Tag: تاریخی شخصیات

  • ملا نصرالدّین اور انعام

    ملا نصرالدّین اور انعام

    ملّا نصرالدّین کا نام تاریخ کے اوراق میں ایک حکیم اور دانا کے طور پر محفوظ ہے جو نہایت حاضر جواب، خوش باش اور زندہ دل تھے اور اپنے ظریفانہ انداز میں نصیحت اور سبق آموز واقعات بیان کرنے کے لیے مشہور تھے۔

    انھیں‌ کی زندگی کے حالات اور مختلف ادوار کی حقیقیت تو کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ مشہور ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ایک بزرگ اور عقل مند شخص تھے۔ یہ بھی ممکن ہے ملّا نصر الدّین کوئی خیالی کردار ہو، مگر ان سے کئی واقعات اور لطائف بھی منسوب ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ان واقعات کی کوئی سند اور مضبوط حوالہ نہیں‌ ملتا۔ نصر الدّین کا وطن ترکی اور سنہ پیدائش 1208 بتایا جاتا ہے۔

    تاریخ کی اس دل چسپ اور نکتہ سنج شخصیت کا تذکرہ اور ان سے منسوب واقعات ترکی اور برصغیر کے لوک ادب میں‌ ضرور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں ہم اس مشہور کردار سے منسوب ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    ایک دن ملّا نصر الدّین نہانے کے لیے گرم حمام میں پہنچا۔ انھوں نے معمولی کپڑے زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ حمام میں خدمت گاروں نے انھیں‌ معزز نہ سمجھا اور ان کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ نصر الدّین کو کپڑے دھونے اور نہانے کا سامان دے کر ایسے غسل خانے میں بھیج دیا گیا جہاں کچھ معقول انتظام نہ تھا۔

    ملّا جی نہا دھو کر باہر نکلے اور وہاں‌ موجود دو خدمت گاروں کو ایک ایک اشرفی انعام کے طور پر دے کر آگے بڑھ گئے۔ وہ دونوں دل ہی دل میں افسوس کرنے لگے کہ ہم نے اس انسان کو پہچاننے میں بڑی غلطی کی اور اس کی خدمت کو آگے نہ بڑھے ورنہ وہ خوش ہوتا اور ہمیں زیادہ انعام دیتا۔ ہفتے بھر بعد ملّا جی دوبارہ وہاں‌ پہنچ گئے اور اس بار ان دونوں آدمیوں نے ان کی بڑی خدمت کی، انھیں‌ خوشبو دار صابن، تولیہ وغیرہ دے کر اس غسل خانے تک پہنچایا جو نفاست پسند اور امیر لوگوں کے لیے مخصوص تھا۔

    جب ملّا جی نہا دھو کر باہر نکلے تو ان دونوں‌ آدمیوں‌ کو بیتابی سے اپنا منتظر پایا۔ اس مرتبہ ملّا نصر الدّین نے ان دونوں کی ہتھیلی پر ایک ایک پیسہ رکھ دیا۔ وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور ملاّ سے کہا: "حضور، اس روز جب ہم نے کوئی خدمت نہ کی تو ہمیں ایک ایک اشرفی ملی، اور آج ہمارا یہ محنتانہ؟”

    اس پر ملّا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: "اس دن تم نے میری طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی، جس کا معاوضہ تمہیں آج دیا ہے، اور آج تم نے بڑی خدمت کی تو اس کا معاوضہ میں‌ تم دونوں ایک ایک اشرفی کی صورت میں‌ پیشگی دے گیا تھا۔”

  • ابنِ ندیم جنھوں نے عربی مطبوعات کی فہرست اور اشاریہ تیّار کیا

    ابنِ ندیم جنھوں نے عربی مطبوعات کی فہرست اور اشاریہ تیّار کیا

    ابنِ ندیم، وَرّاق تھے۔ بغداد ان کا وطن تھا جہاں وہ ورّاقی یعنی کتابوں کی تدوین، تصحیح اور ان کی نقل میں‌ مشغول رہتے۔ یہ کام ان کے لیے تحصیلِ علم اور ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ یافت کا ذریعہ بھی تھا۔

    ابنِ ندیم نے عربی کتب کا اشاریہ یا اِنڈیکس (index) تیّار کیا جو ان کا ایک شان دار کام ہے۔ اس میں کتابوں کا تعارف، مصنّفین کے مختصر حالاتِ زندگی اور مختلف علوم و فنون اور ان کی شاخوں کا تعارف بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں‌ ان کی یہ کتاب ’’الفہرست‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

    ابنِ ندیم کے زمانے میں بغداد علم و فضل کا مرکز تھا۔ کتب خانے آباد اور دارُ المطالعہ بارونق ہوا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے کئی عرب اور مسلمان مصنّفین، اہلِ علم اور قابلِ قدر ہستیوں کے مستند حالاتِ زندگی اور ان کے کارناموں کو کتابی شکل میں محفوظ کیا تھا، لیکن خود ان کے بارے میں‌ بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔

    ان کا پورا نام محمد ابنِ اسحاق الندیم تھا۔ وہ ابنِ ندیم کے نام سے معروف ہوئے اور اپنے پیشے کی نسبت ورّاق کہلائے۔ سنِ پیدائش کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن تاریخ کے اوراق میں ان کی وفات کا سن 995 عیسوی درج ہے۔ ابنِ ندیم کی کتاب ’’الفہرست‘‘ ہے جو اس لحاظ سے نہایت اہم اور مستند بھی مانی جاتی ہے کہ اس میں ظہورِ اسلام کے بعد ابتدائی چار صدیوں کے دوران مسلمانوں نے عربی زبان میں جن علوم پر کتابیں تحریر کیں، ان کے مآخذ موضوع وار درج ہیں۔ یہ کتاب اُس دور کے علم و فنون اور تہذیبی و تمدّنی حالات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

    ’’الفہرست ‘‘میں جن موضوعات اور علوم و فنون پر کتابوں اور مصنّفین کا تذکرہ ہے ان میں کتابت اور رسمُ الخط، لغت اور نحو، شعرا اور شاعری، علمِ کلام اور متکلمین، فقہا اور محدثین، حساب و مہندسی اور موسیقی، طب، کیمیا اور دیگر شامل ہیں۔

    ابنِ ندیم کو اسلامی دنیا میں کتب کی فہرست سازی اور اشاریہ سازی کی روایت کی بنیاد رکھنے والا کہا جاتا ہے۔ مطبوعات کی یہ فہرستیں اور اشاریے میدانِ تحقیق میں طالب علموں کے لیے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

    اس مشہور کتاب میں مصنّف نے شعبدہ بازوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں اور جنّات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور شعبدہ گری یا جادو ٹونے کے لیے مشہور شخصیات کے نام اور ان کے کارنامے بھی بتائے ہیں۔

  • دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں۔ سیر و سیّاحت کے دلدادہ ابنِ بطوطہ ایک مؤرخ اور وقائع نگار تھے جنھوں نے نوجوانی میں حج کی ادائیگی کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کرنے کی ٹھانی اور گھر سے نکل پڑے۔

    اپنے اس سفر میں‌ انھوں‌ نے مختلف ملکوں میں قیام کے دوران سیر و سیّاحت کا شوق پورا کیا۔ انھیں‌ حکم رانوں، امرا اور اپنے وقت کی عالم فاضل شخصیات اور قابل لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا اور انھوں‌ نے سارا آنکھوں‌ دیکھا حال اور ماجرا کتاب میں محفوظ کرلیا۔ ان کا سفر نامہ آج بھی مقبول ہے۔

    ابنِ بطوطہ کے سفرنامے کے مختلف اردو تراجم آج بھی ذوق و شوق اور دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ انہی میں‌ سے ایک ترجمے سے یہاں وہ سطور نقل کی جارہی ہیں‌ جس میں ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرِ شام کے دوران پھوٹ پڑنے والی وبا کا تذکرہ کیا ہے۔

    ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں:
    "میں عظیم طاعون کے زمانے میں ربیع الآخر سن 749 ھجری (1348عیسوی) کے آخری دنوں میں دمشق پہنچا۔ وہاں‌ دیکھا کہ لوگ مسجد میں‌ حیران کُن حد تک تعظیم میں مشغول ہیں۔ بادشاہ کے نائب کے حکم سے منادی کی گئی کہ دمشق کے سب لوگ تین دن روزہ رکھیں اور بازاروں میں کھانا نہ پکائیں۔ لوگوں نے لگا تار تین دن روزہ رکھا۔ آخری روزہ جمعرات کے دن تھا۔ اس کے بعد تمام امرا، شرفا، جج، فقہا اور مختلف طبقاتِ عصر جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان سے مسجد بھر گئی۔

    انھوں نے یہاں جمعہ کی رات نماز، ذکر اور دعا میں گزاری۔ اس کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ سب کے سب پیدل باہر نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا اور امرا بھی ننگے پاؤں تھے۔ شہر کے تمام لوگ، مرد عورتیں، چھوٹے بڑے، سب کے سب نکلے۔ یہودی اپنی تورات کے ساتھ نکلے۔ عیسائی انجیل کے ساتھ نکلے۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی ان کے ہم راہ تھے۔ وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور عجز و انکسار کے ساتھ اپنے کتاب اور انبیا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے تھے۔

    وہ پیدل (باہر کی) مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ زوال کے وقت تک عاجزی سے رو رو کر دعا کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ شہر کی جانب پلٹے اور نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے وبا کو ہلکا کیا تو اس وقت مرنے والوں کی تعداد روزانہ 2000 تک پہنچ گئی تھی۔”

    اپنے اس قیام اور قریبی شہروں‌ کے سفر کی روداد لکھتے ہوئے ابنِ بطوطہ نے بتایا ہے کہ وبا ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور انھیں‌ جن لوگوں‌ سے ملنا تھا ان میں سے بھی اکثر موت کے منہ میں‌ جاچکے تھے۔

  • تمام کتابیں، آدھی جائیداد کالج کو عطیہ کرنے والا کون تھا؟

    تمام کتابیں، آدھی جائیداد کالج کو عطیہ کرنے والا کون تھا؟

    جان ہارورڈ کو نوجوانی میں تپِ دق (ٹی بی) نے آ گھیرا۔ یہ 1638 عیسوی کی بات ہے جب ایسے کسی مرض کے لاحق ہوجانے کے بعد زندہ رہنے کی امید کرنا تو فطری اور یقینی تھا، مگر ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔

    جان ہارورڈ کا تعلق لندن سے تھا۔ بعد میں وہ امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں جا بسا تھا۔

    وہ اپنے زمانے کا نہایت مال دار اور صاحبِ جائیداد شخص تھا۔ وہ اپنے قصبے کے ایک گرجا گھر کا مہتمم بھی تھا۔ اسے علم و ادب کا شائق کہا جاتا ہے جس کے ذاتی کتب خانہ میں کئی کتابیں موجود تھیں۔

    ٹی بی کے موذی مرض میں شدت آتی گئی اور اسے موت کا خوف ستانے لگا۔ اس نے لوگوں سے میل جول ترک کردیا اور گھر سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا تھا۔

    دوست احباب گھر پر اس سے ملنے آتے رہتے تھے۔ ایک روز اس کا قریبی دوست اور مقامی گرجا کے پادری اس کے گھر آئے ملنے آئے تو جان ہارورڈ نے انھیں اپنی وصیت میں کہا کہ بعد از موت اس کی ساری کتابیں اور آدھی جائیداد مقامی کالج کو دے دی جائیں۔

    1638 میں ایک روز وہ دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس کی وصیت کے مطابق کتابیں اور جائیداد کالج کو عطیہ کردی گئیں۔ اگلے برس کالج انتظامیہ نے جان ہارورڈ کے اس جذبے اور پُرخلوص مالی مدد پر متعلقہ مجلس کے فیصلے کے مطابق درس گاہ کو جان ہارورڈ سے منسوب کر دیا جو آج دنیا بھر میں جانی پہچانی جامعہ ہے۔