Tag: تاریخی ناول نگار

  • اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے درمیان قاضی عبدالستار نے جہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا وہیں اپنی انفرادیت کو بھی منوایا۔

    قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    اردو کے مشہور افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش سے تھا جہاں وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ریسرچ اسکالر کے طور پر ناتا جوڑا اور بعد ازاں اسی کے شعبہ اردو میں تدریس سے منسلک ہوئے۔

    انھیں ہندوستان میں ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953 میں شائع ہوا۔جب کہ 1961 میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962 ’ پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    29 اکتوبر 2018ء کو پروفیسر قاضی عبدالستار نے دہلی میں وفات پائی۔

  • جویائے حق: مشہور صحابی کی زندگی پر شررؔ کا شاہ کار ناول

    جویائے حق: مشہور صحابی کی زندگی پر شررؔ کا شاہ کار ناول

    عبدُ الحلیم شررؔ بیسویں صدی کی اہم علمی شخصیت ہیں جن کا نام ایک بلند پایہ ادیب، ناول نگار اور شاعر کی حیثیت سے اردو ادب کی تاریخ میں محفوظ رہے گا۔

    شررؔ ان اہلِ قلم میں سے ہیں جنھوں نے اردو شعر و ادب کو متعدّد نئے اور کارآمد رجحانات سے روشناس کروایا یا انھیں اعتبار و امتیاز بخشا۔

    شرر زود نویس تھے۔ انھیں معاشرتی اور تاریخی ناول اور ڈرامہ نویسی کے ساتھ سیرت و سوانح نگاری اور شاعری سے بھی شغف تھا۔ وہ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے اور 1926ء میں وفات پائی۔ یہاں ہم ایک ایسے ناول کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو سیرت و سوانح پر ان کی گراں قدر اور یادگار تصنیف ہے۔ اس ناول کا نام ہے جویائے حق!

    یہ ایک تاریخی ناول ہے جس میں مصنّف نے مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی اور اہم واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی قوّتِ‌ متخیلہ اور کمال منظر نگاری سے مرقّعِ تاریخ بنا دیا ہے۔

    عبدُ الحلیم شرر نے ناول میں حضرت سلمان فارسی کے عیسائی عالم کو لکھے گئے خطوط کے ساتھ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ، حُسنِ سلوک، صحابہ کی زندگی، کفّار سے جنگوں کا احوال، عربوں کی حالت اور یہودیوں کی چال بازیوں کو منظر کر دیا ہے۔ اس ناول میں‌ مصنّف نے فتحِ مکہ اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے وصال کے بعد مسلمانوں‌ کے پہلے خلیفہ کی زندگی اور ان کے دورِ خلافت کے حالات کو بھی بیان کیا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اپنے چمنِ‌ تخیل سے تاریخی واقعات کو نہایت عمدگی سے آراستہ و مرصّع کر کے پیش کیا ہے، لیکن مصنّف نے اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ تاریخی شخصیات اور نمایاں واقعات تخیل کی نذر نہ ہو جائیں اور وہ اس میں‌ خوب کام یاب رہے ہیں۔

    اس ناول کی بابت ڈاکٹر علی احمد فاطمی لکھتے ہیں:
    "یہ ناول دراصل ناول نہیں ہے بلکہ ایک مکمل تاریخی کتاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ٹھوس تاریخیت زیادہ ہے اور قصّہ پن کم، اس کی وجہ اس موضوع کی نزاکت ہے۔ تاریخی مقصد کو ناول کی شکل دینے کے لیے تخیل کی نیرنگیاں دکھانا لازمی ہے، لیکن اس مقدس و محترم موضوع میں تخیل کی باگ ڈور کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ناول کم ایک تاریخی کتاب زیادہ ہے، سیدھی اور ٹھوس عالمانہ قدروں سے بھرپور ایک مذہبی کتاب۔”

    جویائے حق کے متعلق مولانا حسن مثنیٰ ندوی کا کہنا ہے:
    "ہم مولانا عبدالحلیم شرر کی ضخیم کتاب ”جویائے حق” کو نظر انداز نہیں کرسکتے جو اپنے طرز کی نرالی کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے حضرت سلمان فارسی کی زندگی اس انداز میں پیش کی ہے کہ ان کی زبان سے سیرت نبوی نہایت ہی مؤثر انداز میں بطرزِ ناول بیان ہوجاتی ہے اور پڑھنے والا اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔”