Tag: تاریخی واقعہ

  • پیٹر ٹاؤن سینڈ: جب برطانوی شہزادی کا ناکام عاشق کوئٹہ آیا

    پیٹر ٹاؤن سینڈ: جب برطانوی شہزادی کا ناکام عاشق کوئٹہ آیا

    پیٹر ٹاؤن سینڈ اور شہزادی مارگریٹ کا رومانس ان واقعات میں سے ایک ہے جنھیں برطانوی عوام کی بھرپور توجہ حاصل ہوئی۔ یہ 1950ء کی دہائی کی بات ہے۔ برطانوی شہزادی اور ایک فوجی افسر کے مابین یہ عشق دنیا سے بھی چھپا نہ رہ سکا۔ اس پر شاہی خاندان کو بڑی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ پیٹر ٹاؤن سینڈ اور شہزادی مارگریٹ کے لیے بھی یہ عشق ایک چلینج ثابت ہوا۔ وہ کبھی شادی نہیں کرسکے اور ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    مارگریٹ روز 1930 میں پیدا ہوئی تھیں۔ ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم شہزادی مارگریٹ کی بڑی بہن تھیں جو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت نشیں ہوئیں۔ شہزادی مارگریٹ 2002 میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی عمر 72 سال تھی۔

    شہزادی مارگریٹ کے عاشق پیٹر ٹاؤن سینڈ کا شمار رائل ایئر فورس کے نمایاں‌ پائلٹوں میں ہوتا تھا۔ انھیں 1944 میں ذمہ داریاں‌ سونپی گئی تھیں جن کے بعد وہ شاہی خاندان کے قریب ہو گئے تھے۔

    پیٹر ٹاؤن سینڈ کی ملاقات اسی زمانے میں نوجوان مارگریٹ سے ہوئی۔ ٹاؤن سینڈ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور پھر شہزادی مارگریٹ اور ان کے درمیان رومانس پروان چڑھا۔ یہی پیٹر ٹاؤن سینڈ ایک زمانے میں پاکستان بھی آئے۔ اس کا تذکرہ کمال الدین احمد نے اپنی کتاب صحافت وادیِ بولان میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "ملکہ الزبتھ کی بہن مارگریٹ کے ناکام عاشق ہوائی فوج کے گروپ کیپٹن پیٹر ٹاؤن سینڈ کوئٹہ آ نکلے۔ وہ چلتن ہوٹل میں مقیم تھے کہ صحافیوں کو پتا چلا۔ دو صحافی 10 بجے وہاں پہنچے اور تعارفی کارڈ اندر بھجوائے۔ مگر ٹاؤن سینڈ نے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ وہ صحافیوں سے نہیں ملنا چاہتے۔ یہ سن کر دونوں صحافی وہیں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، کہ حضرت لنچ کرنے باہر نکلیں گے تو اس وقت قابو آئیں گے۔ چناں چہ ایک بجے کے قریب ٹاؤن سینڈ باہر نکلے اور دونوں صحافی اس کے پاس پہنچے، مگر وہ صحافیوں کے ہر سوال کے جواب میں موسم کی بات کرنے لگتا۔ دھوپ بہت اچھی ہے۔ یہاں کا موسم بڑا خوش گوار ہے وغیرہ۔ باوجود کوشش کے اس نے اپنے معاشقے کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اس کے پاس سوالِ معاشقہ کا جواب موسم تھا۔”

    شہزادی مارگریٹ اور پیٹر ٹاؤن سینڈ کے لیے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا اس لیے مشکل تھا کہ اس دور میں ایک طرف تو چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے طلاق یافتہ فرد کو دوبارہ شادی کی اجازت نہیں تھی اور دوسری طرف شہزادی مارگریٹ کو 25 سال کی عمر سے پہلے شادی کرنے کے لیے اس وقت کی ملکہ الزبتھ دوم کی اجازت درکار تھی۔ ملکہ کو نہ صرف اپنے شاہی کردار اور اقدار کا لحاظ رکھنا تھا بلکہ دوسری طرف ان کا خاندان بھی تھا۔ انھوں نے اپنی بہن سے انتظار کرنے کو کہا۔ ادھر مارگریٹ اور ٹاؤن سینڈ کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوچکی تھی مگر برطانیہ نے انھیں شادی کی اجازت نہیں دی۔ حکومت نے واضح کر دیا کہ ایسا کرنے کی صورت میں شہزادی مارگریٹ کو اپنے تمام شاہی مراتب اور مراعات و آمدنی سے محروم ہونا پڑے گا۔ مارگریٹ نے پیٹر ٹاؤن سینڈ سے دوری اختیار کرلی اور 31 اکتوبر 1955 کو اس حوالے سے بیان بھی جاری کردیا۔

    شہزادی مارگریٹ اور پیٹر ٹاؤن سینڈ 1990 کی دہائی میں دوبارہ ملے، لیکن ٹاؤن سینڈ نے 1959 میں شادی کرلی تھی جب کہ شہزادی مارگریٹ نے 1960 میں شادی کی تھی لیکن انھیں طلاق ہوگئی تھی۔

    پیٹر ٹاؤن سینڈ 1995 میں انتقال کر گئے تھے۔ ٹاؤن سینڈ نے اپنی کتاب "ٹائم اینڈ چانس” میں شہزادی سے اپنی الفت کے اظہار کا واقعہ رقم کیا ہے۔ اپنی یادداشت میں وہ لکھتے ہیں، "وہ مجھ سے صرف اسی صورت میں شادی کر سکتی تھی اگر وہ سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہوتی- اپنی پوزیشن، اپنا شاہی وقار اور اپنا پرس۔” اس کے ساتھ وہ اعتراف کرتے ہیں‌ کہ "میں اتنا وزن نہیں رکھتا تھا، میں جانتا تھا کہ جو کچھ وہ (مارگریٹ) کھو دیتی، میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔”

    1990ء میں ایک سرکاری تقریب میں اتفاقیہ ملاقات بھی ان کی آخری ملاقات ثابت ہوئی اور اس کے تین برس بعد پیٹر ٹاؤن سینڈ کینسر کے سبب زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

  • ریلوے اسٹیشن پر کھڑے شخص کی اچانک موت اور طاعون کا انجیکشن

    ریلوے اسٹیشن پر کھڑے شخص کی اچانک موت اور طاعون کا انجیکشن

    کلکتہ: ہندوستان کی تاریخ میں ایک سنسنی خیز واقعہ ایسا بھی گزرا ہے جس نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر لی تھی، اس میں ایک سوتیلے بھائی نے بھائی کو مارنے کے لیے طاعون کا انجیکشن استعمال کیا، جس سے وہ نہایت تکلیف دہ موت مر گیا۔

    واقعہ کیسے پیش آیا؟

    یہ 26 نومبر 1933 کی ایک دوپہر کا واقعہ ہے، ریاست جھارکھنڈ کے ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ 20 سالہ امریندر چندر پانڈے کولکتہ (کلکتہ) سے اپنی خاندانی زمین کی طرف جا رہے تھے، کہ ریلوے اسٹیشن پر ایک پستہ قد اجنبی اسے چھو کر گزرا، عین اسی لمحے انھیں اپنے دائیں بازو میں سوئی کی تیز چھبن محسوس ہوئی۔

    امریندر پانڈے سمجھ گیا کہ کسی نے انھیں کچھ چبھویا ہے، اُن کے ساتھ موجود رشتے داروں نے مشورہ دیا کہ وہ رُکیں اور خون کا ٹیسٹ کروائیں مگر بن بلائے اسٹیشن پر پہنچنے والے دس سال بڑے سوتیلے بھائی بینوئیندر نے کہا یہ معمولی بات ہے، سفر جاری رکھو۔

    ہوا یوں کہ تین دن بعد امریندر کو بخار ہوا، انھیں کولکتہ واپس آنا پڑ گیا، ڈاکٹر کے معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ بازو پر ٹیکے کی سوئی جیسا نشان ہے، علاج شروع ہوا لیکن مرض بڑھتا گیا، چند دنوں میں بخار تیز ہو گیا، بغلوں میں سوجن پیدا ہو گئی، اور پھیپھڑوں کی بیماری کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے لگیں، پھر 3 دسمبر کی رات وہ کومے میں چلے گئے اور اگلی صبح موت واقع ہو گئی۔

    ابھی لیبارٹری رپورٹس نہیں آئی تھیں، ڈاکٹروں نے موت کی وجہ نمونیا کو قرار دے دیا، لیبارٹری رپورٹس آئیں تو انکشاف ہوا کہ امریندر پانڈے کے خون میں طاعون کا سبب بننے والا ہلاکت خیز بیکٹیریا ’یرسینیا پیسٹِس‘ موجود تھا۔

    واقعہ کیوں پیش آیا؟

    اس کیس کو سنسنی خیز شہرت حاصل ہو گئی تھی، کیوں کہ موت ایک دولت مند گھرانے کے نوجوان کی تھی۔ کولکتہ پولیس نے تفتیش شروع کی، تو معلوم ہوا کہ جرم کی بنیاد دراصل خاندان کی دولت پر جھگڑا تھا، ان دو سوتیلے بھائیوں کے درمیان کوئلے اور پتھر کی کانوں کے حوالے سے مشہور ضلع پاکڑ میں اپنے والد کی وسیع و عریض جائیداد پر 2 سال سے تنازع چل رہا تھا۔

    خبروں میں اس لڑائی کو نیکی و بدی کی لڑائی قرار دیا گیا، امریندر کو نفیس، بلند اخلاق، اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواہش مند نیک لڑکا کہا جا رہا تھا، جب کہ بینوئیندر کو ایک بدکار شخص کہا گیا۔

    واقعے کی سازش کیسے کی گئی؟

    پولیس تفتیش میں بڑی منظم منصوبہ بندی کا انکشاف ہوا، معلوم ہوا کہ ہلاکت خیز بیکٹیریا ممبئی (بمبئی) کے ایک اسپتال سے چرایا گیا تھا، عدالتی دستاویزات کے مطابق امریندر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی ممکنہ طور پر 1932 میں کی گئی، جب بینوئیندر کے ایک قریبی دوست ڈاکٹر تارا ناتھ بھٹا چاریہ نے طبی لیبارٹریوں سے طاعون کا سبب بننے والے بیکٹیریا کا ایک نمونہ چرانے کی ناکام کوشش کی۔

    ایک برطانوی طبی اہل کار ڈی پی لیمبرٹ کا بیان سامنے آیا، ان کا کہنا تھا کہ بینوئیندر نے 1932 میں اپنے سوتیلے بھائی کو مارنے کی پہلی کوشش کی تھی، اس نے امریندر کو ایک پہاڑی قصبے میں چہل قدمی کے دوران جراثیم زدہ عینک اتنی قوت سے جمائی کہ ان کی جلد پھٹ گئی، امریندر بیمارے ہوئے اور ٹیٹنس ہو گیا، جو علاج سے ٹھیک ہو گیا، تاہم لیمبرٹ کے مطابق بینوئیندر نے علاج میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

    طاعون کے بیکٹیریا کی چوری

    بینوئیندر کے دوست ڈاکٹر بھٹا چاریہ نے طاعون کا سبب بننے والا بیکٹیریا چرانے کی کم از کم 4 بار کوشش کی۔ مئی 1932 میں بھٹا چاریہ نے بیکٹیریا کے حصول کے لیے ممبئی کے ہافکائین انسٹیٹیوٹ سے رابطہ کیا، تاہم سرجن جنرل آف بنگال کے اجازت نامے کے بغیر نمونے فراہم نہیں کیے گئے۔

    مئی ہی میں بھٹا چاریہ نے کولکتہ میں ایک ڈاکٹر سے رابطہ کر کے دعویٰ کیا کہ وہ طاعون کا علاج دریافت کر چکے ہیں اور بیکٹیریا کے نمونوں کا استعمال کر کے اس کی آزمائش کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کوشش میں بھی وہ ناکام ہو گئے، پھر 1933 میں بھٹا چاریہ نے ایک مرتبہ پھر کولکتہ میں اُن ڈاکٹر پر زور ڈالا کہ وہ ہافکائین انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کو خط لکھیں کہ طاعون کا علاج آزمانے کے لیے انھیں انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔

    بینوئیندر نے ممبئی جا کر بھٹا چاریہ کے ساتھ مل کر ہافکائین انسٹیٹوٹ سے منسلک دو ویٹرنری سرجنز کو رشوت دینے کی بھی، اس نے بازار سے چوہے بھی خریدے تاکہ وہ خود کو سنجیدہ سائنسدان ظاہر کر سکے۔

    آخرکار ناکامی کے بعد یہ دونوں آرتھر روڈ انفیکشس ڈزیزز اسپتال گئے، یہاں بھی بیکٹیریا کے کلچرز رکھے جاتے تھے، دونوں کو یہاں کام کی اجازت مل گئی، لیبارٹری تک رسائی حاصل کرنے کے کوئی پانچ دن بعد دونوں نے اپنا ’کام‘ اچانک ادھورا چھوڑا اور کولکتہ لوٹ گئے۔

    واقعے کی دنیا بھر میں شہرت

    ایک دولت مند گھرانے کے چشم و چراغ کے سنسنی خیز قتل نے برطانوی انڈیا اور اس سے باہر لوگوں کی بھرپور توجہ حاصل کی، اسے انفرادی سطح کی حیاتیاتی دہشت گردی کا اہم کیس قرار دیا گیا۔

    اخبارات اور جرائد نے اس واقعے کی بہت زیادہ کوریج کی، ٹائم میگزین نے اسے ’مرڈر وِد جرمز‘ یا جراثیم کے ذریعے قتل قرار دیا، جب کہ سنگاپور کے اسٹریٹ ٹائمز نے اسے ’پنکچرڈ آرم مسٹری‘ یعنی بازو کو چبھونے کا راز قرار دیا۔

    دی پرنس اینڈ دی پوائزنر نامی کتاب کے لیے اس قتل پر تحقیق کرنے والے امریکی صحافی ڈین موریسن نے کہا کہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والا یہ قتل ’انتہائی جدید قتل‘ تھا۔

    گرفتاری

    قتل کے 3 ماہ بعد فروری 1934 میں پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا، تفتیش کاروں نے بینوئیندر کے سفری کاغذات، ممبئی میں اُن کے ہوٹل بلز، ہوٹل رجسٹر میں اُن کی اپنی لکھائی میں اندراج، لیبارٹری کو اُن کے پیغامات، اور چوہوں کی دکان کی رسیدیں حاصل کر لیں۔

    عدالتی کارروائی

    ٹرائل کورٹ میں یہ اس سنسنی خیز کیس کی کارروائی 9 ماہ تک چلی، وکیلِ دفاع نے کہا کہ امریندر کو چوہوں کو کاٹنے والی ایک مکھی نے کاٹا تھا۔

    عدالت نے بینوئیندر اور ڈاکٹر تارا ناتھ بھٹا چاریہ کو قاتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ممبئی کے اسپتال سے طاعون کے جراثیم چرائے تھے، جو کلکتہ لائے گئے اور قتل کے دن تک انھیں زندہ رکھا جا سکتا تھا، اور انھوں نے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرایا، عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی۔

    تاہم، جنوری 1936 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے مجرمان کی اپیل پر اُن کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔

    کرائے کا قاتل

    کلکتہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے اس قتل کے 90 سال بعد بھی، اب تک اس جوان زمیندار کا قاتل اور اس قتل میں استعمال ہونے والی سوئی آج تک نہیں مل پائی۔