Tag: تاریخی شہر

  • سمندر، سندھ کی تاریخی شہروں کے قدیم آثار بھی نگلنے لگا

    سمندر، سندھ کی تاریخی شہروں کے قدیم آثار بھی نگلنے لگا

    دریائے سندھ کا ڈیلٹا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ختم ہو رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ سمندر صوبے کے تاریخی شہروں کے قدیم آثار بھی نگل رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دریائے سندھ کا ڈیلٹا ختم ہورہا ہے۔ جہاں کئی ڈیلٹائی علاقے اب تک سمندر برد ہوچکے ہیں وہیں سمندر صوبے کے تاریخی شہروں کے قدیم آثار نگل رہا ہے۔

    سمندر برد ہونے والے تاریخی شہروں کے قدیم اثاثے دکھانے اور بچ جانے والے اثاثوں کے تحفظ کے لیے کراچی میگنی فائی سائنس سینٹر میں انڈس ڈیلٹا کے کھوئے ہوئے شہر کو تصاویر کے ذریعے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یجیٹل ہیریٹیج ٹریلز پروجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت مختلف آثار قدیمہ کے مقامات کو ڈیجیٹلی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    کراچی کے میگنی فائی سائنس سینٹر میں قدیمی ورثے کی حالت زار پر تھری ڈی فلم ذریعے دکھایا گیا۔

    دستاویزی فلم میں ماہرین کی جانب سے سندھ کے ڈیلٹا میں واقع قدیم شہروں کی حالت پر تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق جس کے مطابق سطح سمندر کے بڑھنے اور دریائے سندھ کے پانی کی قلت کی وجہ سے ڈیلٹا ختم ہو رہا ہے اور قدیم شہروں کے آثار بھی سمندر کے نیچے جا رہے ہیں۔

    ماہر آثار قدیمہ طارق الیگزینڈر قیصر کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا کا بہت نقصان ہو چکا، لیکن مکمل تباہی سے بچنے کے لیے اب بھی اب بھی ہلکی سے امید باقی ہے۔

    اس موقع پر پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کے آخر میں معروف سندھی لوک گلوکار الن فقیر مرحوم کے صاحبزادے فہیم الن فقیر نے روایتی لوک گیت بھی پیش کیے۔

  • قاہرہ کی سیر

    قاہرہ کی سیر

    چند سال قبل آپریشنل ہونے والے اسفنکس ائیرپورٹ پر لینڈنگ ہوئی تو ویرانی دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی۔ رات کے ڈیڑھ بجے لینڈ ہونے والی واحد فلائٹ، چار کاؤنٹرز اور چند افراد پر مشتمل عملہ ہی اس نئے ائیرپورٹ پر دکھائی دیا۔

    امیگریشن کے بعد قاہرہ کا رخ کیا اور تقریبا چار بجے تک ہوٹل گرینڈ پیلس میں پڑاؤ ڈالا۔ وقت ضائع کئے بغیر فوری قاہرہ کی مشہور مسجد جامع الانور جو کہ مسجد حاکم کے نام سے معروف ہے وہاں پہنچے اور فجر کی نماز ادا کی۔ المعزیہ القاہرہ کو "سٹی آف تھاؤزنڈز مینرٹ” یعنی ہزاروں میناروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک زمانے میں اندازے کے مطابق چھتیس ہزار مساجد تھیں۔ اس وقت بھی قاہرہ میں مساجد کی تعداد ہزاروں میں ہی ہے ۔ اور ان میں سے بیشتر صدیوں قدیم ہیں ۔ سڑک ، محلے ، گلی میں ایک سے زائد مساجد سایہ کئے ہوئے ہے ۔ فاطمی سلطنت میں المعزیہ القاہرہ میں پانچ جامعہ تعمیر ہوئیں ، جبکہ دو جامعہ کو آباد کیا گیا ۔ ان پانچ مسجدوں میں الجامع الازہر، الجامع الانور ، الجامع لؤلؤہ، الجامع الجیوشی ، اور الجامع الاقمر شامل ہیں ، جبکہ الجامع العتیق اور الجامع احمد ابن طلون کو فاطمی دور کے دوران آباد کیا گیا ۔۔ دنیا کی قدیم آبادی کے ساتھ مساجد اس شہر کی پہچان ہے ۔ یہ تہذیب یافتہ معاشرے کی بھی عکاس ہے اور اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ جہاں اتنی مساجد ہوں گی وہاں نمازی بھی ہوں گے ۔ ان مساجد نے مصر کی تاریخ بلخصوص قاہرہ کی تعمیر و ترقی میں ایک ثقافتی مرکز کا کردار ادا کیا ہے ۔۔

    الجامع الازہر کا شمار آج بھی قدیم ترین درس گاہ میں ہوتا ہے ۔ جہاں حصول علم کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے ۔ آج بھی اس مسجد کی رونق برقرار ہے ، طالبعلموں سے یہ مسجد آباد رہتی ہے۔

    اوپن ائیر واکنگ میوزیم

    قاہرہ میں دنیا کا سب سے بڑا اوپن ائیر واکنگ میوزیم بھی موجود ہے ۔ اس مقام کو یونیسکو نے ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے ۔ یہ تاریخی مقام بین الحرمین یعنی دو محلوں کے درمیان کا راستہ ہے ۔ جس کا آغاز جامع الانور کے داخلی دروازے باب الفتوح سے ہوتا ہے اور یہ شاہراہ باب الزویلہ تک جاتی ہے ۔۔ فاطمی دور سلطنت کےدو قصر اور کئی مساجد اس راستے کا حصہ ہیں ۔ فاطمی سلطنت کے بعد آنے والی ایوبی اور مملوک سلطنت نے ان بیش قیمتی آثار کو ملیا میٹ کردیا ۔ سلطنت عثمانیہ میں بین الحرمین میں مزید تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ۔ دور حاضر میں اس مقام پر بازار قائم ہے ۔ ایوبی ، مملوک اور سلطنت عثمانیہ کی مساجد بھی موجود ہیں ۔ جن کی شناخت انکے میناروں کی بناوٹ سے کی جاتی ہے۔

    قاہرہ کی روشن راتیں

    العمزالدین اسٹریٹ ثقافتی ورثہ اور اوپن ایئر میوزیم ہونے کے ساتھ ، قاہرہ کی رونقوں اور حسن کا منبع بھی ہے ۔ یہاں ہر رات میلہ لگتا ہے ۔ دکانوں سے سجی اس اسٹریٹ پر مصر کی سوغاتیں ہیں ۔۔ سیاح اس شاہراہ کا رخ کئے بغیر قاہرہ سے باہر نہیں جاسکتے ۔ کونے کونے پر یہاں ایک فیسٹیول سجا رہتا ہے ۔ کھانے پینے کے مشہور اسٹالز ہیں جہاں گھومنے پھرنے والوں کی بیٹھکیں لگی رہتی ہیں ۔ یہ قاہرہ کے اصل حسن و جمال کا ایک عکس ہے ۔ اس پرکشش اور دلفریب ماحول میں شاہراہ کی سیر کرتے ہوئے کئی بار بین الاحرمین کے قصر کی سیر کرنے کا گمان ہوا ۔ اور دل نے کئی بار اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ منظر محسوس کرنا نصیب ہوا ۔ بیشتر سیاحوں کے لئے یہ ایک تفریحی مقام ہے ، لیکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کو یہ شاہراہ شاہانہ ماضی کے دور میں لے جاتی ہے ۔ جس کے احساس کو لفظوں میں پرویا نہیں جاسکتا ۔

    قاہرہ اور کراچی کی یاد

    اولڈ سٹی کی عمارتیں دیکھ کر قاہرہ پر کراچی کا گمان ہوتا تھا ، لیکن پاکستانی سفیر نے ملاقات میں اس سوچ کو غلط ثابت کیا ۔ بتایا کہ ظاہری طور پر خستہ اور بوسیدہ لگنے والی عمارتیں اندر سے بے حد شاندار ہیں ، لوگوں کے گھر کشادہ اور عالی شان ہیں ۔ عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر لگے ہوئے ڈش انٹینا بہت نمایاں ہیں ۔ دن کی روشنی میں اینٹوں کی بوجھل اور افسردہ عمارتیں رات میں سنہری قمقموں سے روشن ہوتی تھیں ۔۔ ان عمارتوں ، مساجدوں کی تزئین کے لئے پیلی روشنی کے بلب کچھ اس انداز میں استعمال کئے گئے ہیں کہ دیکھنے والوں کو لائٹ شو لگتا ہے ۔ کراچی کی طرح قاہرہ میں بے ہنگم ٹریفک اور پارکنگ ایک بڑا مسئلہ ہے ، جگہ جگہ پل تعمیر کئے گئے ہیں ، لیکن پیدل چلنے والوں کے لئے اوور ہیڈ برج کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہاں موٹر سائیکلوں کا راج ہے اور رکشہ بھی چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان ملتی جلتی خصوصیات کے باوجود قاہرہ کراچی کو کچرے کے معاملے میں پیچھے چھوڑنے میں ناکام ہے ۔۔ اولڈ سٹی ہو یا نیو ، قاہرہ صاف ستھرا شہر ہے ۔ یہاں گندگی کے ڈھیر نہیں لگے، صفائی کا انتظام رہتا ہے ۔

    قاہرہ کی اہمیت اور سنہری تاریخ کے باعث یہاں قدم قدم پر گوہرنایاب ملتا ہے ، لیکن چار روز کے قلیل عرصے میں ان جواہرات کو جمع کرنا ممکن نہ تھا۔ دریائے نیل ، میوزیم ، اور اہرام مصر کے دیدار کئے بغیر قاہرہ سے واپسی ممکن نہیں لہذا یہ بھی کام انجام دیا گیا ۔ شاپنگ کا فریضہ بھی ادا کیا ۔ یہاں کا پیپر جسے پیپرس کہتے ہیں اور کاٹن مشہور ہیں ۔ مٹھائی اور چاکلیٹ کی مٹھاس کا دنیا میں مقابلہ نہیں ۔ قاہرہ میں کئی مالز اور شاپنگ سینٹر قائم ہیں، ان میں زیادہ مشہور سٹی اسٹارز ہے، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مال سمجھا جاتا ہے ۔۔ قاہرہ مصر کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ اس کا اہم ثقافتی مرکز ہے ۔۔ اور مصر کی کل آبادی کا پچیس فی صد اس شہر میں آباد ہے ۔۔

  • خلیفہ ہارون الّرشید کے عہد کا سکّہ دریافت

    خلیفہ ہارون الّرشید کے عہد کا سکّہ دریافت

    عباسی خلیفہ ہارون الّرشید کا عدل و انصاف، رعایا پروری اور ان کی نیک دلی ہی مشہور نہیں بلکہ ان کا دورِ حکومت شاہی سرپرستی میں فنونِ لطیفہ کی ترقّی کے حوالے سے بھی یادگار اور مثالی سمجھا جاتا ہے۔

    نام وَر اور معتبر مؤرخین اپنی کتب میں‌ لکھتے ہیں‌ کہ عبّاسی خلیفہ ہارون الّرشید نے اپنے دور میں تہذیب کے ابدی نظریے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

    حال ہی میں اس نام وَر اور مشہور عبّاسی خلیفہ کے دور کا ایک سکّہ دریافت کیا گیا ہے جس کے بارے میں حائل یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا ہے کہ یہ خلیفہ ہارون الّرشید کے زمانے کا طلائی سکّہ ہے اور 12 سو سال پرانا ہے۔

    ماہرین کو یہ طلائی سکّہ فید کے تاریخی شہر میں کھدائی کے دوران ملا ہے جس پر 180 ہجری کی تاریخ درج ہے۔ ماہرین کے مطابق سکّے کا وزن 4 گرام ہے جس کی موجودہ مالیت ایک ہزار سعودی ریال کے برابر ہے۔

    عباسی دور کے اس سکّے کے ایک رُخ پر ’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ‘ تحریر ہے جب کہ اس کے کناروں پر گولائی میں قرآن مجید کی آیت درج ہے۔

    واضح رہے کہ مشہور خلیفہ ہارون رشید کا دورِ حکومت 786ء سے 809ء تک رہا جس میں عوام کو بھی خوش حال اور مالی طور پر آسودہ بتایا جاتا ہے۔

  • مٹّی سے بنا ‘اَرگِ بام’ ایک روز مٹّی میں مل گیا!

    مٹّی سے بنا ‘اَرگِ بام’ ایک روز مٹّی میں مل گیا!

    ایران کے جنوب مشرق میں‌ تاریخی شہر ‘بام’ کبھی ریشم اور حِنا کی پیداوار کے لیے مشہور تھا اور اسی شہر میں‌ مٹّی اور کچّی اینٹوں کا شہرہ آفاق قلعہ بھی موجود ہے جسے ‘ارگِ بام’ کہا جاتا ہے۔

    یہ نقشِ کہن تہذیب و تمدن اور قدیم ثقافت کی عظیم یادگار ہی نہیں‌ بلکہ فنِ تعمیر میں ایجاد و اختراع، انسان کی کاری گری اور ہنر مندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔

    صدیوں پہلے معماروں نے اس قلعے کو بلندی پر تعمیر کیا تھا اور نیچے کی طرف قلعے کے اطراف بستی اور بازار بنائے تھے۔

    اَرگ کا مطلب ہے نہایت مضبوط اور بام اس قلعے کے بلند مقام ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اونچائی پر ایک مضبوط عمارت۔

    یہ شہر چھے مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی دیواریں‌ 18 میٹر بلند تھیں۔ صدیوں‌ پہلے مخصوص مٹّی اور کچّی اینٹوں سے تعمیر کردہ یہ قلعہ اور شہر واقعی بہت مضبوط تھا جس نے ہزار ہا برسوں سے حالات اور موسم کے اتار چڑھاؤ اور سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا وجود قائم رکھا، لیکن 2003ء کے زلزلے میں زمیں بوس ہوگیا۔ آج یہ ثقافتی ورثہ مکمل بحالی اور توجہ کا منتظر ہے، لیکن یہاں دور تک مٹّی اور ملبا ہی دکھائی دیتا ہے۔

    بام شہر کے اس زلزلے میں لگ بھگ ساٹھ ہزار افراد ہمیشہ کے لیے منوں مٹّی تلے جا سوئے تھے۔

    ارگِ بام کو باقاعدہ اور منظّم طریقے سے بسایا اور بنایا گیا تھا۔ مذکورہ ناگہانی آفت سے قبل پہاڑی پر موجود فنِ تعمیر کا یہ شاہ کار قلعہ سیّاحوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کے ساتھ نیچے شہر کا نقشہ یہ تھاکہ وہاں ایک ہی صدر دروازہ تھا اور اسی سے تمام افراد اندر داخل ہوسکتے تھے۔

    بام شہر ایران کے صوبہ کرمان کا حصّہ ہے جس میں‌ موجود یہ قلعہ قبلِ مسیح کی یادگار تھا اور ساتویں سے گیارہویں صدی میں‌ اسلامی عہد میں اس خطے کو تجارتی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔

    2003ء کے زلزلے میں پہاڑی پر قائم قلعے کا بیش تر حصّہ بھی تباہ ہوا، لیکن نیچے موجود عمارتیں‌ تو واقعی مٹّی کا ڈھیر بن گئی تھیں۔

  • پیلمائرا جسے زنوبیا نے عظیم الشان شہر بنایا

    پیلمائرا جسے زنوبیا نے عظیم الشان شہر بنایا

    تاریخ بتاتی ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں رومن سلطنت یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی امریکا تک پھیل گئی تھی۔ اس وسیع سلطنت کے اہم شہروں میں سے اس وقت کے صوبے شام کا ایک شہر پیلمائرا (تدمر) بھی شامل تھا۔اس شہر کا محلِ وقوع فوجی اعتبار سے بھی بہت اہمیت رکھتا تھا۔

    اس شہر کو تیسری صدی میں دولت مند شہروں میں شمار کیا جانے لگا تھا اور اس کا مؤرخین کے مطابق یہ ملکہ زنوبیا کی حکمتِ علمی اور ذہانت سے ممکن ہوا تھا جنھیں جنگجو اور زبردست منصوبہ ساز مانا جاتا تھا۔

    زنوبیا کی شادی پیلمائرا کے شہزادے سے ہوئی تھی جس کی موت کے بعد زنوبیا نے پیلمائرا کی حفاظت اور آزادی کا تحفظ کیا۔ کہتے ہیں اس ملکہ کے دور میں شہر کی خوب صورتی کو گویا چار چاند لگ گئے تھے۔ یہ اپنی پُرشکوہ عمارات، فن و ثقافت اور اپنے باغیچوں کے لیے مشہور ہوا۔

    موجودہ دور میں‌ پیلمائرا جو کہ اب کھنڈرات ہیں، شام کے صوبہ حمس میں شامل ہے اور عالمی ورثہ شمار کیا جاتا ہے، لیکن چند برسوں کے دوران شدت پسندوں اور جنگجوؤں کے حملے اور فوجی کارروائیوں کے سبب اسے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ یوں تو صدیوں پہلے بھی اس شہر پر حملے ہوئے اور یہاں سے نوادرات اور قیمتی اشیا کو لوٹا گیا، لیکن جدید دور میں شام کی خانہ جنگی میں اس شہر پر قبضہ کرنے والے گروہوں نے عمارتوں کے کھنڈرات اور قدیم آثار کو شدید نقصان پہنچایا۔

    اس شہر میں متعدد مقامات پر تاریخی مجسمے اور عمارتیں موجود تھیں جن کی باقاعدہ دیکھ بھال اور ضرورت کے مطابق مرمت کی جاتی رہی ہے، لیکن شدّت پسندوں نے انھیں بارود سے اڑا دیا۔

    تاریخ کے اس عظیم الشان شہر کو سیّاحتی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ دنیا بھر سے سیّاح اس شہر کا رخ کرتے تھے اور یہ حکومت کے لیے نفع بخش تھا جب کہ وہاں کے باسیوں کی معاش اور گزر بسر کا سبب بھی یہی شہر اور اس کے آثار تھے۔ اسے 1980ء میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔