Tag: تارکین وطن

  • جرمنی میں مہاجر مخالف حملوں میں کمی آئی ہے: جرمن وزارت داخلہ

    جرمنی میں مہاجر مخالف حملوں میں کمی آئی ہے: جرمن وزارت داخلہ

    برلن: جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں مہاجرین مخالف حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں مہاجرین کے خلاف سخت رویہ رکھا جاتا تھا اور انہیں حملوں کا بھی نشانہ بنایا جاتا تھا تاہم ماضی کے مقابلے میں مذکورہ حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران مہاجرین یا تارکین وطن افراد پر حملوں کی تعداد 627 رہی جبکہ مراکز پر کیے جانے والے ان حملوں کی تعداد 77 رہی۔

    وزارت خارجہ کے مطابق گزشتہ برس ان حملوں کی تعداد تقریباً دو ہزار دو سو کے قریب رہی تھی جبکہ سن دو ہزار سولہ میں ایسے ساڑھے تین ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے تھے۔


    جرمنی سے معاہدہ، اسپین تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے راضی


    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے نسل پرستانہ حملوں میں کمی واقع ہونا خوش آئند ہے اور خطے کے لیے بھی بہت اہم ہے، مستقبل میں مثبت نتائج نکلیں گے۔

    علاوہ ازیں تارکین وطن کے معاملے پر جرمن چانسلر کا مؤقف ہے کہ جرمنی اور اسپین تارکین وطن سے متعلق بحران کو حل کرنے کے لیے تعاون جاری رکھیں گے اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا معاہدہ مہاجرین کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔

    خیال رہے کہ جرمنی کی چانسلر اینجیلا مرکل نے گذشتہ روز اسپین کے وزیر اعظم سے ہسپانوی شہر شلوقہ میں ملاقات کی تھی اور یورپ کو غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے درپیش مسائل کی طرف نشاندہی بھی کی تھی۔

  • جرمنی سے معاہدہ، اسپین تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے راضی

    جرمنی سے معاہدہ، اسپین تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے راضی

    میڈرڈ/برلن : جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ تارکین وطن سے متعلق اسپین اور جرمنی کا مؤقف وہی ہے جو یورپ کا ہے، متحد ہوکر کام کرنے سے یورپ اور یورپی عوام کا مستقبل مزید بہتر ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق غیر ملکی تارکین وطن کے معاملے پر جرمن چانسلر کا مؤقف ہے کہ جرمنی اور اسپین تارکین وطن سے متعلق بحران کو حل کرنے کے لیے تعاون جاری رکھیں گے اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا معاہدہ مہاجرین کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمنی کی چانسلر اینجیلا مرکل نے گذشتہ روز اسپین کے وزیر اعظم سے ہسپانوی شہر شلوقہ میں ملاقات کی جہاں یورپ کو غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے درپیش پر مسائل پر گفتگو کی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمن چانسلر سے ملاقات اور معاہدے کے بعد اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچز کی جانب سے جرمنی میں موجود ان تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں جو پہلے سے اسپین میں رجسٹرڈ ہیں۔

    جرمن چانسلر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی مہاجرین کے معاملے پر اسپین اور جرمنی کا مؤقف وہی ہے جو یورپی یونین کا ہے اور ایسے متحد ہوکر امور انجام دینے سے یورپ اور یورپی عوام کا مستقبل مزید بہتر ہوگا۔

    خیال رہے کہ جرمنی سے معاہدے کے بعد اسپین پہلا ملک ہے جو جرمن میں موجود تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے تیار ہوا ہے۔

  • چھ سو سے زائد تارکین وطن سرحدی باڑ کاٹ کر اسپین میں داخل ہوگئے

    چھ سو سے زائد تارکین وطن سرحدی باڑ کاٹ کر اسپین میں داخل ہوگئے

    میڈرڈ: افریقہ کے چھ سو سے زائد تارکین وطن براستہ مراکش اسپین کی سرحد پر پہنچے اور باڑ کاٹ کر زبردستی اسپین کے علاقوں میں داخل ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سینکڑوں افریقی تارکین وطن ہسپانوی علاقے سبتہ ميں مراکش کے راستے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اس دوران مہاجرین مراکش اور سبتہ کی مضبوط سرحدی باڑ کو آریوں اور قینچیوں سے کاٹا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسپین کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صبح کے وقت قریب چھ سو سے زائد مہاجرین نے سرحدی باڑ کاٹ کر اسپین کی سرحد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران بارڈر پولیس اور مہاجرین کے درمیان مزاحمت بھی ہوئی، تارکین وطن نے سرحد پار کرنے کے لیے بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔


    اسپین میں تارکین وطن کےحق میں مظاہرے


    قبل ازیں رواں برس جون میں ایک این جی او کے بحری جہاز پر موجود چھ سو تارکین وطن کو اس وقت اسپین میں داخلے کی اجازت دی تھی جب مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

    دوسری جانب اسپین کی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی آمد میں حالیہ اضافے کی وجہ سے ان کے لیے رہائش کا بندوبست اور پناہ کے عمل پر کارروائی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

    خیال رہے کہ اسپین میں غیر قانونی مہاجرت میں گزشتہ ایک برس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور حالیہ چند ہفتوں میں گرم موسم کی آمد کے ساتھ ہی سمندر کے راستے اسپین پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جرمنی نے 69 تارکین وطن کو واپس افغانستان پہنچا دیا

    جرمنی نے 69 تارکین وطن کو واپس افغانستان پہنچا دیا

    برلن : جرمن حکام نے گذشتہ روز پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے والے 69 افغان تارکین وطن کو خصوصی طیارے کے ذریے واپس افغانستان پہنچا دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی نے افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 69 تارکین وطن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد گذشتہ روز خصوصی طیارے کے ذریعے واپس افغانستان پہنچا دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمن شہر میونخ سے افغان مہاجرین کا 69 افراد پر مشتمل سب سے بڑا قافلہ 4 جولائی کو خصوصی طیارے کے ذریعے افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچ گیا ہے۔

    جرمنی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ جرمنی کی موجودہ حکومت تارکین وطن کے بحران کا شکار ہے، اس لیے جن مہاجرین کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں رد ہوچکی ہیں انہیں واپس آبائی وطن بھیجنے میں تیزی لارہی ہے۔

    جرمن میڈیا کے مطابق واپس افغانستان بھیجے گئے 69 مہاجرین میں سے 51 تارکین وطن جرمنی کے صوبے باویریا میں مقیم تھے، باویریا کے وزیر داخلہ وفاقی حکومت کے افغان مہاجرین کو واپس لوٹانے کے فیصلے کو خوب سراہا ہے۔

    خیال رہے کہ ماضی میں جرمن حکومت صرف تارکین وطن کو ملک بدر کرتی تھی جو جرمنی میں کسی جرم کے مرتکب ہوتے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دسمبر 2016 کے بعد افغان شہریوں کا سب سے بڑا گروپ ہے جسے بدھ کے روز افغانستان پہنچایا گیا ہے۔

    جرمن حکام کی جانب سے سنہ 2016 میں افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری کے سلسلے میں برائے راست پروازوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2016 سے اب تک واپس افغانستان بھیجے جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • تارکین وطن کی آمد کے معاملے پر جرمن حکومتی بحران کا حل نکل آیا

    تارکین وطن کی آمد کے معاملے پر جرمن حکومتی بحران کا حل نکل آیا

    برلن: جرمن چانسلر انگیلا مرکل تارکین وطن کی آمد سے پیدا ہونے والے حکومتی بحران کے حل تک پہنچ گئیں، جس سے ان کی چار ماہ کی اتحادی حکومت ٹوٹنے سے بچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زھیوفر جو کہ باویریا کے کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو)  کے سربراہ بھی ہیں، اپنے استعفے کی دھمکی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

    انگیلا مرکل اس بات پر راضی ہوگئی ہیں کہ آسٹریا کے ساتھ سرحد پر کنٹرول سخت تر کیا جائے تاکہ ان لوگوں کو جرمنی میں داخل ہونے سے روکا جائے جنھوں نے یورپی یونین کے دیگر ممالک میں پناہ کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔

    کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی سربراہ انگیلا مرکل اور حلیف جماعت کرسچن سوشل یونین کے سربراہ ہورسٹ زھیوفر کے درمیان طویل مذاکرات کی کام یابی کے بعد یہ طے ہوا ہے کہ سرحد پر ٹرانزٹ مراکز قائم کیے جائیں گے تاکہ تارکین وطن کو واپس بھیجا جاسکے۔

    مرکل نے اس ڈیل کو تھکا دینے والے مذاکرات کے بعد ایک اچھی مصالحت قرار دیا ہے، تاہم جرمن مخلوط حکومت کی تیسری جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے ایک بار پھر اس تصفیے پر اعتراض کر دیا ہے۔

    انجیلا مرکل وزارت داخلہ سے خوش نہیں تو اتحادی حکومت ختم کردیں، جرمن وزیر داخلہ زیہوفر


    ایس پی ڈی کے ترجمان برائے مہاجرت عزیز بزکرٹ نے کہا ہے کہ اتحادی معاہدے میں ٹرانزٹ سینٹرز کا قیام شامل نہیں ہے، خیال رہے کہ 2015 میں ایس پی ڈی ایسے مراکز کی تعمیر کو مسترد کرچکی ہے۔

    واضح رہے کہ برلن میں چانسلر انگیلا مرکل کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت تین جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع تر مخلوط حکومت ہے، جس میں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی شامل ہیں۔

    مرکل اور زھیوفر کے مابین اس بات پر تنازعہ تھا کہ تارکین وطن کے ایک خاص طبقے کو قومی سرحدوں سے واپس بھیجا جائے یا نہیں، جرمن چانسلر کو یہ بات مجوزہ شکل میں قبول نہیں تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکہ بھرمیں ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

    امریکہ بھرمیں ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

    واشنگٹن : امریکہ بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، نیویارک، لاس اینجلس اور سان فرانسسکو سمیت متعدد شہروں میں صدرٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

    مظاہرین نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ نہ کیا جائے اور متنازع امیگریشن ایجنسی آئیس کو ختم کیا جائے۔

    امریکی صدر کی امیگریشن پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی امریکی عقائد کے خلاف ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متنازع پالیسی کو ختم کرنے کے ایگزیکٹو حکم نامے کے باوجود اب بھی تقریباََ 2 ہزار بچے اپنے والدین سے الگ ہیں۔

    امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج‘ چھ سو سے زائد مظاہرین گرفتار

    خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکہ کی جانب سے تارکین وطن سے متعلق بنائی گئی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے والے چھ سو سے زائد مظاہرین کو گرفتارکیا گیا تھا۔

    انسانی حقوق اورتارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی جانب سے امریکہ کی 17 ریاستوں میں تارکین وطن کو بچوں سے علیحدہ کرنے کے قانون کو عدالتوں میں چلینج کیا گیا ہے۔

    تارکین وطن کو قانونی کارروائی کے بغیر ملک بدر کردیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے فوری طور پر ملک بدر کردیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یونان اور اسپین تارکین وطن کو قبول کرنے کے لیے تیار

    یونان اور اسپین تارکین وطن کو قبول کرنے کے لیے تیار

    برسلز : اسپین اور یونان نے جرمنی کی تجویز پر اتفاق رائے کرتے ہوئے جرمنی سے لوٹائے جانے والے تارکین وطن کو اپنے ملک میں پناہ دینے کی یقین دہانی کروادی۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ شب بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے یوپی یونین کے سربراہی کانفرنس کے دوران اسپین، جرمنی اور یونان کی حکومتوں کے درمیان معاہدہ طے ہوا ہے کہ جرمنی سے واپس لوٹائے جانے والے تارکین وطن کو اپنے ملک میں قبول کریں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے ترجمان شٹیفن زائنرٹ نے جمعے کے روز سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کیا تھا کہ مہاجرین کے معاملے پر اسپین اور یونان نے جرمنی کی جانب سے پیش کردہ تجویز پر اتفاق کیا ہے۔

    انجیلا میرکل کے ترجمان کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ جرمنی اور آسٹریا کی مشترکہ سرحد سے واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کو اسپین اور یونان کی حکومتیں اپنے ملک میں پناہ دینے کو تیار ہیں۔

    زائبرٹ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں صرف ان مہاجرین کو قبول کریں گی، جنہوں نے پہلے سے اسپین اور یونان میں سیاسی پناہ کے خواہش مند ہوں گے اور یورپ کے ڈیٹا بیس سسٹم ’یورو ڈیک‘ میں ان کے فنگر پرنٹس درج ہوں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق اسپین اور یونان میں موجود سیاسی پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند تارکین وطن کی اکثریت جرمنی میں رہائش کی قانونی حیثیثت حاصل کرنا چاہتی ہے، کیوں کہ ان کے عزیز و اقارب جرمنی میں مقیم ہیں۔

    جرمن چانسلر کے ترجمان زائبرٹ کا کہنا تھا کہ انجیلا میرکل اور دونوں یورپی ممالک کے درمیان یہ عہد و پیمان ہوا ہے کہ جرمن حکومت اسپین اور یونان میں موجود تارکین وطن کو ان کے اہل خانہ سے ملانے کے لیے قانونی کارروائی میں تیزی لائے گا۔

    یاد رہے کہ یورپی یونین کے اجلاس میں سربراہان کا تارکین وطن سے متعلق ’یورپی ممالک میں مہاجرین کے تمام کیمپ بند کرکے یورپ سے باہر پناہ گزین کیمپ لگانے‘ پر اتفاق ہوا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے درمیان طے پانے والا معاہدہ انجیلا میرکل کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا، کیوں کہ پناہ گزنیوں کے معاملے پر یورپی یونین میں مشترکہ حل کے بغیر میرکل کی حکومت کو شدید خطرات لاحق تھے۔

    خیال رہے کہ جرمن چانسلر اور جرمن وزیر داخلہ ہورست زیہوفر کے درمیان تارکین وطن سے متعلق معاملات پر شدید اختلافات سامنے آئے تھے۔ ہورست زیہوفر کا مؤقف ہے کہ جرمنی کے علاوہ یورپ کے کسی اور ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے مہاجرین کو جرمنی میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے، جبکہ میرکل مستقل ان کی مخالفت کرتی آرہی تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • امریکا: تارکین وطن بچوں کو علیحدہ کرنے کا حکم، عدالتوں میں چلینج

    امریکا: تارکین وطن بچوں کو علیحدہ کرنے کا حکم، عدالتوں میں چلینج

    واشگنٹن: امریکا کی 17 ریاستوں میں تارکین وطن کو بچوں سے علیحدہ کرنے کے قانون کو عدالتوں میں چلینج کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ دنوں جاری ہونے والے حکم نامے کو انسانی حقوق اور تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے عدالتوں میں چلینج کردیا۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت امریکا میں غیر قانونی طور پر آنے والے خاندانوں کو علیحدہ نہیں کیا جائے گا بلکہ پانچ سال بچوں کو والدین کے ساتھ ہی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں خاندانوں کو علیحدہ ہوتا ہوا دیکھنا اچھا نہیں لگتا تاہم غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرکے امریکا آنے والوں کے لیے عدم برداشت کی پالیسی جاری رکھی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: تارکین وطن کو قانونی کارروائی کے بغیر ملک بدر کردیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ

    دوسری جانب عوام کی جانب سے امریکا اور دنیا بھر میں ٹرمپ کے فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جس کے بعد وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے اس پالیسی پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

    قبل ازیں سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم ممالک پر سفری پابندیوں کےحق میں فیصلہ دے دیا۔ سپریم کورٹ میں ٹرمپ کی جانب سے مسلم ممالک کے باشندوں پر عائد ہونے والی سفری پابندیوں سے متعلق کیس کی 9 رکنی بینچ نے کی۔

    سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے حمایت اور چار نے امریکی صدر کے اس اقدام کی مخالفت کی، جس کے بعد مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اسے بھی پڑھیں: بچوں‌ کو والدین سے علیحدہ کرنے کی پالیسی، امریکی نیوز کاسٹر خبر پڑھتے ہوئے رو پڑی

    ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی فیصلہ امریکی آئین اور سیکیورٹی کے لیے بہترین ہے اور یہ ہماری عوام کی فتح ہے‘۔

    عدالتی فیصلے کے بعد اب ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے باشندے اور تارکین امریکا میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر نے گزشتہ برس اسلامی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: امریکی سپریم کورٹ کا مسلم ممالک پر سفری پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

    خیال رہے کہ گزشتہ سال 28 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایران، شام، لیبیا، صومالیہ اور یمن کے شہریوں پر امریکا میں داخلے کے حوالے سے سفری پابندیاں عائد کردی تھی، ٹرمپ کے ان متنازع احکامات کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تارکین وطن کے بچوں کو والدین سے جدا کرنے کا سلسلہ جلد ختم ہوجائے گا: امریکی صدر

    تارکین وطن کے بچوں کو والدین سے جدا کرنے کا سلسلہ جلد ختم ہوجائے گا: امریکی صدر

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ عندیہ دیا ہے کہ تارکین وطن کے بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے کا سلسلہ جلد ختم کردیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے جدا رکھا جاتا ہے جس کے باعث دنیا بھر میں امریکا کی اس پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ امریکا کی میکسیکو کے ساتھ سرحد پر مہاجر بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر دینے کا سلسلہ جلد ہی ختم کر دیا جائے گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے جس کے بعد تارکین وطن اور کے بچوں کو ایک ہی ساتھ رکھا جائے گا اس حوالے سے جلد کسی حکم نامے پر دست خط کر دیں گے۔


    تارکین وطن کی بچوں سے علیحدگی، ٹرمپ کو شدید احتجاج کا سامنا


    عالمی ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر جنوبی سرحد پر غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والے مہاجرین کو اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جو ایک مثبت عمل ہے جس سے امریکی فیصلے کو کافی تقویت ملے گی۔

    دوسری جانب میکسیکو نے تارکین وطن سے متعلق امریکی رویے کو غیر انسانی قرار دیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کے تارکین وطن کو داخلے سے روکنے اور مہاجرین بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے کے خلاف نیویارک سمیت امریکا بھر میں احتجاج شروع ہوچکا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے امریکی صدر کی میکسیکو مہاجرین سے متعلق پالیسی پر کہا تھا کہ بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے پر نفرت ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یونان میں دو پاکستانیوں کی قید سے 38 ہم وطن بازیاب

    یونان میں دو پاکستانیوں کی قید سے 38 ہم وطن بازیاب

    ایتھنز: یونان کی مقامی پولیس نے دو انسانی اسمگلروں کی قید سے 38 پاکستانی تارکین وطن بازیاب کرلیے جو ملازمت کی غرض سے غیرقانونی طور پر یورپ جارہے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی یونان کے شہر تھیسالونیکی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی اسمگلروں نے پچاس تارکین وطن کو قید کر رکھا تھا جن میں 38 پاکستانی، دس بنگلہ دیشی اور دو سری لنکن باشندے شامل ہیں۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلر قیدیوں کے گھر والوں سے فی کس دو ہزار یورو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جب کہ غیر قانونی طور پر یونان میں داخل ہونے والوں کا کہنا تھا کہ وہ یونان پہنچنے کی خاطر پندرہ سو تا تین ہزار یورو پہلے ہی ادا کرچکے تھے۔

    یونانی پولیس کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن میں سے زیادہ تر چھ روز قبل یونان پہنچے تھے جب کہ چند ایک روز قبل وہاں پہنچے تھے۔ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی تارکین وطن کے گھر والوں کی اطلاع پر کی گئی۔

    یونان میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ

    ایتھنز حکام کے حوالے سے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی حالت طویل اور خطرناک سفر کے بعد ناگفتہ بہ تھی، چند کم عمر لڑکے ڈی ہائیڈریشن اور نمونیے کا بھی شکار ہوگئے تھے، جنھیں قید کے دوران بھی پانی اور خوراک میسر نہ تھا۔

    یونان میں ہزاروں شہریوں کا غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف احتجاج

    واضح رہے کہ یورپ میں ملازمت کی غرض سے غیر قانونی طور پر جانے والے مختلف ممالک سے تارکین وطن کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن پھر بھی لاکھوں افراد یونان میں داخل ہونے میں کام یاب ہوجاتے ہیں، جن میں پاکستانی بھی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔