Tag: تاریخی

  • سعودی عرب: قدیم محلات اور قلعوں کی بحالی

    سعودی عرب: قدیم محلات اور قلعوں کی بحالی

    ریاض: سعودی عرب میں عسیر کے علاقے میں واقعے قدیم محلات اور قلعوں کو کیفے، ریستوراں اور دیگر جدید سہولتوں والے ہوٹلوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے علاقے عسیر ریجن میں قدیم محلات اور قلعوں کو بحال کیا گیا ہے تاکہ سیاحوں کو جدید ماحول میں تاریخ کا تجربہ کرنے کی طرف راغب کیا جا سکے۔

    یہ محلات اور قلعے 6 مختلف علاقوں میں موجود ہیں جو سائز اور اونچائی میں مختلف ہیں۔

    جن کے ڈھانچے کو بحال کیا گیا ہے ان میں ابہا کے قریب بطباب میں ابو نقطہ محل، ابہا کے قریہ الدارہ میں واقع لحج محل، السودہ کے قریہ ابو سارہ میں واقع وزیر اور عزیز محل اور المصلی قلعہ شامل ہیں۔

    ان محلات میں سے کچھ 200 سال سے زیادہ پرانے، پتھروں اور لکڑی سے بنے ہیں، انہیں اصل تعمیراتی جمالیات کو محفوظ رکھتے ہوئے، کیفے، ریستوراں اور دیگر جدید سہولتوں والے ہوٹلوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

    ابو نقطہ المتحمی سینٹر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سعید بن سعود المتحمی نے کہا کہ پرانے محلات کی بحالی کا خیال اس کے امیر ورثے کی بنیاد پر مملکت میں ثقافتی سیاحت کو فروغ دینا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ تاریخی مقامات نہ صرف سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو خطے کی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں جس پر ہم سب کو فخر ہے۔

    سعود المتحمی نے کہا کہ محلات کی بحالی سے مقامی معیشت کو سہارا ملے گا اور خطے کے لیے کئی مواقع میسر آئیں گے۔

  • ساڑھے 4 ہزار روپے کا چمچ، جس نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا

    ساڑھے 4 ہزار روپے کا چمچ، جس نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا

    لندن: برطانیہ میں اکیا کے اسٹور سے خریدے گئے 20 پاؤنڈز یعنی لگ بھگ ساڑھے 4 ہزار روپے کے قدیم چمچ نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرنیچر اور گھریلو سامان کی خرید و فروخت کے بڑے اسٹور اکیا سے خریدے گئے 20 پاؤنڈ کے پرانے چمچ نے خریدار کی قسمت کو چارچاند لگا دیے۔

    مذکورہ چمچ نایاب اور پرانی اشیا کی شناخت کے ایک شخص نے اکیا اسٹور میں دیکھا تھا جو تیرہویں صدی کا ہے۔

    اسٹور میں چمچ کی قیمت 20 پاؤنڈ تھی جس کو جوہر شناس گاہک نے خرید کر نمائش میں فروخت کے لیے لگا دیا، چمچ چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس کی ابتدائی قیمت کا اندازہ 500 پاؤنڈز لگایا گیا تھا۔

    چمچ کا ہینڈل 5 انچ کا ہے اور اسے رومن طرز پر بنایا گیا ہے، چمچ کی آخری بولی 1900 پاؤنڈز بمعہ فیس لگائی گئی جو کہ قیمت خرید سے کہیں زیادہ ہے۔

    نمائش کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چمچ کو زیر زمین دبا دیا گیا تھا اور جس نے بھی اسے اسٹور پر فروخت کے لیے رکھا اسے نایاب اشیا کی شناخت نہیں تھی۔

    منتظمین کا کہنا ہے کہ نمائش میں بھیجنے والے شخص کو بھی اس کی زیادہ شناخت نہیں تھی لیکن یہ چمچ جیسے ہی ہمارے پاس پہنچا ہم نے پہچان لیا کے یہ نایاب اور انتہائی قیمتی ہے۔

  • صلح حدیبیہ سے منسوب قدیم اور تاریخی کنوئیں پر تنازعہ

    صلح حدیبیہ سے منسوب قدیم اور تاریخی کنوئیں پر تنازعہ

    ریاض: تاریخ اسلامی کی عظیم الشان ’صلح حدیبیہ‘ حدیبیہ کے مقام پر ہوئی اور اسی نسبت سے اس کا نام رکھا گیا، تاہم یہاں موجود ایک قدیم و تاریخی اور زائرین کے لیے مقدس کنوئیں کو نجی کمپنی نے بغیر کسی اجازت کے اپنے تصرف میں لے لیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق اسلامی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر سمیر برقہ کا کہنا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اس کمپنی کے خلاف کارروائی کرے جس نے بغیر اجازت حدیبیہ کنوئیں کے گرد دیوار بنا کر اسے اپنے تصرف میں لے لیا ہے۔

    ڈاکٹر سیمر کا کہنا ہے کہ علاقے میں تعمیراتی کام کرنے والی ایک نجی کمپنی نے وہاں اپنا کیمپ آفس بنایا ہوا ہے جہاں یہ کنواں واقع ہے۔ کمپنی نے کیمپ اور اسٹور کے گرد جو دیوار بنائی ہے اس کے اندر یہ کنواں بھی شامل کر لیا ہے۔

    خیال رہے کہ ’حدیبیہ‘ کا مقام جدہ اور مکہ مکرمہ شاہراہ پر شمیسی چیک پوسٹ سے 20 کلو میٹر مسافت پر واقع ہے، یہاں تاریخ اسلامی کی عظیم الشان ’صلح حدیبیہ‘ ہوئی تھی۔

    اس مقام پر ایک قدیم تاریخی کنواں آج بھی موجود ہے جہاں دنیا بھر سے آنے والے معتمرین، عازمین حج اور زائرین جاتے ہیں اور یادگاری تصاویر بھی بناتے ہیں۔

    تاہم اب مذکورہ کمپنی نے کنوئیں کے گرد دیوار بنا کر اسے لوگوں کی نظروں سے دور کرديا۔ تعمیراتی کمپنی نے بغیر کسی اطلاع کے کنوئیں کے گرد دیوار بنا دی ہے جس کے بعد کنوئیں تک رسائی ممکن نہیں۔

    ڈاکٹر سمیر کا کہنا ہے کہ اسلامی تاریخ میں اس کنوئیں کی بڑی اہمیت ہے جبکہ مملکت کے ویژن 2030 کے مطابق سعودی عرب میں سیاحت کے فروغ کے لیے بے تحاشہ کام کیا جا رہا ہے، ایسے میں مذکورہ کنوئیں کو اس طرح لوگوں کی نظروں سے دور کر کے اس کے گرد دیوار تعمیر کرنا کسی طور درست اقدام نہیں۔

  • مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟

    مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟

    کہتے ہیں مغل دور میں ایک درویش شاہ اللہ دتّہ گزرے ہیں جن سے صدیوں پرانا ایک گاؤں بھی منسوب ہے۔

    یہ گاؤں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے مشہور پہاڑی مقام مارگلہ کے دامن میں ہے جو کہ مختلف آثار اور قدیم غاروں کی وجہ سے سیاحتی مقام جانا جاتا ہے۔ ان غاروں کی بابت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا بدھ مت سے تعلق ہے۔

    اس گاؤں کی وجہِ شہرت اس کا قدرتی حسن ہے جو سبزہ، بلند و بالا درخت، چشمے اور تالاب ہی نہیں بلکہ وہ غار بھی ہیں جو یقینا انسانوں نے کبھی آباد کر رکھے تھے۔ مقامی لوگ اس حوالے سے مختلف باتیں اور قصے سناتے ہیں۔ تاہم اس پر ماہرینِ آثار کو تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم غاروں کے قریب ہی بزرگ کا مزار موجود ہے.

    مختلف تاریخی روایات کے مطابق یہ راستہ اور اس گاؤں سے کسی زمانے میں الیگزینڈر اور شیر شاہ سوری جیسی شخصیات کا گزر ہوا۔ یہ افغانستان اور ہندوستان آنے جانے کے لیے استعمال ہونے والا راستہ بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مغل بادشاہوں اور دیگر نے بھی افغانستان اور ہندوستان آمدورفت کے لیے یہی راستہ اپنایا۔

    اس گاؤں میں پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے قدیم مانا جاتا ہے جب کہ گھنے اور مضبوط درخت بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کئی سو سال پرانے ہیں۔ قدرتی حسن اور تاریخی آثار کی وجہ سے یہ علاقہ قابلِ دید ہے۔

  • سعودی عرب میں رمضان المبارک کے حوالے سے پتھروں پر تاریخی نقش نگاری

    سعودی عرب میں رمضان المبارک کے حوالے سے پتھروں پر تاریخی نقش نگاری

    ریاض : سعودی عرب میں تاریخ اور تہذیب وتمدن کے ایک دلدادہ شہری نے مملکت کے شمال میں صدیوں پرانی پتھروں پر نقش و نگاری کا پتا چلایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی سعودی عرب میں تیماء کے علاقے میں پتھروں پر کندہ کی گئی عبارتیں ملیں جن میں سے بعض عبارتوں میں رمضان المبارک کے حوالے سے بھی پیغام شامل ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایک چٹان پر لکھی عبارت سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ عبارت حفص بن عمر کی ہے۔ غالبا یہ وہی شخصیت ہیں جو حفص بن عاصم بن عمر کے نام سے جانی جاتی ہیں، ان کی تاریخ وفات 92ھ یا 98 ھ بتائی جاتی ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تیماءمیں موجود تاریخی نقوش کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک شہری عبدالالہ الفارس نے کہاکہ چٹانوں پرموجود تاریخی نقش ونگاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اور ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہاکہ جس علاقے میں یہ چٹانیں موجود ہیں وہ تبوک گورنری کا حصہ ہے اور نقش و نگاری کی تاریخ اموی خلیفہ ھشام بن عبدالملک کے دور کی معلوم ہوتی ہے۔

    واضح کہ سعودی عرب میں ایسی بہت ہی جہگیں و سیاحتی مقامات موجود ہیں جہاں زمانہ قدیم کی نقش و نگاری دریافت موجود ہیں۔ ایسا ہی ایک شہر سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع صحرائی سیاحتی مرکز حبہ ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودی عرب کے قدیم شہر جبہ میں تاریخ کا پہلا کھلا میوزیم

    حبہ ہجری دور کے قدیم ترین انسانی مراکز کے کھنڈرات ہیں جہاں چٹانوں پر مختلف نقوش اور جانوروں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔

    جبہ قدیم انسانی تاریخ کا ایک کھلا عجائب گھر ہے جسے یونیسکو نے سنہ 2015 میں عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا، اب سعودی محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ نے اسے جدید خطوط پر استوار کر دیا ہے۔

  • سعودی عرب کا تاریخی گاﺅں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل

    سعودی عرب کا تاریخی گاﺅں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل

    ریاض : سعودی عرب کے تاریخی گاؤں الدرع میں قرون وسطیٰ کے دور کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ پانچ سو سال قبل مسیح کے کھنڈرات موجود ہیں جس کے باعث اسے عالمی ورثے میں شامل کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی سعودی عرب کے علاقے الجوف میں دوم الجند کا ایک تاریخی گاﺅں الدرع اپنے تاریخی آثار قدیمہ اور قدرتی حسن کی بدولت عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باغوں اور چشموں سے بھرپور الدرع گاﺅں کو اقوام متحدہ کی سائنسی وثقافتی تنظیم یونیسکو میں شامل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ الدرع میں موجود آثار قدیمہ میں اسلام کے قرون وسطیٰ کے دور کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ پانچ سو سول قبل مسیح کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔

    لہلہاتے کھیتوں اور میٹھے پانی کے چشموں کی وجہ سے مشہور الدرع گاﺅں میں پتھر کے دور کی بنی عمارتیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالونی کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا جا رہا ہے۔

    اہل نظر کے لیے الدرع کا علاقہ کسی تاریخی فن پارے سے کم نہیں۔ اس میں ایک ہی وقت پرانے اسلامی اور عرب ادوار کے فن تعمیر کے نمونے اور قبل مسیح کی تہذیبی یادگاریں موجودہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس گاﺅں کے تاریخی آثار کی تلاش کے لیے سعودی عرب اور اٹلی کی ایک مشترکہ ٹیم نے 2009ءسے 2016ءتک یہاں پر کھدائیاں کیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق الدرع میں موجود مسجد عمر بن خطاب 17ھ میں تعمیر کی گئی، تاریخی قلعہ مارد اس علاقے کا لینڈ مارک ہے، پتھروں سے تیار کردہ پرانے دور کے مکانات سیاحوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔