت کوتاج محل کا رنگ بدلنے کی پروا نہیں‘ بھارتی سپریم کورٹ

    نئی دہلی : بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ تاج محل کے رنگ بدلنے کے مسئلے کے حل کے لیے بیرونی ماہرین کی خدمات حاصل کرے۔

    تفصیلات کے مطابق تاج محل کے رنگ بدلنے کے مسئلے پرانڈین سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ بھارت یا باہر سے ماہرین کی خدمات حاصل کرے اور اس مسئلے کو حل کرے۔

    بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ اس یادگار کا رنگ پیلا پڑگیا ہے اور حصوں کا رنگ بھورا اور سبز ہوتا جا رہا ہے لیکن شاید حکومت کو تاج محل کے رنگ بدلنے کی پروا نہیں ہے۔

    تاج محل کے قریب واقع دریائے جمنا میں بہہ کر آنے والی گندگی کے باعث وہاں کیڑے مکوڑے پھل پھول رہے ہیں جو تاج کی دیواروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت نے تاج محل کے قریب ہزاروں کارخانے بند کروا دیے تھے لیکن ماحولیات کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام کافی نہیں ہے، تاج کی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے۔

    ماحولیات کے کارکنوں کے مطابق روزانہ 70 ہزار لوگ تاج محل کی سیر دیکھنے آتے ہیں۔


    وزیراعلیٰ یوگی آدیتیہ ناتھ نے تاج محل کو مسلمانوں کی نشانی قراردے دیا

    یاد رہے کہ گزشتہ سال 21 جون کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی آدیتیہ ناتھ نے دنیا کے عجوبوں میں شامل تاج محل کو مسلمانوں کی نشانی قرار دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔