Tag: تاریخی مقامات

  • سگیریا: ’شیر نما‘ محل جو پانچویں صدی عیسوی کا شاہ کار ہے

    سگیریا: ’شیر نما‘ محل جو پانچویں صدی عیسوی کا شاہ کار ہے

    پانچویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ دو سو میٹر بلند قدیم قلعہ نما عمارت آج سری لنکا کا مشہور سیاحتی مقام ہے اور اسے سگیریا کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن صدیوں پہلے یہ ایک شاہی محل تھا اور اس میں فطرت کے حسین نظاروں سے دل بہلانے کا سامان کیا گیا تھا۔ محققین کے مطابق یہ محل سنہ 477 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

    زمین پر بیٹھے ہوئے شیر کی شکل میں تعمیر کردہ اس محل میں داخلے کا مرکزی راستہ شیر کے اگلے پنجوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ دور سے دیکھنے پر لگتا ہے کہ بلندی پر کوئی بڑا شیر بیٹھا ہوا ہے۔

    سگیریا ایک مصور کی نظر سے

    یہ محل آج بھی بڑی حد تک اپنی اصل حالت میں نظر آتا ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے اہم ترین آثارِ قدیمہ میں سے ایک ہے۔ سیاح بلندی کی جانب 1200 سیڑھیاں‌ چڑھنے کے بعد محل میں پہنچتے ہیں۔ اس کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ لیکن اس وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی عمارت کی خاص بات اس کے باغات، تالاب اور ان میں آب پاشی کا حیرت انگیز نظام ہے۔ اس کے علاوہ یہاں جو تالاب بنائے گئے ہیں وہ ایک قسم کی انفرادیت رکھتے ہیں اور انوکھے پن کا احساس دلاتے ہیں۔

    سگیریا نامی یہ شان دار محل اپنے منفرد طرزِ تعمیر کے علاوہ منقش در و دیوار اور تصویروں کی وجہ سے 1982ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اونچی چٹان پر تعمیر کردہ سگیریا محل میں دنیا کا قدیم نظامِ آب پاشی سائنس دانوں کی توجہ کا باعث ہے۔ اس چٹان یا اس کی چوٹی کا نام کوہِ‌ شیر ہے۔

    تاریخ و ثقافت کے طالبِ علم اور سیاح بھی سگیریا کے اس نظامِ آب پاشی اور تین حصّوں پر مشتمل باغات میں بڑی دل چسپی لیتے ہیں۔ باغات کے یہ تینوں حصّے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔اور یہ اس دور کے معماروں کی ذہانت اور منصوبہ بندی کا شاہ کار ہیں۔

    محققین کے مطابق ایک حصّہ ان باغات پر مشتمل ہے جنھیں جیومیٹری کے اصولوں کے تحت بڑی بنایا گیا ہے، دوسرے حصّے میں ایک قدرتی ٹیڑھی میڑھی غار اور بڑے بڑے پتھروں والا باغ ہے، اور تیسرا حصّہ وہ ہے جہاں چٹان کے ساتھ ساتھ باغ اوپر کو جاتے ہوئے پوری چٹان کو گویا گھیرتا چلا گیا ہے۔ اس حصے میں چھوٹے چھوٹے باغات کے علاوہ محل کے اندر واقع وہ باغات بھی شامل ہیں جو چوٹی پر واقع ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ان باغات میں خوب صورت حوض، چشمے، ندیاں اور بیٹھنے کے لیے چبوترے ہوا کرتے تھے جہاں لوگ سیر کو آتے اور اس منظر کا لطف اٹھاتے تھے۔ ماہرین کے مطابق معماروں نے محل کے اس سحر انگیز حصّے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بہت خیال رکھا ہے۔

    بادشاہت کے زمانے میں سگیریا کو بعد میں دارالحکومت کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ اس سے پہلے اس خطّے کا شاہی دارالحکومت انورادھا پورا کے مقام پر تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دھاتے سینا بادشاہ تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ بادشاہ کے خاندان سے باہر کی ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہونے والے دھاتے سینا کے بیٹے نے اس کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور بادشاہ اس لڑائی میں مارا گیا۔ اس کے بعد شاہ کاسیاپا تخت نشین ہوا تھا۔ نئے بادشاہ نے تخت نشینی کے بعد دارُالحکومت کے لیے سگیریا کا انتخاب کیا۔ اس نے کوہِ شیر کی چوٹی پر یہ محل تعمیر کروایا۔

    شاہ کاسیاپا نے 495 عیسوی تک اس علاقے پر راج کیا۔ بعد میں‌ اس نے سگیریا محل کو ترک کر دیا تھا۔ محققین کے مطابق اس کے بعد یہاں بدھ مت کی خانقاہ بنا دی گئی۔

  • انگکور واٹ: کمبوڈیا کی قدیم مذہبی یادگار اور سیاحتی مقام

    انگکور واٹ: کمبوڈیا کی قدیم مذہبی یادگار اور سیاحتی مقام

    انگکور واٹ، قدیم اور تاریخی عمارت کے وہ کھنڈرات ہیں جو کمبوڈیا اور اس خطّے کی میں‌ صدیوں‌ قبل ایک سلطنت اور اس کے زیرِ اثر مذاہب کی کہانی سناتے ہیں۔

    اس خطّے پر ہندوستانی تہذیب کے ابتدائی اثرات غالب نظر آتے ہیں۔ یہ خطّہ پہلی سے چھٹی صدی کے دوران ایک ابتدائی ہندو ثقافت فنان کے طور پر تاریخ میں جانا جاتا ہے جو بعد میں‌ جے ورمن دوم کے زمانے میں کھمر یا خمیر سلطنت کہا گیا۔ یہ سلطنت ہندو عقائد کے تحت ترقی کی منازل طے کرتی رہی اور پھر گیارھویں صدی میں بدھ مت متعارف ہوا جو رفتہ رفتہ انگکور واٹ کے قدیم اور طرزِ تعمیر کے شاہکار معبد پر غالب آگیا، لیکن یہ ہندو بدھ عبادت کے طور پر ہی مشہور رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انگکور واٹ ہندو مندر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس وقت خطّے کا حکم راں سوریا ورمن دوم کا مذہب یہی تھا۔ پھر 12 ویں صدی کے اواخر تک یہ بدھ مت کا مقام سمجھا گیا۔

      

    انگکور واٹ ہر سال لاکھوں زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہاں کا پیچیدہ اور وسیع آبی نظام ایک سلطنت کے عروج اور زوال کی وجہ رہا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ کمبوڈیا کی بڑی مذہبی یادگار کے آثار بھی ہیں۔ ہر سال سیاح اور مذہبی عقیدت مند بھی یہاں زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ اور اس مقدس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اس پانی سے ‘برکت’ حاصل کرتے ہیں جو سنہ 802 عیسوی سے سلطنت کے خاتمے تک بادشاہوں کی تاجپوشی کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

    کمبوڈیا کی اس سلطنت کا قیام اس وقت عمل میں آيا جب سلطنت کے بانی جے ورمن دوم کو اس مقدس پانی سے غسل دیا گیا اور انھیں دیوتا جیسا راجہ کہا گيا۔ ان کی سلطنت جدید دور کے کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویتنام پر پھیلی ہوئی تھی اور مؤرخین کا خیال ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل انگکور شہر دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ کمبوڈیا کے باشندوں کے لیے آج بھی یہ ایک بہت ہی خاص جگہ ہے، اور اس کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہاں کا کولن پہاڑ اور مندر عقیدت مندوں کی وجہ سے خاص اہمیت اختیار کرجاتا ہے جب وہ یہاں ہر سال ایک خاص موقع پر نذرانے لے کر یہاں آتے ہیں۔

    یہ سلطنت پانچ سو صدیوں تک قائم رہی اور کے ماہر انجینیئروں نے یہاں پانی کا ایک وسیع اور پیچیدہ نظام بنایا جو ماہرین کے مطابق شہر کی آبادی، زراعت اور مویشیوں کو سہارا دینے کے لیے مون سون کے موسم میں سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بناتا تھا۔ اس میں مختلف ادوار میں حکم رانوں نے بہتری کے لیے تعمیر و مرمت کی اور ان میں نہروں، کھائیوں، اور آبی ذخائر کا اضافہ کیا۔

    ابتداً انگکور واٹ ایک ہندو مندر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، جو بعد میں بدھ مت کے پیروکاروں کے زیرِ اثر آگیا۔ ماہرین کے مطابق جب انگکور سلطنت زوال پذیر ہوئی تو یہاں آبادی بھی نہ رہی اور یہ بلند و بالا مندر بھی لاوارث ہو گیا اور اس زمانے میں درخت اور ہر طرح کے سبزہ سے ڈھک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ تک لوگ اس کے بارے میں جاننے کے باوجود یہاں آنے سے گریزاں رہے اور بعد کے برسوں میں جنگل نے اس معبد اور اس کے آبی نظام کو مکمل طور پر گھیر لیا۔ فرانس نے جب کمبوڈیا پر غلبہ حاصل کیا تو یہاں تک اتفاقیہ رسائی ہوئی جس نے دنیا کو ایک تہذیب اور مذہبی عمارت کے کھنڈرات کو دیکھنے کا موقع دیا۔ یہ سنہ 1860 کی بات ہے جب فرانسیسی مہم جو ہینری موہوت اسے دنیا کے سامنے لایا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے یہاں صفائی کروا کے اس مندر کی بحالی کے علاوہ اس آبی نظام پر تحقیق شروع ہوئی جو اس کا سب سے اہم حصّہ ہے۔

  • ہزاروں‌ سال کی داستان سناتا قلعہ گول کنڈہ

    ہزاروں‌ سال کی داستان سناتا قلعہ گول کنڈہ

    حیدرآباد دکن کا گول کنڈہ قلعہ کئی صدیوں کے بعد بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ ہے اور آسمانوں سے باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ قلعہ کئی حکم رانوں‌ کے عروج اور زوال کا گواہ ہے۔ اس نے کئی راجہ اور ان کی سلطنتوں کو بستے، اجڑتے دیکھا اور ان میں سے اکثر کے لیے جائے امان اور ان کی پناہ گاہ ثابت ہوا۔

    ہندوستان کا گول کنڈہ پانچ حکومتوں کا پاسدار رہا ہے۔ اس کی بنیاد کاکتیا سلطنت میں رکھی گئی تھی۔ بہمنی سلطنت کے فرماں‌ رواؤں‌ نے اس قلعے کو اپنایا اور قطب شاہی خاندان نے اسی قلعے میں اپنی بادشاہی کی بنیاد رکھی۔ اس پر مغلوں نے اپنا قبضہ جمایا اور دکن میں آصف جاہی خاندان کے آنے تک یہ قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔

    یہ قلعہ بالخصوص کاکتیا سلطنت کے زوال اور بہمنی سلطنت کے عروج کا گواہ ہے۔ اس نے سلطان محمد قلی قطب شاہ کی خودمختاری دیکھی اور جمشید قلی قطب شاہ کی عیّاری بھی۔ قلعہ گول کنڈہ یتیم محمد قلی قطب شاہ کے بچپن کا نگہبان رہا تو سلطان محمد قلی قطب شاہ کا حامی بھی۔

    قلعہ گول کنڈہ اپنے طرزِ تعمیر کے ساتھ منفرد اور دل کش بھی ہے اور جدید دور میں‌ ترقی یافتہ انسانوں‌ کے لیے تاریخ کی ایک ایسی خستہ کتاب بھی جس میں کسی سلطنت اور ریاست کے سیاسی اور عسکری امور اور نظام و طرزِ حکومت کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

    جنوبی ہندوستان کی ریاست تلنگانہ کے شہر حیدر آباد(دکن) کا یہ قلعہ قطب شاہی سلطنت کا پایۂ تخت رہا ہے جس کی بنیاد دست یاب معلومات کے مطابق 1143ء میں کاکتیا سلطنت کے راجہ نے رکھی تھی۔ اس کے بعد بہمنی سلطنت قائم ہوئی توا یہ گول کنڈہ قلعہ ان کے کام آیا۔ اور پھر بہمنی سلطنت کے زوال پر علاقہ گول کنڈہ کے گورنر سلطان قلی قطب شاہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے اس قلعے کو اپنی تحویل میں‌ لے لیا۔ قطب شاہی حکومت کم و بیش ایک سو اسّی سال تک قائم رہی۔ محمد قلی قطب شاہ کا دور اپنی ادبی سرگرمیوں، علمی کاوشوں کی وجہ سے یادگار ہے جس میں ملّا وجہی اور احمد گجراتی جیسے شعراء منظرِ عام پر آئے۔

    گول کنڈہ قلعہ تین قطب شاہی ادوار کو دیکھتے ہوئے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ قلعہ تین کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا صرف ایک صدر دروازہ ہے۔ اس دروازے کی اوپری سطح فولاد سے بنی ہوئی ہے اور اس کا دروازہ ساگوان کی لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ اس دروازے کے سامنے ایک دیوار بطور رکاوٹ بنائی گئی تھی تاکہ حملہ آور اندر آسانی سے داخل نہ ہوسکیں۔

    صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب دو منزلہ عمارت نظر آئے گی جسے کبھی بطور اسلحہ خانہ استعمال کیا جاتا ہو گا۔ تاریخی کتب کے مطابق 150 کمروں پر مشتمل اس عمارت میں سپاہیوں کے ہتھیار اور گولہ بارود رکھا جاتا تھا۔

    یہاں‌ یہ بات قابلِ‌‌ ذکر ہے کہ گول کنڈہ ہیروں کے کاروبار کے لیے مشہور تھا۔ مؤرخین کے مطابق صدر دروازے کے دائیں جانب، ایک تہ خانے نما عمارت شاہانِ وقت کی وفات کے بعد ان کے غسل کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہاں ایک سرنگ بھی موجود ہے جس سے سیدھا ساتویں‌ گنبد تک پہنچا جاسکتا ہے۔ خیال ہے کہ اسی سرنگ سے جنازے کو آگے لے جایا جاتا تھا۔

    اس قلعے کی اہم خصوصیت اس کا نظامِ آب رسانی ہے۔ قلعے کے نیچے کے حصے میں تین حوض بنے ہوئے ہیں جن کا پانی اوپر تک پہنچایا جاتا تھا۔

    قلعے میں ایک مسجد ہے جو دو میناروں‌ کے ساتھ ابراہیم قطب شاہ نے بنوائی تھی۔ کہتے ہیں‌ کہ اسی کے نقشے کو دیکھ کر اس کے بیٹے محمد قلی قطب شاہ نے چار مینار بنوایا تھا جو حیدرآباد شہر کی پہچان اور دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    قلعہ گول کنڈہ میں ایک مقام فن اور ثقافت سے متعلق سرگرمیوں اور تفریح‌ کے لیے مخصوص تھا جب کہ ایک ہال کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ یہاں بیٹھ کر بادشاہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتا تھا۔ اس قلعہ میں‌ کئی مہمان خانے بھی بنائے گئے تھے۔

    آج کے بھارت کا یہ تاریخی اور ثقافتی ورثہ اگرچہ خستہ حالی کا شکار ہے، مگر قلعہ گول کنڈہ کا رخ کرنے والے اس کے بنیادی ڈھانچے سے قلعہ کی شان و شوکت اور اندر موجود عمارتوں سے اس دور کے طرزِ تعمیر کے ساتھ اس زمانے کے طرزِ حکومت اور ان کے انتظامی امور کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

    (ماخوذ از تاریخِ دکن)

  • سعودی عرب کا وہ علاقہ جہاں بے شمار تاریخی مقامات ہیں

    سعودی عرب کا وہ علاقہ جہاں بے شمار تاریخی مقامات ہیں

    سعودی عرب میں دومتہ الجندل نامی علاقہ مختلف تاریخی و سیاحتی مقامات سے مالا مال ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے الجوف ریجن کی کمشنری دومتہ الجندل پرکشش ماحول، شاندار تاریخ اور منفرد خصوصیات کے باعث سیاحوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

    یہ علاقہ مختلف سیاحتی مقامات سے مالا مال ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔

    یہاں کے ساحلی اور تاریخی مقامات سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں، الجوف میں کھجوروں کا فیسٹول بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    اس کمشنری کا ایک امتیاز دومتہ الجندل جھیل ہے، یہ مملکت کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ساحل سبزہ زاروں سے ڈھکے ہوئے ہیں، سحر آفریں ساحلی مقامات کی سیر اور سمندری اسپورٹس کا اپنا مزہ ہے۔

    تاریخی حوالوں سے بھی دومتہ الجندل اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ یہاں عظیم مارد قلعہ، مسجد عمر بن خطاب، الدرع تاریخی محلہ، دومتہ الجندل فصیل قابل دید ہیں۔

    الجوف عجائب گھر میں پورے خطے کی تاریخ ایک چھت تلے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ عجائب گھر دیکھنے والے یہ جان کر خوشی محسوس کرتے ہیں کہ الشویحطیہ میں دنیا کی قدیم ترین بستی آباد تھی۔

    اسلامی دور تک کی تاریخ اسی عجائب گھر میں دیکھنے کو ملتی ہے، عمر بن خطاب مسجد کا مینارہ بھی عجائب گھر میں سجا ہوا ہے جسے اسلامی تاریخ کے قدیم ترین مینارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

  • سعودی عرب: چینی سفیر کی تاریخی مقامات کی سیر

    سعودی عرب: چینی سفیر کی تاریخی مقامات کی سیر

    ریاض: سعودی عرب میں تعینات چینی سفیر نے اپنی اہلیہ کے ساتھ العلا کے تاریخی مقام کی سیر کی، انہوں نے کہا کہ العلا نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی غیر معمولی دلچسپی کا حامل ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں متعین چین کے سفیر چن وی چنگ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ العلا کے تاریخی مقام کی سیر کی۔

    اس موقع پر انہوں نے خصوصی طور پر جبل الفیل (ہاتھی والی پہاڑی) کے پاس تصویر بنوانے کے بعد اسے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کرتے ہوئے چین میں اس پہاڑی سے مشابہ ایک اور تصویر شیئر کرتے ہوئے دونوں میں یکسانیت کی جانب توجہ دلائی۔

    چینی سفیر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ العلا نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی غیر معمولی دلچسپی کا حامل ہے۔

    العلا میں قدیم تہذیب و ثقافت کے آثار آج بھی موجود ہیں جنہیں لوگ دلچسپی سے دیکھنے آتے ہیں۔ چینی سفیر نے گذشتہ دنوں اپنی اہلیہ کے ہمراہ العلا کی سیر کے موقع پر ہاتھی والی پہاڑی کی تصویر کے ساتھ جو دوسری تصویر شیئر کی وہ چین میں ایک آبی پہاڑی کی ہے جو العلا کی پہاڑی سے مشابہت رکھتی ہے۔

    دونوں پہاڑیاں قدرتی طور پر ایسے کٹاؤ کی حامل ہیں کہ انہیں دیکھنے میں یہی گمان ہوتا ہے کہ دیو قامت ہاتھی کھڑا ہے۔

    چین کے شہر گویلین میں ہاتھی والی پہاڑی ایک آبی گزر گاہ کے ساتھ واقع ہے جسے دیکھ کر بھی دیو قامت ہاتھی کا گمان ہوتا ہے، العلا کمشنری سے 7 کلو میٹر صحرا میں یہ قدرتی شاہکار بھی ہاتھی کی شبیہ دیتا ہے۔

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)

  • راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    پاکستان کے قدیم آثار اور تاریخی مقامات کے حوالے سے چولستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    یہاں مختلف شہروں اور مضافات میں کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں جب کہ بہاول نگر، چولستان کی طرف جائیں تو بہت سے قلعے اور آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان میں قلعہ پھلڑا بھی شامل ہے۔

    قلعہ پھلڑا کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ اسے بیکا نیر کے راجا نے کسی زمانے میں تعمیر کروایا تھا۔ اس راجا کا نام بیکا لکھا ہے اور یہ قلعہ کسی زمانے میں‌ راجا اور افواج کا اہم دفاعی حصار رہا ہو گا۔

    1750 تک یہ قلعہ بالکل کھنڈر بن گیا اور کرم خان اربائی نے اس کی تعمیر و مرمت کروائی۔ یہ قلعہ جنگ اور دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ اس قلعے کی بیرونی دیواروں کو پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔

    ماہرین ثقافت اور آثار سے متعلق محققین کے مطابق اس کی دو طرفہ دیواروں کے درمیان مٹی بھری گئی تھی جو دفاعی اعتبار سے نہایت کارگر تھی۔ اسے دشمن کی گولہ باری آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ اسے دھوڑا کہا جاتا تھا۔

    قلعے کے چاروں کونوں پر مینار قائم کیے گئے تھے جب کہ قلعے کے اندر 118 فٹ گہرا ایک کنواں بھی ہے۔ درمیان میں رہائشی کمرے اور قلعے کے جنوبی حصے کی طرف ایک سہ منزلہ اقامت گاہ موجود ہے جو کبھی خوب صورت اور طرزِ تعمیر کا شاہ کار رہی ہو گی۔

  • سعودی عرب میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر سونے کی تلاش شروع کر دی

    سعودی عرب میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر سونے کی تلاش شروع کر دی

    ریاض: سعودی عرب میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر سونے کی تلاش شروع کر دی جس سے سعودی آثار قدیمہ کو خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے ماہر آثار قدیمہ عبداللہ المسند کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ سونے کی تلاش کس جوش و خروش کے ساتھ کر رہے ہیں، تاہم سونے کے لیے کی جانے والی کھدائیوں سے آثار قدیمہ کو نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔

    ویڈیو کے مطابق کچھ لوگ سعودی عرب کے ایک تاریخی مقام پر چٹانوں میں کھدائیاں کرتے ہوئے پائے گئے، معلوم ہوا کہ وہ لوگ سونے کی تلاش میں کھدائی کر رہے تھے لیکن آثار قدیمہ کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، چٹانوں کی اطراف کاٹھ کباڑ جمع ہونے کے باعث تاریخی مقامات کی خوب صورتی بھی متاثر ہوئی۔

    مقامی لوگوں میں سونے کی تلاش کے لیے جادو ٹونا بھی مشہور ہے، ایک عرب جریدے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ لوگ سونے کی تلاش کے لیے تاریخی مقامات پر جادو ٹونا کر رہے ہیں، بتایا گیا کہ یہ ایک روایتی طریقہ ہے جو ہزاروں سال سے رائج ہے، سونے کی تلاش کے لیے جادو ٹونے سے مدد لی جاتی ہے۔

    لوگ سمجھتے ہیں کہ چوں کہ مصر کے فرعونوں کو مصری عقیدے کے مطابق سونے چاندی اور دیگر قیمتی اشیا کے ساتھ دفنایا جاتا تھا اس لیے ایسے کسی قدیم مقام پر کھدائی سے وہ اچانک مالا مال ہو سکتے ہیں، اس کے لیے وہ دور دراز کے مقامات پر منتخب جگہوں پر کھدائی کرتے ہیں۔

    سعودی ماہر آثار قدیمہ نے صورت حال کے پیش نظر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تاریخی مقامات کو تخریبی سرگرمیوں سے بچانے کے لیے اقدامات کرے۔

  • سعودی عرب کے تاریخی مقامات کو شاہی تحفظ فراہم ہوگیا

    سعودی عرب کے تاریخی مقامات کو شاہی تحفظ فراہم ہوگیا

    ریاض : خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تاریخی مقامات مٹانے، ردوبدل کرنے اور نقصان پہنچانے پر پابندی لگادی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے حاکم خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی بھی تاریخی مقام کو وہ کہیں بھی واقع ہو، نہ نقصان پہنچانے کی اجازت ہوگی اور نہ ہی کوئی اس میں ردوبدول کا مجاز ہوگا اور نہ ہی اسے مٹانے کا کسی کو اختیار حاصل ہوگا۔

    سعودی شاہی فرمان میں اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ سرکاری منظوری سے قبل کسی بھی تاریخی جگہ کی بابت کسی بھی طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

    شاہی فرمان سلامتی و سیاسی امور کی کونسل کی درخواست پر کیا گیا ہے، اس سے قبل بھی شاہی فرمان جاری کرکے ہدایت کی گئی تھی کہ سعودی عرب میں کسی بھی تاریخی ، ثقافتی، دینی مقام کو منہدم نہ کیا جائے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تاریخی مقامات سے متعلق کوئی بھی فیصلہ متعلقہ اداروں کے مکمل جائزے اور پھر ایوان شاہی کی منظوری کے بعد ہی ہوگا۔

    واضح رہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت مملکت کے مختلف علاقوں میں سیکڑوں تاریخی اور اسلامی مقامات ہیں جن کا تعلق تاریخ کے مختلف ادوار سے رہا ہے،

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس سے پہلے بھی ان مقامات کی حفاظت کرتا رہا ہے تاہم محکمہ سیاحت کے قیام کے بعد ان تاریخی مقامات کو زیادہ تحفظ فراہم کیا جارہا ہے، بعض مقامات ایسے بھی ہیں جنہیں عالمی اداروں نے مشترکہ انسانی ورثے کے طور پر رجسٹر کرلیا ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سالانہ لاکھوں افراد تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں، سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بھی سعودی عرب نے ایک طرف سیاحتی ویزے متعارف کروائے ہیں تو دوسری طرف ان تاریخی مقامات کو عالمی سطح پر متعارف کروایا جارہا ہے۔

  • سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر کا بغداد کے تاریخی مقامات کا دورہ

    سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر کا بغداد کے تاریخی مقامات کا دورہ

    ریاض : سعودی عرب کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے عراقی ہم منصب عبدالامیر الحمدانی کے اور دیگر عہدیداروں کے ہمراہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے تاریخی مقامات کا دورہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزیر ثقافت نے شاہراہ المنتبی، القشلہ میں قائم پرانے دارالحکومت، عباسی محل، بیت الوالی، ابو طیب متنبی کی یادگار، بیت الملک غازی اور المیدان کے علاقوں کی سیر کی۔

    اس وقع پر سعودی وزیر ثقافت کا کہنا تھا کہ تاریخی مقامات کے اعتبار سے بغداد اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں بغداد کو اہمیت حاصل رہی ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق بدر بن عبداللہ کا کہنا تھا کہ بغداد کو عالم عرب اور قدیم تہذیبوں کے گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔

    سعودی عرب، عراق رابطہ کونسل کے اجلاس کے بات کرتے ہوئے شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان کا کہنا تھا کہ عراق اور سعودی عرب دونوں پڑوسی ہی نہیں بلکہ برادر اسلامی ملک ہیں، دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ ہر سطح پر تعاون اور تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

    سعودی وزیر شہزادہ بدر بن عبداللہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور عراق آپس میں‌ ثقافتی معاونت جاری رکھیں گے اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی اپنی ثقافتوں کا تبادلہ کریں گے۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شہزادہ بدر بدھ کے روز تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے عراقی دارالحکومت بغداد پہنچے تھے۔