Tag: تاریخ اسلام

  • سردار اور پیشوا (تاریخِ اسلام سے ایک ورق)

    سردار اور پیشوا (تاریخِ اسلام سے ایک ورق)

    ’’مقدمۂ ابنُ صلاح‘‘ اصولِ حدیث میں معتبر تصنیف شمار کی جاتی ہے یہ علّامہ ابنُ الصلاح محدث کی تحریر کردہ مشہور کتاب ہے۔ انھوں نے امام زہری اور اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کا ایک مکالمہ با سند نقل کیا ہے جس سے حکومت یا سرداری کے لیے سیرت و کردار اور دینی خدمت کے جذبے کا سبق ملتا ہے۔ یہ واقعہ اُس دور میں مسلمانوں کی سیاسی فکر اور سماجی حالت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    امام زہری جب عبدالملک بن مروان کے پاس پہنچے تو وہاں بادشاہ سے جو گفتگو ہوئی، اسے یوں رقم کیا ہے

    عبدالملک: ’’زہری تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘

    زہری: مکہ سے

    عبدالملک: تم نے وہاں کس کو سردار اور پیشوا چھوڑا؟

    زہری: عطا بن رباح کو

    عبدالملک: عطا بن رباح عرب ہے یا غلام (عجمی)؟

    زہری: عطا غلاموں سے ہے

    عبدالملک: عطا غلام ہو کر سردار و پیشوا کیوں کر ہوگیا؟

    زہری: ’بالدیانۃ والروایۃ‘ دین داری اور حدیثوں کی روایت کی وجہ سے

    عبدالملک: بلاشبہ اہلِ دین و اہلِ روایت ضرور سرداری کے لائق ہیں۔

    عبدالملک: یمن کا سردار کون ہے؟

    زہری: طاؤس بن کیسان ہیں

    عبدالملک: عرب ہیں یا غلام (عجمی)؟

    زہری: عجمی غلام

    عبدالملک: پھر غلام سردار و پیشوا مسلمانوں کا کیونکر ہوگیا؟

    زہری: جس وجہ سے عطا بن ابی رباح سردار و پیشوا ہوئے۔

    عبدالملک: ضرور ایسا ہی مناسب ہے۔

    عبدالملک: زہری! مصر والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟

    زہری: یزید بن حبیب

    عبدالملک: یزید بن حبیب عرب ہے یا غلام عجمی؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: اور شام والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟

    زہری: مکحول ہیں

    عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟

    زہری: غلام ہیں۔ نوبی قوم سے قبیلہ ہزیل کی ایک عورت نے انھیں آزاد کیا تھا۔

    عبدالملک: اہلِ جزیرہ کی سرداری کس کے سر ہے؟

    زہری: میمون بن مہران کے۔

    عبدالملک: میمون غلام ہے یا عرب؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: خراسان والوں کا سردار کون ہے؟

    زہری: ضحاک

    عبدالملک: ضحاک عرب ہیں یا غلام؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: اہل بصرہ کا سردار و پیشوا کون ہے؟

    زہری: حسن بن ابی الحسن ہیں

    عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: کوفہ کی سرداری کس کے سر ہے؟

    زہری: ابراہیم نخعی کے

    عبدالملک: عرب ہیں یا غلام؟

    زہری: عرب ہیں

    عبدالملک: بھلا ہو تمھارا اے زہری! تم نے میرے دل سے بوجھ دور کر دیا، خدا کی قسم عرب کی سرداری کا سہرا غلاموں کے سر رہے گا اور غلام لوگ عرب کے پیشوا اور سردار بن جائیں گے۔ یہاں تک کہ انھی کے خطبے منبروں پر پڑھے جائیں گے اور عرب اس کے نیچے ہوں گے۔

    زہری: ہاں اے امیر المومنین یہ تو اللہ کا امر اور اس کا دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا سردار و پیشوا ہوگا اور جو اسے ضائع کرے گا گر جائے گا۔

    اس مکالمے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں نے اسلام کے قانونِ مساوات و فضیلت کو کس طرح اپنایا ہوا تھا۔ یہی وہ طرزِ فکر تھا جس نے اس وقت غیر مسلموں کی بڑی تعداد کو اسلام کی جانب مائل کیا اورمسلمانوں نے اپنا اوج دیکھا۔

  • علم و فضل میں‌ یکتا ابن عبد البر القرطبی کا تذکرہ

    علم و فضل میں‌ یکتا ابن عبد البر القرطبی کا تذکرہ

    اسلامی تاریخ کا اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو آسمان علم و حکمت پر بے شمار درخشندہ ستارے جلوہ گر نظر آئیں گے جن کی ذات سے علم و ادب کے بے شمار سوتے پھوٹتے ہیں۔ انہی تابندہ ستاروں میں اندلس کے علّامہ عبد البر بھی شامل ہیں۔

    نام و نسب
    اسلامی دنیا کی اس عالم فاضل شخصیت کا نام یوسف، کنیت ابو عمرو، اور عرفیت ابن عبدُ البَر ہے۔ کتب میں‌ ان کا نام یوسف بن عبد اللہ بن محمد عبد البر بن عاصم النمری القرطبی لکھا ہے۔

    تاریخ پیدائش
    قرطبہ میں‌ آپ کی پیدائش 978ء کو ہوئی اور اس بارے میں‌ ابو الحسن طاہر بن مغفور المغافری سے منسوب ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے ابو عمر و عبد البر نے اپنی تاریخِ پیدائش کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ بروز جمعہ اس وقت عالمِ رنگ و بُو سے وابستہ ہوئے جب جمعہ کا خطبہ ہو رہا تھا۔

    خاندان
    القرطبی نے خالصتاََ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان علم و فضل میں‌ قرطبہ میں ممتاز تھا۔ ان کے والد محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبہ کے فقہا و محدثین میں سے تھے۔ اس کنبے کا علم و ادب سے گہر ا تعلق تھا۔

    حالاتِ زندگی
    اسی ماحول میں‌ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے بمشکل تیرہ برس کی عمر کو پہنچے تھے کہ القرطبی کے والد وفات پاگئے۔ بڑے ذوق و جستجو کے ساتھ القرطبی حصولِ علم میں مگن رہے اور قرطبہ میں ہی اس وقت کے جید علماء سے درس لیا۔ ان علماء میں ابو القاسم خلف بن القاسم، عبد الوارث بن سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عبد المومن و دیگر شامل ہیں۔ ان نابغۂ روزگار علمائے کرام کے علاوہ ابنِ خلکان نے چند اور حضرات کا بھی ذکر کیا ہے جن سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔ قاضی ابو علی الحسین بن احمد بن حمد الغسانی الاندلسی الجیانی کہتے ہیں کہ ابن عبد البر اہلِ قرطبہ میں سے ہمارے شیخ تھے، آپ نے فقہ کا علم ابو عمر احمد بن عبد المالک بن ہاشم الفقیہ الاشبیلی سے حاصل کیا اور علوم حدیث ابو الولید ابن الفرضی الحافظ سے حاصل کیا۔

    پانچویں صدی ہجری کی ابتدا میں قرطبہ سیاسی لحاظ سے خلفشار اور افرا تفری کا شکار تھا۔ اموی حکومت ختم ہو گئی تھی، ہر طرف فتنہ و فساد پھیلنے لگا اور قرطبہ کے بہت سے علماء و ادباء نے وہاں سے ہجرت کی تو علامہ ابن عبد البر جو اپنی علمی منزلت کی وجہ سے اندلس میں‌ مشہور ہو چکے تھے، قرطبہ سے نکل کر بطلیموس چلے گئے۔ وہاں بنو الافطس کی حکمرانی تھی۔ وہ بڑا علم دوست اور قدر دان شخص تھا۔ اس نے آپ کی بڑی عزت و توقیر کی اور آپ کو اپنی ریاست کے دو شہروں اشنوتہ اور شنتریں کا قاضی مقرر کر دیا۔ پھر آپ مشرقی اندلس چلے گئے۔ بلنسیہ اور دانیہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ جہاں مجاہد حکمران تھا۔ اس نے بھی آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علامہ ابن عبد البر کا ایک بیٹا محمد عبد اللہ بن یوسف بہت بڑا ادیب و انشاء پرداز اور شاعر تھا اور اس کی فصاحت و بلاغت کی مثال دی جاتی تھی۔ اس کی زبان دانی اور علم و ادب کی وجہ سے مجاہد نے اسے اپنے ’’دواوین‘‘ میں ملازمت دی جو بعد میں‌ انتقال کر گیا تھا۔ علّامہ اپنے بیٹے کی وفات کے بعد دانیہ سے شاطبہ تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی وہیں علمی سرگرمیوں میں مگن رہے۔

    وفات
    شاطبہ میں علّامہ ربیع الثانی 1071ء میں علّامہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان کا جنازہ ابو الحسن طاہر بن مغفوز المغافری نے پڑھایا۔

    علمی خدمات
    علامہ ابن عبد البر علوم و فنون میں یکتا خاص کر قرآن و حدیث، تفسیر و معانی، اسماء الرّجال، تاریخ اور فقہ و اصولِ فقہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور قضاء و افتاء کے ساتھ ان کی صحبت سے بہت سے تشنگانِ علم نے فیض اٹھایا۔ دوسری طرف تصانیف و تالیفات کا ایک ضخیم ذخیرہ بھی ان کے علمی تبحر کی یادگار ہے۔

    ابن عبد البر کا میلان شعر و سخن کی طرف بھی بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ باقاعدہ آپ کا کلام تو دست یاب نہیں ہے مگر چند کتابوں‌ میں ان کے اشعار ملتے ہیں جن سے علّامہ کے ذوقِ لطیف اور اس فن میں‌ ان کی بلاغت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    اس بارے میں‌ ہمیں مشہور تاریخ نویس اور مسلمان اسکالرز کی کتب میں معلومات ملتی ہیں۔ بات کی جائے ابنِ خلکان کی تو وہ لکھتے ہیں کہ تصنیف و تالیف میں توفیق الہٰی اور تائید ایزدی علّامہ ابن عبد البر کے شاملِ حال تھی۔ علامہ ابنِ حزم کا بیان ہے کہ ان کی کتابیں مختلف حیثیتوں سے اہم اور بے مثال ہیں۔

  • ظہورِ اسلام کے بعد مدینے میں پہرے کا مربوط نظام

    ظہورِ اسلام کے بعد مدینے میں پہرے کا مربوط نظام

    نفاق سے مراد ہے، ’’دل میں برا ارادہ یا شرارت رکھنا، مگر اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور زبان سے خیر کے کلمات نکالتے رہنا تاکہ سامنے والا غفلت اور دھوکے میں رہے۔‘‘ اسلام کے ابتدائی زمانے کی بات کی جائے تو نفاق یہ تھا کہ دل میں کفر پر قائم رہنا اور زبان سے اسلام کا اعلان کرنا۔

    مدینہ منورہ میں اسلام کا نور پھیلنے کے بعد وہاں منافقین کی بڑی تعداد بھی سامنے آتی رہی۔ یہ اس وقت ہوا جب مسلمان مدینہ میں مضبوط ہوچکے تھے اور مخالفین ان کی طاقت سے ڈرنے لگے۔ علماء بتاتے ہیں‌ کہ منافقین سے متعلق جتنی بھی آیات نازل ہوئیں، وہ سب کی سب مدنی ہیں، کیوں کہ مکّے میں تو جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ صدقِ دل سے اس پر قائم ہوچکے تھے اور موقع کے منتظر تھے کہ غلبہ حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کریں۔ دوسری طرف مشرک اور کافر بھی اپنے کفر و شرک میں ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ جنگِ بدر کے نتیجے میں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہوا، تو منافقین بھی سامنے آئے۔ (تاریخِ مدینۂ منورہ)۔

    ان منافقین کا سردار عبداللہ بن اُبی ابن سلول تھا۔ اس کی اسلام اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک جنگ کے خاتمے کے بعد مشہور قبائل اوس اور خزرج کے لوگ اس شخص کو مدینے کا حاکم بنانے والے تھے، لیکن حضوراکرم کی مدینہ تشریف آوری سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ اُسے اس بات کا سخت صدمہ ہوا اور وہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے اُس کی بادشاہی چھن گئی ہے۔

    ان منافقین کے کھلم کھلا سامنے آنے کے بعد مدینے میں‌ دفاع اور عسکری تربیت کی ضرورت محسوس کی گئی۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تواتر کے ساتھ یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ قریش، مدینے پر ایک بھرپور حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ چناں چہ آپؐ نے انصار و مہاجرین کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر اُن کی عسکری تربیت کا آغاز کیا۔ دفاعی نقطۂ نظر سے قدرت نے مدینۂ منورہ کے گرد ایک حفاظتی حصار بنایا ہوا تھا۔ مدینے کے تین اطراف یا تو پہاڑیاں تھیں یا گنجان آبادیاں اور باغات۔ صرف شمال کی جانب سے شہر میں داخل ہوا جاسکتا تھا، جب کہ مکّہ جنوب میں واقع تھا۔ چناں چہ جنوب سے شمال کی جانب آکر حملہ کرنا نہایت دشوار، پیچیدہ اور خطرناک تھا۔

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تجربہ کار جنگجو سپہ سالار کی طرح مسلّح دستے بنائے اور ان کو سرحدی علاقوں میں گشت اور پہرے کا ایک مربوط نظام دے کر ہر دستے کا سربراہ یا کمانڈر بھی مقرر فرما دیا۔ تاریخ‌ میں‌ ہے کہ اس وقت سپاہیوں اور دستوں کی شناخت کے لیے خفیہ الفاظ و اشارات بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ ان دستوں نے جب اپنے کمانڈر کی زیر کمان سرحدی علاقوں پر گشت شروع کیا، تو گرد و نواح کے قبائل، جو خود کو جنگ میں‌ ماہر سمجھتے تھے، بڑے مرعوب و متعجب ہوئے۔ انھوں نے اس قدر منظّم فوجی دستے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ اس سے ان کو یہ احساس ہوا کہ مدینے میں واقعی ایک منظّم اسلامی ریاست وجود میں آچکی ہے۔ (ماخوذ: سیرت رحمۃُ للّعالمین)۔

    حجرۂ رسول پر صحابہؓ کا پہرا بھی ایک اہم اور تاریخی واقعہ ہے کہ اس وقت عبداللہ بن اُبی کی ناکامی نے جنگجو کفّار مکّہ کو مزید مشتعل کر دیا تھا۔ یہ اطلاعات تھیں‌ کہ وہ مسلمانوں کو یثرب میں داخل ہوکر نشانِ عبرت بنانے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ قریش کی انتقامی سوچ اور ان کے برے ارادوں کا اندازہ تھا۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر صحابہ کرام عموماً رات میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے حجرے کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مدینہ ہجرت کے بعد ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ بے داری میں تھے۔ جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ’’کاش! آج کی رات میرے صحابہؓ میں سے کوئی یہاں پہرا دیتا۔‘‘ وہ فرماتی ہیں کہ ’’ابھی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہی ہوئے تھے کہ ہمیں تلوار کی جھنکار سنائی دی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے با آوازِ بلند فرمایا ’’کون ہے؟‘‘ جواب آیا ’’اے اللہ کے رسول میں سعد بن ابی وقاصؓ ہوں۔‘‘ فرمایا ’’سعد! کیسے آنا ہوا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا، ’’یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم! میرے دل میں آپ کے حوالے سے خطرے کا اندیشہ ہوا، تو میں پہرا دینے کے لیے چلا آیا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر انھیں دعائیں‌ دیں اور اطمینان سے محوِ استراحت ہوگئے۔ (صحیح بخاری)۔

    اور پھر وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی ذمّے داری لے لی۔ اس باب میں سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’صحابہؓ ہر رات حضور کے حجرے کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی ’’واللہ یعصمک من النّاس‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت۔67)۔ ترجمہ:’’اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔‘‘ اس حکم کے بعد نبی کریم نے حجرے سے سَر باہر نکالا اور فرمایا ’’لوگو! اب تم واپس چلے جاؤ، کیوں کہ اللہ نے میری حفاظت کی ذمّے داری خود لے لی ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)۔

  • ابن الفُوَطی: اسلامی تاریخ کا ایک روشن

    ابن الفُوَطی: اسلامی تاریخ کا ایک روشن

    یہ تذکرہ ہے ابنُ‌ الفُوَطی کا جن کی عالمِ اسلام میں شہرت اور پہچان ایک محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ کی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کا نام علمی اور دینی کاموں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔

    اسلامی تاریخ کا سنہری دور آٹھویں صدی کے وسط سے شروع ہوتا ہے۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ تیرھویں‌ صدی عیسوی تک مسلمانوں نے سائنس، تاریخ و فلسفہ، سیاسیات، قانون اور کئی سماجی علوم میں شان دار کام یابیاں سمیٹیں۔ اس وقت اسلامی حکومت دور دور تک پھیل چکی تھی اور بغداد میں بیتُ الحکمہ سے لے کر افریقا کی درس گاہوں تک مسلمان علماء، جیّد اور عالم فاضل شخصیات جامعات میں طالبِ علموں کو اعلیٰ تعلیم دے رہی تھیں۔ اسی زمانے میں ابن الفُوَطی نے بھی اپنا سفر شروع کیا اور نام و مقام پایا۔

    محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ ابن الفُوَطی کا بڑا کارنامہ مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب جیسی تصنیف ہے جو اسلام کے ابتدائی دور سے تیرھویں صدی تک کی تاریخ ہے۔ محققین اس بارے میں کہتے ہیں کہ اسے 50 جلدوں میں مرتب کیا گیا تھا لیکن اب اکثر ناپید ہیں۔

    ابن الفُوَطی کا سنہ پیدائش 1244ء ہے۔ ابن الفوَطی نے 1323ء میں وفات پائی۔ مؤرخین کی اکثریت نے وفات کی تاریخ 12 جنوری تحریر کی ہے۔ ان کا نام عبدالرّزاق بن احمد بن محمد الحنبلی تھا۔ ان کی کنیت ابوالفضل اور لقب کمال الدّین، ابن الفُوَطِی اور ابنُ الصابونی ہے۔ وہ اپنے معاصرین میں کمال الدّین ابنُ الصابونی کے نام سے مشہور تھے۔ ابن الفُوطی اس لیے کہلائے کہ اُن کے نانا کا دھاری دار کپڑے کا کاروبار تھا اور اس دور میں اس قسم کی کسی نسبت سے کسی کو پکارنا یا اس کا تذکرہ کرنے کا رواج بھی تھا۔ بعد میں یہی نسبت ان کی شناخت بن گئی۔

    ابنُ الفوَطی اسلامی دنیا کے مشہور عرب ملک عراق کے دارُالخلافہ بغداد میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش دربُ القواس ہے۔ عباسی خلاف کا دور تھا۔ اس وقت خلیفہ المستعصم باللہ تھا۔ ابنُ الفوَطی نے بچپن میں دستور کے مطابق تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے اور قرآن حفظ کیا۔ بغداد کے اساتذہ اور مشائخ سے تحصیلِ علم کے بعد وہ اپنی قابلیت اور علمی استعداد سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ابنُ الفوَطی نے سقوطِ بغداد بھی دیکھا۔ اُس وقت وہ نوجوان تھے اور ان کی عمر 14 سال تھی۔ تاریخ کی چند کتابوں میں درج ہے کہ اس سانحے میں ابنُ الفوَطی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن جلد ہی رہا کر دیا گیا۔

    ابتدائی تعلیمی دور کے بعد امام محی الدّین یوسف بن ابی الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی جیسے بلند پایہ عالم اور دیگر مشائخ سے مزید علم حاصل کیا۔ بعد میں‌ خواجہ نصیر الدین طوسی نے ابن الفُوطی کو اپنے سایۂ شفقت میں لے لیا اور اپنے پاس مراغہ بلوا لیا جہاں ابن الفُوطی نے منطق، فلسفہ، علمِ نجوم اور دیگر علومِ عقلیہ کی تعلیم پائی۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں شعر گوئی کا فن سیکھا اور وہ علم نجوم اور علمِ ہیئت میں اِس قدر ماہر ہوگئے تھے کہ اکثر مصنّفین نے تصنیف و تالیف کے کام میں ان سے مشورہ اور راہ نمائی لی۔1271ء میں انھیں رصد گاہ مراغہ کے کتب خانے کا خازن و مہتمم بنا دیا گیا تھا جہاں وہ خزانۂ علم سے استفادہ کرتے رہے۔ ایل خانی حکم ران اباقا خان کے عہدِ سلطنت میں وہ بغداد روانہ ہوئے اور وہاں مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانے کے نگران مقرر ہوئے۔ وہ اپنی وفات تک اسی عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔

    مؤرخین کے مطابق ابنُ الفُوطی کی تالیف تصنیف کردہ کتب کی تعداد 83 تک ہوسکتی ہے، لیکن ان میں‌ سے اکثر ناپید ہیں‌ اور بہت کم نسخے عمدہ حالت میں دست یاب ہیں۔

    ابنُ الفُوطی کو بغداد کے محلّہ شونیزیہ کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔

  • معرکۂ زلاقہ اور مسلم اسپین کے تین سو سال

    معرکۂ زلاقہ اور مسلم اسپین کے تین سو سال

    تاریخ کے اوراق یوسف بن تاشفین کو عالمِ‌ اسلام کا عظیم مجاہد اور حکم راں ثابت کرتے ہیں جس نے عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کی فوج کو شکست دی تھی اور اسی فتح کے نتیجے میں اگلے تین سو سال تک اسپین پر مسلمانوں کی حکم رانی قائم رہی۔

    یہ جنگ سنہ 1086ء میں اکتوبر کے مہینے میں لڑی گئی تھی۔ اس میں دولتِ مرابطین کے عظیم مجاہد یوسف بن تاشفین اور اسپین کے مختلف علاقوں پر مشتمل مملکت قشتالہ (Kingdom of Castile) کے بادشاہ الفانسو ششم کی فوج جس میدان میں آمنے سامنے تھی وہ زلاقہ کے نام سے مشہور ہے جس سے مراد ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس معرکے میں اس قدر خون بہا کہ افواج کو میدان میں قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی اور اسی نسبت سے یہ زلاقہ کہلایا۔ عیسائی اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اسپین اپنے حکم رانوں کی نااہلی اور کم زوریوں کی وجہ سے غیروں کی نظر میں آگیا تھا اور وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ یوسف بن تاشفین عیسائی حکم راں کے مقابلے پر نہ آتے تو 1092ء میں ہی مسلمان اپنا اقتدار کھو چکے ہوتے۔

    زلاقہ کی جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی بنیادی وجہ بھی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس معرکے میں الفانسو کے لشکر کی شکست کے بعد ہی عیسائی حکم راںوں نے مسلمانوں کے خلاف منظّم ہو کر جارحیت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

    مشہور عالمِ‌ دین اور مؤرخ امام ذہبی نے اپنی شاہکار تصنیف تاریخِ الاسلام میں اُس دور کے کچھ واقعات رقم کیے ہیں۔ امام صاحب لکھتے ہیں کہ جب مسلم اندلس میں طوائف الملوکی پھیلی تو صلیبی بادشاہ الفانسو نے اس کا فائدہ اٹھانے کا سوچا اور سب سے پہلے اشبیلیہ کے حاکم معتمد بن عباد سے اس کا علاقہ چھیننے کے لیے تیّاری کرنے لگا، یہ اطلاع ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں حاکمِ اشبیلیہ تک پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا کیوں کہ وہ الفانسو کے مقابلے میں بہت کم زور تھا۔ تب، معتمد بن عباد نے مراکش کے سلطان یوسف بن تاشفین سے مدد چاہی۔ اس پر امراء اور اعیانِ سلطنت نے اس کی توجہ دلائی کہ سلطان اگر اندلس آیا تو الفانسو کو شکست دینے کے بعد وہ معتمد کو بھی حاکم نہ رہنے دے گا۔ امام صاحب نے لکھا ہے کہ یہاں معتمد نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا: دیکھو، یوسف بن تاشفین کے اونٹ چرانا الفانسو کے خنزیر چرانے سے کہیں بہتر ہے!

    چند مؤرخین نے معتمد کا یہ قول نقل کیا ہے: "میں تو کھایا ہی جانے والا ہوں، مگر اندلس پر آج اگر اسلام کا سورج غروب ہوتا ہے تو منبروں اور محرابوں سے آنے والی کئی صدیوں تک جو لعنت مجھ پر ہوتی رہے گی، میں وہ کیوں مول لوں؟”

    واقعتاً اعیانِ سلطنت کے وہ تمام خدشات سچ ثابت ہوئے۔ جنگ میں سلطان کی فتح کے بعد معتمد کو بھی اپنے تخت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ساری زندگی قید میں گزری۔ مؤرخین کے مطابق اسے برس ہا برس بعد ایک بار عید کے موقع پر بیٹیوں سے ملاقات کی اجازت ملی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیٹیاں سُوت کات کات کر گزر اوقات کر رہی ہیں۔ اس پر معتمد نے تڑپ کر شعر بھی کہے۔ یہ مشہور تاریخی قصّہ ہے جسے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔

    مؤرخین کی اکثریت نے لکھا ہے کہ زلاقہ کے مشہور معرکے میں مرابطین کے مجاہدین کی تعداد 48 ہزار سے زیادہ نہ تھی جب کہ الفانسو نے ایک لاکھ جاں بازوں کو میدان میں اتارا تھا۔ لیکن وہ ڈھیر ہوتے چلے گئے اور کہتے ہیں‌ کہ اس معرکے میں سلطان یوسف بن تاشفین سے بچ کر جانے والے صلیبی سپاہی تعداد میں بہت ہی کم تھے۔ یوں اندلس میں مزید تین صدیوں تک اذان گونجتی رہی۔

  • برصغیر میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی آمد اور قیام

    برصغیر میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی آمد اور قیام

    ہندوستان وہ خطّہ ہے جہاں بسنے والے قدیم دور میں بھی مختلف مذاہب کے پیرو کار موجود تھے جو اس زمانے کی مذہبی شخصیات اور اپنے بزرگوں کی تعلیمات کے زیرِ اثر زندگی گزارتے رہے۔ بعد میں برصغیر اور بالخصوص ہندوستان میں اسلام کی روشنی پھیلی تو یہاں کے لوگوں نے دینِ حق کو قبول کیا اور آج اس خطّے میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔

    سرزمینِ حجاز اور ارضِ فلسطین جہاں اپنے مقدّس و متبرک مقامات اور آسمانی کتابوں کے نزول اور پیغمبروں کی آمد کی وجہ سے عالمِ اسلام میں ہر لحاظ سے اوّلیت اور امتیاز رکھتا ہے، وہیں مشہور ہے کہ اس خطّۂ ارضی یعنی ہندوستان کی خاک نے بھی انبیاء اور رسولوں کی قدم بوسی کی اور اسی کی برکتوں سے آج یہاں کے باسیوں کے دلوں میں ایمان راسخ ہے۔

    بعض روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کا ہبوط سرزمینِ ہند پر ہوا یا بیت اللہ کی تعمیر کے بعد یہاں تشریف لائے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اہلِ سرندیپ نے بھی نبی کریم صلّى الله عليه وسلم کی خدمت میں ایک عقل مند، ذی شعور اور ذکی الفطرت شخص کو تعلیماتِ نبویہ کے مشاہدے کے لیے عرب تاجروں کے ساتھ روانہ کیا تھا، لیکن وہ جب تک مدینہ پہنچا تو پیارے آقا اس دارِ فانی سے پردہ فرما چکے تھے اور وہ خلیفۂ وقت اور صحابہ سے مل کر اپنے وطن لوٹ آیا تھا۔

    ایک موٴرخِ اسلام علّامہ قاضی محمد اطہر مبارک پوری کی تحقیق کے مطابق سرزمینِ ہند کو 17 صحابہ کرام کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ہے، جب کہ اسی موضوع پر تحقیق کے دوران دورِ حاضر میں محمد اسحاق بھٹی نے لکھا کہ 25 صحابہ مختلف ادوار میں ہندوستان تشریف لائے تھے۔

    قاضی اطہر مبارک پوری کی مؤلفہ ”خلافتِ راشدہ اور ہندوستان“ میں جو اسمائے صحابہ پیش کیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: حَکَم بن ابی العاص، حَکَم بن عمرو ثعلبی غفَاری، حضرت خریت بن راشد ناجی سامی، رُبَیَّع بن زیاد حارثی مَذْحَجِی، سنان بن سلمہ ہذَلی، حضرت سہل بن عدی خزرجی انصاری، حضرت صحّار بن عباس عبدی، حضرت عاصم بن عَمرو تمیمی، عبداللہ بن عبداللہ بن عِتبان انصاری اور عبداللہ بن عمیر اَشجعی۔ دوسری طرف محمد اسحاق بھٹی کی تالیف کردہ ”برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش“ میں جو نام پیش کیے گئے ہیں ان میں شہاب بن مخارق بن شہاب تمیمی، نسیر بن دیسم بن ثور عجلی، حکیم بن جبلہ اسدی، کلیب ابووائل، مُہَلَّب بن ابوصفرہ ازدی عتکی، عبداللہ بن سوّار عبدی، یاسر بن سوّار عبدی، عبداللہ سُوَید تمیمی۔ مؤرخین میں ان اصحاب پر یہ اختلاف ضرور ہے کہ وہ صحابی ہیں یا تابعی تھے۔

    صحابہ کے بعد امّتِ مسلمہ کا بہترین طبقہ تابعین ہیں اور ان میں سے کئی ہندوستان بھی تشریف لائے تھے۔ اسی طرح حق و صداقت کا پرچم لہرانے اور دینِ مبین کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے سرزمینِ ہند کی جانب آنے والوں میں تبع تابعین کے نام بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔