Tag: تاحیات نااہلی کیس

  • سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل

    سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل

    اسلام آباد : سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ، جس میں جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ اور جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، تریپن صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے آرٹیکل باسٹھ ون ایف ایف میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں۔

    جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلے میں شامل ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا ہے کہ "تاحیات نااہلی ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی مستقل یا تاحیات نہیں، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کورٹ آف لا کی ڈیکلیئریشن تک محدود ہے”۔

    جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ "نااہلی تب تک برقراررہتی ہے جب تک کورٹ آف لا کی ڈیکلیئریشن ہو، اس حوالے سے سپریم کورٹ کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ درست تھا”۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلہ کا حصہ ہے، فیصلے میں کہا ہے کہ "سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی ڈیکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی ، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال سے زائد نہیں ہوسکتی”۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ "تاحیات نااہلی انتخابات لڑنے اور عوام کے ووٹ کے حق سے متصادم ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کو تنہا پڑھا جائے تو اس کے تحت سزا نہیں ہوسکتی”۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا کہ” سابق جج عمرعطابندیال نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ لکھا اور خود اس کی نفی کی، باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی بنیادی حقوق کی شقوں سے ہم آہنگ نہیں، ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر آرٹیکل باسٹھ میں تاحیات نااہلی کی شق شامل کرائی تاہم عدالت الیکشن ایکٹ کے اسکوپ کو موجودہ کیس میں نہیں دیکھ رہی”۔

    اعلی عدلیہ نے فیصلے میں لکھا ‘آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لا کیا ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلیئریشن کس نے دینی ہے، ایسا قانون نہیں جو واضح کرے کہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا’۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ "سابق جج عمرعطا بندیال نے فیصل واوڈا اور اللہ دینو کیس میں اپنے فیصلے کی نفی کی”۔

  • تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ

    تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جلد مختصر حکم سنائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل62ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    نماز جمعے کے وقفے کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پر بحث ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پربحث نہیں ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے یہ بڑی عجیب بات ہے ، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے متعلق تھا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے خاکوانی کیس میں کہا کہ نااہلی کا معاملہ بعدمیں دیکھیں گے ، خاکوانی کیس میں پھر یہ معاملہ بعد میں نہیں دیکھا گیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں سمیع اللہ کیس کافیصلہ درست نہیں، تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی بالکل میں سمجھتاہوں سمیع اللہ کیس کا فیصلہ درست نہیں آیا، صابر شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا 62 الیکشن سے پہلے اور 63 بعد میں لاگو ہوگا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ خاکوانی کیس 7رکنی بینچ اور سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ5رکنی بینچ نے دیا، آپ خاکوانی کیس سےمتعلق بات کریں ، خاکوانی کیس کے 7رکنی بینچ کا فیصلہ کیسے پس پشت ڈالا گیا ، 7رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے توہم 5رکنی بینچ کے فیصلے پر انحصارکیوں کریں۔

    اٹارنی جنرل نے 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کورٹ آف لا کیا ہوگا2015 میں 7رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے،اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کےاختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے، آصف سعید کھوسہ کےنوٹ سےاتفاق کرتاہوں اس پر بات کریں۔

    اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پرآئے اور کہا پی ٹی آئی کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کب سےانتظار کررہے تھے کوئی سیاسی جماعت آئے۔

    شعیب شاہین نے کہا الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، پارلیمنٹ نے فرد واحد کے لیے ترمیم کرکے سپریم کورٹ کی باسٹھ ون ایف کی تشریح غیرمؤثر کردی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن ایکٹ سےمسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں، دیکھ لیں، تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے، جس پرشعیب شاہین نے کہا ہم تو آج کل دیر ہی کررہے ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے 1973کاآئین بنانےوالےزیادہ دانشمندتھے، بعدمیں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئےآئے کہ چلواس میں کچھ اورڈال دو، انہوں نےکہا یہ لوگ سر نہ اٹھا لیں، انہوں نےسوچاایسی چیزیں لاتےہیں جس کوجب دل چاہانااہل کردیں گے، کسی جگہ آئین میں اگرخاموشی رکھی گئی تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب کہتاہوں میں نےکسی چیز کافیصلہ نہیں کرناتویہ بھی ایک فیصلہ ہوتاہے۔

    سپریم کورٹ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نےریمارکس دیے مختصرفیصلہ جلد سنائیں گے۔

    اس سے قبل سماعت میں جہانگیرترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے پورے ملک کوتباہ کرنے والا پانچ سال بعداہل ہوجاتاہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہوجائےتوتاحیات نااہل؟ ایک جنرل نے آئین میں شق ڈال دی توسب پابند ہوگئے؟

  • ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل اور  معمولی غلطی پر تاحیات نااہل؟چیف جسٹس نے سوال اٹھادیا

    ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل اور معمولی غلطی پر تاحیات نااہل؟چیف جسٹس نے سوال اٹھادیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کیس میں سوال اٹھایا کہ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعداہل ہوجاتاہے اور معمولی غلطی ہوجائے تو تاحیات نااہل۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل62ون ایف کےتحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت شروع ہوگئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں7رکنی لارجربینچ سماعت کررہا ہے۔

    بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولربینچ میں مقرر ہوں گے، اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے، انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتےسنیں گے، ہو سکتاہےتب تک ہمارااس کیس میں آرڈربھی آچکا ہو۔

    جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کےسامنےبنیادی سوال اسی عدالت کے سابقہ فیصلے کا ہے، اس عدالت نے پبلک نوٹس جاری کیااس پرآیاہوں، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کاڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟

    مخدوم علی خان نے بتایا کہ جی،ڈکلیریشن سول کورٹ سےآئےگا، سول کورٹ فیصلےپرکسی کاکوئی بنیادی آئینی حق تاعمرختم نہیں ہوتا، کامن لاسےایسی کوئی مثال مجھےنہیں ملی، کسی کایوٹیلٹی بل بقایاہوجب اداہوجائےتووہ اہل ہوجاتاہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کی ڈکلیریشن دےسکتی ہے؟ تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سول کورٹ ایساڈکلیریشن نہیں دےسکتا، کونسی سول کورٹ ہےجو کسی کوواجبات باقی ہونےپرکہہ دے یہ صادق وامین نہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیاقانون سازی سے ڈکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟ جہانگیر ترین کے وکیل نے بتایا کہ آئین میں کورٹ آف لاکی بات ہے جس میں سول اور کرمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا آرٹیکل 62 اور63 الگ الگ رکھنے کی وجہ کیا تھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

    جسٹس میاں محمدعلی نے استفسار کیا آرٹیکل62 کا اطلاق الیکشن سےپہلےہی ہوتا ہےیابعدمیں بھی ہو سکتاہے؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم خودکوآئین کی صرف ایک مخصوص جزتک محدودکیوں کررہےہیں، ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر اندازکیوں کر رہےہیں، آئین پر جنرل ایوب سے لیکر تجاوز کیاگیا، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنےسےکیاباقی حقوق لےلیےگئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5سال بعداہل ہوجاتاہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائےتوتاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی توہم سب پابندہوگئے؟ خودکومحدودنہ کریں بطورآئینی ماہرہمیں وسیع تناظرمیں سمجھائیں۔

    مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا، دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل 17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کہا گیا کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جا سکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں؟ تو مخدوم علی خان نے جواب میں کہا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ تو پھر ہم نے اپنے ارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا دنیا میں کہیں اور ہے؟ تو وکیل نے کہا کہمیرے علم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں،ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آئین نے نہیں کہا تھا نااہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہا، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، ہم نےکیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک جماعت بھی فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔

    وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کرتا ہے، کیا سزا تاحیات ہوتی ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی، آئین وکلا کیلئے نہیں عوام پاکستان کیلئے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، ۔فلسفیانہ باتوں کی بجائے آسان بات کریں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ یہاں نااہلی کی مدت تاحیات کیسے ہوئی،الیکشن کاغذات میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے، آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے، آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو تاحیات نااہل ؟ آپ لائیو ٹی وی پر ہیں عوام کیلئے اس کی منطق تو واضح کریں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے بھی سوال کیا کہ نااہلی مدت 5 سال طے کرنے کا معاملہ عدالت میں آیا، کیا ہم سیکشن 232(3)کو ریڈڈاؤن کرسکتے ہیں، کیاعدالت کہہ سکتی ہےپارلیمنٹ سیکشن 232 تین کوایسےطے کرےکہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی توسزا 5 سال ؟

    جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، سیکشن232 تین کو اگلا پارلیمنٹ ختم کر سکتا ہے،عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں،سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سیکشن 232 دو کوکیسے کالعدم قرار دیں وہ تو سامنےہےہی نہیں تو وکیل نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈکلیئریشن رہےگی نااہلی رہے گی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کردےتوکیامسئلہ حل ہوجائےگا؟ وکیل نے بتایا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کاعدالت دوبارہ کیسےجائزہ لےسکتی ہے؟ جومقدمات قانونی چارہ جوئی کےبعدحتمی ہوچکےانہیں دوبارہ نہیں کھولاجاسکتا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ کہہ چکا ہے نا اہلی 5سال ہو گی ، کیاسمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس گیاتھا؟ ریکارڈ منگوا لیں ، جسٹس منصور علی شاہ استفسار کیا کہ ڈیکلریشن حتمی ہوچکاہےتو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ دو عدالتی معاون کےمطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثر کر دیا گیا۔

    جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، یہاں پر سیکشن232تین چیلنج ہی نہیں، تاحیات نااہلی کافیصلہ برقراررہاتو5سال نااہلی کاقانون کالعدم ہوسکتاہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاتاحیات نااہلی کےفیصلےکیلئےاٹارنی جنرل کومعاونت کانوٹس گیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ریکارڈ کے مطابق اٹارنی جنرل کی حاضری لگی ہوئی ہے، تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حاضری ہونااورمعاونت کیلئے باضابطہ نوٹس ہوناالگ چیزہے، وکیل نے کہا کہ نااہلی کا حتمی ڈیکلریشن موجودہوتوکوئی ٹربیونل یاسول عدالت ختم نہیں کرسکتی۔

  • تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ؟ اہم سماعت آج ہوگی

    تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ؟ اہم سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ آج تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق تاحیات نااہلی کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ کیس کی سماعت کرےگا۔

    سات رکنی بینچ جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمدعلی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پرمشتمل ہیں، لارجر بینچ آج دوپہر ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔

    یاد رہے سابق حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تھی جس کے بعد آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کردیا تھا۔

    مذکورہ آرٹیکل کے تحت کئی سیاست دان نااہل ہوئے ہیں، جن میں نمایاں ترین سابق وزیرِاعظم نوازشریف، استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیرترین سمیت دیگرکئی سیاست دان شامل ہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

    جسٹس جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔

  • تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تشکیل

    تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تشکیل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ن لیگ کے قائد نواز شریف اوردیگرسیاستدانوں کی تاحیات نا اہلی کیس سے متعلق سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس سے متعلق سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا، چیف جسٹس آف پاکستان لارجربینچ کےسربراہ ہوں گے۔

    لارجربینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ کا7رکنی لارجربینچ کل دن ساڑھے11بجےکیس کی سماعت کرے گا۔

    یاد رہے دسمبر کے وسط میں سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔

    عدالت عظمی کے جاری حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیر التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

    جسٹس جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔