Tag: تاریخی ورثہ

  • سگیریا: ’شیر نما‘ محل جو پانچویں صدی عیسوی کا شاہ کار ہے

    سگیریا: ’شیر نما‘ محل جو پانچویں صدی عیسوی کا شاہ کار ہے

    پانچویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ دو سو میٹر بلند قدیم قلعہ نما عمارت آج سری لنکا کا مشہور سیاحتی مقام ہے اور اسے سگیریا کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن صدیوں پہلے یہ ایک شاہی محل تھا اور اس میں فطرت کے حسین نظاروں سے دل بہلانے کا سامان کیا گیا تھا۔ محققین کے مطابق یہ محل سنہ 477 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

    زمین پر بیٹھے ہوئے شیر کی شکل میں تعمیر کردہ اس محل میں داخلے کا مرکزی راستہ شیر کے اگلے پنجوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ دور سے دیکھنے پر لگتا ہے کہ بلندی پر کوئی بڑا شیر بیٹھا ہوا ہے۔

    سگیریا ایک مصور کی نظر سے

    یہ محل آج بھی بڑی حد تک اپنی اصل حالت میں نظر آتا ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے اہم ترین آثارِ قدیمہ میں سے ایک ہے۔ سیاح بلندی کی جانب 1200 سیڑھیاں‌ چڑھنے کے بعد محل میں پہنچتے ہیں۔ اس کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ لیکن اس وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی عمارت کی خاص بات اس کے باغات، تالاب اور ان میں آب پاشی کا حیرت انگیز نظام ہے۔ اس کے علاوہ یہاں جو تالاب بنائے گئے ہیں وہ ایک قسم کی انفرادیت رکھتے ہیں اور انوکھے پن کا احساس دلاتے ہیں۔

    سگیریا نامی یہ شان دار محل اپنے منفرد طرزِ تعمیر کے علاوہ منقش در و دیوار اور تصویروں کی وجہ سے 1982ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اونچی چٹان پر تعمیر کردہ سگیریا محل میں دنیا کا قدیم نظامِ آب پاشی سائنس دانوں کی توجہ کا باعث ہے۔ اس چٹان یا اس کی چوٹی کا نام کوہِ‌ شیر ہے۔

    تاریخ و ثقافت کے طالبِ علم اور سیاح بھی سگیریا کے اس نظامِ آب پاشی اور تین حصّوں پر مشتمل باغات میں بڑی دل چسپی لیتے ہیں۔ باغات کے یہ تینوں حصّے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔اور یہ اس دور کے معماروں کی ذہانت اور منصوبہ بندی کا شاہ کار ہیں۔

    محققین کے مطابق ایک حصّہ ان باغات پر مشتمل ہے جنھیں جیومیٹری کے اصولوں کے تحت بڑی بنایا گیا ہے، دوسرے حصّے میں ایک قدرتی ٹیڑھی میڑھی غار اور بڑے بڑے پتھروں والا باغ ہے، اور تیسرا حصّہ وہ ہے جہاں چٹان کے ساتھ ساتھ باغ اوپر کو جاتے ہوئے پوری چٹان کو گویا گھیرتا چلا گیا ہے۔ اس حصے میں چھوٹے چھوٹے باغات کے علاوہ محل کے اندر واقع وہ باغات بھی شامل ہیں جو چوٹی پر واقع ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ان باغات میں خوب صورت حوض، چشمے، ندیاں اور بیٹھنے کے لیے چبوترے ہوا کرتے تھے جہاں لوگ سیر کو آتے اور اس منظر کا لطف اٹھاتے تھے۔ ماہرین کے مطابق معماروں نے محل کے اس سحر انگیز حصّے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بہت خیال رکھا ہے۔

    بادشاہت کے زمانے میں سگیریا کو بعد میں دارالحکومت کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ اس سے پہلے اس خطّے کا شاہی دارالحکومت انورادھا پورا کے مقام پر تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دھاتے سینا بادشاہ تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ بادشاہ کے خاندان سے باہر کی ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہونے والے دھاتے سینا کے بیٹے نے اس کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور بادشاہ اس لڑائی میں مارا گیا۔ اس کے بعد شاہ کاسیاپا تخت نشین ہوا تھا۔ نئے بادشاہ نے تخت نشینی کے بعد دارُالحکومت کے لیے سگیریا کا انتخاب کیا۔ اس نے کوہِ شیر کی چوٹی پر یہ محل تعمیر کروایا۔

    شاہ کاسیاپا نے 495 عیسوی تک اس علاقے پر راج کیا۔ بعد میں‌ اس نے سگیریا محل کو ترک کر دیا تھا۔ محققین کے مطابق اس کے بعد یہاں بدھ مت کی خانقاہ بنا دی گئی۔

  • جمال گڑھی کے کھنڈرات، ایک عظیم تاریخی سرمایہ

    جمال گڑھی کے کھنڈرات، ایک عظیم تاریخی سرمایہ

    مردان: جمال گڑھی خیبر پختون خوا کے ضلع مردان سے 13 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تاریخی ورثہ ہے، جمال گڑھی کے کھنڈرات پاکستان کے لیے ایک عظیم تاریخی سرمایہ ہے۔

    یہ ایک مندر سرائے تھی جو پانچویں صدی عیسوی تک یہاں موجود تھی، یہ مقام سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، جس کے تحفظ کے لیے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

    جمال گڑھی کے کھنڈر برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر الیگزینڈر نے 1848 میں دریافت کیے تھے، 2012 میں دوسری صدی عیسوی کے زمانے کے سکے بھی برآمد ہوئے، ہزارہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے کھدائی کے دوران بدھا کا مجسمہ دریافت کیا تھا، یہاں دیگر نوادرات اور 5 کمروں پر مشتمل دو منزلہ عمارت بھی دریافت کی گئی۔

    تاریخی مقامات کی سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔

  • سندھ حکومت نے موہٹہ پیلس کے ورثا کو بڑی پیش کش کر دی

    سندھ حکومت نے موہٹہ پیلس کے ورثا کو بڑی پیش کش کر دی

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کراچی میں واقع تاریخی عمارت موہٹہ پیلس کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے موہٹہ پیلس کے ورثا کو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ادائیگی کی پیش کش کر دی گئی ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت موہٹہ پیلس اس کے ورثا سے لینے کے لیے پہلے بھی ادائیگی کر چکی ہے،اگر کوئی اعتراض ہے تو صوبائی حکومت ادائیگی کے لیے تیار ہے۔

    موہٹہ پیلس کے ورثا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے کبھی بھی مکمل ادائیگی نہیں ہوئی، موہٹہ پیلس پر جناح خاندان کے ورثا کاحق ہے اور وہی اس کے مالک ہیں۔

    سندھ حکومت کا قصر فاطمہ المعروف موہٹہ پیلس کو میڈیکل کالج میں تبدیل کرنے کا حکم چیلنج کرنے کا فیصلہ

    وکیل ورثا نے مزید کہا کہ حکومت نے کبھی اس سودے کو سنجیدہ نہیں سمجھا، ڈیل مکمل ہونے سے قبل کسی کو اثاثے استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، لیکن اس کیس میں ٹرسٹ بنا کر بانیان پاکستان کے نوادرات استعمال کیے جا رہے ہیں۔

    عدالت نے کیس کی سماعت وقت کی کمی کے باعث 17 جنوری کے لیے ملتوی کر دی۔

  • صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    پنجابی زبان میں ٹیلے کے لیے لفظ ٹلہ برتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جوگیاں کا اضافہ کر لیں تو ہم اسے ٹلہ جوگیاں کہیں گے، یعنی ایک پہاڑی یا زمین سے کچھ اونچائی پر واقع جوگیوں کے اٹھنے بیٹھنے یا عبادت کرنے کی جگہ۔

    جہلم سے جنوب مغرب کی جانب لگ بھگ 35 کلو میٹر فاصلہ طے کریں تو آپ ٹلہ جوگیاں پہنچتے ہیں جہاں صدیوں پرانے آثار آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔

    یہ سطح زمین سے بلند اور ایک پُرفضا مقام ہے جسے صدیوں پہلے جوگیوں نے اپنے لیے پسند کیا اور یہاں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ محققین کے مطابق اس علاقے میں آریہ قوم نے لگ بھگ چار ہزار سال پہلے قدم رکھا تھا۔ اس قوم کے مذہبی پیشواﺅں نے پوجا پاٹ کے لیے اس بلند مقام کا انتخاب کیا۔

    آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوﺅں کا ایک قدیم معبد لکھا ہے۔ کہتے ہیں یہاں بعد میں گرو گورکھ ناتھ آئے اور اس مقام پر ان کے پیرو کاروں نے قیام کیا۔ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم نے بھی یہاں کے جوگیوں اور ٹلہ کے بارے میں مختلف پُراسرار باتیں سن کر یہاں کا دورہ کیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ گرو نانک نے بھی ٹلہ میں قیام کیا تھا۔

    تاریخ میں اس مقام کو ٹلہ گورکھ ناتھ اور ٹلہ بالناتھ بھی لکھا گیا ہے جو دو مختلف ادوار میں جوگیوں کے پیشوا رہے۔
    تاریخی آثار کے علاوہ یہ ایک پُرفضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں گرمی اور سرد موسم میں ٹھنڈی ہوائیں آنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔ قریب ہی جنگل اور ہریالی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔

    ٹلہ میں مختلف ادوار کے آثار موجود ہیں۔ ان میں مندر، سمادھیاں اور جوگیوں کے رہائشی غار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مغل طرز کا ایک تالاب بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے جوگیوں کی درخواست پر بادشاہ اکبر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس خطے میں مختلف ادوار میں سلاطین اور امرا نے بھی ٹلہ کے مذہبی پیشواؤں اور جوگیوں کا خیال رکھا اور انھیں سہولیات فراہم کیں۔ کہتے ہیں کہ اکبر نے علاقہ نوگراں کو ٹلہ کی جاگیر کا درجہ دے کر اس کے محاصل سے ٹلہ اور مضافات کی تزئین و آرائش کا کام کروایا تھا۔

  • صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

    صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔

    سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔

    ہم آپ کو سوات کے ایک گاؤں سپل بانڈئی کی اس مسجد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔

    سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔ سرسبز و شاداب پہاڑی پر واقع اس گاؤں کو جانے کب بسایا گیا، لیکن محققین کا خیال ہے کہ اسے محمود غزنوی کی افغان فوج میں شامل لوگوں نے آباد کیا تھا۔

    یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ ‘‘دیار’’ کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔

    اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا.

  • مصرکے بادشاہ کی قیمتی گھڑی کی نیلامی دبئی میں ہوگی

    مصرکے بادشاہ کی قیمتی گھڑی کی نیلامی دبئی میں ہوگی

    مصر کے معروف بادشاہ فاروق کی قیمتی گھڑی کو دبئی میں ہونے والی نیلامی میں پیش کیا جائے گا بولی کے ذریعے لگائی جانے والی قیمت چار لاکھ سے 8 لاکھ ڈالرز کے درمیان ہو سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی میں وال کلاک اور کلائی پر باندھنے والی تاریخی اور نادر گھڑیوں کی نیلامی کے لیےتیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، جس کے شیڈول کا اعلان مارچ میں کیا جائے گا، اس نمائش میں دنیا بھر کی نادر و نایاب اور قدیم گھڑیوں کو نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا جہاں گھڑیوں کے دلدادہ افراد کی بڑی تعداد کی شرکت کی امید کی جارہی ہے۔

    نیلامی کا انعقاد کرانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس بار ہونے والی نادر و قیمتی گھڑیوں کی نیلامی میں مصر کے شاہی خاندان کے دسویں بادشاہ محمد فاروق کی قیمتی گھڑی لوگوں کی توجہ کامرکز ہو گی ، گھری کی نیلامی کا آغاز 4 لاکھ امریکی ڈالر سے کیا جائے گا جب کہ گھڑی کے 8 لاکھ امریکی ڈالر میں فروخت ہونے کے امکانات کافی روشن ہیں۔

    مصری شاہی خاندان کے دسویں بادشاہ فاروق گھڑیوں کے انتخاب میں اور اُ ن کے کلیکشن کے لیے کافی شہرت رکھتے ہیں، وہ 1965 میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے لیکن اب بھی ان سے جڑی اشیاء دنیا بھر میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے زیر استعمال دستی گھڑی کی نیلامی کا سُن کر کئی نامور شخصیات نے اسے خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

    یاد رہے اس سے قبل بھی مصر کے سابقہ بادشاہ کے زیر استعمال اشیاء کی نیلامی کی جا چکی ہے جسے تاریخ، تہذیب اور ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ نئی آنے والی نسل کو تاریخ سے وابستہ رکھنے کے لیے اس قسم کی اشیاء کو نیلام کرنے کے بجائے قومی ورثہ قرار دے کر میوزیم میں رکھا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔