Tag: تاریخی اقتباسات

  • قدیم بنارس اور تاریخی اہمیت کی حامل مساجد

    قدیم بنارس اور تاریخی اہمیت کی حامل مساجد

    بنارس (وارانسی) دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے محققین و ماہرینِ آثار کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یہ شہر سنہ 1800 قبل مسیح میں بسایا گیا اور آج تک آباد ہے۔ اسی اعتبار سے یہ نہ صرف قدیم تہذیب و ثقافت کا گواہ ہے بلکہ ہزاروں سال پرانے معبدوں اور مقدس مقامات کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس کے بارے میں ایک انگریز نے لکھا تھا کہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ بنارس کب آباد ہوا تھا تو ہمالیہ پہاڑ کے عالمِ وجود میں آنے کا زمانہ معلوم کرنا آسان ہوگا۔

    آج اگرچہ اس کی پہلی سی شان و شوکت اور سج دھج برقرار نہیں رہی ہے اور جہاں قدیم مذاہب کی عبادت گاہوں‌ اور دوسری عمارتوں‌ کو موسمی تغیرات نے بہت نقصان پہنچایا ہے، وہیں وارانسی یعنی بنارس کے دریا اور تالاب وغیرہ بھی آلودہ ہوچکے ہیں۔ یہاں بہت سے گھاٹ ہیں جن پر عقیدت مندوں کا رش رہتا ہے۔ یہ علاقہ ہندو مذہب کے لگ بھگ سوا دو ارب پیروکاروں کے لیے بھی مقدس ہے جو یہاں منادر کا رخ کرتے ہیں، پوجا پاٹ کے ساتھ گنگا میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ مندروں کے ساتھ یہاں نئی اور قدیم مساجد بھی موجود ہیں اور منادر سے گھنٹیوں کی آواز کے ساتھ مساجد سے اذان بھی سنائی دیتی ہے۔ گنگا کے کنارے پر سورج کو نکلتے ہوئے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ اسی دریا کی سطح سے بلند ہورہا ہے اور یہ ایک مسحور کن نظارہ ہوتا ہے۔ بنارس کی اس تاریخی اہمیت اور ثقافت کی کشش یہاں پوری دنیا کے سیاحوں کو کھینچ لاتی ہے جو یہاں‌ عبادت گاہوں، گنگا اور گھاٹوں کے کنارے نظر آتے ہیں۔

    یہ شہر دریائے گنگا کے وسط میں اور صوبہ اتر پردیش کے مشرق میں گنگا ندی کے کنارے ہلالی شکل میں آباد ہے۔ دریائے گنگا کے کنارے پر آباد شہر بنارس کی اپنی ایک مذہبی، ثقافتی اور ادبی تاریخ تو ہے ہی، مگر اس شہر کا ایک اپنا ہی رنگ بھی ہے جو کئی کہانیاں اور تہذیبی کتھا بھی سناتا ہے۔ مذہبی اور تہذیبی تہوار یہاں‌ کی رنگارنگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ پورے شہر میں، ہر سڑک کے کنارے یا بیچ میں کوئی نہ کوئی مندر موجود ہے۔ اس کے علاوہ مسلم بزرگان دین کے مقابر، تاریخی مساجد اور مدارس بھی ہیں۔ بنارس پر مسلمانوں نے بھی چھ سو سال سے زائد عرصہ تک حکومت کی ہے جس کا عکس بھی بنارس کی ثقافت سے جھلکتا ہے۔ یہاں ہم بنارس کی چند قدیم اور تاریخی مساجد کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

    عید گاہ لاٹ بھیرو:
    ۱۸۰۹ء میں بنارس میں ایک بڑا تاریخی ہنگامہ ہوا جو بلوہ لاٹ کے نام سے مشہور ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ عالمگیر بادشاہ کی قناتی مسجد سے قریب امام باڑہ کلاں میں ایک پتھر کا ستون تھا جس کو لاٹ بھیرو کہتے تھے۔ مسلمان اس کو دھوپ گھڑی سمجھتے تھے۔ جب کہ ہندو اس کو متبرک خیال کرکے وہاں پوجا کرتے تھے۔ اور کسی نہ کسی بات پر ان میں جھگڑا ہو جاتا تھا۔ آخر مجسٹریٹ نے تصفیہ کرایا۔

    مسجد دو نیم کنگرہ:
    ۱۰۷۱ء بکرمی میں احمد نیالتگین کے حملے کے بعد بنارس میں مسلمانوں کی نو آبادیاں قائم ہوئیں۔ اسی سنہ میں مسجد دو نیم کنگرہ جو اب عوام میں ڈھائی کنگرہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے تعمیر ہوئی۔ تاریخی نام مسجد دونیم کنگرہ ہے جس سے تعمیر کا سال ۴۰۵ھ نکلتا ہے۔ آج بھی یہ مسجد اپنی پوری عظمت و جلال کے ساتھ قائم ہے اور شہر کی بڑی ممتاز اور سنگیں عمارت ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے لیے ایک دروازۂ سنگیں موجود ہے جو محراب نما ہے اور اس پر کلمہ کھدا ہوا ہے۔

    گیان واپی مسجد:
    سترہویں صدی میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی تعمیر کردہ عظیم الشان مسجد ہے۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے جس پر حالیہ برسوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں تنازع پیدا ہوا ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا؟ یہ تو معلوم نہیں ہے لیکن جامع مسجد اکبر بادشاہ کے وقت میں تعمیر ہوچکی تھی جس کا ایک تاریخی ثبوت یہ ہے کہ اکبر کے دور حکومت میں بنارس کے ایک مشہور بزرگ اور ولی حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی اس جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے آتے رہے ہیں۔ اس جامع مسجد کی اکبر کے دور میں کیا صورت تھی؟ اس کا علم پوری طرح نہیں ہوسکا لیکن یہ واضح ہے کہ اکبر کے دور میں یہاں جمعہ کی نماز کا اہتمام تھا۔

    عالمگیر مسجد:
    سترہویں صدی میں اس مسجد کی مغل بادشاہ اورنگزیب کے زمانہ میں تعمیر ہوئی تھی۔ اسے بنی مادھو کی درگاہ اور اورنگ زیب مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ مسجد کی بنیاد خود بادشاہ اورنگ زیب نے رکھی تھی۔ اور اسی مناسبت سے یہ عالمگیری مسجد بھی کہلائی۔یہ مسجد بنارس کے پنج گنگا گھاٹ پر واقع ہے جو مغلیہ دور کے فن تعمیر کی عمدہ مثال ہے۔گنبد سے دیواروں تک یہاں نقاشی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    بنارس میں متعدد ایسی مساجد ہیں جن کے نام کچھ عجیب معلوم ہوتے ہیں اور ہر کسی کو حیران کرتے ہیں۔ ان ناموں کے پیچھے کئی کہانیاں بھی ہیں۔ جیسے مسجد باگڑ بلی (مدن پورہ)، نگینہ والی مسجد (ریوڑی تالاب)، بڑھیا دائی کی مسجد وغیرہ۔ ان میں سے دو کے بارے میں جانیے:

    بابا عاشق معشوق مسجد:
    یہ اورنگ آباد روڈ سے کچھ آگے سدھ گری باغ پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک محبت کرنے والے جوڑے نے گنگا ندی میں کود کر جان دے دی اور پھر ان کی یاد میں مزار بنا دیے گئے اور مزار کے پیچھے مسجد بھی بنادی گئی جو عاشق معشوق کے نام سے مشہور ہوگئی۔

    شکر تالاب کی مسجد:
    یہ مسجد سلطان فیروز شاہ کے وقت میں ضیاء الدین حاکم بنارس نے تعمیر کرائی تھی لیکن بعض حصے منہدم ہو جانے کے بعد ازسر نو تعمیر ہوئے۔ یہ شکر تالاب کا نام بھی ایک مستقل وجہ تسمیہ رکھتا ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ رائے سدن جو والیِ جاج نگر تھا، اس نے بغاوت کر دی۔ سلطان فیروز شاہ جاج نگر خود آئے، اور رائے سدن خوف سے بھاگ نکلا۔ اس کی ایک لڑکی جس کا نام شکر تھا، اسے فیروز شاہ نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور رائے سدن کا مکان منہدم کروا کے اس جگہ ایک تالاب بنوایا جو لڑکی کے نام سے شکر تالاب مشہور ہوگیا۔

    (مولانا عبدالسلام نعمانی کی کتاب تاریخِ آثارِ بنارس سے ماخوذ)

  • کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے دنیا کو تدبّر اور فہم و فراست کا درس دیتے ہوئے کئی خرد افروز مضامین یادگار چھوڑے ہیں جنھیں بہت سراہا گیا۔

    برٹرینڈ رسل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت کی اور وہ بارہا بھارت کے سامراجی عزائم کے خلاف بولا۔

    اس نے کہا، ’’بھارتی حکومت بین الاقوامی معاملات میں بلند نظری کی پرچارک ہے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت نے کشمیر کے معاملے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساس نامرادی چھا جاتا ہے۔‘‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارتی حملے کو ’’ننگی جارحیت‘‘ قرار دیا۔ رسل کو پاکستان اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوسے بھی محبت تھی۔ اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا:’’میں عرصے سے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ایک آزاد پالیسی ہے۔‘‘

    1965ء کے بعد ویت نام کا مسئلہ رسل کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ معاملہ سیاہ رخ امریکہ کی درندگی اور بربریت کی شرمناک مثال ہے۔ چورانوے سالہ زرد رو بوڑھا فلسفی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس ظلم و تشدد کے خلاف آہنی دیوار بن کر ڈٹ گیا۔ اس نے ویت نام کے قومی محاذ آزادی کے ریڈیو سے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اگر یہ سب کچھ امریکہ میں آپ کے والدین، بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہوتا، تو آپ کیا محسوس کرتے؟ میں یہ سوال اس لیے پوچھتا ہوں کیونکہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس بات کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے کہ یہ مجرمانہ جنگ جاری رہے گی یا نہیں۔‘‘

    ویت نام کی جنگ میں ’’مہذب‘‘ برطانیہ، امریکہ کا حواری رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں رسل جو لیبر پارٹی کا ممتاز رکن تھا، یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: ’’میں خود کو عہدِ حاضر کی سب سے زیادہ شرم ناک غداری کا مرتکب پاتا ہوں۔ ہٹلر کم از کم انسانیت کا دعویٰ تو نہیں کرتا تھا، لیکن یہ لوگ جو حکومت کی کرسیوں کو ناپاک کر رہے ہیں، انتخابات سے پہلے انسانیت کے اعلیٰ ترین نظریات کا پرچار کرتے تھے۔‘‘

    اس تقریر کے فوراً بعد اس نے لیبر پارٹی کی رکنیت کا کارڈ پھاڑ دیا۔ بعد ازاں اس نے ویت نام میں جنگی جرائم کی تفتیش اور جنگی مجرموں کو انسانی ضمیر کے روبرو پیش کرنے کی خاطر دنیا بھر کے ممتاز دانشوروں اور قانون دانوں پر مشتمل ایک ٹریبونل قائم کیا۔ جس میں پاکستان کے قانون دان محمود علی قصوری، فرانسیسی فلسفی سارتر، فرانسیسی دانشور سمون دی بوار کے علاوہ امریکہ، جاپان اور فرانس کے جنگ دشمن تحریک کے علم بردار شامل تھے۔ ٹریبونل کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز2 مئی 1967ء کو اسٹاک ہوم میں ہوا۔ رسل خرابی صحت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکا اور سارتر نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ ٹریبونل نے حاصل شدہ شہادتوں کی بنا پر 10 مئی 1967ء کو امریکہ اور اس کے اتحادی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا کو مجرم قرار دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جانسن اور جنرل مورلینڈ کو ’’سزائے موت‘‘ کا حکم سنایا۔ بلاشبہ ان قومی مجرموں کو جسمانی طور پر سزا دینا ممکن نہ تھا۔ تاہم ایسی گہری ملامت انصاف پسند عالمی ضمیر کی آوازیں بن کر ضرور گونجیں۔ آخری ایام میں وہ اسرائیل کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا۔

    رسل کی زندگی جنگ، ظلم ، ناانصافی اور ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف جدوجہد میں بسر ہوئی۔اسے جولائی 1955ء میں تخفیفِ اسلحہ کے مسئلہ پر جنیوا سربراہ کانفرنس سے پر امن مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی، لیکن جب روس نے ایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں امریکی تجاویز مسترد کردیں تو بوڑھا امن پسند فلسفی مایوس ہوا۔

    رسل جب تک زندہ رہا، ظلم کے خلاف سینہ سپر رہا۔ اٹھانوے برس کی عمر میں موت نے اس جری سپاہی کی تلوار اس سے چھین لی۔ 2 فروری 1970ء کو وہ انتقال کر گیا۔ 5 فروری کو اس کی وصیت کے مطابق اس کی نعش کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اس موقع پر کوئی مذہبی تقریب نہیں ہوئی۔ کسی شخص نے کوئی لفظ نہیں کہا اور نہ ہی موسیقی کی دھنیں بجائی گئیں۔ آخری رسوم کی ادائیگی کے وقت اس کی بیوی اور ایک بیٹے کے علاوہ کوئی درجن بھر سوگوار موجود تھے۔

    (ظفر سپل فلسفی، ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں، یہ اقتباس ان کی کتاب ’’فلسفۂ مغرب‘‘ سے لیا گیا ہے)

  • اودے پور کا فرضی طلسم

    اودے پور کا فرضی طلسم

    نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیعُ الاوّل 1349 ہجری، 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبان قلم سے سنیے۔

    اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مؤرخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مؤرخ ہیں۔

    شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں۔ مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرۂ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے، پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے اورنگ زیب پر ایک نظر کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔

    مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہا رانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجود مہارانا کے والد 1911 کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھہرے کیونکہ ان کے ہاں‌ یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاؤ کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہو جائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔

    میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام تاریخِ اودے پور رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کیے ہیں جن میں سے ایک غرور شکن ہے اور دوسرا اودے پور کا فرضی طلسم ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا بہت جلدی شائع ہو جائے گی۔

    مولانا نجم الغنی‌ صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔

    رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شایستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔

    مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، نجمی تخلص تھا۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ و جاوید ہیں۔

  • پنکھا قلی اور لاہور میں بجلی کی فراہمی کا آغاز!

    پنکھا قلی اور لاہور میں بجلی کی فراہمی کا آغاز!

    جولائی 1912ء میں لاہور میں پہلی مرتبہ بجلی کی آمد ہوئی۔ بجلی کی ایک کمپنی لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ اس کمپنی کے چیئرمین لاہور کے مشہور و معروف صنعت کار لالہ ہرکشن لال تھے۔

    روزنامہ پیسہ اخبار میں 25 جولائی 1912ء کو شائع شدہ ایک خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر لوئیس ڈین (Louis Dane) نے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے برقی طاقت کے اسٹیشن کو اپنے ”دستِ مبارک“ سے کھولنا منظور فرمایا تھا۔

    نومبر 1912ء میں کمپنی کی برقی طاقت کی بہم رسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اور لوئیس ڈین کے ہاتھوں یہ رسم انجام دی گئی۔

    لاہور الیکٹرک کمپنی، دہلی میں قائم شدہ بجلی کمپنی کی نسبت لوگوں سے زیادہ رقم وصول کرتی تھی۔ دوسرے یہ کہ لوکل گورنمنٹ کو بجلی جس ریٹ پر مہیا کی جاتی تھی عوام کو اس سے مہنگی بجلی فروخت کی جاتی تھی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ سرکاری دفاتر کو چار آنے فی یونٹ اور پبلک کو چھ آنے اور آٹھ آنے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کی جاتی تھی جو نہ صرف پبلک سے زیادتی بلکہ اصولِ تجارت کے بھی خلاف تھا۔ اس ضمن میں روزنامہ پیسہ اخبار کی دلیل یہ تھی کہ لاہور الیکٹرک کمپنی ایک تو بینک سے قرض لے کر اپنا کام چلا رہی ہے۔ دوّم اس کمپنی کا سات لاکھ روپے کا مجوزہ سرمایہ ہے جس میں سے کمپنی نے صرف سوا لاکھ روپے کے حصص عوام کو فروخت کیے ہیں۔ اخبار نے کمپنی سے کہا کہ اگر وہ عوام کا اعتماد چاہتی ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ عوام کو مناسب قیمت پر بجلی فروخت کرے۔

    1921ء میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیئرمین کے عہدے پر لالہ ہرکشن لال کی جگہ لالہ ملک راج بھلّہ فائز تھے اور 9 ستمبر کو وہی اس عہدے پر فائز تھے، جب کمپنی نے بجلی کا نرخ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ موجودہ نرخ 1912ء میں مقرر کیا گیا تھا اور موجودہ گرانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس نرخ میں اضافہ کر دینا ضروری تھا۔

    کمپنی کا مؤقف یہ تھا کہ مزدوری کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ دوّم آج کل ”پنکھے قلی“ کی اجرت ڈھائی سو فیصد بڑھ گئی ہے اور معمولی سرسوں اور مٹی کے تیل کی قیمت بھی دو سو فیصدی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔

    ”پنکھے قلی“ کون تھے؟ یہ ایک بہت دل چسپ کہانی ہے۔ ہندوستان بھر میں گرمی کے موسم میں کمرے کی چھت پر ایک لکڑی کے تختے پر جھالر نما کپڑا لگا ہوتا تھا، جس میں ایک رسی نیچے لٹک رہی ہوتی تھی۔ اس رسی کو کھینچ کر آگے پیچھے کرنے سے کمرے میں ہوا آتی تھی۔ ہندوستان میں انگریز سپاہیوں کے لیے بارکوں میں اس قسم کے پنکھے لگے ہوا کرتے تھے اور پنکھا کھینچنے والے ہندوستانی مزدور انگریز سپاہیوں کو پنکھا جھلتے اور ان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات ایسے پیش آیا کرتے تھے کہ اگر کوئی ہندوستانی مزدور گرمی کے سبب سو جاتا اور پنکھا چلنا بند ہو جاتا تو گورے سپاہی مزدور کو گولی مار دیتے تھے۔

    جون 1921ء میں روزنامہ زمین دار نے لاہور میں الیکٹرک کمپنی کی کار گزاری سے تنگ آ کر ”لاہور میں بجلی کا انتظام“ کے زیرِ عنوان اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا، ”خدا جانے آج کل لاہور کے کارخانۂ برق میں کیا بدانتظامی ہے کہ دن بھر کبھی پنکھے بند ہو جاتے ہیں، کبھی چلنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹوں برقی رو منقطع رہتی ہے اور آج کل شدید گرمی میں سخت مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔

    سب سے زیادہ مشکل ان مطابع کو پیش آتی ہے جو برقی طاقت سے چلتے ہیں۔ زمیندار کے دفتر میں بھی برقی پنکھوں اور برقی روشنی کا انتظام ہے جہاں برقی رو بند ہو جاتی ہے وہیں سب کام رک جاتے ہیں۔ اِدھر اخبار کی طباعت رک جاتی ہے اُدھر دفتر میں عملۂ ادارت و انتظام گرمی کی شدت کی وجہ سے کام نہیں کر سکتا اور پاؤں سے سَر تک پسینہ پڑا بہتا ہے۔ کارخانے کے منتظمین کو چاہیے کہ اپنے فرائض کی طرف مزید توجہ کریں۔

    آج کل گرمی کی بہت گرم بازاری ہے۔ ایسی حالت میں برقی رو کا چند منٹ کے لیے رک جانا بھی قیامت ہے۔ لاہور میں شہر کے اندر بجلی کا استعمال اتنا زیادہ نہیں جتنا شہر سے باہر ہے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، انگریز ہندوستانی حکام و شرفا کے مکانات، مطابع اور جرائد کے دفاتر اور کاروباری دکانیں اور کمپنیاں زیادہ تر شہر کے باہر ہی واقع ہیں۔ برقی رو کے رک جانے سے تمام شہر میں چیخ پکار مچ جاتی ہے اور گرمی کی شدت اپنی طاقت آزماتی ہے۔

    امید ہے کہ کارخانۂ برق کے کار پرداز اس تکلیف و بے قاعدگی کا فوری انسداد کریں گے اور عوام و خواص کے آرام و آسائش کے علاوہ اپنے کاروباری مفاد کو بھی نقصان سے محفوظ رکھیں گے۔“

    (معروف تاریخ دان احمد سعید کی کتاب سے اقتباس)