Tag: تاریخ عالم

  • مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصری تہذیب اور اس کے قدیم ادوار اور وہاں دریافتوں‌ کا جو سلسلہ جاری ہے، اس نے دنیا کو حیران کر رکھا ہے اور لوگ قدیم مصر اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں جاننے میں‌ گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اہرامِ مصر کے بعد وہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی حالات یقیناً اہلِ علم ہی نہیں عام لوگوں‌ کے لیے بھی دل چسپ موضوع ہے۔

    قدیم مصر میں عورت کا کردار اور مقام بھی اہم موضوع ہے اور محققین نے اس حوالے سے بعض تاریخی دستاویزات، مخطوطوں اور دریافت شدہ دیگر اشیاء کی مدد سے یہ جانا ہے کہ اس دور میں عورت کو معاشرے میں کس طرح دیکھا جاتا تھا۔ یہاں‌ ہم مختلف خطّوں کے محققین کی مستند کتب کے اردو تراجم سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جن میں قدیم مصر میں عورتوں کا مقام واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    تاریخی دستاویزات کے مطابق ایک دور میں عورتوں کو مرد سے کم تر درجہ میں رکھا گیا تھا جب کہ اس کے اگلے دور میں ان کو مرد کے برابر کے حقوق دے دیے گئے تھے۔ کچھ عورتیں تو باقاعدہ ریاستوں کی ملکہ تک بنائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ شاہی خاندان کی عورتوں کو شادی کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت لینی پڑتی تھی جب کہ عام عورتیں اپنی مرضی سے شادی کر لیا کرتی تھیں۔ قدیم مصری عورتوں کی سماجی درجہ بندی اور ان کے حالات کچھ اس طرح تھے:

    شاہی خاندان کی عورتیں
    شاہی خاندان کی عورتوں کی قدیم مصری معاشرے میں بہت اہمیت تھی۔ ان کی طاقت فراعین مصر کے برابر تو نہیں تھی لیکن شاہی عورتوں کا سرکاری نظام میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ یہ عورتیں یا تو فرعون کی بیویاں ہوتیں یا اس کی باندیاں۔ ایک وقت میں فرعون بہت ساری بیویاں اور باندیاں رکھا کرتے تھے۔ ان عورتوں میں سے فراعین ایک عورت کو اپنا خاص مشیر بنا لیا کرتے تھے۔ اکثر یہ خاص عورت فرعون کی بہن یا سوتیلی بہن ہوتی تھی جس سے وہ نکاح کر لیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق اس طرح‌ شاہی خون پاک رہتا اور حکومت بھی ان کے پاس رہتی تھی۔

    یہ خاص عورتیں فرعون کے ساتھ مل کر تمام شاہی کاموں میں اس کی معاونت کرتی تھیں۔ سفارتی معاملات میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان عورتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی جنگ اندرونِ خانہ چلتی رہتی تھی اور اکثر یہ خواتین محل میں فساد برپا کرتی رہتی تھیں۔ بعض عورتیں تو اتنی طاقتور ہوگئی تھیں کہ انہوں نے پورے مصر کی حکومت تک سنبھال لی تھی لیکن ایسے واقعات شاذ و نادر ہی رونما ہوئے تھے۔

    حرم کی عورتیں
    مصر کا ہر فرعون اپنے لیے خاص عورتوں کا ایک حرم قائم رکھتا تھا جو فرعون کو سکون و عیاشی کی سہولیات میسر کرنے کے لیے مختص تھا۔ ان عورتوں کی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی جو غیر ملکی ہوتیں اور جنگ کے بعد غلام بنا کر یا پھر کسی غلام منڈی سے خرید کر یا فرعون کی منشا کے مطابق کسی کے بھی گھر سے اٹھا کر لائی جاتی تھیں۔ یہ عورتیں ناچنے، گانے، اور دیگر حرم کے مشاغل میں ماہر ہوا کرتی تھیں۔ ان کے فرائض میں یہ بات شامل تھی کہ بادشاہ کو دربار میں بھی محظوظ کریں۔ بادشاہ کے حرم میں صرف کنیزیں اور قیدی عورتیں ہی نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شرفا کی بیٹیاں اور وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو بطور تحفہ بادشاہ کے پاس بھیجی جاتی تھیں۔

    چونکہ حرم میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اس لیے ایک عورت کو فرعون کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار ہی رات گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ اگر کوئی باندی فرعون کو پسند آجاتی تو پھر فرعون اس کو اپنے آس پاس رکھتا تھا۔ اگر فرعون کی بیوی اس کو لڑکا جن کر نہ دے پاتی تو فرعون اپنی من پسند باندی کے ساتھ تعلق قائم کر کے اس سے اولاد حاصل کرتا اور یہ لڑکا شہزادہ کہلاتا اور اسے بعد میں تخت پر بٹھایا جاتا۔

    عورتوں کی ذمہ داریاں
    اکثر عورتوں کا کام گھر سنبھالنا اور اولاد کی پرورش کرنا تھا۔ دیگر عورتیں یا تو دائی بن جاتیں، یا کپڑے بنانے والے کارخانوں میں کام کرتیں یا پھر گریہ کرنے والی، حاتھور دیوتا کی کاہنہ یا پجارن، یا پھر جسم فروشوں کے بازار میں کام کرنے لگ جاتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو اس کی جنس کے مطابق کام دیا جاتا تھا اور یہ کام وقتا ًفوقتاً تبدیل بھی کر دیا جاتا تھا۔ ان کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ طبیب بھی بننے دیا جاتا اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو پھر ان کو صرف بچوں کی دیکھ بھال، ناچنے، گانے اور مردوں کا دل بہلانے کے کام میں لگا دیا جاتا تھا۔

    غلام کی مالکن
    قدیم مصر میں عام رواج تھا کہ عورتیں غلام کے طور پر صرف عورتوں کو ہی رکھتی تھیں لیکن بعض کو مرد غلام رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ یہ مرد غلام عموماً ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے رکھے جاتے اور اگر وہ غلام ایسا نہ کرتے یا کسی اور عورت کے ساتھ ناجائز تعلق بناتے تو ان کو مارا پیٹا جاتا اور سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

    شادی
    زرخیزی چاہے انسانوں میں ہو یا جانوروں میں یا فصل کی پیداوار میں، قدیم مصریوں کے نزدیک اس کی بہت اہمیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مصری لوگ جلد سے جلد شادی کر کے بچّے پیدا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ مصریوں کے ہاں محرمات سے شادی کی اجازت تھی اور شاہی خاندان تو اکثر اسی رسم کو اپنایا کرتے تھے۔ اس دور میں‌ بہن بھائی کے درمیان شادی کا عام رواج تھا۔ اس کے علاوہ فرعون اپنی سلطنت کو اپنے ہی خاندان میں رکھنے کے لیے اپنی ماں، بیٹی اور دیگر محرمات کو بھی اس تعلق میں اپنا لیتے تھے۔

    شادی کے لیے کوئی مذہبی یا قانونی رسوم ادا نہیں کی جاتی تھیں۔ اکثر نکاح والدین کی باہم رضامندی سے مقرر ہوتے اور سارے معاملات پہلے طے کر لیے جاتے تھے۔ کچھ مقامات پر محبت کی شادیاں بھی ہوئیں لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔ جب لڑکا پندرہ سے بیس سال کا ہوتا اور لڑکی بارہ سے چودہ سال کی ہوجاتی تو ان کی شادی کردی جاتی تھی۔ بادشاہ ایک سے زائد شادیاں کر سکتا تھا لیکن عام لوگ صرف ایک ہی شادی کرتےتھے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کو اجازت تھی کہ وہ ایک محبوبہ یا باندی رکھ لیں جس سے خواہش کے مطابق تسکین پوری کرسکیں۔

    علیحدگی
    شادی کے وقت دولھا دلھن یہ گمان کرتے کہ ان کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہے گا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہو پاتا تھا۔ ان میں سے کچھ جوڑوں کے درمیان طلاق بھی واقع ہو جاتی تھی۔ طلاق کے بعد مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے۔ طلاق قانونی طریقہ سے ہوتی تھی جس کے بعد مرد اور عورت کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ اگر مرد عورت کو طلاق دیتا تو اس پر واجب تھا کہ وہ عورت کا تمام جہیز واپس لوٹا دے بلکہ کچھ معاملات میں تو اس کا دگنا بھی لوٹانے کا کہا جاتا تھا۔ اگر عورت طلاق دیتی تو اس پر واجب تھا کہ جو اسے شادی کے وقت مرد کی طرف سے تحفہ ملا ہو، اس کی آدھی مقدار واپس کرے۔ طلاق کے بعد بھی مرد پر واجب تھا کہ وہ عورت کو نان نفقہ دیتا رہے جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے۔

    لباس
    مصری لباس میں زمانہ کےساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ قدیم سلطنت کے دور میں عورتیں اور مرد نیم برہنہ رہتے تھے۔ جسم کا بالائی حصہ بالعموم کھلا رہتا تھا۔ پروہتوں کو بھی مجسموں میں نیم برہنہ دکھایا گیا ہے۔ سلطنت وسطی اور سلطنت جدید میں کُرتے، تہبند اور دستار کا اضافہ ہوا تھا۔ عورتوں کے لباس میں کُرتے اور تہبند کےعلاوہ ایک لمبا چوڑا دوپٹہ بھی شامل کیا گیا تھا جو شانے اور سینے پر پھیلا ہوتا مگر کھلا رہتا تھا۔ اونچے طبقے کی عورتیں ایک قسم کا تاج پہنتی تھیں۔ لباس پر گاڑھے اور زردوزی کا کام ہوتا تھا۔ بالوں کو تراشنے اور مانگ نکالنے کے بھی مختلف طریقے رائج تھے۔ رؤسا کے کپڑے بالعموم باریک دھاگے کے ہوتے تھے جن پر زر کا کام کیا جاتا تھا۔ منقش اور چھپے ہوئے کپڑوں کا استعمال بھی عام تھا۔ مرد و عورت دونوں مصنوعی بال کی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ اونچے طبقے میں چپلوں کا رواج تھا۔غرض مصری زندگی میں نفاست اور خوش سلیقگی کے ساتھ ساتھ نزاکت اور عریانیت بھی آگئی تھی۔

    (ماخذ: مختلف محققین کی کتب کے اردو تراجم)

  • 7 نومبر: وہ دن جب اقوامِ عالم نے بادشاہت کا بدترین انجام دیکھا!

    7 نومبر: وہ دن جب اقوامِ عالم نے بادشاہت کا بدترین انجام دیکھا!

    1917ء میں آج ہی کے روز روس میں انقلاب کے بعد دنیا نے محنت کشوں اور عام کارکنوں کی پہلی حکومت قائم ہوتے دیکھی تھی۔ اس عظیم انقلاب کی وجہ سے دنیا کے لیے آج کا دن نہایت اہمیت کا حامل اور ایک بڑا موضوع بھی ہے۔

    معروف ادیب اور کمیونسٹ راہ نما سجاد ظہیر لکھتے ہیں، "انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔ چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔ اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔

    جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔

    ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔”

    انقلابِ‌ روس ہی نہیں دہائیوں بعد سوویت یونین کا بکھرنا بھی بلاشبہ تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے، کیوں کہ اس کا اس خطّے پر ہی نہیں دنیا پر گہرا اثر پڑا اور اس کے بعد کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 7 نومبر کی بات کریں تو اس روز روسی محنت کشوں اور عوام نے بادشاہت کو کچل کر انقلاب کی تکمیل کی تھی۔ اسے بالشویک انقلاب یا اکتوبر انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔

    اس انقلاب کی قیادت لینن کر رہا تھا۔ لینن انیسویں صدی کے عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کارل مارکس کا ایک بڑا معتقد تھا۔ کارل مارکس روس میں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ معاشی مساوات کےساتھ سماجی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کا وہ پرچارک تھا جس نے ملک کے باشعور افراد کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور اس کی بات ہر طبقۂ عوام بالخصوص مزدور اور محنت کش کے دل میں اتر گئی۔ مارکس کا فلسفہ کہتا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کا طرزِ زندگی تباہ کر دیتا ہے۔ اِس کے انقلابی فلسفہ نے فضا بنا دی تھی جس سے متاثر ہو کر لینن نے بڑی جدوجہد کی اور اپنے ساتھیوں کو روس میں انقلاب لانے کے لیے میدان میں اترنے پر آمادہ کیا۔ اس قافلہ کو محکوم و مجبور طبقات کی حمایت حاصل ہوئی اور دنیا نے ایک عظیم انقلاب برپا ہوتے دیکھا۔

    روس میں تبدیلی کی ابتدا 1905ء سے ہوئی اور آہستہ آہستہ انقلاب کی خواہش پورے ملک کے مزدور پیشہ افراد اور پسے ہوئے طبقات کے دل میں‌ ہمکنے لگی۔ وہ سامراجی حکومت کے خلاف صف آراء ہو گئے جس کے نتیجے میں 1917 سے 1919 کے درمیان میں انقلاب مکمل ہوا۔ روس کے آخری شہنشاہ نکولس دوم تھے جنھیں ان کی بیوی اور پانچ اولادوں سمیت انقلاب کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ 1918 کا واقعہ ہے۔

    انسانی سماج میں طبقات میں منقسم ہونے کے بعد سے یہ محنت کشوں کی سب سے فیصلہ کن فتح تھی۔ بالشویکوں نے بادشاہت کے خلاف سماج کی اکثریت کی حاکمیت کو قائم کیا۔ یہ مارکسی روح کے مطابق ایسا انقلاب تھا جس کے بعد محنت کشوں کو اقتدار ملا۔ لینن نے دسمبر 1917ء میں لکھا، ”آج کے اہم ترین فرائض میں یہ شامل ہے کہ محنت کشوں کی آزادانہ پیش قدمی کو پروان چڑھایا جائے۔ اسے ہر ممکن حد تک وسیع کر کے تخلیقی تنظیمی کام میں تبدیل کیا جائے۔ ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے، فضول، وحشی اور قابل نفرت عقیدے کو پاش پاش کرنا ہو گا کہ صرف نام نہاد اعلیٰ طبقات، امرا اور امرا کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں اور سوشلسٹ سماج کو منظم کرسکتے ہیں۔“

    انقلاب کے لیے جدوجہد تو بڑے عرصے سے جاری تھی مگر اس کے فوری اثرات پہلی جنگِ عظیم میں روس کی شکست کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس سے قبل عوام اگرچہ اپنی محرومیوں اور مشکلات کے خلاف احتجاج کررہے تھے، لیکن زارِ روس کی جانب سے اسے سختی سے کچلا جارہا تھا۔ بادشاہ کے وفادار سپاہی ہر قسم کا ظلم اور جبر روا رکھتے تھے جس نے گویا عوام کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا تھا، اور جب جنگِ عظیم میں شکست کے بعد روس میں غربت اور افلاس انتہا کو پہنچا گیا تو عوام نے لینن کی قیادت میں تخت اور تاج چھین کر عوامی حکومت کی بنیاد رکھی۔

    لینن نے بادشاہت کا زمانہ اور جبر دیکھا تھا لیکن اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک سے باہر گزرا۔ واپسی ہوئی تو اس طرح‌ کہ اس کا ملک انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا اور لینن نے سات برس سے بھی کم عرصہ روس کو انقلاب کا تحفہ دیا۔ لینن دنیا میں سوویت یونین کی بنیاد رکھنے والے ایسے لیڈر بنے جن کا ملک ایک سپر پاور بنا اور سات دہائیوں تک دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر پہچانا گیا۔

  • معرکۂ زلاقہ اور مسلم اسپین کے تین سو سال

    معرکۂ زلاقہ اور مسلم اسپین کے تین سو سال

    تاریخ کے اوراق یوسف بن تاشفین کو عالمِ‌ اسلام کا عظیم مجاہد اور حکم راں ثابت کرتے ہیں جس نے عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کی فوج کو شکست دی تھی اور اسی فتح کے نتیجے میں اگلے تین سو سال تک اسپین پر مسلمانوں کی حکم رانی قائم رہی۔

    یہ جنگ سنہ 1086ء میں اکتوبر کے مہینے میں لڑی گئی تھی۔ اس میں دولتِ مرابطین کے عظیم مجاہد یوسف بن تاشفین اور اسپین کے مختلف علاقوں پر مشتمل مملکت قشتالہ (Kingdom of Castile) کے بادشاہ الفانسو ششم کی فوج جس میدان میں آمنے سامنے تھی وہ زلاقہ کے نام سے مشہور ہے جس سے مراد ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس معرکے میں اس قدر خون بہا کہ افواج کو میدان میں قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی اور اسی نسبت سے یہ زلاقہ کہلایا۔ عیسائی اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اسپین اپنے حکم رانوں کی نااہلی اور کم زوریوں کی وجہ سے غیروں کی نظر میں آگیا تھا اور وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ یوسف بن تاشفین عیسائی حکم راں کے مقابلے پر نہ آتے تو 1092ء میں ہی مسلمان اپنا اقتدار کھو چکے ہوتے۔

    زلاقہ کی جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی بنیادی وجہ بھی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس معرکے میں الفانسو کے لشکر کی شکست کے بعد ہی عیسائی حکم راںوں نے مسلمانوں کے خلاف منظّم ہو کر جارحیت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

    مشہور عالمِ‌ دین اور مؤرخ امام ذہبی نے اپنی شاہکار تصنیف تاریخِ الاسلام میں اُس دور کے کچھ واقعات رقم کیے ہیں۔ امام صاحب لکھتے ہیں کہ جب مسلم اندلس میں طوائف الملوکی پھیلی تو صلیبی بادشاہ الفانسو نے اس کا فائدہ اٹھانے کا سوچا اور سب سے پہلے اشبیلیہ کے حاکم معتمد بن عباد سے اس کا علاقہ چھیننے کے لیے تیّاری کرنے لگا، یہ اطلاع ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں حاکمِ اشبیلیہ تک پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا کیوں کہ وہ الفانسو کے مقابلے میں بہت کم زور تھا۔ تب، معتمد بن عباد نے مراکش کے سلطان یوسف بن تاشفین سے مدد چاہی۔ اس پر امراء اور اعیانِ سلطنت نے اس کی توجہ دلائی کہ سلطان اگر اندلس آیا تو الفانسو کو شکست دینے کے بعد وہ معتمد کو بھی حاکم نہ رہنے دے گا۔ امام صاحب نے لکھا ہے کہ یہاں معتمد نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا: دیکھو، یوسف بن تاشفین کے اونٹ چرانا الفانسو کے خنزیر چرانے سے کہیں بہتر ہے!

    چند مؤرخین نے معتمد کا یہ قول نقل کیا ہے: "میں تو کھایا ہی جانے والا ہوں، مگر اندلس پر آج اگر اسلام کا سورج غروب ہوتا ہے تو منبروں اور محرابوں سے آنے والی کئی صدیوں تک جو لعنت مجھ پر ہوتی رہے گی، میں وہ کیوں مول لوں؟”

    واقعتاً اعیانِ سلطنت کے وہ تمام خدشات سچ ثابت ہوئے۔ جنگ میں سلطان کی فتح کے بعد معتمد کو بھی اپنے تخت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ساری زندگی قید میں گزری۔ مؤرخین کے مطابق اسے برس ہا برس بعد ایک بار عید کے موقع پر بیٹیوں سے ملاقات کی اجازت ملی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیٹیاں سُوت کات کات کر گزر اوقات کر رہی ہیں۔ اس پر معتمد نے تڑپ کر شعر بھی کہے۔ یہ مشہور تاریخی قصّہ ہے جسے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔

    مؤرخین کی اکثریت نے لکھا ہے کہ زلاقہ کے مشہور معرکے میں مرابطین کے مجاہدین کی تعداد 48 ہزار سے زیادہ نہ تھی جب کہ الفانسو نے ایک لاکھ جاں بازوں کو میدان میں اتارا تھا۔ لیکن وہ ڈھیر ہوتے چلے گئے اور کہتے ہیں‌ کہ اس معرکے میں سلطان یوسف بن تاشفین سے بچ کر جانے والے صلیبی سپاہی تعداد میں بہت ہی کم تھے۔ یوں اندلس میں مزید تین صدیوں تک اذان گونجتی رہی۔

  • لوح و قلم کا معجزہ…

    لوح و قلم کا معجزہ…

    اگر تم میری ہدایتوں پر عمل کرو گے تو صاحبِ ہنر محرّر بن جاؤ گے۔

    وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے، آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لئے دولت چھوڑ جاتے۔ لیکن ان کی وارث ان کی تحریریں تھیں جن میں دانائی کی باتیں لکھی تھیں۔ وہ اپنی لوحوں اور نرسل کے قلموں کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے اور پتھر کی پشت کو بیوی سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ گو انہوں نے اپنا جادو سب سے چھپایا لیکن یہ راز ان کی تحریروں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ گو وہ اب زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں لوگ اب بھی یاد رکھتے ہیں۔ پس یاد رکھو تمہیں بھی تحریر کا علم حاصل کرنا ہوگا کیونکہ کتاب عالیشان مقبرے سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

    یہ بارہویں صدی قبل مسیح کی ایک مصری تحریر ہے۔

    علمائے آثار کی تحقیق شاہد ہے کہ تحریر کا فن سب سے پہلے دجلہ و فرات کی وادی ہی میں وضع ہوا۔ گو مصریوں اور پھر فونیقیوں نے بھی یہ ہنر جلد ہی سیکھ لیا لیکن اوّلیت کا شرف بہرحال قدیم عراقیوں ہی کو حاصل ہے اور اگر ان لوگوں نے بنی نوع انسان کوعلم اور معرفت کا کوئی اور تحفہ عطا نہ کیا ہو، تب بھی ان کا یہ کارنامہ ایسا ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ یہ انقلابی ایجاد اب سے ساڑھے پانچ ہزار برس پیشتر سمیر کے شہر ایرک کے معبد میں ہوئی۔ ایرک اس وقت عراق کا سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر تھا۔

    اس شہر کی عظمت کی نشانی ورقہ کے وہ کھنڈر ہیں جو چھ میل کے دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کھنڈروں کی کھدائی جرمنوں نے 1924ء میں شروع کی تھی مگر وہ پندرہ سال کی مسلسل محنت کے باوجود کام مکمل نہ کر سکے۔ ماہرین آثار کا تخمینہ ہے کہ اس شہر کی کھدائی کے لئے تقریباً نصف صدی درکار ہوگی۔

    ورقہ کے ٹیلوں کی کھدائی میں جرمنوں نے پچاس فٹ کی گہرائی پر ایک زیگورات دریافت کیا۔ یہ زیگورات 35 فٹ اونچا تھا اور مٹی کے ردوں کو رال سے جوڑ کر بنایا گیا تھا۔دیواروں کی زیبائش کے لئے مٹی کے چھوٹے چھوٹے تکونے ٹکڑے استعمال کئے گئے تھے۔ ان تکونوں کو رنگ کر آگ میں پکایا گیا تھا اور پھر گیلی دیواروں پر چپکا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دیواریں بڑی خوشنما معلوم ہوتی تھیں۔ زیگورات کے ملبوں میں ماہرین آثار کو کارتوس نما کئی مہریں بھی ملی ہیں جن پر مناظر کندہ ہیں۔ ایک مہر پر قیدیوں کو قتل ہوتا دکھایا گیا ہے۔ ایک مہر پر مویشیوں کے جھنڈ بنے ہیں۔ ایک مہر پر شیر چوپایوں پرحملہ کر رہا ہے۔ ایک مہر پر پروہت کوئی مذہبی ناچ ناچ رہے ہیں، اور بالکل برہنہ ہیں، لیکن ان مہروں سے بھی زیادہ قیمتی مٹی کی وہ تختی ہے جس پر تصویری حروف کندہ ہیں۔ اس تختی پر ایک بیل کا سر، ایک مرتبان کی شکل اورکئی قسم کی بھیڑیں بنی ہوئی تھیں اور دو مثلث بھی کھنیچے گئے تھے۔ یہ انسان کی سب سے پہلی تصویری تحریر تھی جو 3500 ق۔ م کے قریب لکھی گئی۔

    لوح پر کندہ کی ہوئی یہ تصویریں بظاہر سامنے کی چیز معلوم ہوتی ہیں اور ان کا مفہوم کافی واضح ہے، لیکن اصل میں یہ علامتیں ہیں اور ان علامتوں میں حروف کا سا تجریدی عمل بھی موجود ہے۔ مثلاً مرتبان کی شکل فقط مرتبان کی علامت نہیں ہے کہ بلکہ مرتبان میں رکھی ہوئی کسی چیز کا، گھی تیل وغیرہ کا وزن بھی بتاتی ہے۔ ان تصویروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تختی پر مندر کی املاک کا کوئی حساب درج ہے۔ اسی زمانے کی کچھ اور تختیاں جمدۃ النصر اور دوسرے مقامات پر بھی ملی ہیں۔ ان پر بھی اس قسم کے حسابات لکھے ہیں۔

    دراصل تحریر کا فن مندروں کی معاشی ضرورتوں کے باعث وجود میں آیا۔ مندر کی دولت چونکہ دیوتاؤں کی ملکیت ہوتی تھی، اس لئے پروہتوں کو اس کا باقاعدہ حساب رکھنا ہوتا تھا۔ زرعی پیدادار کا حساب، بیج، آلات اور اوزار کا حساب، چڑھاوے اور قربانی کا حساب، کاریگروں کی مزدوری کا حساب، اشیا برآمد و درآمد کا حساب، غرض کہ آمدنی اور خرچ کی درجنوں مدیں تھیں اور ذہین سے ذہین پروہت بھی اس وسیع کاروبار کا حساب اپنے ذہن میں محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسابات کوئی نجی معاملہ نہ تھے۔ بلکہ سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کی معاش ان سے وابستہ تھی۔ تیسرے یہ کہ خرید و فروخت کا سلسلہ فقط ایک شہر، ایرک تک محدود نہ تھا بلکہ دوسرے شہروں سے بھی تجارتی تعلقات رکھنا پڑتے تھے۔ اس لئے تحریری علامتوں کو پورے ملک کی مروجہ علامتیں بنانا ضروری تھا۔

    لیکن ان تصویری حروف کی خرابی یہ تھی کہ وہ فقط اشیا کی علامت بن سکتے تھے۔ کسی خیال یا جذبے کی نمائندگی نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی ہدایت نہیں دے سکتے تھے اور نہ کوئی سوال پوچھ سکتے تھے۔ تحریر کا فن حقیقی معنی میں تحریر کا فن اس وقت بنا جب اشیا کی تصویریں اشیا کی علامت کے بجائے ان کے نام کی آوازوں کی علامت بن گئیں۔ یہ کٹھن مرحلہ بھی اہل سمیر نے خود ہی طے کر لیا۔ چنانچہ شہر شروپک (فارا) سے بڑی تعداد میں جو لوحیں برآمد ہوئی ہیں، ان کے تصویری حروف اشیا کے ناموں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً یہ علامت داڑھی دار سر کی بھی ہے اور "کاکی” بھی جو سر کا سمیری تلفظ ہے اور بولنا چیخنا کی بھی۔ اسی طرح پیر کی علامت پیر کی نمائندہ بھی تھی۔ دو کی بھی جو پیر کا سمیری تلفظ ہے اور پیر سے متعلق حرکات ،گب (کھڑا ہونا) ،گن (جانا) اور، توم (آنا) کی آوازوں کی بھی۔

    ایرک کے دور میں تصویری حروف کی تعداد دو ہزار سے بھی زیادہ تھی لیکن رفتہ رفتہ ان میں تخفیف ہوتی گئی۔ چنانچہ شروپک کی لوحوں میں جو 3 ہزار ق۔ م کی ہیں حروف کی تعداد گھٹ کر فقط آٹھ سو رہ گئی۔ شروپک کی لوحوں پر بھی مندر کے حسابات ہی کندہ ہیں۔ ان کے علاوہ چند علامتوں کی فہرستیں ہیں جو مندر کے طلباء کو بطور نصاب سکھائی جاتی تھیں۔ یہ فہرستیں موضوع وار ہیں۔ مثلاً مچھلیوں کی مختلف قسمیں ایک جگہ درج ہیں اور ہر علامت کے سامنے اس پروہت یا نویسندہ کا نام کندہ ہے جس نے یہ علامت ایجاد کی تھی۔

    29 ویں صدی قبل مسیح کے لگ بھگ یعنی سو سال کے اندر ہی تصویری حروف میں اور کمی ہوئی چنانچہ ان کی تعداد صرف چھ سو رہ گئی۔ اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا علم مدت تک مندر کے پروہتوں اور شاہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری رہا کیونکہ علم کو عام کرنا ارباب اقتدار کے مفاد کے خلاف تھا۔

    (سید سبط حسن کے ایک نہایت علمی اور تحقیقی مضمون سے اقتباسات)

  • موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    یہ ایک سوداگر کی کہانی ہے جس کی چار سو دینار سے بھری ہوئی تھیلی گم ہوگئی تھی۔ اس نے منادی کروا دی کہ جس شخص کو اس کی تھیلی ملے اور وہ اس تک لے آئے تو اُسے دو سو دینار انعام دیا جائے گا۔

    اتفاقاً یہ تھیلی ایک غریب شخص کو مل گئی۔ وہ اُسے لے کر مالک کے پاس انعام کی اُمید میں پہنچ گیا۔ لیکن سوداگر نے جب اپنی گم شدہ تھیلی کو پایا، تو اس کے دل میں دو سو دینار کے خسارے کا خیال آگیا۔ وہ بدنیّت ہو گیا تھا اور اسے ایک بہانہ سوجھا۔ سوداگر اس غریب آدمی سے کہنے لگا’’اس تھیلی میں نہایت قیمتی موتی بھی تھے۔ کیا وہ بھی اس کے اندر ہیں؟‘‘ وہ آدمی بڑا گھبرایا اور سمجھ گیا کہ یہ اب دھوکا کر رہا ہے اور انعام نہ دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا ہے۔ اب ان دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ آخر یہ دونوں لڑتے ہوئے فیصلے کے لیے قاضی کے پاس پہنچے۔ قاضی نے اس غریب آدمی سے موتیوں کے بارے میں پوچھا تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ تھیلی میں اسے دیناروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں ملی۔ اب قاضی نے سوداگر سے پوچھا کہ بتاؤ وہ موتی کیسے تھے؟ سودا گر نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور کچھ صحیح نہ بتا سکا۔

    قاضی سمجھ گیا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اور جھوٹ سے مقصد اس کا یہ ہے کہ اپنے اعلان کے مطابق اسے انعام نہ دینا پڑے۔ قاضی نے کہا کہ میرا فیصلہ سنو! اے سوداگر! تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہاری تھیلی گم ہو گئی جس میں دینار تھے اور موتی بھی تھے اور یہ آدمی جو تھیلی لایا ہے اس میں کوئی موتی نہیں ہے، لہٰذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تھیلی تمہاری ہے ہی نہیں۔ تم اپنی گم شدہ تھیلی کے لیے دوبارہ منادی کراو۔ ممکن ہے تمہاری گم شدہ تھیلی تمہیں مل جائے جس میں وہ موتی بھی موجود ہوں اور تم بامراد بن جاؤ۔ یہ تھیلی تو تمہاری نہیں ہے۔

    اب قاضی نے اس غریب آدمی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ یہ تھیلی چالیس روز تک احتیاط سے رکھو۔ اگر اس کا کوئی دوسرا دعوے دار نہ ہو تو یہ تمہاری ہے۔‘‘ قاضی کا فیصلہ سن کر سوداگر کا دل بجھ گیا مگر وہ کیا کرسکتا تھا؟ دل میں‌ آئے کھوٹ نے اسے یہ دن دکھایا تھا۔ وہ بری طرح‌ پچھتایا اور وہ غریب شخص خوشی خوشی چار سو دیناروں‌ والی تھیلی لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا کوئی دعوے دار نہیں‌ آئے گا اور اب وہی اس رقم کا مالک ہے۔

    (انتخاب از دل چسپ حکایات)

  • فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    چندر گپت موریہ نے ہزار ہا سال پہلے خطّۂ ہندوستان میں ایک مستحکم اور وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ محققین نے قبلِ مسیح کے تہذیبی آثار اور مخطوطات کا جائزہ اور عمیق نظری سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے ایک مضبوط نظامِ حکومت کی حامل ترقّی یافتہ سلطنت کہا ہے۔

    اس زمانے میں یونان کا میگستھنیز نامی ایک سفیر وہاں آیا اور اس نے ہندوستانی تہذیب پر اپنی ایک تصنیف انڈیکا کے نام سے چھوڑی ہے۔ اس کے بعد چین کے فاہیان اور ہیون سانگ نامی سیّاحوں کے سفر ناموں سے بھی قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں‌ مدد ملتی ہے۔

    قدیم زمانے سے ہی ہندوستان علم و ادب اور تہذیب و مذہب کا گہوارہ رہا ہے۔میگستھنیز کی کتاب انڈیکا کو چندر گپت موریہ کے عہد کا ایک اہم ماخذ تصور کیا جاتا ہے جس کی مدد سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ہندوستان پر سکندرِاعظم کے حملے کی تمام تفصیلات اس میں موجود ہیں۔

    یہ سفر نامہ تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔میگستھنیز کے بعد ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں فاہیان، ہیون سانگ، ابوریحان البیرونی اور ابنِ بطوطہ وغیرہ اہم نام ہیں۔ جنہوں نے اپنے رودادِ سفر میں اس عہد کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے۔

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو پانچویں صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی تعلیم کی غرض سے چندر گپت کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ یہاں پندرہ برسوں تک رہا اور مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو فاہیان ژوان (Fahein Zuhan) میں درج کیا ہے جس میں ہندوستان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔

    اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بقول فاہیان: ”ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ راجا نرم دل، مشفق اور رعایا پر مہربان ہے۔ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے ہیں اور عمّالِ سلطنت کو سالانہ مشاہرے دینے کا رواج ہے۔ شراب نوشی اور گوشت خوری کا رواج نظر نہیں آتا۔قانون نرم اور حصولِ انصاف آسان ہے۔ بدھ مت عام لوگوں کا مذہب ہے لیکن اب اس پر برہمن مت دوبارہ غلبہ حاصل کر رہا ہے۔” (بحوالہ:‌ اردو ادب میں سفر نامہ لاہور، 1989)

    چنڈالوں کا ذکر اس انداز سے کیا ہے:
    ” گندے لوگوں، کوڑھیوں اور اچھوتوں کو چنڈال کہتے ہیں۔ یہ لوگ سب سے الگ تھلگ شہر کے باہر رہتے ہیں یا بازار میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی آمد کا اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ لوگ راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے نزدیک نہ آنے پائیں۔ گوشت کا کاروبار صرف چنڈال لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی شہر سے باہر۔”
    (بحوالہ: ہمارا قدیم سماج، سیّد سخی حسن نقوی)

    ہیون سانگ ساتویں صدی عیسوی میں ہرش وردھن کے زمانے میں چین سے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے راجا ہرش وردھن کے علاوہ کا مروپ، گاوڑ، مگدھ، چالوکیوں اور پلوؤں کی سلطنتوں کا سفر کیا۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو سیوکی (Sioki) نامی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ ہرش وردھن کے دربار میں 8 برسوں تک رہا۔ اس نے اپنی کتاب میں حکومتِ ہرش کو خاص جگہ دی ہے۔ ہیون سانگ کے بیان کے مطابق قنوج اس وقت ایک قلعہ بند، خوب صورت شہر تھا۔ ہرش وردھن نے 643ء میں ایک بہت بڑی مذہبی مجلس کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑے بڑے راجاؤں اور مختلف دھرموں کے عالموں نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ہیون سانگ نے بودھ مت کے فاہیان فرقے کے پیغام کی توضیح کی تھی۔

    ہیونگ سانگ نے یہاں تک لکھا ہے کہ راجا ہرش وردھن ہر پانچ سال کے بعد پریاگ کے مقام پر ایک مذہبی میلہ کا انعقاد کرتا تھا جو تین مہینے تک مسلسل لگا رہتا تھا۔ شاہی خزانے کی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی حتیٰ کہ ہرش وردھن اپنے جسم کا لباس بھی تقسیم کر دیتا تھا۔

    ہیون سانگ نے اپنی کتاب میں ذات پات کی بھید بھاؤ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرا اور برہمن عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ شودر لوگ زراعت پیشہ تھے۔ معاشرے میں چھوت چھات جیسی لعنت موجود تھی۔ ایک شہر یا گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اچھوتوں کو باآوازِ بلند برہمنوں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔

    ہیون سانگ کی تحریروں سے ہمیں نالندہ میں واقع ایک بودھ یونیورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی ایک مشہور درس گاہ تھی اس میں تقریباً دس ہزار طلبا زیرِ تعلیم تھے۔ جس کے اخراجات حکومتِ وقت اور دو سو گاؤں مل کر برداشت کرتے تھے۔

    اس نے اپنے سفر نامے میں بطور خاص متنازع خطّہ وادئ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس نے کشمیر کے متعلق صرف پندرہ صفحات سیاہ کیے ہیں جس میں بڑی قطعیت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمیں پہلی مرتبہ اس بودھ کونسل کی اطلاع بہم پہنچاتی ہے جس میں بودھ دھرم کے بڑے فرقے (مہایان) فرقے کی مقدس کتاب ترتیب دی گئی۔ یہ بودھ مت کی تیسری کونسل تھی جس کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس کونسل کی تمام کارستانی تانبے کی تختیوں پر نقش کروائی گئی۔

    بقول ڈاکٹر مشتاق حیدر:
    “آج تک یہ شان دار تہذیبی تودہ، مذہبی خزانہ، پُر نور صحیفہ اور پُراسرار امانت کسی جنگل کی گہرائی میں خاموشی سے محوِ آرام ہے جیسے کسی محرمِ راز کا انتظار کر رہا ہو جس کی آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اور سینے میں معرفت کے دیے جگمگا رہے ہوں، جس کے سامنے یہ اپنا ساکت وجود کھولے اور ایک سیلابِ نور بن کر ابھرے۔ اگر ہیون سانگ ہمیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے تو عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل گمنامی کی نذر ہو جاتا۔” (اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت از مرتب خواجہ محمد اکرام الدّین)

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو بدھ مت کا پیروکار اور ایک مصلح تھا، اس نے بدھ مت کے ان مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے ہندوستان کا سفر کیا جو آج کے دور میں‌ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کی سرحدوں میں آثار اور کھنڈرات کی صورت موجود ہیں یا ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔

    فاہیان کا یہ سفر قدیم دور کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل کسی بھی عالم اور مصنّف کا نشان اور ذکر نہیں‌ ملتا جو چین سے ہندوستان آیا ہو، محققین کا خیال ہے کہ فاہیان 399ء سے 412ء تک ہندوستان میں رہا۔

    (شیخ ظہورعالم کے مضمون سے ماخوذ)

  • قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    غار افسانہ بھی ہیں اور تاریخ بھی۔

    وہم کی آنکھوں سے دیکھو تو ان غاروں میں ہر سمت موت کے مہیب سائے ناچتے نظر آئیں گے۔ آدم خور دیوؤں کی چنگھاڑیں، بیتالوں اور بھوتوں کے خوف ناک قہقہے، چمگادڑوں کے روپ میں ادھر ادھر اڑتی ہوئی بدروحیں اور پچھل پائیاں۔منھ سے آگ اگلنے والے اژدہے اور انہیں کے آس پاس بھٹوں میں چھپے ہوئے شیر، بھالو، بھیڑیے، ڈاکو اور راہ زن۔ غرض روایت نے غاروں کے ان دہشت ناک باشندوں کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔

    1940ء: جب چار لڑکوں نے زمین پر ایک حیرت انگیز مقام دریافت کیا

    وہ غار ہی تھا جس میں کانے دیو نے ہومر کے ہیرو اوڈیسیس کو ساتھیوں سمیت قید کیا تھا اور چالاک اوڈیسیس نے دیو کو نشہ پلایا تھا اور جب دیو مدہوش ہوگیا تھا تو اس کی آنکھ میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی تھی اور بھیڑ کے پیٹ سے لپٹ کر غار سے فرار ہوا تھا اور وہ بھی غار تھا جس میں علی بابا کے بھائی کو دولت کی ہوس لے گئی تھی مگر وہ ’’کھل جا سم سم‘‘ کا طلسمی کلمہ بھول گیا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے قتل کرنے کے لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔

    مگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھو تو یہی غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ نظر آئیں گے جہاں اس نے اپنی 25، 30 لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔ وہیں اس نے افزائشِ نسل کے راز سیکھے، موسم کی سخت گیریوں سے بچنے کے طریقے وضع کیے، آگ جلانے کے تجربے کیے، اور اس طرح تسخیر قدرت اور کیمیاوی عمل کے ایک ایسے انقلابی راز سے آگاہ ہوا جس نے آگے چل کر اسے اقلیمِ ارض کی فرماں روائی عطا کی۔

    یہ غار اس کے اوّلین مولد و مسکن بھی تھے اور معبد و مقابر بھی۔ یہاں پہنچ کر وہ تمام ارضی و سماوی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ یہ غار رحمِ مادر سے بھی کسی قدر مشابہ تھے۔ اپنی ظاہری شکل میں بھی اور باطنی کیفیت میں بھی۔ وہی پُراسرار تاریکی، وہی پیچ وخم اور امن وعافیت کا وہی احساس۔

    مگر انسان کی فراموش طبعی دیکھو کہ لاکھوں سال ان غاروں میں رہنے کے بعد جب اس نے یہ مسکن ترک کیے اور جھونپڑے، گاؤں اور شہر بسائے تو پھر ان غاروں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا بھولا گویا ان سے کبھی وابستہ ہی نہ تھا۔ غاروں کے دہانے، چٹانوں، مٹی کے ملبوں اور جنگلی جھاڑیوں سے پٹ گئے۔ ان کی تلخ اور شیریں یادیں ذہنوں سے محو ہو گئیں اور آنے والی نسلیں اس حقیقت سے بھی واقف نہ رہیں کہ ان کے آباء و اجداد کبھی غاروں میں رہتے تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دور دور تک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اوّلین گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔

    پھر یوں ہوا کہ انیسویں صدی کی ایک روشن سہ پہر میں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کتّا ایک لومڑی کا پیچھا کرتے کرتے ایک بھٹ میں گھس گیا۔ کتے کا مالک مارسیلوو اساؤ تولا کتّے کو نکالنے کی غرض سے بھٹ میں اترا تو پتہ چلا کہ اندر اچھا بڑا غار ہے۔ مار سیلوو اساؤ تولا کو آثارِ قدیمہ کا شوق تھا۔ اس نے غار کو کھودنا شروع کیا کہ شاید اس کے اندر پرانے زمانے کی کچھ چیزیں مل جائیں۔ ایک دن وہ غار میں اترا تو اس کی کمسن بچّی ماریا بھی اس کے ہمراہ تھی۔ ساؤتولا غار کھودنے میں مصروف ہوگیا اور ماریا پتھر کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگی۔ دفعتاً ساؤتولا نے ماریا کی چیخ سنی۔ ’’تورو، تورو (بیل بیل) ساؤ تولا بچی کی طرف لپکا مگر وہ حیران تھا کہ اس تنگ غار میں بیل کہاں سے آئے۔ وہ ماریا کے پاس پہنچا تو ماریا غار کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ ساؤتولا کو جب بیل کہیں نظر نہ آئے تواس نے بچّی سے پوچھا اور تب بڑی مشکل سے اس کی آنکھوں نے وہ نظارہ دیکھا جسے بیس ہزار سال سے کسی انسان نے نہ دیکھا تھا۔ سرخ اور سیاہ رنگ کے بیلوں کی ایک لمبی قطار تھی جو چھت پرایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ التمیرا کا غار تھا جس میں قدیم حجری انسان نے اپنی فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کو ساؤتولا نے 1879ء میں اتفاقاً دیکھ لیا۔

    ساؤتولا نے غار کی دیواروں کو غور سے دیکھا تو کہیں رنگین بھنسیے اور بیل بنے ہوئے، کہیں جنگلی سور، کہیں ہرن اور چیتل، کہیں ہاتھ کے چھاپے۔ شمار کیا تو اس نگار خانے میں جانوروں کی 170 تصویریں تھیں۔ ان کے رنگ اس قدر شوق اور روشن تھے گویا یہ تصویریں ابھی کل بنی ہوں۔ ساؤتولا نے اپنے اس حیرت انگیز انکشاف کا اعلان اخباروں میں کیا اور آثارِ قدیمہ کے ماہروں سے درخواست کی کہ وہ آکر غار کا مطالعہ کریں لیکن دانایانِ مغرب نے ساؤتولا کا مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا یہ اسکول کے لڑکوں کا کھلواڑ ہے۔ کسی نے کہا مقامی چرواہوں نے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر مویشیوں کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ بعضوں نے کہا کہ غریب ساؤتولا نے میڈرڈ کے کسی مصوّر سے ساز باز کیا ہوگا۔ تجارت اور شہرت کی خاطر۔ غرض کہ نہ حکومت نے ان دیواری تصویروں کی طرف توجہ کی اور نہ ماہرینِ فن نے اس غار کو درخورِ اعتنا سمجھا۔ بے چارہ ساؤتولا خاموش ہو رہا ہو۔

    یہ درست ہے کہ التمیرا کی دریافت سے بہت پہلے آثار قدیمہ کے ماہروں کو عہد قدیم کے پتھر کے اوزار، ہاتھی دانت کے ٹکڑوں پر کھدے ہوئے نقوش اور سیپ اور ہڈی کے زیورات دست یاب ہو چکے تھے۔ مثلاً بروئیلے (Brouillet) نامی ایک فرانسیسی ماہر کو سوینی (ِِSavigny) کے مقام پر ہڈی کا ایک ٹکڑا انیسویں صدی کی ابتدا میں ملا تھا۔ اس ٹکڑے پر دو ہرن کندہ تھے۔ کلونی کے عجائب گھر نے 1851ء میں ہڈی کے اس منقوش ٹکڑے کو حاصل کر لیا تھا مگر کسی کو اس کی قدامت پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔

    اسی طرح 1833ء میں میئر Mayor نامی ایک انگریز محقق کو ہڈی کی ایک چھڑی ملی تھی جس کے ایک رخ پر ایک گھوڑا کندہ تھا اور دوسری طرف ایک پودا بنا تھا۔ 1852ء میں آری ناک (فرانس) کے مقام پر ہڈیوں کا ایک ہار اور ہیڈ اور ہاتھی دانت کے چند زیورات بھی دریافت ہوئے تھے۔ ایڈوارڈ لارتیت کو مسات Massat کے مقام پر بارہ سنگھے کی ہڈی پر ریچھ کا سر کھدا ہوا ملا تھا اور 1863ء میں اسے وزیر ندی کی وادی میں جو پیرس سے ڈھائی سو میل جنوب مغرب میں واقع ہے متعدد چھوٹی چھوٹی چیزیں اور آلات و اوزار دستیاب ہوئے تھے۔ چنانچہ 1864ء میں اس نے ان دریافتوں پر ایک مختصر سا رسالہ فرانسیسی زبان میں شائع بھی کیا تھا۔ اسی سال اس کو مارلین (فرانس) کے مقام پر میمتھ کا ایک دانت ملا تھا جس پر نہایت باریک خطوں میں اس ناپید جانور کی شکل کندہ تھی۔

    یہ تو خیر چھوٹی چھوٹی منقولہ اشیا تھیں جن سے قدیم انسان کی فن کاری کا کوئی واضح تصور قائم کرنا قدرے دشوار تھا، مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ التمیرا سے پیش تر دنیا کے مختلف گوشوں میں چٹانوں پر اور غاروں میں جو تصویریں اور نقوش ملے، ان کی تاریخی اہمیت کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ مثلاً 1837ء میں سر جارج گرے نے آسٹریلیا کی سیاحت کے دوران اقلیدسی انداز کی بڑی پراسرار رنگین تصویریں کمبرلے کی کوہستانی پناہ گاہوں میں دریافت کی تھیں۔ 1848ء میں جھیل اورنیگا (روس) کے مشرقی ساحل پر غاروں میں متعدد نقوش دیواروں پر کھدے ہوئے ملے تھے۔ یہ وہیل مچھلی، بارہ سنگھے اور ایلک کے نقوش تھے۔ انہی دنوں سٹو (Stowr) کو جنوبی افریقہ کی چٹانوں پر اقلیدسی انداز کی مصوّری کے چند نادر نمونے نظر آئے تھے اور اس نے ان کو بڑی محنت سے نقل کر لیا تھا مگر یہ نقش و نگار تہذیب کے اصل مرکز یعنی یورپ سے بہت دور پسماندہ علاقوں میں پائے گئے تھے۔ ان کو نہ تو ایک رشتے میں جوڑا جا سکتا تھا اور نہ تہذیبِ انسانی کی ارتقائی تاریخ مرتب کرنے میں ان سے مدد مل سکتی تھی۔ کم سے کم اس دور کے دانشوروں کا یہی خیال تھا۔

    ساؤتولا کے دس سال بعد موسیو شیرون (cheron) نے شیوت (Chabot) (فرانس) کے غار کی تفصیلات شائع کیں، اس غار کا سراغ انہوں نے کئی سال پیشتر لگایا تھا، لیکن ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ساؤتولا کا ہو چکا تھا۔

    انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصوّر غار لاموتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اترنے کی ٹھانی۔ انہوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔

    چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غار تھا جو ستمبر 1901ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا، مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بےاعتنائی کہیے کہ دانشور ان روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پر بحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔

    مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1902ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کے لئے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جاسکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوتے لہٰذا ایبے بروئیل نے ان کو ہو بہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ’’میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘ ایبے بروئیل نے یہ کام تین ہفتے میں مکمل کر لیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب 1908ء میں شائع کی۔

    ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ایبے بروئیل جیسا دھن کا پکا اور لگن کا سچا فن کار مل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کر دی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔

    اب چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصوّر غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں، کبھی جرمنی اور اٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غار وہ ہے جو Baumed Dullins کے مقام پر مارچ 1951ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیشتر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر 1940ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔

    (اقتباس: زندگی کی نقش گری از سید سبط حسن)

  • سیاسی تاریخ کو بامعنی بنانا ناممکن نہیں!

    سیاسی تاریخ کو بامعنی بنانا ناممکن نہیں!

    یہ روبس پیئر کا دورِ دہشت تھا جس نے کانٹ کو، جس نے انقلاب فرانس کا خیر مقدم کیا تھا، یہ سبق سکھایا تھا کہ حریت، مساوات اور اخوت کے نام پر کتنے گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے۔

    یہ بہت قبیح جرائم ہیں جو صلیبی جنگوں کے زمانے میں مسیحیت کے نام پر، وچ ہنٹنگ کے مختلف ادوار میں اور تیس سالہ جنگ کے دوران میں روا رکھے گئے۔ کانٹ کی مانند ہم بھی انقلابِ فرانس کی دہشت ناکی سے یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ جنونیت دائمی برائی ہے اور کثرتی معاشرے کے مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جنونیت کی ہر صورت کی مخالف کریں۔ اس وقت بھی جب اس کے مقاصد اخلاقی اعتبار سے قابلِ اعتراض نہ ہوں اور بالخصوص اس وقت بھی جب اس کے مقاصد ہمارے ذاتی مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔ جنونیت کے خطرات سے آگاہی اور ہر حال میں ان کی مخالفت کا فرض وہ دو اہم ترین سبق ہیں جو ہم تاریخ سے سیکھ سکتے ہیں۔

    دورِ جدید کے عظیم انقلابات میں سب سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے برطانوی انقلاب کا نتیجہ آسمانی بادشاہت کے قیام کی بجائے چارلس اوّل کے قتل اور کرامویل کی آمریت کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ اس انقلاب کے نتائج سے مکمل مایوسی نے انگلینڈ کو یہ سبق دیا کہ وہ قانون کی حکمرانی کی ضرورت کا قائل ہوگیا۔ جیمز دوم کی رومن کیتھولک مذہب کو طاقت کے ذریعے دوبارہ رائج کرنے کی کوشش اسی رویے کی وجہ سے ناکام ہو گئی تھی۔ مذہبی اور سول تنازع سے تنگ آیا ہوا انگلستان نہ صرف جان لاک اور روشن خیالی کے دوسرے پیش روﺅں کے مذہبی رواداری سے متعلق دلائل سننے پر آمادہ تھا بلکہ اس نے یہ اصول بھی تسلیم کرلیا کہ بالجبر مسلط کردہ مذہب کی کوئی وقعت نہیں۔ لوگوں کو چرچ کا راستہ دکھایا تو جا سکتا ہے مگر ان کے عقائد کے برعکس انہیں کسی چرچ میں جانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا (جیساکہ پوپ انوسنٹ یازدہم نے بیان کیا تھا) امریکی انقلاب جنونیت اور عدم رواداری کے پھندے میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ سوئٹزرلینڈ‘ انگلستان اور امریکہ کو اگرچہ سیاسی تجربات میں مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ ممالک جمہوری اصلاحات کے ذریعے ان سیاسی اور اخلاقی مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے ہیں جن کا حصول انقلاب، جنونیت، آمریت اور طاقت کے استعمال کے ذریعے مکن نہ تھا۔

    ہم نہ صرف انگریزی زبان بولنے والی جمہوریتوں سے بلکہ سوئٹزر لینڈ اور سیکنڈے نیویا کی تاریخ سے بھی یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے لیے مقاصد کا تعین کرسکتے ہیں بلکہ بعض اوقات انہیں حاصل بھی کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ مقاصد نہ بہت زیادہ جامع ہوں نہ بہت زیادہ مانع بلکہ انہیں طے کرتے وقت کثرتی روح کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ یعنی وہ آزادی اور مختلف النوع انسانوں کے حد درجہ متنوع عقائد و افکار کے احترام پر مشتمل ہوں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی تاریخ کو بامعنی بنانا ناممکن نہیں۔

    (مشہور فلسفی، سماجی مبصّر کارل پوپر کی تحریر سے اقتباسات، مترجم ڈاکٹر ساجد علی)

  • اَشوری کون تھے؟

    اَشوری کون تھے؟

    اقوام اور تہذیبوں کے ہزاروں برس پر پھیلے سلسلے کو قدیم آثاروں کی دریافت کے بعد جب جاننے کی کوشش کی گئی تو ماہرین نے اپنے علم اور دورِ جدید کے آلات کی مدد سے ان کے دور کے سیاسی، سماجی حالات، رہن سہن اور طور طریقوں کے بارے میں‌ اندازہ لگایا اور قیاس کر کے تاریخ مرتب کی جس میں سے ایک اشوریہ تہذیب بھی ہے۔

    آثار و تاریخ کے ماہرین کے مطابق اشوریہ کا زمانہ تقریباً دو ہزار برس قبل مسیح کا ہے۔ یہ شمالی عراق کے دریا دجلہ اور فرات کے وسط میں پھلنے پھولنے والی ایک تہذیب تھی جسے اس زمانے کے اشوریہ حکم رانوں اور سورماؤں نے عظیم سلطنت کے طور پر منوایا۔

    اشوریہ کا دورِ عروج آیا تو یہ مصر، شام، لبنان، آرمینیا اور بابل تک پھیل گئی۔ ماہرین کے مطابق اس تہذیب نے شہر اشور کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا اور اسی نسبت سے بعد میں یہ اشوریہ سلطنت مشہور ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تہذیب خاصی زرخیز اور تمدن سے آشنا تھی۔ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق اشوریوں نے معبد اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کی تھیں۔

    شاہِ اشور بنی پال کے اس دنیا سے جانے کے بعد یہ سلطنت زوال کی طرف بڑھی اور کہتے ہیں کہ اہلِ بابل نے انھیں نینوا سے نکال کر خود اس پر قبضہ کرلیا اور پھر اشوری سلطنت کا خاتمہ بھی کر دیا۔

    ماہرین نے قدیم آثار اور اشیا کی مدد سے جانا کہ اشوری علوم و فنون کے دل دادہ تھے۔ ان میں‌ غاروں کی دیوارں، چٹانوں پر مختلف جانوروں، جنگجوؤں اور اشیا کی تصاویر، مجسمے وغیرہ شامل ہیں۔ اس تہذیب کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں‌ شاہِ اشور کے کہنے پر کتب خانے بھی بنائے گئے جن میں مذہب، تاریخ، جغرافیہ اور دیگر موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔

    ہزاروں برس پہلے کے کتب خانوں میں کاغذی کتابیں‌ نہیں‌ تھیں بلکہ اس زمانے میں عالم اور قابل شخصیات اپنی تحقیق، مشاہدات اور تجربات کو کچی مٹی سے بڑی بڑی تختیوں پر تصویری شکل میں محفوظ کرواتے تھے۔ ان تختیوں یا لوحوں پر قدیم سومیری دور کی طرح علامتوں، مختلف اجسام کی اشکال اور اشاروں کے ساتھ ان لکیروں سے مختلف معلومات محفوظ کی جاتی تھیں، جنھیں اس دور میں آج کی طرح الفاظ اور زبان کا درجہ حاصل تھا اور وہ سمجھی اور پڑھی جاسکتی تھیں۔

    (قدیم تاریخ اور آثار سے انتخاب)