Tag: تاریخی فلمیں

  • پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت میں متعدد اداکارائوں کو ”پری چہرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا اور انھوں نے اپنے فنِ اداکاری ہی نہیں حسن و جمال کے سبب بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ نسیم بانو بھی ایک ایسی ہی اداکارہ تھیں جنھوں نے فلم پکار میں ملکہ نور جہاں کا کردار نبھایا تھا۔

    نسیم بانو اپنے وقت کی معروف اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ اور لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی ساس تھیں۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نسیم بانو سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوب صورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پُرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پُرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شان دار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اور سہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شان دار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُروقار دکھائی دیتی تھی۔

    ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹری تھے، لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چوں کہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لیے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کم زور تھی، لیکن اس کم زوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا، اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی، مگر یہ فلم کام یابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کم زور تھی، ڈائریکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چناں چہ یہ فلم کام یاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا مگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔

    ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلّی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لیے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیوں کہ صرف ایک آدمی کے لیے وقف ہوگیا تھا۔

    نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا، آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ، وہ کونا جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں، مگر نسیم کچھ اس بے تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے، مگر گاہے گاہے۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے، مگر سیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ ‘

  • شہزادے سے مغل بادشاہ بننے تک پردیپ کمار کا فلمی سفر

    شہزادے سے مغل بادشاہ بننے تک پردیپ کمار کا فلمی سفر

    وہ 1950ء اور 60 کی دہائی تھی جب ہندی سنیما میں پردیپ کمار نے ہیرو کی حیثیت سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور اپنے وقت کے مقبول فلمی ہیرو شمار کیے جانے لگے۔

    پردیپ کمار کی فلموں نے باکس آفس پر شان دار کام یابیاں سمیٹیں اور فلم سازوں کو اپنے سرمائے پر زبردست منافع حاصل ہوا۔ یوں انڈسٹری میں ان کی خوب پذیرائی ہونے لگی۔

    پردیپ کمار کا تعلق مغربی بنگال سے تھا جہاں وہ چار جنوری 1925ء کو پیدا ہوئے۔ پردیپ کمار نے ہندی اور بنگالی دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں کام کیا۔

    17 برس کی عمر میں اداکار کی حیثیت سے کام کرنے کا فیصلہ کرنے والے پردیپ کمار نے بنگالی فلموں سے اپنا کیرئیر شروع کیا۔ 1947ء میں ان کی ایک فلم ریلیز ہوئی جو بہت کام یاب رہی۔ اس کے بعد پردیپ نے مزید چند بنگالی فلمیں کیں اور اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ہندی فلموں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور ممبئی چلے گئے۔

    پردیپ کمار کو ممبئی کی فلم نگری میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی اور 1952ء میں فلم ’’آنند ماتھ‘‘ میں انھیں ایک اہم کردار مل گیا۔ 1953ء میں پردیپ کمار کی شہرت اور مقبولیت کا ایک اور باب کھلا جب ان کی فلم ’’انارکلی‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلم میں شہزادہ سلیم کے روپ میں انھیں ہندی سنیما کے شائقین نے بہت پسند کیا اور ان کی شان دار پرفارمنس کو ہر کسی نے سراہا۔

    اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور اس نے زبردست بزنس کیا تھا۔ اگلے سال یعنی 1954ء میں پردیپ کمار نے فلم ناگن میں وجنتی مالا کے ساتھ کام کرکے پھر کام یابی سمیٹی۔ اس فلم میں‌ بھی پردیپ کمار کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ ان کی تاریخی فلموں میں‌ ایک ’’تاج محل‘‘ بھی تھی جس میں وہ شہزادہ خرّم کا کردار نبھاتے نظر آئے۔ پردیپ نے اپنے وقت کی مقبول ترین ہیروئنوں کے ساتھ کردار نبھائے۔

    پردیپ کمار کی 1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’تاج محل‘‘ کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ یہ فلم بھی اپنے دور کی سپرہٹ فلم تھی اور اس کے گیتوں نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ پردیپ کمار نے رومانوی کردار بھی ادا کیے اور المیہ بھی اور ہر بار شائقین سے خوب داد سمیٹی۔

    پردیپ کمار نے مدھوبالا، بینا رائے، شکیلہ، مالا سنہا، مینا کماری، نرگس اور وجنتی مالا جیسی ہیروئنوں کے مقابل ہیرو کا کردار ادا کیا۔

    وہ 27 اکتوبر 2001ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی فلموں میں‌ ’’عدلِ جہانگیر، بندھن، بہو بیگم، نورجہاں، نیا زمانہ، ہیلمٹ، بادشاہ، مٹی میں سونا‘‘ شامل ہیں۔

  • تاریخی کرداروں‌ پر بننے والی ناکام فلمیں‌

    تاریخی کرداروں‌ پر بننے والی ناکام فلمیں‌

    تاریخی واقعات اور کرداروں پر مبنی فلمیں بنانے کے لیے بہت محنت اور تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے. ایسی فلموں کے سیٹ، مختلف اشیا، کرداروں کے کپڑوں وغیرہ پر بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے، تاہم باکس آفس پر ان کی ناکامی فلم ساز کے لیے مالی خسارے اور شدید مایوسی کا سبب بنتی ہے۔

    یہاں ہم تاریخی واقعات اور کرداروں پر مبنی ان فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جو سنیما بینوں‌ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ ناکام رہیں‌ اور فلم سازوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

    شہنشاہ جہانگیر
    بادشاہوں اور ان کے عدل و انصاف کی عکس بندی کی بھی کوششیں فلمی صنعت میں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اس فلم میں مرکزی کردار صبیحہ خانم اور سنتوش کمار نے ادا کیے تھے۔ فلم کی موسیقی کمال احمد نے ترتیب دی تھی۔ 1968 میں بڑی اسکرین پر پیش کی گئی یہ فلم فلاپ ثابت ہوئی۔

    چنگیز خان
    یہ وہ تاریخی فلم ہے جو بُری طرح ناکام ہوئی۔ 1958 میں اسکرین پر سجنے والی اس فلم کے ہیرو کامران کو پہلی بار اداکاری کا موقع ملا تھا جب کہ ان کے ساتھ نیلو نے ہیروئن کا کردار نبھایا تھا۔ اس کی موسیقی کے لیے رشید عطرے کا انتخاب کیا گیا لیکن ان کا ایک ہی گانا مقبول ہو سکا۔ فلم کے ہدایت کار رفیق سرحدی تھے۔

    رانی روپ متی باز بہادر
    یہ بھی ایک ناکام فلم تھی جس کے ہدایت کار ذکا اللہ تھے۔ یہ دورِ اکبری کے ایک تاریخی واقعے پر مبنی فلم تھی۔ 2 دسمبر 1960 کو ریلیز ہونے والی اس فلم کے موسیقار تصدق حسین تھے اور یہی وہ فلم تھی جس کی موسیقی پر انھیں پہلا صدارتی ایوارڈ ملا تھا۔ فلم میں ہیرو اسلم پرویز جب کہ ہیروئن کا کردار شمیم آرا نے نبھایا۔

    ٹیپو سلطان
    ٹیپو سلطان کی ناکامی کی وجہ ہدایت کار رزاق کی ناتجربہ کاری بتائی جاتی ہے۔ اس فلم کی موسیقی اختر حسین نے ترتیب دی جب کہ مرکزی کردار محمد علی اور روحی بانو نے نبھائے تھے۔ یہ فلم 1977 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    عجب خان
    جنگِ آزادی کے مشہور کردار عجب خان پر بنائی گئی اس فلم نے خاص بزنس نہ کیا۔ انگریزوں کے خلاف اپنی بہادری کے لیے مشہور عجب خان کو تاریخ کے صفحات سے نکال کر بڑے پردے پر لانے والے کہانی کار ریاض شاہد اور ہدایت کار خلیل قیصر تھے۔ 1961 کی اس فلم کی ہیروئن مارگریٹ نامی لڑکی تھی۔ سدھیر اور حسنہ نے بھی اس فلم میں کردار نبھائے تھے۔

    صلاح الدین ایوبی
    تاریخ کے اس نام ور اور مشہور کردار کو بڑے پردے پر پیش کرنے کے لیے ہدایت کار ابراہیم باقری نے موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ بہت محنت سے کام کیا۔ 1972 کی اس فلم کے تمام اداکار نئے تھے۔ تاہم ناقدین کی نظر میں یہ کم زور ڈائریکشن اور ڈھیلے اسکرپٹ کی وجہ سے ناکام رہی۔