Tag: تاریخی مسجد

  • بھارت میں ایک اور 168 سال پرانی تاریخی مسجد شہید

    بھارت میں ایک اور 168 سال پرانی تاریخی مسجد شہید

    بھارت میں انتہا پسند سوچ کے حامل مودی کی حکومت میں مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ نہ تھم سکا، یوپی کے شہر میرٹھ میں 168 سال پرانی ایک اور تاریخی مسجد کو انتظامیہ نے رات کی تاریکی میں شہید کردیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ نے نصف شب کے وقت بلڈوزر چلا کر تاریخی مسجد کو شہید کیا، یہ مسجد دہلی روڈ پر سروس لین میں واقع تھی اور میٹرو و ریپڈ ریل کاریڈور کے درمیان تھی، جسے بنیاد بناکر حکام نے مسجد کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    مسجد کا بجلی کنکشن دو دن قبل منقطع کر دیا گیا تھا، جس کے بعد مقامی مسلمانوں نے خود ہی مسجد کو ہٹانے کی کوشش کی، تاہم، جمعہ کی رات انتظامیہ نے بلڈوزر لگا کر پوری مسجد کو مسمار کر دیا اور فوراً ملبہ بھی ہٹا دیا گیا۔

    یہ مسجد دہلی روڈ پر جگدیش منڈپ کے قریب طویل عرصے قبل تعمیر کی گئی تھی، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مسجد میٹرو کے تعمیراتی منصوبے میں رکاوٹ بن رہی تھی، جس کی وجہ سے اسے منہدم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    مقامی افراد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ اس مسجد کی متبادل جگہ اور مناسب معاوضہ چاہتے تھے، مگر ان کی مانگ پوری کیے بغیر ہی مسجد شہید کردی گئی۔

    رپورٹس کے مطابق جس وقت مسجد کو منہدم کیا جارہا تھا، سیکورٹی کے سخت اقدامات کئے گئے تھے، اور بڑی تعداد میں پولیس کی نفری موجود تھی، مسجد کے انہدام کی اطلاع ملنے کے بعد علاقے میں تناؤ کی کیفیت دیکھی گئی۔

    بھارت، گجرات میں تاریخی مسجد اور درگاہ مسمار

    انتظامیہ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ مسجد کو ہٹانے کا فیصلہ باہمی رضامندی ہوا تھا اور اس کے پیچھے کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ دوسری طرف مسلم نمائندوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مسجد کے لیے متبادل جگہ دی جائے اور مناسب معاوضہ بھی فراہم کیا جائے۔

  • مسلمان دشمن مودی سرکار نے ایک اور تاریخی مسجد کو شہید کردیا

    اترپردیش: مسلمان دشمن مودی سرکار نے سڑک چوڑی کرنے کا بہانہ بناکر ایک اور تاریخی مسجد کو شہید کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش میں انتہاپسند وزیراعلیٰ آدیتیہ ناتھ کی سرپرستی میں مسلمان کش کارروائیاں جاری ہیں۔

    ریاستی مشینری مسلمانوں کو ختم کرنے کے سرکاری ایجنڈے پرعمل درآمد کررہی ہے، اترپردیش میں سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی تاریخی شاہی مسجد کو شہید کردیا۔

    سوشل میڈیا پرسامنے والی ویڈیوز میں مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کو بلڈورز کی مدد سے مسجد کو شہید کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

    حکام نے دعویٰ کیا کہ مسجد سڑک کو چوڑا کرنے میں رکاوٹ بن رہی تھی اس لیے شہید کیا گیا۔

    مسجد انتظامیہ اور علاقے میں رہائش پذیر مسلمانوں نے مسجد کو شہید ہونے سے روکنے کے لیے مقامی عدالت سے رجوع کررکھا تھا جہاں کیس کی سماعت دو دن بعد ہونا تھی۔

  • پانی والی مسجد اور انگریز سرکار

    پانی والی مسجد اور انگریز سرکار

    ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    یہ مسجد کھیر تھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریکِ آزادیٔ ہند کی اہم یادگار ہے اور ایک موقع پر اسی مسجد نے دینِ اسلام پر مَر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کی سچی آرزو بھی دیکھی ہے۔

    اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    1932 میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے کھیر تھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی۔ اس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیر تھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے منہدم کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، مگر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے جو ایک عالم اور نہایت دین دار شخص مانے جاتے تھے، انھوں نے کینال کا رخ تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا۔

    انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نے متعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے سے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان کے سامنے رکھا، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی اور سیاسی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی۔

    مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ نے فیصلہ ترک کر دیا۔

    ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیر تھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزارا گیا اور یوں مسجد پانی کے بیچ میں آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔

  • بوسنیا میں تاریخی مسجد کی تعمیرِ نو مکمل

    بوسنیا میں تاریخی مسجد کی تعمیرِ نو مکمل

    بوسنیا: خانہ جنگی کے دوران تباہ ہونے والی عثمانی دور کی تاریخی مسجد تعمیرِ نو کے بعد لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

    تفصیلات کے مطابق بوسنیا میں دوران جنگ تباہ ہونے والی تاریخی مسجد کی تعمیرِ نو مکمل کر کے عوام کے لیے کھولا جا رہا ہے۔ تاریخی مسجد کے دوبارہ کھولے جانے کی تقریب میں ہزاروں مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کریں گے۔

    مسجد کی تعمیرِ نو کومذہبی رواداری کی عمدہ مثال کے طور لیا جارہا ہے۔

    بوسنیا میں بسنے والے مسلمانوں، انتہا پسند سرب یہودیوں اور کروشیائی کیتھولک کے درمیان بیس سال تباہ کن جنگ جاری رہی۔نسلی بنیادوں پر تقسیم بوسنیا میں امنِ عامہ کی مکمل بحالی کے لیے حریف گروپوں کے درمیان مفاہمت کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کرنے کی کے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

    تقریب میں شرکت کے لیے پورے ملک سے آنے والے مسلمان شرکت کریں گے۔کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے ایک ہزار پولیس اہلکار معمور ہیں۔جبکہ شہر کے مرکز میں ٹریفک سمیت شراب نوشی بھی ممنوع ہے۔

    مسجد کے تعمیر نو کے لیے ترکی نے مالی امداد فراہم کی تھی.اس موقع پرترکی کے موجودہ وزیر اعظم نے مسجد کی تعمیر نو کو امن کے پیغام سے تعبیر کیا ہے۔

    سرب انتہا پسندوں کی جانب سے علیحدگی کی دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ترک وزیراعظم نے کہا کہ بوسنیا رہنے والے مسلمان، کیتھولک اور یہودی ایک جسم ایک قلب کی مانند ہیں۔اگر کسی نے انہیں تقسیم کرنے کی کوشش کی تو اسے دلوں کی تقسیم سمجھا جائے گا۔

    یاد رہے یونیسکو کے زیرِ حفاظت فرح دیجہ مسجد سولویں صدی میں تعمیر ہوئی۔یہ مسجد عثمانی سلطنت کی فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہےجسے 23 سال قبل جنگ کے دوران تباہ کردیا گیا تھا۔

    مسجد کی تعمیرِ نو کا سنگِ بنیاد 2001 میں رکھا گیا۔سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں میں آنے والے لوگوں پر انتہا پرست سرب کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ایک مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

    کئی غیر ملکی حلقوں نے الزام لگایا ہے کہ تاریخی مسجد کو بوسنیا کے سرب انتہا پسندوں نے تباہ کیا تھا تاکہ نسلی بنیادوں پر تقسیم اس شہر سے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹادیا جائے۔

    بوسنیا کےصدر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں، کیتھولک عیسائیوں اور یہودی سربوں کے نمائندوں نے اس موقع پر متحد ہوکر امن کا پیغام عام کیا ہے۔